تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

جوتا پوری قوت سے ثمر کی پشت میں لگا۔ وہ چند لمحوں کے لیے بلبلایا اور صحن میں تخت کے پاس رک گیا۔
”مائی گاڈ! اتنی زور سے مارا ہے۔” اس نے بے اختیار مڑ کر اپنے پیچھے آتی ثانی سے کہا۔
”ابھی تو ایک مارا ہے دوسرا بھی ماروں گی۔” ثانی نے اپنا دوسرا جوتا بھی اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔ مگر اس بار ثمر کمال مہارت سے پہلو بدل کر بچ گیا۔ جوتا تخت کے دوسری طرف جا کر گرا۔
”تمہاری اتنی جرأت کہ تم میرے بارے میں ایسی بات کرو۔” ثانی اس کے قریب پہنچ کر دھاڑی۔
”کیسی بات؟” ثمر نے معصومیت سے کہا۔
”جیسی بات تم نے کی ہے۔”
”میں نے کیا کہا ہے؟”
”تمھیں اچھی طرح پتا ہے تم نے کیا کہا ہے؟”
”میں نے کیا کہا ہے؟” اس سے پہلے کہ ثانی کچھ کہتی شہیر بے حد ناراضی کے عالم میں دوسرے کمرے سے باہر نکل آیا۔
”آخر تم لوگوں کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ ہر وقت ہنگامہ کھڑا کیا ہوتا ہے تم دونوں نے” اس نے باہر نکلتے ہی دونوں کو جھڑکا۔
”ثانی نے مجھے جوتی ماری ہے۔” ثمر نے فوراً پلٹ کر اپنی سفید قمیص پر ثانی کی چپل کا نشان شہیر کو دکھایا۔
”تھوڑی تمیز ہونی چاہیے تمھیں۔” شہیر نے ثانی کوجھڑکتے ہوئے کہا۔ ”بچے تو نہیں ہو تم دونوں۔”
”شہیر بھائی! اس نے بدتمیزی کی ہے میرے ساتھ۔” ثانی بے اختیار روہانسی ہوئی۔
”کیا بدتمیزی کی ہے تم نے؟” شہیر نے ثمر کو آڑے ہاتھوں لیا۔
”مجھے خود پتہ نہیں شہیر بھائی! یہ میرے پیچھے بھاگی ہے اور…” ثانی نے اس کی بات کاٹی۔
”اس نے مجھ سے فضول بات کہی۔”
”کیا فضول بات کہی؟” ثمر نے فوراً کہا۔
”شہیر بھائی! اس کو میری ہر بات فضول لگتی ہے۔”
”مگر آج تم نے بدتمیزی کی انتہا کر دی۔” ثانی نے اسے گھورا۔
”آج کیا کہا ہے اس نے؟” شہیر نے پوچھا۔




”آج اس نے” ثانی کچھ کہتے ہوئے رکی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ فوری طور پر ثمر کی بات کو کس طرح دہرائے۔
”میں نے صرف اتنی بات کی تھی شہیر بھائی!” ثمر نے اسے رکتے دیکھ کر بڑی تہذیب اور متانت سے کہا۔ ”کہ وہ خواتین جو آئی ہیں اچھا ہے ثانی ان کے گھر جا کر ٹیوشن پڑھا دے انھیں سہولت ہو جائے گی۔” ثانی کا دل چاہا وہ ثمر کے منہ پر مکا دے مارے۔
”تم دوزخ میں جلو گے جھوٹے۔” اس نے بے اختیار دانت کچکچا کر کہا۔
”دیکھا آپ نے شہیر بھائی! پھر آپ کہتے ہیں کہ ہر بار میں بدتمیزی کرتا ہوں۔” ثمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”یہ ہمیشہ میرے لیے اسی طرح کی زبان استعمال کرتی ہے۔”
”مگر تمھیں ضرورت کیا تھی، اس طرح کی تجویز کی۔ اب ثانی کسی کے گھر جا کر ٹیوشن پڑھائے گی؟” شہیر کو اس کی بات پر غصہ آیا۔
”مگر شہیر بھائی! اس نے یہ نہیں کہا۔” ثانی نے شہیر کو ٹوکا۔
”دیکھ لیں اس کی بات سنیں، میں نے مذاق کیا تھا۔” ثمر نے شہیر کو ثانیہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
”مگر تم نے مذاق نہیں کیا تھا۔”
”پھر؟”
”اس نے کوئی اور بات کی تھی۔” ثانی نے ثمر کو گھورا۔
”اب ختم کرو اس جھگڑے کو اور تم دونوں جا کر اندر امی کے پاس بیٹھو اور اب دوبارہ مجھے تم دونوں کی آواز نہ آئے۔” شہیر بالآخر ان دونوں کے جھگڑے سے تنگ آ گیا۔
”لیکن شہیر بھائی! اس نے مجھے…” ثمر نے تیزی سے اس کی بات کاٹی۔ ”کہہ تو رہے ہیں شہیر بھائی! کہ اب بات ختم کرو پھر دوبارہ بات کیوں شروع کر رہی ہو؟”
”میں دونوں سے کہہ رہا ہوں۔” شہیر نے ثمر کو گھورا۔
”جی!” اس نے بڑی تابعداری کے ساتھ کہا۔
شہیر پلٹ کر اپنے کمرے میں واپس چلا گیا۔ اس کے پلٹتے ہی ثمر نے مسکرا کر شرارتی انداز میں ثانی کو دیکھا، ثانی ماتھے پر بلوں کے ساتھ ہونٹ بھینچے اپنے ایک پاؤں میں چپل پہننے لگی۔
”اے حسین ناز نین اگر حکم کرو تو دوسرا جو تاما بدولت پیش کریں؟” ثمر نے مسکراتے ہوئے بڑے انداز سے کہا۔
”شہیر بھائی!” ثانی نے پوری قوت سے شہیر کو پکارا ”یہ پھر تنگ کر رہا ہے۔”
”تم اگر دوزخ میں گئیں نا تو صرف مجھ سے بدتمیزی کی وجہ سے جاؤ گی۔” ثمر نے ناراضی کے ساتھ کہا۔
”ابھی وہ جن دوبارہ حاضر ہو جائے گا۔”
اس سے پہلے کہ ثمر کچھ اور کہتا شہیر باہر نکل آیا۔
”ثمر!” ثانی نے پلٹ کر شہیر کو دیکھا۔
”دیکھا آ گیا نا۔” ثمر بڑبڑایا۔ شہیر پر نظر ڈالتے ہی ثانی ہنس پڑی۔
”یہ دیکھیں میری شکایت کر کے خود ہنس رہی ہے۔” ثمر نے فوراً کہا۔
”یہ آپ کو جن کہہ رہا ہے۔” ثانی نے بے اختیار اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
”میرے خدا، میرے خدا۔” ثمر نے بے اختیار دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ ”میں نے کہا تھا جنھوں نے ہمیں منع کیا ہے وہ آ جائیں گے اور یہ آپ کو جن کہہ رہی ہے۔” ثانی نے سٹپٹا کر ثمر کو دیکھا۔
”دفع ہو جاؤ، تم دونوں اس قابل نہیں ہو کہ تمھیں کچھ سمجھایا جائے۔” اس بار شہیر نے غصہ سے کہا اور اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا۔
ثانی نے غصہ سے ثمر کو دیکھا۔ ”ثمر! تمھیں اللہ کا خوف ہے کہ نہیں؟”
”اب شہیر بھائی چلے گئے ہیں تو تم اللہ کو درمیان میں لے آؤ۔” ثمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تم بے حد چالاک انسان ہو۔” ثانی نے دانت کچکچا کر کہا۔
”شکر ہے تم نے اس بار انسان ساتھ لگا دیا۔ پہلے تو تم صرف چالاک کہتی تھیں۔” ثمر کا اطمینان قابل دید تھا۔
”تم واقعی ڈھیٹ ہو۔”
”الحمدللہ جو بھی بنایا ہے اللہ نے بنایا ہے۔” ثمر نے کندھے جھٹکے ”چالاک، ڈھیٹ اور تمہارا بھائی۔”
”میرے بھائی نہیں ہو تم۔” ثانی نے تخت کے دوسری طرف جاتے ہوئے کہا۔
”ہاں ساری خصوصیات میں مجھے بھی صرف اسی ایک چیز پر اعتراض ہے۔”ثمر نے مایوسی سے کہا۔ ”آخر میں نے ایسا کون سا گناہ کر دیا تھا کہ اس نے مجھے تمہارا بھائی بنا کر تمھارے ساتھ پیدا کیا۔” ثمر نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”بلکہ میں اکثر۔” اس بار ثانی نے بے حد غصے سے اس کی بات کاٹی۔
”اب اگر تم نے ایک لفظ بھی کہا تو میں۔” غصہ کی وجہ سے ثانی مزید کچھ نہ کہہ سکی۔
”تو تم میں میں کرو گی، ضرور کرو۔” اس بار ثانی بے اختیار سر پکڑ کر تخت پر بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ بے بسی تھی۔ ثمر سے باتوں میں جیتنا ناممکن تھا۔ ثمر نے اسے مسکراتا دیکھ لیا۔ وہ چند قدم آگے بڑھ کر اس کے برابر تخت پر بیٹھ گیا۔
”لوگ اکیلے ہی اکیلے بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ کیا بات ہے؟” اس نے اس طرح کہا جیسے کچھ دیر پہلے دونوں میں انتہائی دوستانہ بات چیت ہو رہی تھی۔
ثانی نے ایک گہرا سانس لے کر کندھے جھٹکے۔
”کیوں کوئی جواب نہیں آ رہا۔” ثمر نے اسے پھر چھیڑا۔
”جب عقل کامل ہو جاتی ہے تو کلام کم ہو جاتا ہے۔” ثانی نے بالآخر ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”واقعی؟ یہ تم نے ٹھیک کہا۔” ثمر نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ سر ہلایا۔ ”میں بھی سوچ رہا تھا کہ آخر آج کل میرا زیادہ بولنے کو دل کیوں نہیں چاہتا۔”
وہ واقعی اپنے نام کا ایک تھا۔ ثانی نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”دنیا میں ایسا کوئی آدمی نہیں ہے ثمر! جو تمھیں چپ کروا سکے۔” اس نے بالآخر کہا۔
”کوئی عورت تو کروا سکتی ہے نا۔” ثمر نے مسکرا کر عجیب سے انداز میں کہا۔
”وہ عورت کم از کم میں تو نہیں ہو سکتی۔” ثانی نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”کوئی اور تو ہو سکتی ہے نا؟” ثانی نے یک دم چونک کر ثمر کو دیکھا۔
”کوئی اور؟ یہ کوئی اور کون ہے؟”
٭٭٭
”شیطان کا نام لو اور شیطان حاضر۔”
نایاب نے باآواز بلند کہا۔ ثمر نے بے اختیار اپنا سر کھجایا۔ نایاب کے پاس کھڑی لڑکی یک دم ثمر کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔ ان کی آنکھوں میں ثمر کے لیے ستائش کے ساتھ ساتھ نایاب کے جملوں کی وجہ سے مسکراہٹ بھی تھی۔
”یہ ہیں ثمر، جن کی میں ابھی بات کر رہی تھی۔” نایاب نے مڑ کر اپنی ایک دوست سے کہا۔ ثمر قریب آ گیا اور رسمی ہیلو ہائے کا تبادلہ ہوا۔ ثمر کو توقع نہیں تھی کہ اسے این سی اے میں اس دن نایاب سے ٹکرانا پڑے گا اور وہ بھی اس کے پورے ٹولے کے ساتھ۔ نایاب ہی باری باری اپنے فرینڈز کا تعارف ثمر سے کروا رہی تھی اور ثمر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے ہر ایک کو دیکھ رہا تھا۔
”میں نے یہاں آتے ہی سب سے پہلے تمھیں تلاش کیا تھا۔ مجھے توقع تھی کہ تم بھی آج یہاں ٹیسٹ کے لیے آؤ گے۔” نایاب نے کہا۔
”اگر این سی اے میں ایڈمیشن کا تمہارا ارادہ قائم رہا ہو تو۔”
”کیوں ارادے کو کیا ہونا تھا؟” ثمر نے بے ساختہ کہا۔
”تمہارا ارادہ بدلتا رہتا ہے نا۔”
”تم سے کس نے کہا؟”
”تم نے جو بتایا تھا۔”
”ہر ارادہ تو نہیں بدلتا۔”
”اور میں بہت خوش ہوئی ہوں کہ یہ ارادہ نہیں بدلا۔ ٹیسٹ کیسا رہا؟”
ثمر نے کندھے اچکائے۔ ”پتا نہیں۔”
”اچھی بات ہے، پتہ نہیں کا مطلب ہے کہ اچھا ہوا، کیونکہ برا ہو تو انسان کو کم از کم پتہ ضرور ہوتا ہے۔” نایاب نے کمال بے فکری سے کہا۔
ثمر مسکرا دیا۔ ”تمہارا کیسا ہوا؟”
”جیسا تمہارا ہوا ہے۔” نایاب نے بالوں کو جھٹکا۔
”یعنی پتا نہیں۔” ثمر نے بے ساختہ کہا۔
”ہاں۔” دونوں ہنس پڑے۔
”میں اب چلتا ہوں کچھ کام ہے مجھے۔” ثمر نے نایاب کی دوستوں پر نظر ڈالی۔
”اوکے میں بھی چلتی ہوں۔” نایاب نے اپنی دوستوں سے کہا اور اس کے ساتھ ہی باہر نکل آئی۔
”اب یہ مت کہنا کہ تم مجھے ڈراپ کر دو گی۔” ثمر نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
”میں کیوں کہوں گی، جب تمھیں پہلے ہی پتا ہے۔” نایاب نے بے نیازی سے کہا۔
”نہیں آج نہیں، آج واقعی مجھے کہیں جانا ہے۔” ثمر نے کہا۔
”تو میں نے کب کہا ہے کہ میں تمھیں اپنے گھر لے کر جا رہی ہوں۔ میں بھی تمھیں صرف ڈراپ ہی کروں گی۔”
”تو پھر تم مجھے یہیں ڈراپ کر دو۔” ثمر نے بے اختیار کہا۔
نایاب نے اسے گھور کر دیکھا۔ ”تمھیں میں اتنی بری لگتی ہوں؟”
”نہیں، ایسا نہیں ہے نایاب! اب تم ہر بات کا غلط مطلب مت لو۔” ثمر نے جلدی سے وضاحت کی۔
”مگر غلط بات کا تو غلط مطلب ہی لوں گی۔”
”ٹھیک ہے کر دو ڈراپ۔” ثمر نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہی نایاب نے پہلا سوال کیا ”پیسے ہیں تمھارے پاس؟”
”کیوں؟”
”پٹرول ڈلوانا ہے۔”
”تو ڈلواؤ اپنے پیسوں سے۔”
”پرس گھر بھول گئی میں۔”
”گاڑی تمہاری ہے اور پٹرول میں ڈلواؤں گا۔”
”گاڑی میری ہے مگر ڈراپ تو تمھیں کرنے جا رہی ہوں۔”
”زبردستی۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!