تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”زبردستی ہی سہی۔” ثمر نے اپنا والٹ نکالا۔
”کتنے ہیں؟” نایاب نے کہا۔
”اسّی ہیں۔”
”چلو اسّی کا ہی ڈلوا لیتے ہیں۔” نایاب نے پٹرول پمپ کی طرف جاتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
”دو دفعہ مجھے ڈراپ کرنے کا اتنا کرایہ تو نہیں بنتا۔” ثمر نے ناراضی سے کہا۔
”تو گھر بھی تو دیکھو کہاں ہے تمہارا، شہر کے دوسرے کنارے پر۔” نایاب نے منہ بنایا۔
”ڈیفنس میں رہ کر تو تمھیں پورا شہر ہی دوسرے کنارے پر لگے گا۔” ثمر نے بگڑ کر کہا۔
”تم لوگ تو خود شہر سے باہر رہتے ہو۔”
”اسّی روپے کا پٹرول ڈال دیں۔”
نایاب نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے پٹرول ڈالنے والے آدمی سے کہا۔ اس نے قدرے حیرانی سے نایاب کو دیکھا اور پھر پلٹ گیا۔ نایاب نے ہاتھ بڑھا کر ثمر کے ہاتھ میں پکڑے نوٹ لے لیے۔
”اب تم لوگ ڈیفنس میں رہتے ہو تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ تم ہمیں لاہور سے باہر نکال دو۔ اور اندرون شہر میں رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہمیں لاہور کے دوسرے کنارے پر پہنچا دو۔” ثمر نے اسی بگڑے انداز میں کہا۔
”ڈال دیا؟” نایاب کھڑکی کے سامنے نمودار ہونے والے آدمی سے مخاطب ہوئی۔
”جی۔”
”یہ لو۔” اس نے اسّی روپے پکڑائے اور گاڑی پٹرول پمپ سے باہر نکال کر لے گئی۔
”ویسے میں نے تم سے ایڈمیشن کے لیے پیسوں کا پوچھا تھا۔” نایاب نے روڈ پر آتے ہی کہا۔
”کیا مطلب؟” ثمر چونکا۔
”میں نے پوچھا تھا کہ اگر میرٹ لسٹ پر تمہارا نام آ جائے تو ایڈمیشن کے لیے فیس ہے تمھارے پاس، یہ مطلب تھا میرا۔”
”تو یہ اسّی روپے؟”
”میں نے مذاق میں کہا تھا کہ پٹرول ڈلوانا ہے تم بحث کرنے لگے تو پھر میں نے بھی سوچا، اچھا ہے ڈلوا ہی لیتی ہوں تمھیں بھی ذرا اتنی زبان چلانے پر سبق تو سکھایا جائے۔”
ثمر نے اسے گھور کر دیکھا۔
”اچھا اب گھورنے کی ضرورت نہیں ہے تم پاکستانی مردوں کو ویسے ہی خوبصورت لڑکیوں کو گھورنے کی عادت ہوتی ہے۔ میرے سوال کا جواب دو۔”
”میں بدصورت لڑکیوں کو گھورتا ہوں، نہیں پیسے تو نہیں ہیں۔” ثمر نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”کم ز کم آج تو تم کسی بدصورت لڑکی کو نہیں گھور رہے۔ اگر پیسے نہیں ہیں تو ایڈمیشن کے لیے کیا کرو گے؟”




”پتا نہیں کیا کروں گا۔ فی الحال تو سوچا نہیں ہے مگر امی سے بات کروں گا۔ شاید، وہ کچھ مدد کر دیں۔” ثمر اس بار یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”ان کے پاس پیسے ہیں؟” نایاب بھی سنجیدہ ہو گئی۔
”ہو سکتا ہے ہوں۔”
”اگر نہیں ہوئے تو؟”
”تو پھر میں ایڈمیشن نہیں لوں گا، سمپل۔”
”مجھ سے لے لینا۔” نایاب نے آفر کی۔
”یہ دو چار سو کی بات نہیں ہے۔”
”جانتی ہوں دو چار لاکھ کی بات ہے، تو کیا ہوا۔”
”نہیں، یہ میں نہیں کر سکتا۔” ثمر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”کیوں؟”
”میں اس کیوں کا جواب بھی نہیں دوں گا۔” ثمر نے اب بھی اسی انداز میں کہا۔
”پھر تم ایک کام کرو۔”
”کیا؟”
”انکل ذیشان سے ایڈوانس کی بات کرو۔”
”وہ اگر مجھے کمرشل کی پوری رقم بھی دے دیں تب بھی وہ ہزاروں میں ہے لاکھوں میں نہیں۔”
”میں ان سے تمہاری سفارش کر دوں گی۔”
”کیوں بھئی، آخر مجھ پر اتنی عنایات کیوں؟” ثمر نے یک دم مسکراتے ہوئے کہا۔
”تم فلمز نہیں دیکھتے؟”
”دیکھتا ہوں۔”
”تو تم نے شبنم اور ندیم کی فلم دل لگی دیکھی؟” نایاب نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
”نہیں۔”
”توجا کر دیکھو۔”
”اچھا پھر؟”
”پھر تم مجھ سے یہ سوال نہیں کرو گے۔”
”میرے پاس وی سی آر نہیں ہے۔” ثمر نے معصومیت سے کہا۔
”انسان اتنا بھی غریب نہ ہو۔” نایاب نے افسوس کا اظہار کیا۔
”تم مجھے میری غربت کے طعنے دینے کے بجائے اگر فلم کے بارے میں بتا دو تو زیادہ بہتر ہوگا۔”
”دیکھو، ہسٹری اٹھا کر دیکھ لو۔ امیر لڑکا، غریب لڑکی پر اور امیر لڑکی غریب لڑکے پر ہمیشہ مہربان ہوتے ہیں۔”
”مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟” ثمر نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”تو اس فلم میں بھی ایک امیر لڑکی، ایک غریب لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔” نایاب نے ثمر کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
”پھر؟” ثمر نے دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔
”پتا نہیں میں نے آدھی ہی دیکھی تھی۔”
ثمر نے بے حد افسوس کے عالم میں نایاب کو دیکھا۔
”اور آدھی فلم دیکھ کر تم ایک غریب لڑکے پر عنایات کر رہی ہو۔”
”ہاں کیونکہ فلم ٹریجک تھی۔”
”یہ تمھیں آدھی فلم دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا۔”
”میں نے سیکنڈ ہاف دیکھا تھا۔” نایاب نے لاپروائی سے کہا۔
”مگر اس ٹریجک فلم کا غریب لڑکے سے کیا تعلق ہے۔” ثمر نے بالآخر جھلا کر کہا۔
”ہے تعلق۔” نایاب نے اپنی بات پر زور دیا۔
”وہی تو پوچھ رہا ہوں؟”
”غریب لڑکا فلم میں مر جاتا ہے۔”
ثمر چند لمحے تو اسے چپ چاپ دیکھتا رہا پھر بے ساختہ ہنس پڑا۔
”یہ بھی ہو سکتا ہے اس بار امیر لڑکی آخر میں مر جائے۔”
”ایک اور فلم میں ایسا بھی ہوا تھا۔” نایاب فوراً بولی۔ ”مگر فلم فلاپ ہو گئی تھی۔”
”ویسے میرا خیال ہے کہ تم دو فلموں کی کہانی کو ایک فلم کے اندر مکس کر رہی ہو، کیونکہ مجھے یقین ہے اس فلم کے آخر میں جو ہوا تھا، وہ وہ نہیں ہے جو تم مجھے بتا رہی ہو۔” ثمر نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔
”یعنی یہ فلم دیکھ رکھی ہے تم نے۔ مجھے بھی شک ہے کہ اتنے معصوم تو نہیں ہو تم جتنے بن رہے ہو۔” نایاب نے اسے گھورا۔ ثمر نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ وہ ثانی نہیں تھی نایاب تھی اور وہ پہلی بار زچ ہو رہا تھا مگر وہ اس گفتگو سے محظوظ بھی ہو رہا تھا۔
”ذیشان انکل کا نام ذہن میں رکھنا۔ ان سے ایڈوانس لے لینا بلکہ جتنی رقم کی ضرورت ہو لے لینا۔” نایاب نے اسی اسٹاپ کے قریب گاڑی روکتے ہوئے کہا جہاں اس نے پچھلی بار ثمر کو ڈراپ کیا تھا۔ ثمر کو اس کی یادداشت پر رشک آیا۔ اس نے ایک بار بھی اس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔
”اور اگر تم نے میری اس آفر کو قبول نہ کیا تو پھر میں خود زحمت کرتے ہوئے تمہاری فیس جمع کروا دوں گی۔”
جب ثمر نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے گاڑی کا دروازہ کھول لیا تو نایاب نے اپنا جملہ مکمل کیا۔ ثمر نے پلٹ کر اسے دیکھا اور گہرا سانس لیا۔ نایاب مسکرا رہی تھی۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تم سے کیا کہوں؟”
”چپ رہو بس۔” نایاب نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔ ثمر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
٭٭٭
”تم کہاں جا رہی ہو؟”
منیزہ نے اس صبح صبغہ کے گھر سے نکلنے کے کچھ دیر بعد امبر کو جینز اور ٹی شرٹ لے کر باتھ روم کی طرف جاتے دیکھ کر پوچھا۔ امبر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ چپ چاپ باتھ روم میں گھس گئی۔
منیزہ پریشانی کے عالم میں کمرے کے چکر لگانے لگیں۔ وہ آدھے گھنٹہ کے بعد دوبارہ کمرے میں آئی اور منیزہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اپنے بال ڈرائیر سے ڈرائی کرنے لگی۔
”تم کہاں جا رہی ہو؟” منیزہ نے ایک بار پھر اس سے پوچھا۔ وہ اس بار بھی خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہی۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں امیر؟” منیزہ کا صبر جواب دینے لگا۔
”آپ مجھ سے کچھ تب پوچھیں جب آپ ہر کسی سے کچھ پوچھتی ہوں۔” امبر نے یک دم پلٹ کر منیزہ کو درشتی سے جواب دیا۔
”وہ آپ کے سامنے صبح منہ اٹھا کر اسی طرح تیار ہو کر گھر سے نکل جاتی ہے۔ آپ اس سے یہ سوال نہیں کرتیں۔”
اس نے صبغہ کا نام لیے بغیر اس کا حوالہ دیا۔
”وہ جاب کی تلاش میں جاتی ہے۔”
”اور میں آوارہ گردی کرنے۔” امبر نے منیزہ کی بات کاٹ کر کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا۔”
”تو کہہ دیں۔ میں سننے کے لیے تیار ہوں۔”
”امبر! خوامخواہ بات کو طول مت دو۔”
”تو پھر آپ سوال مت کریں۔”
”میرا فرض ہے یہ… میں ماں ہوں تمہاری۔”
”صرف میری ماں ہیں؟ صرف مجھ سے انویسٹی گیشن کرنی ہوتی ہے آپ کو؟”
”تم کو بتایا ہے کہ صبغہ جاب ڈھونڈ رہی ہے۔” منیزہ نے اس بار قدرے بلند آواز میں کہا۔
”تو میں بھی جاب ڈھونڈنے ہی جا رہی ہوں۔”
”تم جاب کرو گی؟” منیزہ نے بے اختیار پوچھا۔
”کیوں؟ میں معذور ہوں؟”
”تم… ابھی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے امبر!”
”میری طبیعت کا مجھے آپ سے زیادہ پتا ہے۔” اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”دیکھو، تمہاری کوالیفیکیشن اتنی نہیں ہے کہ تمھیں کوئی اچھی جاب مل جائے۔” منیزہ کو احساس نہیں ہوا کہ انھوں نے اسے ایک غلط مثال دی تھی۔
”کیوں؟ میری کوالیفیکیشن کو کیا ہوا؟”امبر نے سرد مہری سے ماں کو دیکھا۔ اگر صبغہ اے لیولز کر کے جاب ڈھونڈ سکتی ہے تو پھر میں کیوں نہیں؟”
”تمہارا بی اے بھی مکمل تو نہیں ہوا۔”
”مگر اے لیولز تو میں نے بھی کیا ہوا ہے۔”
”ہاں مگر…” منیزہ کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔ امبر نے ان کی بات مکمل کی۔
”مگر یہ کہ صبغہ قابل اعتبار ہے جو کہ میں نہیں ہوں۔”
”امبر! اپنے لفظ میرے منہ میں مت ڈالو۔” منیزہ نے اسے جھڑکا۔
”میں آپ کا چہرہ پڑھ سکتی ہوں ممی! جیسے میں صبغہ کا چہرہ پڑھ سکتی ہوں۔” امبر نے بے حد سرد لہجے میں کہا۔ ”آپ دونوں اپنے دل میں میرے لیے کیا رکھتی ہیں میں جانتی ہوں۔”
”میں اور صبغہ دونوں تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔”
”اور جو لوگ مجھ سے بہت محبت کریں۔ مجھے ان سے بہت خوف آتا ہے کیونکہ وہ سانپ کی طرح مجھے ڈستے ہیں۔ پایا… طلحہ… رخشی… سب بہت محبت کرتے تھے مجھ سے۔” امبر نے اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگاتے ہوئے کہا۔
”اور ہارون… اس کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟” منیزہ نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ لپ اسٹک لگاتے ہوئے امبر کے ہاتھ چند لمحوں کے لیے رکے۔
”ہارون کی بات اور ہے۔” اس نے بے حد معمول کے انداز میں کہا۔
”تم اس کے پاس جا رہی ہو؟”
”ہاں۔”
”امبر… وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔”
”اس آدمی نے میرے علاج پر اٹھنے والے سارے اخراجات برداشت کیے تھے۔ میرے لیے وہ اچھا ہے اور تب تو آپ کے لیے بھی اچھا تھا۔”
”مجھے غلط فہمی تھی۔”
”مجھے نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے، اور میرے لیے یہی کافی ہے۔”
”اس لباس میں اس محلے سے گزر کر تم جاؤ گی تو…” منیزہ نے امبر کو شولڈر بیگ اٹھاتے دیکھ کر کہا۔
”تو کیا ہو گا؟ قیامت آ جائے گی؟”
”لوگ باتیں کریں گے۔”
”پہلے کیا کر رہے ہیں؟” اس نے دو بدو کہا۔
”اس محلے میں ہم نئے آئے ہیں اور…” امبر نے منیزہ کی بات کاٹ دی۔
”اور اس سے پہلے کہ ہم یہاں پرانے ہو جائیں میں یہاں سے چلے جانا چاہتی ہوں۔” اس نے ترش لہجے میں کہا اور بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!