تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

اس شخص نے میز پر ایک لفافے سے تصویریں نکال کر اس عورت کے آگے کِھسکا دیں۔
”یہ کیا ہے؟” عورت نے قدرے تعجب سے ان تصویروں پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”یہ اس فیملی کی تصوریریں ہیں۔” وہ اب فائل کھول رہا تھا۔ عورت تصویروں پر نظر ڈالتے ہوئے قدرے بیزاری سے بولی۔
”مگر مجھے ان تصویروں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان کو چہروں سے پہچانتی ہوں اور…” وہ کہتے کہتے رک گئی اس کے ہاتھ کے نیچے ٹیبل پر فاطمہ کی تصویر تھی۔
”یہ کس کی تصویر ہے؟” عورت نے کچھ چونک کر آدمی سے پوچھا۔
”یہ اسی عورت کی تصوریر ہے۔” آدمی نے کہا۔
”ان بچوں کی ماں کی؟”
”ہاں!” آدمی نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ اس بار عورت نے فاطمہ کی تصویر کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔ تمام تصویریں مختلف اوقات میں گھر سے باہر کھینچی گئی تھیں جب وہ چاروں اپنے اپنے کاموں کی غرض سے گھر سے باہر تھے۔ فاطمہ ایک بس اسٹاپ پر کھڑی تھی۔ عورت کی بھویں تن گئیں۔ بلاشبہ وہ بچے کسی صورت فاطمہ کے نہیں ہو سکتے تھے۔ اسے اپنا شبہ یقین میں بدلتا محسوس ہو رہا تھا اس کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو گئی۔
”آپ نے انہیں پہلے نہیں دیکھا؟” آدمی نے عورت کے چہرے کے تاثرات کا غور سے جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” عورت نے تصویر ٹیبل پر رکھ دی۔
”اس عورت کے بارے میں بڑے دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔” اس آدمی نے فائل پڑھنی شروع کی۔ ”میری اطلاعات کے مطابق یہ سِرے سے شادی شدہ نہیں ہے۔ اس نے 20 سال پہلے اپنا گھر اختلافات کی وجہ سے چھوڑا۔ وہ اندرونِ شہر کے ایک محلے میں رہتی تھی اس کا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ ابھی بھی وہیں رہ رہا ہے اس کے ماں باپ کا انتقال ہو چکا ہے۔ 20 سال پہلے ایک دوست کی مدد سے اس نے ایک یتیم خانے سے ایک بچہ گود لیا۔
اس بچے کا نام شہیر ثوبان سمیع رکھا گیا۔ یتیم خانے کے ریکارڈ کے مطابق یہ بچہ تقریباً بائیس سال پہلے ایک پرائیویٹ کلینک سے وہاں بھیجا گیا تھا۔ یہ کلینک غیر قانونی کامو ںکے لیے خاصا مشہور ہے۔ مسز شائستہ ہارون کمال نامی ایک عورت کے ہاں اس بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔” اس بچے کو ایک عورت کے ذریعے اس یتیم خانے میں بھجوایا گیا۔




آدمی نے رک کر ایک نظر اس عورت کو دیکھا وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ آدمی دوبارہ فائل دیکھتے ہوئے پڑھنے لگا۔
” اس بچے کو وہاں داخل کروانے کے دو سال بعد فاطمہ نامی اس عورت نے اپنی ایک دوست آسیہ اور اس کے شوہر کی مدد سے وہاں سے یہ بچہ گود لیا۔ بچہ ان دونوں میاں بیوی نے لیا تھا مگر انہوں نے اسے فاطمہ کو دیا اور خود کچھ عرصہ کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ اس وقت وہ دونوں پاکستان میں ہی موجود ہیں۔ 2 سال کے بعد جب وہ بچہ کسی کو دے دیا گیا تو اس یتیم خانے سے ایک بار پھر کسی عورت نے اس بچے کے سلسلے میں رابطہ قائم کیا اور یتیم خانہ کی انتظامیہ پر زور ڈالا کہ وہ اس بچے کے لے پالک والدین سے اس کا رابطہ کروائیں۔ یتیم خانہ کی انتطامیہ نے کوشش کی مگر انہیں یہ پتا چلا کہ وہ دونوں میاں بیوی بچے کے ساتھ بیرونِ ملک چلے گئے ہیں۔ انہیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ بچہ فاطمہ نامی اس عورت کی تحویل میں ہے۔ فاطمہ نامی یہ عورت کچھ عرصہ کے بعد لاہور آگئی اور اس نے ایک پسماندہ سے علاقے میں رہنا شروع کر دیا۔ وہیں اس نے پہلی دفعہ لوگوں سے ایک بیوہ کے طور پر اپنا تعارف کروایا۔ وہاں رہائش کے تقریباً ایک سال بعد اس محلے میں کوڑے کے ایک ڈھیر پر دوناجائز جڑواں بچے فاطمہ کو ملے اور فاطمہ نے انہیں بھی گود لے لیا یہ دونوں ثمر اور ثانیہ ہیں۔ وہی دونو ںجن کے نام آپ نے مجھے بتائے تھے۔”
اس نے ذرا رک کر اس عورت کو دیکھا وہ ابھی بھی اسی طرح بے تاثر چہرہ لیے بیٹھی تھی مگر یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں تھا کہ وہ کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
”ایک بار پھر فاطمہ نے اس محلے کو بھی چھوڑ دیا اور پھر اس نئے محلے میں آکر رہنا شروع کر دیا جہاں کا ایڈریس آپ نے مجھے دیا ہے۔ وہاں کچھ سالو ںکے بعد اس نے اپنا گھر بنا لیا اور لوگوں کو اپنے بارے میں یہی بتایا کہ وہ ایک بیوہ ہے مگر فرق صرف یہ تھا کہ اس بار اس نے اپنے بچوں کی تعداد تین بتائی۔ کچھ عرصہ پہلے یہ گورنمنٹ سروس سے ریٹائر ہو گئی اور اب یہ ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھا رہی ہے۔”
وہ شخص ایک بار پھر رکا۔ کھلے ہوئے دراز میں ہاتھ ڈالتے اور ٹٹولتے ہوئے اس نے ایک اور لفافہ نکالا ور اسے بھی ٹیبل پر رکھ دیا۔
”شہیر ثوہان نامی یہ لڑکا اس وقت بائیس سال کا ہے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک فرم میں جاب بھی کر رہا ہے۔ ثمر آج کل ماڈلنگ کر رہا ہے۔ اور اس نے کچھ عرصہ پہلے ایف ایس سی کیا ہے۔ ثانیہ نے بھی ایف ایس سی کیا ہے۔ دونو ںلڑکوں کی نسبت اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔” اس نے مسکراتے ہوئے لقمہ دیا۔
”اس لفافے میں آپ کی مطلوبہ تمام دستاویزات ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ میری حاصل کردہ معلومات آپ کے لیے تسلی بخش ہوں۔”
اس عورت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اب لفافہ کھولتے ہوئے اس کے اندر موجود کاغذات کو نکالتے ہوئے انہیں دیکھنے میں مصروف تھی۔ کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر اس عورت نے ایک طویل سانس لیا اور کاغذات کو دوبارہ لفافے میں ڈال کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ہاں، کام میری مرضی کے مطابق ہوا ہے مگر ابھی ختم نہیں ہوا۔”
اس عورت نے اپنی کرسی سے ٹیک لگائے ہوئے کہا۔
اس شخص کے ماتھے پر چند شکنیں در آئیں۔ ”اور کس طرح کی معلومات چاہئیں آپ کو؟”
”اب معلومات نہیں کچھ اور کرواناچاہتی ہوں میں۔” اس عورت نے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیا کروانا چاہتی ہیں آپ؟” اس نے تجسس آمیز انداز میںٹیبل پر ذرا آگے جھکتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو اب تک جان ہی گئے ہوں گے آپ۔” اس عورت مسکراتے ہوئے کہا۔
”جی…” وہ الجھا۔ ”آپ نے اپنا نام فریدہ بتایا تھا مجھے۔”
عورت کھلکھلا کر ہنسی۔ ”آپ نے یقین کر لیا؟ میں نہیں سمجھتی۔”
”آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟” اس نے قدرے محتاط انداز میںکہا۔
”میں آپ سے صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ اب تک آپ یقینا مجھے جان چکے ہو گے۔ آپ جتنے اچھے ڈیٹیکٹو ہیں میں توقع کر سکتی ہوں کہ آپ نے میرے بارے میں بھی معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ کیا آپ نے نہیں کی؟”
اس عورت نے قدرے تیکھے انداز میں پوچھا اور اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا وہ بول پڑی۔ ”اور اگر آپ نے ایسی کوشش کی بھی ہے تو کوئی بات نہیں۔ مجھے اعتراض نہیں ہے۔”
اس کا انداز اب پُچکارنے والا تھا۔ اس نے گلا صاف کرتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”دیکھیں فریدہ جی…”
عورت نے اسکی بات کاٹ دی۔ ”پلیز آپ مجھے میرے اصلی نام سے پکار سکتے ہیں۔” وہ شخص کچھ دیر پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔ ”شائستہ ہارون کمال۔” عورت بے اختیار مسکرائی۔
”ہاں یہ بہتر ہے۔” اب ہمارے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔” شائستہ اب سگریٹ سلگا رہی تھی۔
”یہاں آنے والے کلائنٹس کے بارے میں انفارمیشن حاصل کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔” اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ ”کیونکہ ہم نہیں چاہتے ہماری حاصل کردہ معلومات کی وجہ سے کوئی جرم ہو اور بعد میں اس میں ہماری انوالومنٹ ثابت ہو۔ ہم اپنا کام بڑے پروفیشنل طریقے سے کرتے ہیں اور اگرچہ ہمیں آپ کے کوائف پتا ہیںمگر آپ یقین رکھیں کہ وہ ہمارے پاس بالکل محفوظ رہیں گے آپ کو ان کی وجہ سے کوئی پرابلم نہیں ہو گی۔”
”آپ کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔” شائستہ نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اس آدمی کی بات کاٹی۔ ”میں جانتی ہوں، اور یہ کوائف اگر عام ہو بھی جائیں تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہاں آپ کو اس شہر میں اپنا کام سمیٹنا پڑے گا۔”
اس کے عام سے لہجے میں چھپی دھمکی کو اس نے آسانی سے سمجھ لیا تھا۔
”آپ کسی کام کا کہہ رہی تھیں۔” اس نے یک دم بات کا موضوع بدلتے ہوئے پوچھا۔
”میں سمجھا نہیں؟” اس نے کچھ الجھتے ہوئے کہا۔
”میں چاہتی ہوں آپ کلینک کے ریکارڈ میں تحریر کروائیں کہ ہمارا بچہ پر اسرار حالت میںوہاں سے غائب ہو گیا تھا۔” شائستہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”اور میں جانتی ہوں یہ کام آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔”
”دیکھیں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے۔” وہ یک دم بولا۔
”آپ اس کام کی نوعیت دیکھیں۔ کیا چیز غیر قانونی ہے اس میں؟” شائستہ نے اس کی بات کاٹی۔
”کسی ادارے کے ریکارڈز کو تبدیل کرنا…”
شائستہ نے پھر اس کی بات کاٹی۔ ”ایک معمولی نوعیت کا کام ہے اس سے کسی کو پھانسی کی سزا کم از کم قانون نہیں دے گا۔”
”مگر قابلِ سزا جرم تو ہے۔” اس نے اعتراض کیا۔
”اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ایسی صورت میں، میں آپ کو ہر قسم کی سزا سے بچالوں گی۔” شائستہ نے اپنے لہجے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا۔
”مگر…” وہ ابھی بھی ہچکچا رہا تھا۔
”اور اس ”معمولی” کام کا معاوضہ آپ کو لاکھوں میں مل سکتا ہے۔” اس بار وہ خاموش رہا۔ ”اگر آپ تھوڑی سی ہمت کریں تو۔” شائستہ نے جیسے اسے ترغیب دی۔
”آپ بس ریکارڈز میں اتنی تبدیلی چاہتی ہیں؟” اس آدمی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گھٹنے ٹیکنے والے انداز میںپوچھا۔ شائستہ بے اختیار مسکرائی۔
”نہیں، تھوڑا سا اور بھی چاہتی ہوں میں۔”
”وہ کیا؟”
”آپ یہ بھی شامل کراوئیں کہ چونکہ بچہ عورت کے پاس کمرے سے غائب ہوا تھا اس لیے ہاسپٹل کی انتظامیہ نے اس گمشدگی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔”
اس نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ ”ٹھیک ہے میں یہ ریکارڈ تبدیل کروا دوں گا۔”
”اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ اس کام کا کتنا معاوضہ لیں گے؟”
شائستہ نے چیک بک نکالتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنا معاوضہ بتایا، شائستہ نے ایک لفظ کہے بغیر چیک کاٹ کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
”میں کچھ دنوں تک دوبارہ آپ کے پاس آؤں گی۔” شائستہ۔ اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ چیک پر نظر ڈال رہا تھا کہ اسے جیسے یک دم کچھ خیال آیا۔
”میرے پاس آپ کی دلچسپی کے لیے کچھ اور معلومات بھی ہیں۔”
شائستہ کے ماتھے پر کچھ شکنیں نمودار ہوئیں۔ ”کیسی معلومات؟”
”اگر آپ کی خواہش ہو تو میں ثمر اور ثانیہ کی ماں کے بارے میں آپ کو معلومات دے سکتا ہوں۔” اس نے ایک خوشامدانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”مگر آپ نے مجھے بتایا تھا، وہ دونوں کوڑے کے ڈھیر سے ملے تھے۔”
”وہاں چھوڑے گئے تھے۔” آدمی نے جیسے تصحیح کی۔
”چلیں یہ کہہ لیں۔ پھر۔ اس سے ان کی فیملی یاماں کا کیسے پتا چلتا ہے؟” شائستہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔
ان کی ماں ایک معروف عورت ہے۔” شائستہ چونکی۔
”معروف عورت؟”
”جی۔”
”آپ کیسے جانتے ہیں اسے؟”
”کیوں وہ بھی آج کل اپنے بچوں کی تلاش میں ہے۔”
شائستہ ساکت ہو گئی۔
٭٭٭
دروازہ ثمر نے کھولا تھا۔ وہ سامنے کھڑی دو برقع پوش عورتوں کو دیکھ کر کچھ حیران ہوا۔
”جی۔” اس نے ان عورتوں پرنظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ فاطمہ کا گھر ہے؟” ان میں سے ایک عورت نے کہا۔
”جی ہاں! یہ ان ہی کا گھر ہے۔” ثمر نے سرہلایا۔
”تم ان کے بیٹے ہو؟” ثمر کو اس عورت کا سوال نہیں انداز عجیب لگا۔
”جی، میں ان کا بیٹا ہوں۔”
”چھوٹے یا بڑے؟”
ثمر کو سوال بے حد فضول لگا۔ ”چھوٹا بیٹا ہوں۔”
عورت نے اس کے سر اور کندھے پر ہاتھ پھیرا اس کا انداز بے اختیار نہ تھا۔
”تمہاری امی گھر پر ہیں؟” دوسری عورت نے یک دم ثمر سے پوچھا جو ابھی تک اس دھچکے سے نہیں سنبھلا تھا۔
”جی، وہ گھر پر ہیں۔”
”ہم ملنا چاہتے ہیں ان سے۔”
”آپ اندر آجائیں۔”
ثمر دروازے سے ہٹ گیا اس نے ان دونوں عورتوں کو اندر آنے کے لیے راستہ دیا۔ دروازہ بند کرنے کے بعد وہ انہیں لے کر فاطمہ کے کمرے میں چلا آیا۔
”امی! یہ آپ سے ملنے آئی ہیں۔” ثمر نے فاطمہ سے کہا جو کمرے میں بیٹھی کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔
ثانیہ نے نظر اٹھا کر ان دونوں عورتوں کو دیکھا او رپھر سے ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ اس نے غور نہیں کیا تھا کہ دونوں عورتوں میں سے ایک مسلسل اس کو دیکھتی جارہی تھی اور اپنی آنکھوں میں ابھرتی نمی پر قابو پانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
”آپ لوگ بیٹھیں۔” فاطمہ نے سلام دعا کے بعدکہا۔ ثمر باہر جاچکا تھا۔
شام کے وقت اس طرح کسی کا اچانک گھر آجانا اس کے لیے تھوڑا عجیب ہی تھا خاص طور پر تب جب وہ ان دونوں عورتوں سے جان پہچان بھی نہیں رکھتی تھی۔ ان میں سے ایک عورت نے آگے بڑھ کر فاطمہ کے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر مصافحہ کیا۔ فاطمہ نے اس کے ہاتھوں کی گرم جوشی کومحسوس کیا۔ پھردونوں عورتیں کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔
”میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔” فاطمہ نے کہہ ہی دیا۔ ثانیہ تب تک اُٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔ اس عورت کی نظروں نے باہر جاتی ہوئی ثانیہ کا تعاقب کیا۔ دوسری عورت نے فاطمہ کے سوال کا جواب دیا۔
”ہم پہلی بار مل رہے ہیں۔”
”میں نے سوچا شاید ہم پہلے بھی مل چکے ہیں اور میری یادداشت خراب ہونے لگی ہے۔” فاطمہ نے شگفتگی سے کہا۔
”ہم لوگ کچھ دن پہلے ہی اس محلے سے کچھ فاصلے پر ایک محلے میں شفٹ ہوئے ہیں۔”
فاطمہ کو عجیب سا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ دونوں عورتیں گھر کے اندر آنے کے بعد بھی اپنے آدھے چہرے کو اسی طرح نقاب سے چھپائے ہوئے تھیں۔ مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔
”آپ کے بارے میں ہمیں پتا چلا کہ آپ ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔”
”جی میں پڑھاتی ہوں۔”
”کس کلاس کے بچوں کو پڑھاتی ہیں آپ؟” اس عورت نے پوچھا۔
”میٹرک تک کے اسٹوڈنٹس کو۔”
”اوہ۔ اور اگر بچہ اس سے زیادہ بڑی کلاس کا ہو تو؟”
”آپ کا مطلب ہے ایف اے، ایف ایس سی کا؟”
”جی۔”
”نہیں، میں ان کلاسز کے بچوں کو نہیں پڑھاتی۔” فاطمہ نے نفی میں سرہلایا۔ ”میں میٹرک کے بچوں کو صرف میتھس پڑھاتی ہوں۔ البتہ چھوٹی کلاسز کے بچوں کو سارے سبجیکٹ پڑھاتی ہوں۔” فاطمہ نے وضاحت کی۔ تب ہی ثانیہ دوبارہ کمرے میں چائے لے کر داخل ہوئی اور اس نے ان دونوں کے سامنے پڑی تپائی پر چائے رکھ دی۔”
”اس کی ضرورت نہیں تھی، ہم لوگ ابھی گھر جاکر کھانا کھائیں گے۔” دوسری عورت جلدی سے بولی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!