تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”کسی اور کاتو مجھے پتہ نہیں مگر میرے لیے بہت کچھ کر سکتے ہو تم۔” نایاب نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”مثلاً۔” ثمر نے ابروا چکاتے ہوئے پوچھا۔
”مثلاً مجھے کینٹین لے جا سکتے ہو۔” نایاب نے اطمینان سے کہا۔
”کس خوشی میں؟” ثمر نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
”این سی اے میں ایک روپیہ خرچ کیے بغیر داخل ہونے سے بڑی خوشی کوئی ہو سکتی ہے؟”
”اب تم پورے کالج کو بتا دینا تاکہ پہلے دن ہی میرے متھے پر بھکاری کا لیبل لگ جائے۔” ثمر نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔
”پہلے لگا کیا؟” نایاب نے اٹھتے ہوئے کہا۔
ثمر نے رک کر اسے دیکھا پھر انگلی اٹھا کر کہنے لگا۔ ”تم امیر لڑکیوں کا ایک پرابلم…”
”نایاب نے اس کی بات بڑے اطمینان سے کاٹی۔” ہم امیر لڑکیوں کے ایک نہیں بہت سے پرابلم ہوتے ہیں غریب لڑکے! کسی دن فرصت میں بیٹھ کر تفصیل سے ڈسکس کریں گے۔ اب کینٹین چلیں؟”
”میں کچھ نہیں کھلاؤں گا۔” ثمر نے جیسے دھمکی دی۔
”کھا میں خود لوں گی۔ تم صرف پیسے ادا کر دینا۔ اب چلو۔”
نایاب نے کمال بے تکلفی سے اس کا کندھا پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹا، ثمر مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ چلنے لگا۔
”میں ایک بات سوچ رہی ہوں ثمر!” اس کے ساتھ چلتے چلتے نایاب نے اچانک کہا۔
”کیا؟”
”کسی دن اپنے گھر انوائٹ کرو مجھے۔”
ثمر کے ہاتھوں کے طوطے یک دم اُڑ گئے۔
٭٭٭




”آپ کا بیٹا؟” شہیر نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ اسے شائستہ کی بات پر جھٹکا لگا۔ اسے شائستہ کے منہ سے ایسی کوئی بات سننے کی توقع نہیں تھی۔ شائستہ کے بارے میں اس کی رائے میں یک دم تبدیلی آئی۔
”آخر کوئی عورت اسے بیٹا سمجھتے ہوئے تو اس سے فلرٹ کی کوشش نہیں کر سکتی۔” اس نے یک دم اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کیا اور اب وہ شائستہ کی کہانی سننے کے لیے تیار تھا۔
”ہاں میرا بیٹا۔” شائستہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
”کیا اس کا انتقال ہو چکا ہے؟” شہیر کو اندازہ نہیں ہوا، اس کی زبان سے یہ سوال کیوں نکلا۔
”خدا نہ کرے۔” شائستہ نے بے اختیار کہا۔
شہیر کو شرمندگی ہوئی۔ شائستہ اب اپنے آپ پر قابو پا چکی تھی۔
”آئی ایم سوری! میں نے سوچا شاید…” شہیر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ بات کیسے مکمل کرے۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ شائستہ تب تک خود پر قابو پا چکی تھی۔ اس نے ٹشو سے ایک بار پھر اپنی آنکھوں کو تھپتھپایا اور پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”مجھے یقین ہے کہ میرا بیٹا زندہ ہے۔” شہیر اس کے جملے پر ایک بار پھر الجھا، وہ اپنے بیٹے کے بارے میں بات کر رہی تھی اور وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ زندہ ہے یا…
اسے حیرانی ہوئی تو کیا اب وہ اس سے اپنے کسی گمشدہ بیٹے کی بات کرے گی؟ شہیر نے کچھ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
”کیا امیر لوگوں کے بچے گم ہو سکتے ہیں؟” اس کے ذہن نے جیسے ایک سوال کیا۔
وہ اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش میں مصروف تھا اور یہی کوشش شائستہ بھی وقتاً فوقتاً کر رہی تھی۔
”میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔ آپ کا بیٹا۔” شہیر نے بالآخر کہا۔ ”آپ کو یہ علم نہیں ہے کہ آپ کا بیٹا زندہ ہے یا نہیں۔ کیا وہ آپ کے پاس نہیں رہتا؟”
اس بار شہیر نے بڑے محتاط انداز میں لفظوں کا انتخاب کیا تھا۔
”نہیں… وہ میرے پاس نہیں ہے۔” شائستہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بولی۔ ”میں تو اسے دیکھنے کے لیے ترس گئی ہوں۔”
شہیر نے شائستہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آتے ہوئے دیکھے۔
اس کا دل کچھ اور پسیجا۔ شائستہ ایک بار پھر ٹشو… سے اپنی آنکھیں خشک کر رہی تھی۔ شہیر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس بار شائستہ سے کیا کہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک جھماکے سے صبغہ آئی تھی۔ وہ پہلی لڑکی تھی، جسے اس نے اپنے سامنے روتے دیکھا تھا اور اب شائستہ آج دوسری عورت تھی۔
اگرچہ اس نے صبغہ کو چپ کروانے میں بھی دقت محسوس کی تھی مگر شائستہ کے لیے وہ جس طرح کے احساسات کا شکار ہو رہا تھا۔ وہ اسے بہت بے چین کر رہے تھے۔ اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ بھاگ کر گاڑی سے اتر جائے۔
شائستہ اب گاڑی کو مین روڈ سے بائی روڈ پر لا رہی تھی اور بائی روڈ پر گاڑی لاتے ہی اس نے سڑک کے کنارے گاڑی روک دی۔ پھر معذرت خواہانہ انداز میں شہیر کو دیکھتے ہوئے بولی۔
”میں اس حالت میں گاڑی ڈرائیو نہیں کر پاؤں گی۔” شائستہ نے اسٹیئرنگ سے اپنے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
”آج بہت عرصے کے بعد میں کسی ایسے شخص سے اپنے بیٹے کا ذکر کر رہی ہوں، جسے میں جانتی نہیں۔ عجیب بات ہے نا؟” اس نے جیسے بڑبڑاتے ہوئے شہیر سے کہا۔ ایک بار پھر شہیر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس کے اس سوال کا کیا جواب دے۔
”مگر مجھے تم سے اتنی انسیت محسوس ہوتی ہے کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی تم سے اس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں۔” شائستہ نے جیسے وضاحت کی۔ شہیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا وہ اب مزید کچھ انکشافات کا منتظر تھا۔
”میں تمہارا وقت تو ضائع نہیں کر رہی؟” شائستہ نے یک دم کہا۔ شہیر کا دل چاہا کہ وہ ہاں میں جواب دے آخر اسے شائستہ اور شائستہ کے بیٹے کے بارے میں جان کر کرنا کیا تھا۔ اس کا شائستہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر وہ یہ کہہ نہیں سکتا تھا۔
”نہیں۔” اپنے چہرے پر بمشکل ایک مسکراہٹ لاتے ہوئے اس نے کہا۔
”آپ بات کریں، میں سن رہا ہوں۔” اس کی آواز مدھم تھی اور اس نے کوشش کی تھی کہ اس کے لہجے سے بیزاری نہ جھلکے۔
”کئی سال پہلے میرے سب سے بڑے بیٹے کو کلینک سے کسی نے اغوا کر لیا تھا۔” شائستہ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنا شروع کیا۔ وہ بے حد سنجیدہ اور ملول نظر آ رہی تھی۔
”اس وقت وہ صرف چند گھنٹے کا تھا۔”
”آپ کا مطلب ہے پیدائش کے فوراً بعد…؟” شہیر نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں۔” شائستہ نے شکست خوردہ انداز میں بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ شہیر اب پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”میں نے اور ہارون نے اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہیں ملا۔” شائستہ نے ایک گہری سانس لی۔ ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔
”آپ پولیس کی مدد لیتیں۔” شہیر نے کہا۔
”ہم نے پولیس کی مدد لی تھی مگر پولیس بھی اسے تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔” شائستہ افسردگی سے بولی۔
”وہ صرف اتنا پتا چلا سکے کہ اس رات ایک لڑکی کو رات کے پچھلے پہر ایک بچہ کلینک سے لے جاتے دیکھا گیا۔ چوکیدار نے اسے یہ سمجھ کر نہیں روکا کہ وہاں ایڈمٹ ہے مگر اسے حیرانی ضرور ہوئی تھی کہ رات کے پچھلے پہر وہ بالکل اکیلے اپنا بچہ لے کر آخر کس طرح اپنے گھر جا رہی ہے۔” شہیر چپ چاپ اس کی بات سن رہا تھا۔
”گیٹ سے نکلتے ہوئے چوکیدار نے اس سے پوچھا تھا مگر اس لڑکی نے کہا کہ وہ پاس ہی ایک گھر میں رہتی ہے اور وہ بچہ اس کی بہن کا ہے جو وہاں ایڈمٹ ہے۔ وہ بچہ گھر لے جا رہی ہے۔” چوکیدار نے اس لڑکی کو دوبارہ آتے نہیں دیکھا اور اگلی صبح مجھے پتا چلا کہ میرا بیٹا…”
اس بار شائستہ نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے سسکیوں کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ اس بار شہیر کو اس کے رونے سے اتنی الجھن نہیں ہوئی، جتنی پہلے ہو رہی تھی وہ شائستہ کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا تھا۔
”آپ لوگ اس لڑکی کا حلیہ چوکیدار سے پوچھ کر اسے تلاش کرنے کی کوشش کرواتے۔” شہیر نے ہمدردانہ انداز میں کہا۔
”سب کچھ کروایا تھا ہم نے… مجھے تو آج تک اس کے حلیے کی تفصیلات یاد ہیں جو اس چوکیدار نے پولیس کو بتائی تھیں۔ چھوٹے سے قد کی بھدی اور موٹی سیاہ لڑکی۔ اس کے دانٹ ٹیڑھے میڑھے تھے اور اس کا دایاں بازو بائیں ہاتھ اور بازو سے کسی معذوری کی وجہ سے مختلف لگتا تھا۔” شائستہ ایک لمحے کے لیے رکی اور اس نے بہت غور سے شہیر کو دیکھا۔
”مجھے یہ سب کچھ سن کر واقعی بہت افسوس ہوا ہے۔” شائستہ کو اس کے جملے نے مایوس کیا۔ اسے توقع تھی کہ اس عورت کے حلیے پر شہیر کا ذہن فاطمہ کی طرف جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔
”میں آپ کی ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں۔” اس نے کہا۔
”کاش تم واقعی سمجھ سکتے۔” شائستہ نے اس کی بات سنتے ہوئے مایوسی سے سوچا۔
”اتنے سالوں میں ایک بار بھی میرا بیٹا میرے ذہن سے فراموش نہیں ہوا۔” شائستہ اس کے مزید کچھ کہنے سے پہلے بولی۔
”میں نے اسے بہت تھوڑی دیر کے لیے دیکھا تھا، مگر وہ آج بھی میرے ذہن میں اسی طرح محفوظ ہے۔” شہیر بغور اس کی بات سن رہا تھا۔ شائستہ کے آنسو اب تھم چکے تھے۔
”تمھیں میں جب بھی دیکھتی ہوں، مجھے لگتا ہے میرا بیٹا میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہے۔” شائستہ نے کہا۔ شہیر کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ وہ اسے کیا سمجھ رہی تھی اور وہ اسے کیا سمجھتا رہا تھا۔
”آج وہ میرے پاس ہوتا تو تمہاری ہی عمر کا ہوتا اور تمہاری ہی شکل و صورت کا… تمھیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ تمہاری شکل میرے شوہر سے بہت ملتی ہے۔” شہیر نے اس کے اس انکشاف پر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اسے خود بھی اپنے اور ہارون کے چہرے میں مماثلت محسوس ہوئی تھی، مگر اس کے نزدیک یہ صرف ایک اتفاق تھا۔
”پی سی میں تمھیں دیکھتے ہی مجھے لگا، جیسے میرا بیٹا میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہے۔” شائستہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ شہیر کو یاد آیا پہلی بار ثمر کے ساتھ پی سی میں جب ان لوگوں سے ملاقات ہوئی تھی تو شائستہ کی نظروں میں بہت الجھن تھی۔ اسے لگا تھا جیسے وہ اسے گھور رہی ہے اور پھر اس کے ساتھ ہونے والی ہر ملاقات پر وہ اسی طرح کے احساسات سے دوچار ہوا تھا۔
”میں نے کہا نا میں آپ کے جذبات کو سمجھ سکتا ہوں۔ دنیا میں اکثر ایسے اتفاقات بھی ہوتے ہیں کہ بہت سے لوگ آپس میں کوئی رشتہ نہ رکھتے ہوئے بھی ایک جیسے نظر آتے ہیں۔” تشہیر نے بے حد تحمل سے کہا۔
”ہو سکتا ہے چہرے کی یہ مماثلت محض ایک اتفاق ہو۔” شائستہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”مگر پہلی بار کسی کو دیکھ کر مجھے اپنا بیٹا اتنا یاد آتا ہے اور ایسا ہر بار ہوتا ہے۔ ہر بار تم میرے سامنے آتے ہو اور مجھے لگتا ہے کہ میں تمھیں نہیں اپنے بیٹے کو دیکھ رہی ہوں۔” شائستہ نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”حالانکہ میں جانتی ہوں کہ تم مجھے پسند نہیں کرتے۔” شہیر اس بار اس کی بات پر چونکا، اس کے چونکنے پر شائستہ ہلکی سی اداسی سے مسکرائی۔
”تم ہمیشہ مجھ سے کتراتے ہو، مجھے نظر انداز کرتے ہو۔ میں بہت آسانی سے تمھارے رویے میں یہ سب کچھ محسوس کر سکتی ہوں۔”
”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔” شہیر نے وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔
”میں ویسے ہی ریز رو رہتا ہوں۔” شائستہ نے اپنی رائے پر اس بار زور نہیں دیا۔ اس نے خاموشی سے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ شہیر نے جیسے خدا کا شکر ادا کیا۔
”تم نے میری آفر کے بارے میں اب کیا سوچا؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد یک دم شائستہ نے کہا۔
”کس آفر کے بارے میں؟” شہیر نے ایک بار پھر چونک کر کہا۔
”اس جاب کے لیے جس کے بارے میں، میں نے تمھیں بتایا ہے۔”
”آپ کی فیکٹری۔” شہیر دانستہ رکا۔
”ہاں۔”
”میں نے آپ سے کہا ہے کہ میں اپنی موجودہ جاب سے بہت خوش ہوں۔” شہیر رسانیت سے بولا۔
”میں ابھی کچھ سال یہیں کام کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد اگر میں نے جاب چھوڑنے کا سوچا تو پھر میں آپ کی فیکٹری کے بارے میں سوچوں گا۔” شہیر نے بے حد مہذب انداز میں کہا۔
”میری فیکٹری تمھیں بہت اچھا پیکج آفر کرے گی۔”
”میری یہ کمپنی بھی مجھے بہت اچھا پیکج دے رہی ہے۔” شہیر نے جواباً کہا۔
”بارہ ہزار کو تم اچھا پیکج کہہ رہے ہو۔” شائستہ نے بے حد تنفر سے کہا۔ شہیر نے جیسے کرنٹ کھا کر شائستہ کو دیکھا۔
وہ اس کی تنخواہ کیسے جانتی تھی؟
”کیا ہوا؟” شائستہ نے اس کے انداز میں آنے والی تبدیلی کو نوٹ کیا۔
”شہیر کو گتھی سلجھانے میں چند سیکنڈز لگے تھے اس کی تنخواہ میں اضافہ کس نے کروایا تھا، وہ جان گیا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!