تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”کہاں رہ گئی تھیں امبر …؟ تمہیں اندازہ ہے میں اور صبغہ کتنا پریشان ہو رہے تھے؟” منیزہ دروازہ کھولتے ہی پریشانی سے بولیں۔ وہ شام کے وقت واپس گھر پہنچی تھی۔
”اگر تم چند منٹ اور نہ آتیں تو میں اور صبغہ تو تمہاری تلاش میں نکلنے ہی والے تھے۔”
منیزہ نے اس بار امبر کے ہاتھ میں ان گنت شاپرز کو دیکھتے ہوئے دوبارہ بولیں۔ جن کے بوجھ سے وہ تقریباً دوہری ہو رہی تھی۔
امبر اندر چلی آئی۔ منیزہ اس کے پیچھے دروازہ بند کرنے لگیں۔ صحن میں کھڑی صبغہ نے آگے بڑھ کر امبر سے شاپرز لے لیے۔
”تم حد کرتی ہو امبر! اتنی دیر؟” صبغہ کے لہجے میں ناراضی سے ساتھ ساتھ اطمینان بھی تھا ورنہ چند لمحے پہلے تک وہ مکمل طور پر حواس باختہ ہو رہی تھی۔ امبر کے بارے میں پتہ نہیں کیا کیا اندیشے اس کے دل کو دہلا رہے تھے’ کچھ یہی حالت منیزہ کی تھی جو بری طرح پچھتا رہی تھیں کہ انہوں نے امبر کو گھر سے باہر اکیلے کیوں جانے دیا۔
”کیا ہو گیا … ؟ پہلے بھی تو میں کئی کئی گھنٹے باہر رہا کرتی تھی۔ اب دیر سے آئی ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے؟”
امبر نے صبغہ کو کچھ شاپرز دیتے ہوئے قدرے جھنجھلا کر کہا اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
”پہلے کی بات اور تھی امبر! اور …” صبغہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ امبر نے فوراً اس کی بات کاٹی۔
”اور اب کی بات اور ہے۔ کیونکہ اب آسمان ہمارے سر پر گر چکا ہے اور زمین ہمارے پیروں کے نیچے سے نکل چکی ہے۔”
”فار گاڈسیک میں تنگ آ گئی ہوں یہ بات کو سن سن کر …”
وہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔ اس کے پیچھے آتے ہوئے منیزہ اور صبغہ نے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔
”کتنی دیر رونا روتے رہیں گے پہلے اور اب کا … پہلے کیا کسی دوسری دنیا میں رہتے تھے؟ کہ جو تب کرتے تھے وہ اب نہیں کر سکتے۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے شاپرز کو بیڈ پر پھینکا۔ ”زندگی نہ ہو گئی تماشا ہو گیا۔ کیسٹ کی ایک سائیڈ ہی ریوائنڈ کر کے سنتے رہو۔ پہلے کی بات اور تھی’ پہلے کی بات اور تھی۔” اس نے گلے میں پڑا ہوا دوپٹہ اتار کر بیڈ پر پھینکا۔ زارا اور رابعہ نے باری باری امبر’ صبغہ اور منیزہ کے چہرے کو دیکھا’ پھر دوبارہ ہوم ورک کرنے لگیں۔ یہ سب کچھ ان کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ تلخ کلامی’ چپقلش’ رونا دھونا’ لعنت ملامت … ان چیزوں کی عادت ہونے لگی تھی۔




”اس دڑبے جیسے گھر سے چند گھنٹے باہر کیا گزار لیے’ قیامت آ گئی … اور واپس آ گئے تو مزید مصیبت۔” وہ بیڈ پر بیٹھ کر اپنے سینڈلز اتارنے لگی۔
صبغہ نے خاموشی سے باقی شاپرز کو اس کے پاس بیڈ پر رکھ دیا۔ وہ اس وقت امبر کی کسی بات کے جواب میں کچھ بولی تھی۔ امبر نروس بریک ڈاؤن کے بعد اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہوا کرتی تھی اور صبغہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ ان موضوعات پر اس سے بات نہ کرے جس سے امبر چڑتی تھی۔
”اتنی شاپنگ کر ڈالی … کیا کیا خریدا ہے؟” صبغہ نے لہجے کو یک دم خوشگوار بناتے ہوئے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ اگرچہ بیڈ پر پڑے شاپرز کی تعداد اس کے لیے پریشان کن تھی۔ امبر کو شاپنگ کا کریز تھا اور اس وقت صبغہ کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی رقم ان چیزوں پر خرچ کر آئی تھی جو سامنے پڑی ہوئی تھیں۔
امبر نے الجھی ہوئی نظروں سے صبغہ کو دیکھا پھر اس نے ان شاپرز کو دیکھا اور یک دم اس کے موڈ میں تبدیلی آ گئی۔ وہ مسکرانے لگی۔
”یہ … بس ایسے ہی … کچھ چیزیں پسند آ گئیں تو خرید لیں۔” امبر نے چیزوں کو باہر نکالنا شروع کر دیا۔ وہ سب برانڈڈ پروڈکٹس تھیں یہ صبغہ کو ان شاپرز اور بیگز کو دیکھ کر بھی اندازہ ہو گیا تھا جن میں وہ موجود تھیں۔ مگر ان کی تعداد اور نوعیت اس کو مزید پریشانی میں مبتلا کر رہی تھی۔ جینز ‘ ٹاپس’ کچھ ریڈی میڈ ملبوسات’ چند … پرفیومز’ جوتے’ جیولری’ ہینڈ بیگز’ کاسمیٹکس … چند ہی لمحوں میں پورا بیڈ ان چیزوں سے بھر گیا تھا اور صبغہ نے ان چیزوں کی قیمت کا اندازہ لگایا تھا کہ ایک لاکھ روپے سے کم کا سامان نہیں تھا۔ صبغہ کا سانس رک گیا تھا۔ سوال یہ تھا کہ امبر کے پاس رقم کہاں سے آئی تھی کہ وہ ان برانڈڈ آئٹمز کو خرید سکتی اور اگر اس کے پاس رقم تھی تو وہ اتنی بے حسی سے ان چیزوں پر کیسے اڑا رہی تھی جن کی انہیں اس وقت ضرورت نہیں تھی۔
صبغہ بالکل ساکت بیٹھی ان چیزوں کو دیکھتی رہی جنہیں امبر بڑے شوق سے اسے دکھا رہی تھی۔ اس کے چہرے پر اس طرح کی خوشی اور جوش بہت عرصے کے بعد نظر آ رہا تھا۔ رابعہ اور زارا بھی اب اپنا ہوم ورک چھوڑ کر ان چیزوں کو کھول کھول کر دیکھ رہی تھیں۔ صبغہ نے سر اٹھا کر بیڈ کے پاس کھڑی منیزہ کو دیکھا۔ اس کی طرح وہ بھی بالکل سنجیدہ نظر آ رہی تھیں۔
”تمہیں پسند آئیں میری چیزیں؟” امبر نے بڑے اشتیاق سے صبغہ سے پوچھا۔
”بہت اچھی ہیں۔” صبغہ نے بمشکل اپنا گلاصاف کرتے ہوئے کہا۔ ”مگر امبر! تمہارے پاس اتنی رقم تھی کہ تم یہ سب چیزیں خرید سکو؟ کتنی رقم خرچ کی ہو گی تم نے ؟” صبغہ نے بہت نرمی سے پوچھا۔
”ہاں میرے پاس پیسے ہیں۔” امبر نے گول مول انداز میں کہا۔ اس نے صبغہ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب نہیں دیا اور اپنے سامان کو سمیٹنے لگی۔
”کتنے پیسے ہیں تمہارے پاس؟” اس بار صبغہ نے براہ راست میں پوچھا۔
”ہیں تھوڑے بہت۔” امبر پھر اسی گول مول انداز میں بولی۔ اس کا پورا دھیان اس وقت اپنی چیزوں پر تھا۔
”مگر اس فضول خرچی کی کیا ضرورت تھی؟” منیزہ چپ نہ رہ سکیں۔ ”اگر تمہارے پاس پیسے ہیں تو انہیں رہنے دیتیں ابھی ہمیں کتنی ضرورت ہے پیسوں کی۔ تمہارے اپنے کام آتے یہ روپے۔” منیزہ خاصے ناخوشگوار انداز میں بولیں۔
”تو ابھی بھی تو میرے ہی کام آئے ہیں … میں نے اپنے لیے چیزیں خریدی ہیں۔” امبر کا لہجہ بھی تبدیل ہو گیا۔
”مگر یہ چیزیں تمہارے کیا کام آئیں گی۔” صبغہ بولی۔ ”تم اس طرح کے کپڑے اور جینز پہن کر کہاں جاؤ گی؟”
”کہاں جاؤں گی۔ جہاں دل چاہے گا جاؤں گی… میں کوئی قیدی تو نہیں ہوں کہ ہمیشہ دو کمرے کے اسی گھر میں رہوں’ جب باہر جاؤں گی تو استعمال کروں گی ان سب چیزوں کو۔” اسے غصہ آ گیا۔
”ہم اس علاقے میں نہیں رہتے امبر … جہاں اس قسم کے کپڑے لائف اسٹائل ہوتے ہیں اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔” صبغہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔” ہم اس علاقے میں رہ رہے ہیں جہاں اس طرح کے کپڑے پہن کر گھر سے نکلنا مصیبت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔”
”کیسی مصیبت؟” امبر کے ماتھے پر بل آ گئے۔ ”لوگ انگلیاں اٹھائیں گے’ آوازیں کسیں گے’ الزام لگائیں گے’ تو کون پروا کرتا ہے ان سب چیزوں کی … یا لوگوں کی۔” امبر نے سرد آواز میں کہا۔
”پروا کرنا پڑتی ہے۔ جب کسی مرد کے بغیر زندگی گزارنا پڑ جائے تو بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور بہت سی چیزوں کی پروا بھی کرنی پڑتی ہے۔” صبغہ نے رسانیت سے کہا۔
”میں اس علاقے میں کبھی نہیں آنا چاہتی تھی۔ یہ محلہ تمہاری چوائس تھا۔” امبر نے درشتی سے کہا۔
”یہ کس کی چوائس تھا یا نہیں … اس وقت ہم یہ ڈسکس نہیں کر رہے ۔” صبغہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”ہم جہاں آ گئے ہیں۔ اب ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہمیں یہاں رہنا کیسے ہے۔”
”اگر یہ ڈسکس ہو گا کہ مجھے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں تو پھر یہ بھی ڈسکس ہو گا کہ اس محلے میں ہم آئے کیوں جہاں پر ہم اپنی مرضی کا لباس تک نہیں پہن سکتے۔” امبر نے اسی انداز میں کہا۔
”اب تو آ گئے ہیںامبر!”
”اور جا بھی سکتے ہیں۔”
”کہاں جا سکتے ہیں؟” صبغہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”اس سے بہتر جگہ پر۔”
”بہتر جگہ کے لیے بہت زیادہ پیسوں کی ضرورت ہے۔”
”میں دے سکتی ہوں وہ پیسے۔” امبر نے اس کی بات کاٹی۔
صبغہ کے حلق میں کانٹے چبھنے لگے۔ ”تم کہاں سے پیسے دو گی؟”
”جہاں سے بھی دوں گی … مگر دوں گی… ہم کسی بہتر جگہ پر رہ سکتے۔”
صبغہ پلکیں جھپکائے بغیر امبر کا چہرہ دیکھتی رہی۔ صبغہ اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی اور اسے دیکھتے ہوئے یک دم اسے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ صبغہ نے غیر محسوس انداز میں چند گہری سانسیں لے کر اس خوشبو کو شناخت کرنے کی کوشش کی جو امبر کے پاس سے آ رہی تھی۔ وہ بہت تیز مردانہ پرفیوم تھا۔ منصور علی وہی پرفیوم استعمال کرتے تھے۔ امبر یقینا منصور علی کے پاس سے ہو کر نہیں آئی تھی یہ صبغہ جانتی تھی … روشان وہی پرفیوم استعمال کرتا تھا مگر امبر روشان کے پاس بھی نہیں گئی تھی اس کا بھی صبغہ کو یقین تھا … طلحہ اور اسامہ دونوں میں سے کوئی اس پرفیوم کو استعمال نہیں کرتا تھا مگر اس کے علاوہ بھی اس نے کسی کو اس پرفیوم کا استعمال کرتے دیکھا تھا۔ چند لمحوں کے لیے صبغہ اپنے ذہن پر زور دیتی رہی۔ اس نے کسی کو اس پرفیوم کا استعمال کرتے دیکھا تھا…؟ کس کو دیکھا تھا؟
”میرے خدا!” وہ بے اختیار زیر لب بڑبڑائی۔ اسے یاد آ گیا تھا اس نے کس کو وہ پرفیوم استعمال کرتے دیکھا تھا۔ کچھ وقت کے لیے اسے یوں لگا تھا جیسے اسے سانس ہی نہیں آئے گا…
”تو کیا امبر، ہارون کمال کے ساتھ وقت گزار کر آ رہی ہے؟” امبر اب مگن انداز میں شاپرز کو سمیٹ رہی تھی۔
٭٭٭
ان دونوں عورتوں کو اس آدمی کے دفتر میں داخل ہوئے چند منٹ ہوئے تھے۔ ادھیڑ عمر آدمی فون پر گفتگو میں مصروف تھا۔ اس نے ان دونوں عورتوں کو سامنے کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اپنی گفتگو کے دوران وہ سامنے بیٹھی دونوں عورتوں کا جائزہ لینے میں مصروف رہا۔ اس نے فون پر پانچ منٹ گفتگو کی تھی اور پانچ منٹ میں وہ سامنے بیٹھی دونوں عورتوں کا اچھی طرح جائزہ لے چکا تھا۔ اس نے چادر میں ملبوس عورت کو سرسری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنی توجہ برقع اوڑھے اور آدھے چہرے کو نقاب سے ڈھانپے ہوئے عورت پر مرکوز کر لی۔
آدھا چہرہ … خوبصرت گہری سیاہ آنکھیں’ کمان کی طرح تنے ابرو’ ماتھے اور آنکھوں کے نیچے جھریوں کا ہلکا جال’ تیکھی ناک کا اوپر والا حصہ اور چہرے پر لگائی گئی فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ آنکھوں پر لگایا ہوا مسکارا اور کاجل دکھا رہا تھا۔ برقع پوش عورت کے ہاتھ ٹیبل پر رکھے تھے اور ہاتھوں کی انگلیوں میں موجود انگوٹھیاں اور کلائی میں موجود چوڑیاں اسے اس عورت کی مالی حیثیت کے بارے میں بتا رہے تھے۔ عورت سلیولیس یا ہاف سلیوڈ شرٹ پہنے ہوئے تھی’ کیونکہ وہ برقع کے بازوؤں میں سے لباس کا کوئی حصہ نہیں دیکھ پا رہا تھا’ ہاتھوں کے ناخنوں پر تیز سرخ رنگ کی کیوٹکس لگی تھی اور ناخن لمبے تھے۔ ہاتھ دیکھ کر یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں تھا کہ وہ عورت اپنے ہاتھوں سے گھریلو کام کاج کرنے کی عادی نہیں تھی۔
سامنے بیٹھے آدمی نے چادر اوڑھی ہوئی عورت کو غور سے نہیں دیکھا۔ اس کی چھٹی حس اسے بتا چکی تھی کہ اس کے پاس جو کام لے کر آئی تھی’ وہ برقع پوش عورت تھی جو زیادہ چھپاتا ہے’ وہ زیادہ دکھاتا ہے۔ اس نے فون کا ریسیور رکھتے ہوئے مسکرا کر ان دونوں عورتوں کو اور خاص طور پر اس برقع پوش عورت کو دیکھا اور پھر معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”معاف کیجئے گا’ آپ کو انتظار کرنا پڑا۔”
”نہیں’ کوئی بات نہیں۔ ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔” چادر والی عورت نے فوراً کہا۔ ”ہمیں جمال صاحب نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔” اس عورت نے کہا۔
”جمال درانی نے؟” اس آدمی نے استفسار کیا۔
”جی…”
”آپ اسے کیسے جانتی ہیں؟” آدمی کو دلچسپی پیدا ہوئی۔
”بس ہمارے دوستوں میں سے ہیں۔” اس بار برقع پوش عورت نے کہا۔ ”آدمی نے اس عورت کی آواز کو غور سے سنا۔ آواز بہت خوبصورت اور لوچ دار تھی اور اس کے بات کرنے کا ایک خاص انداز تھا۔ وہ بات کرتے ہوئے مخصوص انداز میں اپنے ہاتھوں کو بھی حرکت دے رہی تھی اور سامنے بیٹھا ہوا آدمی اس حرکت سے جیسے اس عورت کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”ہمیں ایک مسئلہ درپیش تھا تو انہوں نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا۔” برقع پوش عورت بولی۔ ”وہ کہہ رہے تھے کہ آپ ہمارا مسئلہ حل کر دیں گے۔ وہ آپ کی بڑی تعریف کر رہے تھے۔”
”یہ جمال کی مہربانی ہے۔” وہ آدمی کہتے ہوئے مسکرایا۔ ”جی تو میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
دونوں عورتوں نے ایک لمحے کے لیے ایک دوسرے کو دیکھا پھر برقع پوش عورت نے اس آدمی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہمیں ایک عورت کی تلاش ہے۔”
٭٭٭
”ہاں شائستہ …! کیسی ہو تم؟” ذیشان نے شائستہ کی آواز پہچانتے ہی کہا۔
”میں ٹھیک ہوں’ تم کیسے ہو؟” شائستہ نے جواباً پوچھا۔
”ہم تو ویسے ہی ہیں جیسے ہمیشہ ہوتے ہیں۔ فٹ اینڈ فائن۔” ذیشان نے شگفتگی سے کہا۔ ”ہارون کیسا ہے؟”
”ہارون بھی ٹھیک ہے۔”
”ابھی آس پاس ہے تمہارے؟”
”نہیں’ گھر پر نہیں ہے۔ کہیں باہر گیا ہوا ہے۔”
”اور تم … تم اس کے ساتھ نہیں گئیں؟”
”نہیں۔”
”کیوں’ آج کل کہیں آنا جانا چھوڑ دیا ہے کیا اور بائی داوے یہ میری یاد تمہیں کیسے آ گئی؟” ذیشان کو اس سے بات کرتے ہوئے اچانک خیال آیا۔
”کیوں’ تمہاری یاد نہیں آسکتی مجھے؟” شائستہ نے جواباً پوچھا۔
”عام طور پر آتی تو نہیں تمہیں۔” ذیشان نے برجستگی سے کہا۔
”آخری بار یاد ہے تم سے میری کب بات ہوئی تھی۔ میرا خیال ہے کئی ماہ گزر گئے ہیں۔”
”ہاں’ تم تو جانتے ہو میں بہت مصروف رہتی ہوں اور خود تم بھی تو ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہے ہو۔ جب بھی گھر آنے کا کہا تم ٹال گئے۔” شائستہ نے بتایا۔
”ہاں جانتا ہوں میں اپنی اور تمہاری مصروفیت کو’ اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں کہ آج فرصت کیسے مل گئی۔” ذیشان نے بے تکلفی سے کہا۔
”بس میں نے سوچا تم سے گپ لگائی جائے۔”
”آج کا دن واقعی اچھا ہے کہ شائستہ کمال جیسی خاتون صرف گپ شپ لگانے کے لیے فون کر رہی ہیں۔”
شائستہ بے اختیار مسکرائی۔ ”خیر اب شائستہ کمال اتنی بڑی ہستی بھی نہیں ہو گئی ہیں۔”
”ہمارے لیے تو ہمیشہ سے ہی ہیں۔”
”ہاں’ تمہیں تو عادت ہے ہر ایک کی خوشامد کرنے کی۔” شائستہ نے اسے جھڑکا۔ ذیشان اس کا اور ہارون کا بہت پرانا دوست تھا۔
”ہر ایک کون؟”
”ہر ایک مطلب’ ہر ایک۔” شائستہ نے اسے جتایا۔
”تمہارے اور ثومی کے علاوہ کسی کی آج تک خوشامد نہیں کی میں نے۔” ذیشان نے اپنی بیوی کا نام لیا۔
”ثومی کے سامنے میرا نام لو گے تو وہ تمہیں جوتے لگائے گی۔”
”تو کھالیں گے’ پہلے کیا جوتے نہیں پڑے۔”
شائستہ نے اس بار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ”تم کیا جوتے کھانے والے مردوں میں سے ہو۔”
”اب کیا میں تم سے یہ کہوں کہ تم جوتے مار کر دیکھ لو۔”
شائستہ پھر ہنسی۔ ”نہیں’ یہ کام تم اپنی بیوی کے لیے ہی رہنے دو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ اب نایاب کو کس کمرشل میں لے رہے ہو۔”
”دو تین کمرشل ہیں۔”
”ضروری ہے کہ تم اسے کمرشلز میں لو۔ تمہیں پتا ہے ہارون کتنا ناراض ہو رہا ہے۔”
”اب یہ کیا بات ہوئی۔ پہلے ہارون نے خود مجھ سے کہا کہ نایاب کو کمرشل میں کام کرنے کا شوق ہے’ میں اسے کسی کمرشل میں چانس دوں اور اب وہ ناراض ہو رہا ہے۔”
”مگر اس نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسے مزید کمرشلز کی آفر دے دینا۔ وہ تو صرف ایک کمرشل کی بات کر رہا تھا تاکہ نایاب کا شوق پورا ہو جائے۔”
”اب میں کیا کروں شائستہ! نایاب کا پہلا کمرشل اتنا اچھا بنا ہے کہ کمپنی نے اپنی دوسری پروڈکٹ کے لیے بھی اسی کو لینے کے لیے کہا ہے۔ تمہاری بیٹی ہے ہی بہت ٹیلنٹڈ۔” اس نے تعریف کی۔ ”میں نے نایاب سے بات کی تو اس نے بھی ہامی بھر لی۔”
”مگر تمہیں اس سے بات کرنے سے پہلے مجھ سے یا ہارون سے بات کر لینا چاہیے تھی۔”
”چلو تم سے اب بات کر لیتا ہوں۔ ہارون سے پھر کبھی کر لوں گا۔”
”اب میں اس سے کیا بات کروں گی۔ اسے کمرشلز سے نکالنے کا کہوں گی تو نایاب شور مچا دے گی۔”
”مگر یہ بیٹھے بٹھائے تمہیں کمرشلز پر اتنا اعتراض کیوں ہونے لگا ہے۔ تمہیں تو ایک زمانے میں خود اس کام میں بہت دلچسپی تھی؟” ذیشان نے حیرت کا اظہار کیا۔
”آج کل تو اچھی اچھی فیملیز کے لوگ سفارشیں لے کر آتے ہیں میرے پاس کہ ان کی بیٹی کو اپنے کمرشل میں چانس دوں اور میں نایاب کو جو موقع بیٹھے بٹھائے دے رہا ہوں’ وہ تو اسے چند ہفتوں میں اسٹار بنا دے گا۔”
”اور ساتھ ہی اس کے دماغ کو بھی آسمان پر پہنچا دے گا۔” شائستہ بڑبڑائی۔ ذیشان نے اس کی بڑبڑاہٹ سن لی۔
”اس بارے میں تم پریشان نہ ہو’ وہ پہلے ہی آسمان پر پہنچا ہوا ہے۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!