تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”ہارون سے تمہاری کیا بات ہوئی؟” اس شام امبر کی واپسی کے ساتھ ہی صبغہ نے اس سے پوچھا۔ امبر کم از کم تین یا چار گھنٹوں کے بعد واپس آئی تھی اور واپس آنے کے بعد بہت مطمئن نظر آتی تھی۔
صبغہ کچھ دیر اندر کمرے میں لیٹی رہی تھی مگر وہ سو نہیں سکی تھی، اسے بار بار امبر کا خیال آ رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ باہر صحن میں نکل آئی اور وہاں ٹہلنے لگی۔ منیزہ کچن میں کھانا پکاتے ہوئے اسے صحن میں ٹہلتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ انھوں نے پہلے بھی کئی بار صبغہ کو پریشان دیکھا تھا، مگر آج اس کی پریشانی جیسے انتہا کو پہنچ رہی تھی۔
”وہ آ جائے گی۔ تم کیوں پریشان ہو رہی ہو؟’ منیزہ نے صبغہ کو باہر نکل کر سمجھانے کی کوشش کی مگر صبغہ اسی طرح صحن میں ٹہلتی رہی تھی۔
”میں جانتی ہوں وہ آ جائے گی۔” منیزہ نے اس کو بڑبڑاتے سنا۔
”اسے آج اس لیے زیادہ دیر…” منیزہ کا جملہ ادھورا رہ گیا۔ بیرونی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی۔
”دیکھا وہ آ گئی۔” منیزہ بے اختیار مسکرائیں اور اس نے جا کر دروازہ کھول دیا۔ امبر مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ نے صبغہ کا خون خشک کر دیا۔ اس کے خوشگوار موڈ کا مطلب کیا ہو سکتا تھا؟ وہ اس کا مطلب جانتی تھی۔
”سوری، میں کچھ لیٹ ہو گئی۔” اس نے مسکراتے ہوئے باری باری دونوں کی طرف دیکھا اور اندر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ صبغہ اس کے پیچھے ہی کمرے میں چلی آئی۔
”تم نے ہارون سے کیا بات کی؟” اس نے اندر آتے ہی امبر سے پوچھا۔ وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی اپنے جوتے اتار رہی تھی۔
”کس چیز کے بارے میں؟” امبر نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
”وہ کس چیز کے بارے میں بات کرنے تمھیں یہاں سے لے گیا تھا؟” صبغہ جیسے زچ ہو کر بولی۔
”یہ ضروری نہیں ہے کہ میں تمھیں بھی اس کے بارے میں بتاؤں۔” امبر کا لہجہ یک دم بہت روکھا ہو گیا۔ وہ اب اپنے بیگ میں کچھ تلاش کرنے میں مصروف تھی۔
منیزہ نے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو صحن کے دروازے سے کمرے کے دروازے تک آتے آتے سن لی تھی۔ اس سے پہلے کہ صبغہ اپنا سوال دہراتی وہ کمرے میں داخل ہوئیں اور امبر سے بولیں۔
”ہارون کیا کہنا چاہتا تھا تم سے؟”




”وہ بہت سی باتیں کہنا چاہتا تھا۔” اس بار امبر کے لہجے میں وہ رکھائی نہیں تھی۔ اس نے بیگ میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش بھی ترک کر دی اور اسے بند کر دیا۔
”تمھیں اسے بتانا تھا کہ آج کے بعد وہ اس گھر میں نہ آئے۔” منیزہ نے خاصی رکھائی سے کہا۔
”میں نے اس سے کہہ دیا ہے۔” امبر بے حد اطمینان سے بولی۔
”پھر اس نے کیا کہا؟”
”وہ دوبارہ یہاں نہیں آئے گا۔” منیزہ نے اطمینان کا سانس لیا اور صبغہ کو دیکھا مگر صبغہ اسی طرح امبر کو گھور رہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات میں رتی بھر تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”صبغہ کو بھی بات کا بتنگڑ بنانے کی عادت ہے۔” منیزہ نے اسے دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا ”جب وہ کہہ رہی ہے کہ اس نے ہارون کو منع کر دیا ہے تو یقینا اس نے ایسا ہی کیا ہوگا۔”
”تم نے بہت اچھا کیا ہے۔ مجھے تم سے ایسی ہی توقع تھی۔” منیزہ آگے بڑھ کر امبر کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”ہارون جیسا آدمی اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ اس گھر میں آتا جاتا۔ یا تم سے ملتا۔” منیزہ کہنے لگیں امبر خاموشی سے کچھ سوچتے ہوئے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ اس نے ہوں ہاں میں بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
”اگر آئندہ تمہارا کہیں اس سے آمنا سامنا ہو بھی، تب بھی تم اس سے بات مت کرنا اور نہ ہی اس سے ملنے کی کوشش کرنا۔” منیزہ نے مزید ہدایت دی۔ امبر اب بھی خاموش تھی۔ صبغہ کمرے کے وسط میں کھڑی امبر کے چہرے کو بدستور دیکھ رہی تھی۔
اس کے چہرے پر عجیب سا اطمینان تھا۔ صبغہ نے ایسا اطمینان پہلے صرف ایک بار اس کے چہرے پر دیکھا تھا۔ تب، جب ہارون نے کلینک میں آنا شروع کیا تھا اور امبر نے روز اس کا انتظار کرنا شروع کر دیا تھا۔
”میں اپنا برا بھلا جانتی ہوں ممی! میں چھوٹی بچی نہیںہوں۔” امبر نے بہت دیر بعد بالآخر اپنی خاموشی کو توڑا۔
”میں جانتی ہوں کہ تم چھوٹی بچی نہیں ہو اور اپنا برا بھلا جانتی ہو۔ مگر دنیا بہت خراب ہے امبر! اور ہارون کمال جیسے لوگ…” امبر نے منیزہ کی بات کاٹ دی۔
”آپ میرے سامنے صبغہ کی زبان میں بات نہ کیا کریں۔” اس کا لہجہ ا کھڑا تھا۔
”میں بھی لوگوں کو پہچانتی ہوں۔ آنکھیں بند کر کے لوگوں سے نہیں ملتی۔”
”مگر ہارون جیسا آدمی…” امبر نے ایک بار پھر منیزہ کی بات کاٹی۔
”ہارون اتنا برا بھی نہیں ہے جتنا آپ اسے سمجھتی ہیں۔” منیزہ چند لمحے کچھ بول نہیں سکیں۔ انھیں امبر کے منہ سے کم از کم اس وقت ہارون کی حمایت میں کچھ بھی کہنے کی توقع نہیں تھی۔ بے اختیار انھوں نے صبغہ کو دیکھا وہ اسی طرح کھڑی چبھتی ہوئی نظروں سے امبر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے جملے نے کم از کم صبغہ کو حیران نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے منہ سے کسی ایسے ہی جملے کی توقع کر رہی تھی۔
”تم اب بھی اس آدمی کی حمایت کر رہی ہو، جس نے اپنی بیٹی کے لیے تمھیں چند لمحوں میں گاڑی سے اتار دیا۔” منیزہ نے قدرے غصے سے کہا۔
ان کی بات پر امبر اس بار خفا نہیں ہوئی۔
”اس نے مجھے صرف گاڑی سے اتارا تھا۔ زندگی سے نہیں نکالا تھا۔” وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
”اور پھر اس نے معافی بھی مانگ لی ہے۔” اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ”صرف گاڑی سے اتار دینا تو ایسا جرم نہیں ہے، جسے انسان معاف ہی نہ کر سکے۔ میں نے اسے معاف کر دیا ہے۔”
”اپنی بے عزتی کروا کر بھی…” امبر نے ایک بار پھر منیزہ کی بات کاٹ دی۔
”میری بے عزتی میرا مسئلہ ہے اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔” وہ جھنجھلا کر بولی۔
”اور اگر میں نے ہارون کو معاف کر دیا ہے تو پھر آپ کو اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔”
منیزہ کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹ لیں۔ اس کے بارے میں صبغہ کے سارے قیاس اور خدشے صحیح ثابت ہو رہے تھے۔
”آخر تمھیں ہماری عزت کا کیوں خیال نہیں ہے۔” منیزہ کو یک دم اشتعال آیا۔
”تم کیوں اس آدمی سے ملنا نہیں چھوڑ سکتیں؟”
”کیونکہ میں اس آدمی سے محبت کرتی ہوں۔” اس بار امبر نے کسی لحاظ کے بغیر کہا۔
”اور صرف میں ہی نہیں وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔”
”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے امبر!” منیزہ نے بے اختیار کہا۔
”اپنی اور اس کی عمر کا فرق دیکھو۔”
”یہ فرق پایا اور رخشی کی عمر سے زیادہ تو نہیں ہوگا۔” امبر نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”اگر ان دونوں کو آپس میں محبت ہو سکتی ہے تو پھر مجھے ہارون سے کیوں نہیں۔”
”رخشی کو تمھارے باپ کے روپے سے محبت ہوئی تھی، اور تمھارے باپ کو رخشی کی خوبصورتی سے۔ دونوں کو ہوس تھی محبت نہیں تھی۔” منیزہ نے جیسے جھلس کر کہا۔
”وجہ جو بھی ہو مگر حقیقت تو یہی ہے کہ وہ دونوں آج اکٹھے رہ رہے ہیں۔” امبر کے لہجے میں عجیب سی کسک تھی۔ اور پھر اس نے گود میں رکھا ہوا اپنا بایاں ہاتھ پلٹ کر دیکھا۔ صبغہ اور منیزہ نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔
اس کے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی میں ہیرے کی انگوٹھی چمک رہی تھی۔ ہیرا آنکھوںکو خیرہ اور عقلوں کو کند کرنے میں بے مثال ہوتا ہے۔ انگوٹھی میں جگمگانے والا ہیرا بھی یہی کر رہا تھا۔
٭٭٭
”آپ نے میرے باس سے بات کر کے میری پروموشن کروائی ہے؟” شہیر نے بے حد خشک انداز میں شائستہ سے پوچھا۔ کچھ دیر پہلے اس کے اندر امڈنے والی ہمدردی یک دم غائب ہو گئی تھی۔
”میں تمھیں بتانا نہیں چاہتی تھی مگر…” شائستہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی، شہیر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”مگر آپ کبھی نہ کبھی مجھ پر یہ احسان ضرور جتائیں گی۔”
”تم کیسی باتیں کر رہے ہو شہیر؟” شائستہ کو ایک عجیب سی چبھن کا احساس ہوا۔ وہ اس کا بیٹا تھا اور وہ اس کے فرض کو احسان قرار دے رہا تھا۔ اور اس کے لہجے میں اس کے لیے کھردرا پن تھا۔
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔” شہیر نے کہا۔ وہ اب اندازہ کر سکتا تھا کہ شائستہ نے معراج ظفر سے کس طرح اس کے انکریمنٹ اور پروموشن کی بات کی ہوگی اور کس طرح اسے یہ کام کرنے کے لیے مجبور کیا ہوگا، اور وہ یہ اندازہ بھی کر سکتا تھا کہ معراج نے اس کے اور شائستہ کے حوالے سے… کیا کچھ نہیں سوچا ہوگا اور وہ لمحوں میں ان کی نظروں سے گرا ہوگا اور ان تمام خیالات کا احساس شہیر کو مشتعل کر رہا تھا۔
”آپ ابھی اور اسی وقت گاڑی روک دیں۔” اس نے بے حد ترشی سے کہتے ہوئے گاڑی کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔
”شہیر! میری بات سنو… میں…” شائستہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”میں نے آپ سے کہا ہے گاڑی روکیں۔” اس بار شہیر کا لہجہ پہلے سے زیادہ ترش اور اس کی آواز بہت بلند تھی۔
شائستہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی گاڑی سڑک کے کنارے روک دی۔ گاڑی رکنے کے باوجود شہیر دروازہ کھول کر اتر نہیں سکا۔ شائستہ نے گاڑی کے دروازے کو لاک کیا ہوا تھا۔
”اسے کھولیں۔” شہیر نے اپنی طرف سے دروازہ کھولنے پر ناکام رہنے پر کہا۔ اس کا لہجہ بدستور اکھڑا ہوا تھا۔
”شہیر! میں نے یہ سب کچھ صرف اس لیے…” شہیر نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔
”صرف اس لیے کیا ہے کیونکہ مجھے دیکھ کر آپ کو اپنا بیٹا یاد آتا ہے۔” اس نے صاف صاف کہا۔
”اور اگر ایسا ہے تو یہ آپ کا قصور ہے میرا نہیں۔” شائستہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آپ مجھے پوری دنیا میں تماشا بنا کر رکھ دیں۔”
”میں تمھیں تماشا بناؤں گی؟” شائستہ نے جیسے بے یقینی سے کہا۔
”تو آپ اور کیا کر رہی ہیں؟” شہیر نے کہا۔ ”آپ کو احساس ہے کہ آپ کی اس فیور نے مجھے میرے آفس میں کس قدر شرمندہ کر کے رکھ دیا ہے۔”
”شہیر! تم”
”میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔” شہیر نے شائستہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”کیونکہ آپ کی بیٹی میرے بھائی کی دوست ہے۔ مگر جو کچھ آپ کر رہی ہیں…”
”میری نیت پر شبہ مت کرو۔” شائستہ نے لجاجت سے کہا۔
”تو کیا کروں۔ آپ یہ بات کیوں نہیں سمجھتیں کہ آپ کے ایک خیال کی بنیاد پر میں آپ کا بیٹا نہیں بن سکتا، اور نہ ہی آپ کی فیور کی وجہ سے میرے اور آپ کے درمیان موجود آشنائی کسی رشتے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔” وہ بے حد بے رحمی سے کہنے لگا۔ شائستہ نے اپنے ہونٹ کاٹے۔ اس کا دل چاہا، وہ چیخ چیخ کر اس سے کہے کہ وہ اس کا بیٹا ہے، اور کسی تصدیق کے بغیر بھی ان کا یہ رشتہ ایسا ہی رہے گا۔
”میں دوبارہ آپ سے ملنا نہیں چاہتا۔ اب دروازہ کھول دیں ورنہ میں کھڑکی کا شیشہ توڑ دوں گا۔” شائستہ نے بٹن دبا کر دروازہ کھول دیا۔ شہیر ایک جھٹکے سے کچھ کہے بغیر گاڑی سے نکل گیا۔ شائستہ نے اس کی پشت کی طرف دیکھا۔ ایک آگ نے سر سے پاؤں تک اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
وہ اس کا بیٹا تھا اور وہ کسی اور عورت اور کچھ مصنوعی رشتوں کی خاطر اس سے بھاگ رہا تھا۔ اس سے نفرت کا اظہار کر رہا تھا۔
شائستہ ہارون کمال چٹکی بجاتے ہی اپنی پسندیدہ چیز اپنی مٹھی میں بند کر لینے کی عادی تھی اور اب اس کے سامنے اس کا بیٹا اتنے سالوں بعد آیا تھا، اور اس سے بھاگ رہا تھا۔ اس نے پچھلے کئی سال اس کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنی راتوں کی نیندیں خراب کی تھیں اور اب جب وہ اس کے سامنے آیا تھا تو۔
اس نے سڑک پر چلتے شہیر کو دیکھا۔ اس لمحے گاڑی میں بیٹھے اس کو اس عورت اور اس گھر سے بے تحاشا نفرت محسوس ہوئی جس گھر میں شہیر ثوبان سمیع رہتا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!