تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”ثمر صاحب یہاں رہتے ہیں؟” ثمر نے قدرے حیرانی سے اس آدمی کو دیکھا جو اس کے سامنے دروازے پر کھڑا تھا۔
”جی… میں ثمر ہوں۔” ثمر نے اس آدمی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ اس نے ثمر کے ساتھ مصافحہ کیا۔
”میرا نام کریم ہے میں پروڈکشنر کی طرف سے آیا ہوں۔” اس آدمی نے ایک مشہور فلم ساز ادارے کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”ہمارے ایک ڈائریکٹر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔”
”مجھ سے؟” ثمر نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا۔ ”کس لیے؟”
”وہ آپ کو اپنی کسی فلم میں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔” اس نے بڑی رسانیت سے بتایا۔
”مجھے فلم میں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں؟” ثمر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ”آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔”
”نہیں۔ وہ اسی سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔”
”مگر میں تو ایکٹر نہیں ہوں۔”
”وہ کچھ نئے چہرے انٹروڈیوس کروانا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اس فلم میں لینا چاہتے ہیں۔” کریم نے جیب سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر ثمر کی طرف بڑھایا۔
”آپ یہ کارڈ رکھ لیں اور کل بارہ بجے اس ایڈریس پر ان صاحب سے مل…” ثمر نے کارڈ پکڑ لیا مگر اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔
”آپ کس کے ریفرنس سے میرے پاس آئے ہیں؟” ثمر کو اچانک ذیشان کا خیال آیا اور اپنے اس خیال کی تصدیق کرنا چاہتا تھا۔
”ہم کسی کے ریفرنس سے آپ تک نہیں آئے۔ ہمارے ڈائریکٹر نے آپ کو ایک کمرشل میں دیکھا تھا، انھیں آپ پسند آ گئے اور اپنی نئی فلم کے لیے انھوں نے آپ کو منتخب کر لیا۔”
”آڈیشن کے بغیر؟” ثمر نے کچھ حیرانی سے اس آدمی کو دیکھا۔ ”آڈیشن بھی لے لیں گے مگر انھیں کمرشل دیکھ کر ہی آپ کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے کہ آپ اچھی ایکٹنگ کر لیں گے۔”
”اور آپ نے میرا ایڈریس کہاں سے لیا؟” ثمر کو یک دم خیال آیا۔
”مجھے تو ڈائریکٹر صاحب نے ہی دیا ہے۔ اب انھوں نے کہاں سے لیا ہے، یہ تو آپ ان سے ملنے پر ان ہی سے پوچھیے گا۔ خدا حافظ۔” وہ خدا حافظ کہتے ہوئے واپس چلا گیا۔ ثمر اس کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے قدرے ہکا بکا انداز میں کھڑا کریم کو جاتا دیکھتا رہا۔ اسی الجھے ہوئے انداز میں کارڈ پکڑ کر وہ دروازہ بند کرتے ہوئے اندر آ گیا۔ صحن میں ہی اس کا سامنا ثانی سے ہو گیا۔
”کون تھا باہر؟” ثانی نے ایک نظر اس کے ماتھے پر پڑے بلوں کو دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ میں پکڑے کارڈ پر نظر ڈالی۔
”فرشتہ۔” ثمر نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے بے اختیار کہا۔
”تم کو لینے آیا ہوگا۔” ثانی نے بھی اسی انداز میں کہا۔




”ہاں۔ کہہ رہا تھا کہ چھوڑو اس دنیا کو جس میں تم رہ رہے ہو۔ رقص و موسیقی کی دنیا میں آؤ… آؤ تمھیں حوروں سے ملواؤں۔”
ثمر نے والٹ نکال کر کارڈ اس میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ثانی نے مڑ کر اسے دیکھا پھر خاموشی سے تخت پر جا کر بیٹھ گئی۔
”ماڈلنگ کی کوئی نئی آفر آ گئی ہوگی؟” اس نے قدرے لاپروائی سے اسے دیکھتے ہوئے تخت کے پیچھے دیوار سے ٹیک لگائی اور اپنے پاؤں تخت کے اوپر کر لیے گھٹنوں پر دھری کتاب کھولتے ہوئے کہا۔ ثمر بھی دیوار سے ٹیک لگاتے ہوئے تخت پر گھٹنے سکیڑ کر بیٹھ گیا۔
”ماڈلنگ کی نہیں فلم کی۔” وہ بڑے اطمینان سے بولا۔
ثانی بے اختیار چونکی۔ ”فلم؟”
”ہاں فلم… جسے Talkie اور Movie بھی کہتے ہیں۔” اس نے فلم کے ہجے کرتے ہوئے شرارت سے کہا۔
”مذاق مت کرو۔” ثانی نے کتاب بند کر دی۔
”میں مذاق کیوں کروں گا… یہ دیکھو۔” ثمر نے والٹ میں سے کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
”مجھے کل بلایا ہے ان لوگوں نے… اپنی نئی فلم میں کاسٹ کر لیا ہے انھوں نے مجھے۔”
ثانی نے ایک نظر کارڈ پر ڈالی اور دوسری ثمر کے چہرے پر۔ ”تم واقعی فلم میں کام کرو گے؟” اس نے بے یقینی سے ثمر کو دیکھا۔
”ہاں کیوں؟ میں نہیں کر سکتا کیا؟” ثمر نے اس کے ہاتھ سے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔
”ماڈلنگ تک تو ٹھیک تھا مگر یہ فلم…” ثانی کچھ کہتے کہتے رکی۔ ”امی اس کی اجازت نہیں دیں گی تمھیں اور پھر تم خود سوچو، تمہاری تعلیم کا کیا ہوگا۔”
”اور لوگ کیا کہیں گے۔” ثمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تمہارا اگلا جملہ یقینا یہی ہوگا۔”
”ثمر! یہ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا… تمھیں اس ماحول کا اندازہ نہیں ہے۔” ثانی نے بے حد تشویش سے کہا۔
”انسان خود ا چھا ہو تو سب اچھا رہتا ہے۔” ثمر نے والٹ جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔
”گٹر میں چھلانگ لگانے والا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔ باہر نکل کر وہ کیچڑ ہی اپنے جسم پر لے کر آتا ہے۔” ثانی خلاف توقع بے حد سنجیدہ تھی۔
”ہم ویسے بھی مڈل کلاس محلے میں رہنے والے لوگ ہیں اور مڈل کلاس کے لوگ ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے۔ تم چاہے مذاق اڑاؤ یا جو بھی کہو، بہرحال حقیقت یہی ہے کہ لوگ باتیں کریں گے اور بہت باتیں کریں گے۔”
”جب وہ باتیں کریں گے تو ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ ہمارے مقدر میں تو یہ نہیں لکھ دیا گیا کہ ہم ساری عمر کے لیے یہاں اسی محلے میں رہیں گے۔”
ثمر نے بھی یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ثانی کچھ دیر حیرانی سے اس کا منہ دیکھتی رہی۔ وہ پہلی بار اس طرح سنجیدہ ہو کر گھر بدلنے کی بات کر رہا تھا اور کس لیے کر رہا تھا؟
”گھر بدل کر کیا ہوگا؟ کیا کسی آسمانی کالونی میں جا کر رہنے لگیں گے جہاں آس پاس لوگ ہی نہیں ہوں گے۔” ثانی نے کچھ دیر بعد قدرے ناراضی سے کہا۔
”ہم جہاں بھی رہیں گے، وہاں لوگ ہوں گے۔”
”مگر ہر جگہ رہنے والے لوگ فلم اور اس سے متعلقہ لوگوں کے بارے میں ایسی سوچ نہیں رکھتے۔ دنیا بدل رہی ہے۔”
”دنیا جتنی جلدی بھی بدلے، کم از کم میری اور تمہاری زندگی میں فلم کے متعلق لوگوں کے خیالات نہیں بدلیں گے اور پھر جو کچھ فلم انڈسٹری میں ہوتا ہے… نہیں ثمر! تم فلموں کا خیال چھوڑ دو ماڈلنگ ٹھیک ہے اور ایکٹنگ کرنی ہو تو ڈراموں میں کر لو مگر فلم نہیں۔”
”میں نے کون سا ابھی کوئی فلم سائن کر لی ہے۔ صرف ملوں گا جا کر۔ دیکھوں گا کہ کیا آفر کر رہے ہیں۔ کیسی فلم ہے پھر ہی کام کروں گا۔” ثمر نے اس انداز میں جواب دیا۔
”مگر کام ضرور کرو گے؟” ثانی نے ناراضی سے پوچھا۔
”اگر اچھی فلم ہوئی تو ہاں… ضرور کروں گا۔”
ثانی ایک جھٹکے کے ساتھ تخت سے اٹھتے ہوئے بولی۔ ”بھاڑ میں جاؤ پھر تم۔ بے حد خود غرض ہو۔”
ثمر نے منہ کھول کر کچھ کہنا چاہا مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہو گیا۔ ثانی کمرے میں چلی گئی تھی۔ ثمر نے ایک بار پھر اپنے والٹ سے وہ کارڈ نکال لیا۔ وہ کچھ پرُسوچ نظروں سے اس کارڈ کو دیکھتا رہا۔
٭٭٭
منیزہ اسے اتنی جلدی واپس دیکھ کر ایک طرف جہاں حیران ہوئی تھی تو دوسری طرف انھوں نے اطمینان کا سانس بھی لیا تھا۔
امبر اس سے کچھ کہے بغیر اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔ منیزہ دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے آئیں مگر امبر اپنے کمرے میں جاتے ہی بیگ ایک طرف اچھال کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ اس نے چادر کھینچ کر اپنے اوپر لے لی اور اپنا چہرہ بھی ڈھانپ لیا۔ منیزہ جانتی تھیں اس کا کیا مطلب ہے۔ وہ بات نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ کچھ سننا بھی نہیں چاہتی تھی۔
اور اس کی یہ چپ اگلے کئی دن جاری رہی۔ وہ خاموش رہی تھی مگر گھر پر ہی رہتی تھی اور منیزہ اور صبغہ کے لیے یہی کافی تھا۔ ان دونوں نے اس سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ اس دن کیا ہوا تھا۔ منیزہ کا اندازہ تھا کہ ہارون وقت طے کر کے اس دن نہیں آیا ہوگا اور اس کے نہ آنے نے امبر کو اس طرح ڈسٹرب کیا ہوگا۔ وجہ جو بھی تھی یا جو بھی رہی ہوگی، صبغہ اور منیزہ کو اب یہ اطمینان تھا کہ ہارون کمال سے اس کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ وہ مصیبت جو انھیں سامنے کھڑی نظر آ رہی تھی، یک دم غائب ہو گئی تھی۔ مگر یہ ان کی غلط فہمی تھی۔
٭٭٭
وہ پے رول سائن کرتے کرتے چونک گیا۔ اسے شبہ ہوا کہ اکاؤنٹ سے کوئی غلطی ہوئی ہے ورنہ سات ہزار کے بجائے اس کے اکاؤنٹ میں تیرہ ہزار روپے جمع نہ کروائے جاتے۔ سائن کرنے کے بجائے وہ اپنی سیلری کے تمام اندراجات کو چیک کرنے لگا اور پھر ایک جگہ پر کچھ حیرانی سے رک گیا۔ وہاں الاؤنسز کی مد میں اسے پانچ ہزار روپے کا ایک اسپیشل الاؤنس دیا گیا تھا۔ شہیر نے قدرے الجھی ہوئی نظروں سے اس الاؤنس کو دیکھا۔ اکاؤنٹنٹ سے ملنا ضروری ہو گیا تھا۔
”آئیے آئیے شہیر صاحب! بیٹھیں۔” آفس ٹائم ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے وہ اکاؤنٹنٹ کے آفس میں گیا۔ اکاؤنٹنٹ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔
”آپ سے تو ویسے بھی مٹھائی کا مطالبہ کرنے ہی والا تھا میں۔” وہ کرسی پر بیٹھ رہا تھا جب اکاؤنٹنٹ سے اس سے کہا۔
شہیر کچھ اور الجھا۔ ”کس چیز کی مٹھائی؟”
”آپ کی پے میں پانچ ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کس چیز کی مٹھائی۔”
”مگر میں آپ سے یہی تو پوچھنے آیا ہوں کہ میری پے میں آخر یہ اضافہ کس لیے کیا گیا ہے، باقی اسٹاف کی پے تو نہیں بڑھائی گئی؟”
”آپ کو پروموشن دی جا رہی ہے۔” اکاؤنٹنٹ نے ایک اور انکشاف کیا شہیر ایک بار پھر چونکا۔
”پروموشن…؟ کیسا پروموشن؟”
”یہ تو سر نے مجھے نہیں بتایا۔ بس انھوں نے مجھے بلا کر آپ کی پے میں اضافہ کرنے کے لیے کہا اور میرے پوچھنے پر بتایا کہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، اس لیے آپ کو پروموشن بھی دی جا رہی ہے۔”
”مگر پروموشن تو مجھے ایم بی اے کرنے کے بعد ملنی تھی اور ایم بی اے میں ابھی کچھ ماہ ہیں۔” شہیر اس طرح الجھا ہوا تھا۔
”آپ تو خوامخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ پروموشن ہوئی ہے۔ پے میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ کمی تو نہیں اور اکٹھا پانچ ہزار روپے کا اضافہ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کے تو دن ہی پھر گئے۔ آپ عیش کریں ہمیں مٹھائی کھلائیں۔ خوامخواہ سوال جواب کیوں کر رہے ہیں۔” اکاؤنٹنٹ نے اطمینان سے کہا۔
شہیر مسکرا دیا۔ ”مٹھائی تو میں کھلا دوں گا مگر پہلے یہ تو کنفرم ہو جائے کہ واقعی پروموشن ہو گئی ہے۔”
”پے تو بڑھ گئی ہے اور ہر ماہ بڑھی ہوئی ہی ملے گی پھر آپ کو کیا پریشانی ہے۔ آپ تسلی رکھیں۔ آج کل میں سر آپ کو خود بلا کر اس کے بارے میں بتائیں گے۔” اکاؤنٹنٹ نے کہا۔
شہیر کچھ دیر اس کے پاس بیٹھا رہا پھر وہاں سے اٹھ کر اپنے آفس کی طرف چلا آیا۔ اپنے آفس جانے کے بجائے ایچ آر ایم کے آفس میں چلا آیا۔
باقر علی اپنے آفس میں تھے۔ وہ فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھے۔ شہیر کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بھی وہ فون پر بات کرنے میں مصروف رہے۔ شہیر ان کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور ان کی فون پر ہونے والی بات ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
”ہاں کیا کام ہے شہیر؟” باقر علی نے فون رکھتے ہی اس سے پوچھا۔
شہیر کو ان کا انداز بے حد عجیب لگا۔ وہ بہت نفیس اور شائستہ آدمی تھے اور شہیر سے ہمیشہ بہت اچھی طرح بات کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شہیر نے ان کے بدلے ہوئے انداز کو فوری طور پر پہچان لیا تھا۔
”سر! میں اپنی پروموشن کے بارے میں جاننا چاہ…”
شہیر کی بات کاٹتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ”ہو تو گئی بلکہ تنخواہ بھی بڑھ گئی ہے تمہاری۔ کل سے تمہاری سیٹ اور آفس بھی بدل جائے گا۔ پھر اب کیا مسئلہ ہے؟”
باقر علی کا لہجہ کچھ اور درشت ہو گیا تھا۔ ان کے چہرے پر وہ مسکراہٹ نہیں تھی جو عام طور پر ان کی شخصیت کا ایک حصہ تھی اور پھر کسی کوپروموشن اور پے میں اضافہ کی خبر سناتے ہوئے تو کم از کم ان کے تاثرات اتنے عجیب نہیں ہونے چاہیے تھے۔
”مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے سر…! میں تو اصل میں یہ جاننے آیا ہوں کہ مجھے پروموشن کس حوالے سے دی جا رہی ہے۔ میرا ایم بی اے تو ابھی مکمل نہیں ہوا۔”
باقر علی نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔ ”یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کہ تمھیں پروموشن کس حوالے سے دی گئی ہے مگر دے دی گئی ہے۔ اب یہ تو چیف ایگزیکٹو ہی بتا سکتے ہیں۔ میں نے تو صرف ان کے آرڈرز کی تعمیل کی ہے۔”
روشان حیرانی سے باقر علی کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ چیف ایگزیکٹو نے یک دم اس کی پروموشن کیسے کر دی تھی۔ وہ بھی اس صورت میں جب وہ ذاتی طور پر اسے جانتے تھے نہ اس کے کام کو اور باقر علی کے بقول انھیں اس بارے میں کچھ بتایا نہیں تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایچ آر ایم کے طور پر کم از کم انھوں نے اس کی کوئی سفارش نہیں کی تھی پھر…” وہ الجھی ہوئی نظروں سے باقر علی کو دیکھتا رہا۔
”کچھ اور؟” باقر علی بالواسطہ طور پر اسے اب وہاں سے جانے کے لیے کہہ رہے تھے۔
”نہیں کچھ نہیں۔” وہ معذرت کرتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل آیا۔ مگر اس کا ذہن کچھ اور الجھ گیا تھا۔
پروموشن… پانچ ہزار روپے… باقر علی کا عجیب رویہ… یہ سب چیزیں اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ قدرتی طور پر تنخواہ میں اس اضافے پر اسے خوش ہونا چاہیے تھا مگر وہ خوش ہونے کے بجائے کچھ الجھ گیا تھا۔
٭٭٭
صبغہ ا پنی فائل پکڑے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
اسٹائلش آفس نیم تاریک تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے قدم آگے نہیں بڑھا سکی۔ اس کی آنکھوں کو اس کمرے کی نیم تاریکی میں دیکھنے کے قابل ہونے میں چند لمحے لگے۔
”آئیں بیٹھیں۔” اس سے پہلے کہ وہ قدم آگے بڑھاتی ایک مرد کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔
دروازے کے دائیں جانب سامنے دیوار کے ساتھ ایک چھبیس ستائیس سال کا نوجوان اس کی طرف متوجہ تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ صبغہ نے قدم اس کی طرف بڑھائے اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس نے پہلی بار اس نوجوان کو غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ سے صبغہ کو ایک ناخوشگوار سا احساس ہوا۔
”فرمائیں… آپ کسی جاب کے لیے آئی ہیں؟” اسی نوجوان نے اسی انداز میں صبغہ نے اس کی نظروں اور مسکراہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”جی … آپ نے پی آر او کی ایک پوسٹ ایڈورٹائز کی تھی۔” صبغہ نے اس کی نظروں اور مسکراہٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں کی تو تھی… آپ اس کے لیے آئی ہیں؟” اس نے صبغہ پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔
”کیا کوالی فیکیشن ہے آپ کی؟”
”میں نے اے لیولز کیا ہے۔”
”مگر ہم نے تو کم از کم کوالیفکیشن گریجویشن مانگی ہے۔” اس نے اپنی کرسی کو دائیں بائیں گھماتے ہوئے کہا۔
”میں اس سال پرائیویٹ طور پر بی اے کا ایگزام دوں گی۔”
”انگلش بڑی اچھی ہے آپ کی… آپ کہیں بیرون ملک سے آئی ہیں؟” اس نے صبغہ کے لہجے کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ خود وہ اردو میں بات کر رہا تھا۔
”ہم کافی سال گلف میں رہے ہیں۔ میری اسکولنگ وہیں ہوئی برٹش اسکول میں۔” صبغہ نے فائل اس نوجوان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”اچھا!” اس نوجوان نے عجیب سے انداز میں کہا اور کچھ آگے جھکتے ہوئے فائل پکڑنے کے لیے دائیں کے بجائے اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا۔ اس نے صبغہ کے ہاتھ کو صرف چھوا نہیں بلکہ مکمل طور پر صبغہ کے ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھتے ہوئے اس سے فائل لی۔ صبغہ نے جیسے کرنٹ کھا کر اپنا دایاں ہاتھ پیچھے کھینچا۔ وہ ایک دم سراسیمہ ہو گئی تھی۔
”کیا ہوا؟” اس نوجوان نے فائل اپنے سامنے میز پر رکھتے ہوئے اسی انداز میں مسکرا کر کہا، وہ صبغہ کی گھبراہٹ سے جیسے محظوظ ہو رہا تھا۔
”آپ ہاتھ لگنے پر اس طرح گھبرا رہی ہیں۔ پی آر او کی جاب میں تو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔”
صبغہ کے حلق سے آواز تک نہیں نکل سکی۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ گود میں رکھا ہوا تھا اور وہ ابھی تک اس ہاتھ پر اس کا لمس محسوس کر رہی تھی۔ اس نے اپنے جسم میں لرزش محسوس کی۔ وہ پہلی بار جاب کی تلاش میں ایسے تجربے سے گزر رہی تھی۔
وہ نوجوان اب فائل کھولے اس کے سی وی پر نظر ڈال رہا تھا۔
”جاب شوقیہ کرنا چاہتی ہیں یا ضرورتاً؟” اس نے فائل دوبارہ بند کر دی۔
”ضرورتاً۔” صبغہ کے حلق سے بمشکل آواز نکلی۔
”کیوں… ضرورتاً کیوں؟ آپ تو کسی اچھی فیملی سے لگتی ہیں۔ بڑے اچھے اداروں سے پڑھی ہیں۔ یقینا آپ کے والد صاحب امیر ہوں گے پھر پی آر او جاب…” وہ عجیب سے انداز میں پوچھ رہا تھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!