تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”تمہاری شادی کسی بہت اچھی جگہ ہوگی… طلحہ سے بھی اچھے لڑکے کے ساتھ اچھا ہوا تمہاری جان اس جیسے خاندان سے چھوٹ گئی۔ دیکھو، میں نے ساری عمر اس خاندان میں گزار دی اس خاندان نے بڑھاپے میں مجھے کیا دیا، طلاق کا داغ۔ تمہیں تو اللہ نے بچا لیا۔”
”ہاںمجھے تو اللہ نے بچا لیا… مجھے تو طلاق نہیں ہوئی۔” وہ آہستگی سے بڑبڑائی۔ منیزہ کچھ بول نہیں سکیں۔ امبر نے ان کی طرف دیکھا۔
”مجھے بھی اللہ نے نہیں بچایا۔ آپ نے زندگی میں یہ سب کچھ دیکھنے سے پہلے کچھ اچھا وقت تو گزارا… میں نے زندگی میں کیا پایا۔ ذلت اور رسوائی۔ دھوکا اور فریب بس؟ ہر رشتے سے، چاہے وہ دوست ہو یا باپ مجھ پر تو کسی نے رحم نہیں کیا۔” وہ مدھم آواز میںبولتی جارہی تھی۔ ”بعض دفعہ مجھے لگتا ہے ممی! پوری دنیا گدھوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ کے آس پاس چاروں طرف بس گدھ ہی گدھ ہوتے ہیں۔ اور انتظار کرتے ہیں کہ وہ کس وقت آپ پر جھپٹ کر آپ کا کتنا گوشت نوچ سکتے ہیں۔”
منیزہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ امبر کبھی ایسی باتیں نہیں کرتی تھی۔
”رخشی تو خراب خاندان کی تھی۔ غربت تھی اس لیے وہ پاپا پر جھپٹی مگر سعدیہ وہ تو اچھے خاندان کی تھی، میری دوست تھی پھر اسے کیا ہوا؟” اس کا لہجہ چٹخ رہا تھا۔ ”اس کو پتہ ہے طلحہ سے میں کتنی محبت کرتی تھی اور خود وہ مجھ سے کتنی محبت کرتا تھا پھر اس نے طلحہ سے شادی کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا کہ وہ کبھی میری دوست رہ چکی ہے۔”
”دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا، سارے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔” منیزہ نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔ ”لحاظ یا مروت نام کی شے کہیں نہیں پائی جاتی اور اعبتار و اعتماد، اس کا تو کہنا ہی کیا۔” منیزہ کے لہجے میں تلخی تھی۔ انہیں اب اپنی زندگی یاد آرہی تھی۔
”میرا دل چاہتا ہے میں سعدیہ کے پاس جاؤں اسے جاکر…”
منیزہ نے امبر کی بات کاٹ دی۔ ”وہ تمہیں دیکھ کر کیا طلحہ سے شادی سے انکار کر دے گی؟ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ صرف کچھ اور زبانوں پر تمہارا نام آجائے گا۔ وہ سعدیہ سے شادی کرے یا کسی اور سے، ہم لوگوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ تمہیں اس کے بارے میں سوچنا تک نہیں چاہیے۔”
منیزہ نے سمجھانے کی کوشش کی۔ امبر کچھ دیر چپ چاپ انہیں دیکھتی رہی پھر آہستگی سے بولی۔ ”کیا آپ پاپا کو مکمل طور پر بھول چکی ہیں؟ کیا آپ ان کے بارے میں کبھی سوچتی تک نہیں؟” مدھم آواز میں کیے گئے دو سوالوں نے منیزہ کو بالکل خاموش کر دیا۔ وہ کچھ دیر امبر کو دیکھتی رہیں پھر ان کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔
٭٭٭




”ہیلو ثمر! کیسے ہو؟” ثمر نے مڑ کر دیکھا وہ نایاب تھی۔ ان دونوں کا سامنا کئی ماہ کے بعد ہو رہا تھا اور ثمر اس بے تکلفی پر حیران تھی جس سے وہ اسے مخاطب کر رہی تھی۔ وہ فورٹریس اسٹیڈیم کے باہر لگی ہوئی ایگزیبیشن دیکھنے کے لیے آیا تھا جب نایاب نے یک دم اسے مخاطب کیا تھا۔ وہ اس دن اکیلی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟” ثمر نے جواباً کہا۔
”ویری فائن۔” نایاب نے اسی بے تکلفی سے کہا۔ ”تم تو غائب ہی ہو گئے۔ اتنے ماہ سے کہاں تھے؟”
”ایگزامز میں بزی تھا۔”
”ہاں یاد آیا، تم نے اس وقت بتایا تھا کہ پری انجینئرنگ کر رہے تھے۔ کیسے ہوئے پیپرز؟”
”اچھے ہو گئے۔” ثمر نے مختصراً کہا۔
”گڈ، میرے بھی اچھے ہو گئے۔”
”پری انجینئرنگ؟”
”نہیں بھئی، اے لیولز۔ میں نے بتایا تھا تمہیں۔”
”مجھے یاد نہیں۔”
”ہاں تمہیں کیوں یاد رہے گا، تم ایک مشہور ماڈل جو بن گئے ہو۔” اس بار ثمر ہنسا۔
”مشہور کہاں ہوں دو کمرشل کیے ہیں مشہور ہوتا تو اس وقت میں اس پبلک پلیس میں کھڑا یوں آپ سے باتیں نہ کر رہا ہوتا۔”
”کیوں؟” نایاب نے حیرت سے پوچھا۔
”کیونکہ میں لوگوں کو آٹو گرفس دینے میں مصروف ہوتا اور آپ کو avoid کرتا، آخر میں آپ کو جانتا ہی کتنا ہوں اور مشہور شخصیات کی یادداشت تو ویسے بھی کمزور ہوتی ہے۔” ثمر نے برجستگی سے کہا تو نایاب بے اختیار ہنس دی۔
”ارے تم میں تو واقعی گٹس ہیں مشہور ہونے کے، اس کا مطلب ہے تم سے ذرا زیادہ واقفیت حاصل کرنا پڑے گی تاکہ تم کل کو یہ نہ کہہ سکو کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔” ثمر مسکرا دیا اسے نایاب سے باتیں کرنا اچھا لگ رہا تھا۔
”اکیلے آئے ہو؟ یا تمہارے بہن بھائی ساتھ ہیں؟” نایاب نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”آپ اکیلی آئی ہیں یا آپ کے ممی پاپا ساتھ ہیں؟”
نایاب نے ایک نظر اسے دیکھا پھر یک دم ہنسی۔ ”یہ کیا بات ہوئی وہ کیا ہر وقت میرے ساتھ ہوتے ہیں؟”
”تو یہی بات میں بھی تو کر سکتا ہوں، میرے بہن بھائی کیاہر وقت میرے ساتھ ہوں گے؟”
”یعنی اس وقت نہیں ہیں؟”
”نہیں۔”
”گڈ، اس کا مطلب ہے کچھ دیر ہم اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ دیکھو نا بعد میں تو تم مشہور ہو جاؤ گے پھر کہاں تم ایسے ویسوں کو وقت دو گے۔”
وہ اب اسے چھیڑ رہی تھی۔ ثمر نے اس بار کچھ نہیں کہا وہ مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ چلنے لگا۔
”تم کیا خریدنے آئے تھے؟” نایاب نے چلتے چلتے اس سے پوچھا۔
”کچھ خاص نہیں، میں صرف وقت ضائع کرنے آیا تھا۔” ثمر نے اطمینان سے جواب دیا۔
”پھر کتنا ضائع کیا؟”
”جب انسان وقت ضائع کر رہا ہو توپھر اس کا بھی حساب کیوں رکھے کہ کتنا ضائع کیا۔”
نایاب مسکرائی۔ ”اچھا کتنا ضائع کرو گے؟”
”آپ کتنی دیر مجھے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہیں؟” اس بارنایاب نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”تم سے باتوں میں جیتنا بہت مشکل ہے۔”
”صرف باتوںمیں؟” ثمر نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”تم بتاؤ اور کس کس چیز میں جیتنا مشکل ہے؟”
”لسٹ لمبی ہے، آپ تھک جائیں گی۔” ثمر بے ساختہ بولا۔
”میں سننے کے موڈ میں ہوں۔”
” مگر میں سنانے کے موڈمیں نہیں ہوں۔ آپ کچھ کھائیں گی؟” اس نے یکدم پوچھا۔
”مثلاً کیا؟” نایاب نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ تو آپ طے کریں گی کہ آپ کیا کھائیں گی؟”
”تم مینو تو بتا سکتے ہو؟”
”میں ویٹر نہیں ہوں۔”
”دوست تو ہو۔”
”وہ بھی فی الحال نہیں ہوں۔”
”شناسا تو ہو۔”
”ہاں وہ ہوں مگر شناسا کھانے کی فہرست نہیں بتایا کرتے۔”
”اگر شناسا کچھ کھلانے کی آفر کر سکتے ہیں تو پھر یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا کھلانا چاہتے ہیں۔”
اس بار ثمر نے بے اختیار سر کھجایا۔ نایاب بھی اپنے نام کی ایک تھی۔
”چلیں… آپ نے چونکہ مجھے لاجواب کر دیا ہے اس لیے میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ میرا مینو کیا ہے چاٹ، گول گپے۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا نایاب نے روک دیا۔
”چاٹ چلے گی۔”
”ٹھیک ہے، چاٹ کھاتے ہیں۔” ثمر نے کہا اور نایاب کو لے کر چاٹ کے اسٹال پر چلا گیا۔
انہیں وہاں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا تھا اور آدھ گھنٹہ کے دوران ان دونوں نے جی بھر کر باتیں کی تھیں۔ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے انہیں عجیب قسم کا احساس ہو رہا تھا نایاب کی بہت سے لڑکوں کے ساتھ دوستی تھی مگر جتنی آسانی اور بے تکلفی وہ ثمٔر سے گفتگو میں محسوس کر رہی تھی۔ وہ اس نے پہلے کہیں کسی اور کے ساتھ محسوس نہیں کی تھی اور ثمر کی کبھی کسی لڑکی سے دوستی نہیں رہی تھی مگر جو جھجک وہ دوسری لڑکیوں کو دیکھتے یا ان سے بات کرتے ہوئے محسوس کرتا تھا، وہ اسے نایاب سے بات کرتے ہوئے نہیں ہو رہی تھی۔
وہ اپنے پہلے کمرشل کے دوران بھی اکٹھے کام اور باتیں کرتے رہے تھے مگر وہاں سیٹ پر اور بہت سے لوگ ہوتے تھے۔ یہاں وہ پہلی باراکیلے تھے جوباتیں وہ یہاں ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے تھے، وہ کہیں اور نہیں کر سکے تھے۔
آدھا گھنٹہ چاٹ کے اسٹال پر اور ایک گھنٹے ایگزیبیشن میں ادھر ادھر گھوم کر وہ جس وقت وہاں سے باہر نکلے تو شام ہونے والی تھی۔
”میں تمہیں ڈراپ کردوں؟” نایاب نے ثمر کو آفر کی۔
”نہیں، میں خود چلا جاؤںگا۔”
”کیوں میں ڈراپ کیوں نہیں کر سکتی۔ اب تو میں تمہاری دوست ہوں۔”
”ہاں مگر پہلے ہی دن دوستوں سے اس قسم کے کام نہیں لینے چاہئیں۔”
ثمر نے مسکراتے ہوئے فورٹریس کی پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”پھر تم اسے ہماری دوستی کا آخری دن سمجھو۔ آخری دن تو تم دوستوں سے ایسے کام لینے کے حق میں ہو۔”
اس بار ثمر اس کی بات پر بے اختیار ہنس پڑا۔ وہ زندگی میں پہلی بار آج یکے بعد دیگرے نایاب کی باتوں پر کئی بار لاجواب ہوا تھا اور اسے لاجواب ہونے میں مزہ بھی آیا تھا۔
”ٹھیک ہے، اگر تم واقعی دوستی کا آغاز احسانات سے کرنا چاہتی ہو تو مجھے ڈراپ کردو۔” ثمر نے کہا۔
”اور تمہارا اگر یہ خیال ہے کہ میں تمہارے اس جملے سے متاثر ہو کر یہ کہوں گی کہ ٹھیک ہے اب میں تمہیں ڈراپ نہیں کرتی تو تم غلطی کر رہے ہو میں پھر بھی تمہیں ڈراپ کر کے ہی آؤں گی۔ اگر دوستوں کو ایک دوسرے پر احسان نہیں کرنا تو اور کس پر کرنا ہے۔” نایاب نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہکا۔
تم نے آج آخر کتنی بار مجھے شرمندہ کرنا ہے؟ ثمر نے بالآخر اس سے کہا۔
”تم اس سے پہلے کتنی بار ہوئے ہو؟” نایاب نے بے ساختگی سے پوچھا۔
”میں گنتی بھول چکا ہوں البتہ یہ یاد ہے کہ میری فنگر ٹپس سے زیادہ بار ہی ایسا ہوا ہے۔”
”اچھا چلو، پھر ٹھیک ہے۔ یہ آخری بار تھا۔” وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی۔
”دیکھا، آج میں نے تمہیں وقت ضائع کرنے میں کتنی مدد دی۔” گاڑی پارکنگ سے باہر لاتے ہوئے نایاب نے ثمر سے ہکا۔ ”تمہارا ڈیڑھ گھنٹہ ضائع کیا۔”
”نہیں۔” ثمر نے سنجیدگی سے کہا ”ایک گھنٹہ اور چالیس منٹ۔”
وہ یک دم ہنسی۔ ”چلو ہمارے ساتھ رہ کر کم از کم تم میں ایک تبدیلی تو آئی۔”
”وہ کیا؟” اب تم نے ضائع ہونے والے وقت کا حساب تو رکھنا شروع کر دیا۔” وہ بے اختیار مسکرایا۔
”تم نے کہا تھا تم اب کم از کم آج کی تاریخ میں مجھے شرمندہ نہیں کرو گی۔”
”ہاں، ہاں مجھے یاد آگیا۔ اب خیال رکھوں گی۔” نایاب نے جلدی سے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!