’’اتنا سب کچھ ہو گیا آہ؟‘‘ممتحنہ گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے امی ابو کے بیڈ روم میں چلی گئی اور انہیں سب کچھ بتانے لگی۔عنایہ بیگم کے تو حواس ہی گم ہوگئے۔
’’ہونہہ۔پر ایک کام بہت اچھا ہوا۔شوٹنگ ایک ماہ کے لیے ملتوی ہوگئی۔ اب کم از کم برہان کا سامنا اس سے نہیں ہوگااور نہ میرا۔‘‘ وہ عنایہ بیگم کے پاؤں دبانے لگی۔
’’چلو یہ تو اچھا ہوا۔ویسے یہ حیال طاہر کس قسم کی عورت ہے ،توبہ توبہ! عورتوں کو بدنام کر دیا ہے اس نے۔‘‘عنایہ بیگم حیال سے گھن کھانے لگیں۔
’’بیٹا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ایک دو ہفتوں میں تم دونوں کا نکاح کر دیں۔‘‘حارث جو ابھی تک خاموشی کے ساتھ سب سن رہا تھا،گویا ہوا۔
’’جیسے آپ کی مرضی۔میں برہان کو بتا دوں گی۔‘‘وہ حار ث اور عنایہ کو شب بخیر کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
’’آپ کے فیصلے سے مجھے کوئی اعتراض نہیں،پر اتنی جلدی نکاح؟کیوں حارث؟‘‘حار ث نے فیصلہ عنایہ بیگم سے پوچھ کر نہیں کیا تھا،شاید یہ فیصلہ اس نے کچھ ہی دیر پہلے کیا تھا۔
’’منگنی ایک سماجی رسم ہے اور نکاح ایک شرعی رسم۔اگر ہم اس سماجی رسم کو شرعی رسم کا لباس پہنا دیں، تو مجھے یقین ہے کہ ہماری بیٹی کی زندگی میں اس طرح کے مسائل نہیں آئیں گے۔‘‘ عنایہ بیگم کو حارث کی بات بالکل بجا لگی۔
٭…٭…٭
وہ عشا کی نماز کے بعد اپنے کمرے کی گیلری میں بیٹھی برہان کے فون کا انتظار کرنے لگی۔
’’سوئی نہیں ابھی تک؟‘‘بالآخر اس کا فون آ گیا۔
’’نہیں۔ ابھی تو بس نماز سے اٹھی ہوں۔ آپ بتائیں مرہم پٹی کروالی؟‘‘وہ چھوٹتے ہی برہان کی خیریت دریافت کرنے لگی۔
’’جی کروالی۔‘‘وہ اپنے ہاتھوں میں بندھی پٹی دیکھنے لگا۔
’’گڈ… برہان میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتی ہوں۔‘‘وہ جو ابھی تک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی،کھڑی ہو کر ہواؤں کو محسوس کرنے لگی۔
’’ابو چاہ رہے ہیں کہ اگلے دو ہفتوں میں ہمارا نکاح ہو جائے۔‘‘وہ اپنی منگنی کی انگوٹھی کو دیکھنے لگی جسے وہ ہمیشہ پہنے رکھتی۔
’’زبردست۔ میں بھی ابھی یہی سوچ رہا تھا۔سنا ہے نکاح میں بڑی طاقت ہوتی ہے،کیوں کہ اس میں گواہوں سے زیادہ خدا کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔‘‘وہ بھی اپنے کمرے کے ٹیرس پر آ گیا۔
’’ہونہہ… وہ تو ہے۔‘‘وہ سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگی،چاند کو اور چمکتے ستاروں کو۔
’’میرے گھر والے دو تین دن میں تمہارے گھر آ جائیں گے ۔نکاح کا جوڑا تو میری پسند کا ہوگا۔‘‘وہ بھی ممتحنہ کی طرح آسمان پر نظریں دوڑانے لگا۔
’’جیسے آپ کی مرضی۔‘‘وہ مسکرانے لگی۔
’’اونہہ…ابھی سے روایتی بیویوں والا اسٹائل۔اب وہ والی بہادر ممتحنہ کہاں گئی جو کچھ گھنٹوں پہلے اپنی محبت کی خاطر میدان جنگ میں اتر آتی تھیں؟‘‘وہ قہقہے مارنے لگا۔
’’اچھا اب بس بھی کریں۔‘‘وہ شرمانے لگی۔
’’تم بہت اچھی ہو ممتحنہ،کچھ اتنی کہ اپنی قسمت پر رشک سا ہونے لگا ہے۔‘‘وہ چاند کو دیکھتے ہوئے اسے اپناخوش قسمت ہونابتا رہا تھا۔
’’میرے ساتھ بھی یہی حساب ہے برہان اور یہی محبت کی حقیقت ہے۔محبت میں جہاں عاشق خود کو محبوب سے زیادہ خوش قسمت سمجھتا ہے وہاں اسے اپنی قسمت پر رشک بھی محبوب سے زیادہ ہونے لگتا ہے۔‘‘وہ اسے اپنی محبت کی حقیقتوں سے آشنا کرنے لگی۔
’’میں تو تمہیں چاند سے بھی تشبیہ نہیں دے سکتا،اس پر داغ جو ہوتا ہے،پر تم میں تو کوئی خامی ہی نہیں۔‘‘وہ چاند کو بڑے غور سے دیکھنے لگا۔
’’خامیاں سب میں ہوتی ہیں برہان۔ وہ کہتے ہیں ناکہ محبت اندھا کر دیتی ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے۔محبت آنکھوں کے آگے پردہ ڈال دیتی ہے،ایک ایسا پردہ جس سے یا تو محبوب کی خامیاں نظر ہی نہیں آتیں یا وہ خامیاں بھی ہمیں خوبیاں لگنے لگتی ہیں۔‘‘اب وہ اپنے کمرے کی طرف پلٹنے لگی۔
’’کیا میں اب تمہارے خواب میں آتا ہوں؟‘‘وہ بھی اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔
’’میں نے آنکھوں کو تمہارا چہرہ دے دیا ہے،بند ہوں تو خواب میں تم،کھولوں تو ہر سو تم۔‘‘وہ سونے لگی تھی۔
’’واہ!تمہارے اندر تو شاعری کی صفت بھی موجود ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کا شعر سن کر بہت متاثر ہوا۔
’’اب آپ بھی کچھ اپنی منگیتر کی شان میں کہہ دیجیے۔‘‘وہ مسکرانے لگی۔نیند کے جھونکے بار بار اسے تنگ کرنے لگے تھے۔
’’جب سے دل تمہارے نام کر دیا ہے،اسے سانس لینے کا ہنر آ گیا ہے۔‘‘اصل شاعری تو وہ ہوتی ہے جو محبوب کو محسوس کرتے ہی زبان پر آ جائے۔ایسی شاعری کے آگے تو غالب ، میر،درد کی شاعری بھی پھیکی پڑ جائے اور ان دونوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔اپنے محبوب کی شان میں دو مصرعے کہنے کے لیے انہیں کسی مقبو ل شاعری کے سہارے کی ضرورت نہ پڑی۔
’’واہ!بہت خوب۔‘‘نیند کا غلبہ پوری طرح اس کی آنکھوں پر چھا گیا تھا۔
’’مجھے نیند آنے لگی ہے برہان،کل بات ہوگی۔‘‘ اس کی آواز سے غنودگی عیاں تھی۔
’’فون بند مت کرنا پلیز!تمہاری نیند سننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’میری نیند سن کر کیا ملے گا آپ کو؟‘‘ممتحنہ کو اچنبھا ہوا۔
’’میری نیندیں تم ہی نے خراب کی ہیں،اب اگر مجھے نیند آئے گی بھی تو صرف تمہاری نیند سن کر۔‘‘ممتحنہ نے اس کے حکم کی پاسدار ی کی۔
٭…٭…٭
اس کی آنکھ فجر کو کھلی۔ اس کی نظر جب اپنے موبائل پر پڑی تو فون بہت پہلے ہی منقطع ہو گیا تھا۔اسے سمجھ آیا کہ اگر کال ایک گھنٹے سے زیادہ کی ہو جاتی ہے تو خود ہی کٹ جاتی ہے۔وہ وضو کرکے کمرے میں آئی اور نماز کی نیت باندھ لی۔
آج نماز میں اسے محبت کے فرض سے قضا ہو جانے کابالکل بھی ڈر نہیں تھا، آج تو کچھ اور ہی ڈر تھا اس کے ذہن و دل میں۔ برہان سے بہت دور جانے کاڈراور اس ڈر نے تو اسے صحیح طرح نماز بھی نہ ادا کرنے دی۔ اللہ اللہ کر کے اس نے دو سنتیں اور دو فرض ادا کیے اور اس ڈر کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔
’’میرا ہاتھ دعاکے لیے جب بھی اٹھتا ہے،اس کا نام میرے دل سے اٹھ کر میری زبان تک خود بہ خود چلا آتا ہے،یا اللہ ہماری محبت کو سدا سلامت رکھنا۔مجھے یہ ڈر کیوں لگ رہا ہے کہ میں اس سے جدا ہونے والی ہوں؟یا اللہ تو مجھے اس سے الگ تو نہیں ہونے دے گا نا؟‘‘وہ بے تحاشا رونے لگی،اونچی آواز کے ساتھ۔
اگر کسی کو پایا ہی نہیں ہو تب اس کے کھونے کا ڈر اتنا نہیں ہوتا جتنا کے اسے پانے کے بعد خود سے دور جاتا دیکھنے کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ روتے روتے سجدہ ریز ہو گئی۔
’’میں اس سے جدا ہو کر اسے مارنا نہیں چاہتی اور نہ میں اس کو خود سے جدا ہوتا دیکھ کر جینا چاہتی ہوں، تو جو بھی کرنا اللہ، ہمارے دلوں کے حق میں بہتر کرنا،بے شک تو ہمارے دلوں کے حال سے واقف ہے۔‘‘روتے ہوئے اس کی زبان سے صحیح طرح الفاظ بھی ادا نہیں ہو رہے تھے،پر ایک ذات تھی جو اس کی ہر ادا کو سمجھتی تھی۔
’’میں نے اپنی محبت کو تیرے آسرے پر چھوڑا ہے اور جانتی ہوں کہ تو بہترین محافظ ہے۔‘‘وہ اپنی محبت کو اللہ کے حوالے کرتے ہوئے برہان کو اپنے دل کے حوالے کرنے لگی جو ہاتھ اٹھتے ہی اس کے دل سے نکل کر اس کی زبان پر آ گیا تھا۔
٭…٭…٭
’’کیا بات ہے،زندگی میں پہلی بار تمہیں لال رنگ اوڑھے دیکھ رہی ہوں،کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘وہ نرسری پہنچی ہی تھی کہ زارا کی نظر اس پر ٹھہر سی گئی۔
’’آج گلاب پر لیکچر دینا ہے،بس یہ خاص بات ہے اور ہاں!آج ہمیں لوکیشن پر بھی جانا ہے،فلورل ارینجمنٹ کے لیے ،فائیو اسٹار ہوٹل۔‘‘لال رنگ اوڑھنے کی وجہ لوکیشن پر جانا نہیں تھا،گلاب پر لیکچر دینا تھا۔
’’واہ!کیا خبر دی ہے آپ نے مس فلورسٹ۔بہت عرصہ ہو گیا لوکیشن پر گئے ہوئے۔‘‘زارا لوکیشن پر جانے کے لیے پرجوش ہو گئی۔
’’Oh shit!۔میں تو تم سے پوچھنا ہی بھول گئی کہ کل کیا ہوا۔بتاؤ؟‘‘اور زارا کے پوچھنے پر اس نے پچھلے دن کا سارا واقعہ سنا ڈالا۔
’’یہ تو بہت بڑا سین ہو گیا،پر شکر خدا کا کچھ برا نہیں ہوا۔جو بھی ہوا تم دونوں کے حق میں بہتر ہوا۔‘‘وہ اس کے ساتھ مل کر پھول چننے لگی۔
’’ہمارے حق میں تو بہترہوا،پر یہ نہیں پتا کہ ہماری محبت کے حق میں بہتر ہوا یا نہیں۔‘‘وہ پھول چنتے چنتے گہری سوچوں میں پڑ گئی۔
’’تم دونوں کے حق میں بہتر ہویا تم دونوں کی محبت کے حق میں،بات ایک ہی ہے۔جلد ی جلدی ہاتھ چلاؤ آج تو بہت مصروف دن گزرنے والا ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کا ذہن ڈائیورٹ کرنے لگی۔
٭…٭…٭
’’مشہور و معروف پاکستانی اداکارہ حیال طاہر اپنی آنے والی فلم کی شوٹنگ کے سیٹ پر آگ میں جھلس گئیں۔اداکارہ کی حالت خطرے سے باہر ہے۔سننے میں یہی آیا ہے کہ اداکارہ کو آگ سے باہر نکالنے والے خود برہان ندیم تھے،جو ان کی فلم میں ان کے ساتھ مرکزی کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔اس ان ٹائٹلڈ فلم کے ہدایت کار محمود علی کے مطابق حیال طاہر کی موجودہ صورت حال کے باعث فلم کی شوٹنگ ایک ما ہ کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔‘‘تزین سوشل میڈیا پر وہ خبر دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی۔
’’مائی گاڈ! برہان کو پانے کی ایک ناکام کوشش۔‘‘وہ ٹھنڈی آہ بھرتی اپنے گھر سے ہسپتال کی جانب نکل پڑی۔
’’ Are you in your sense?۔تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ تم خود کو آگ میں جلا دو گی اور ممتحنہ محبت میں جیلس ہو کر خود کو برہان سے الگ کر دے گی؟یہ کیا بچپنا تھاحیال؟ I am asking you۔‘‘ وہ حیال کے پاس پہنچتے ہی اسے ٹھیک ٹھاک سنانے لگی۔
’’صحیح کہہ رہی ہوتم۔بچپنا ہی تھا میرا۔اب تو کچھ بڑا ہی کرنا پڑے گا۔بس کچھ ہی دن اور پھر دیکھنا میں اس دو کوڑی کی فلورسٹ کا کیا حال کرتی ہوں۔‘‘وہ بستر تک آ چکی تھی پر اس کی نیت اسے قبر میں جانے کا راستہ دکھا رہی تھی۔
’’تم ممتحنہ کو مار بھی دو ،وہ پھر بھی اُسی کا رہے گا۔‘‘وہ اسے دھمکی دینے لگی۔
’’پر وہ تو اس کی نہیں رہے گی نا؟‘‘وہ مسکرانے لگی۔
’’تم پتھر دل بن چکی ہو حیال،کیا تمہیں اتنا سا بھی فرق نہیں پڑتا؟‘‘تزین کا بس نہیں چلا کہ وہ کھینچ کر ایک تھپڑ مارتی۔
’’پتھر دل بن ہی چکی ہوں تو فرق پھر کیسے پڑ سکتا ہے؟‘‘وہ اٹھ کر پانی پینے لگی۔
’’میں تم سے آج اور اسی وقت اپنی دوستی ختم کرتی ہوں۔ میرا برے لوگوں سے ضرور واسطہ پڑسکتا ہے پر تم جیسی شیطان سے اب میں کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتی۔Get well soon!۔‘‘ اور پھر تزین بھی چلی گئی۔
’’ممتحنہ کو تم سے الگ کرتے کرتے چاہے پوری دنیا ہی کیوں نا مجھ سے الگ ہو جائے،میں نہیں رکوں گی۔‘‘وہ تزین کے ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد اپنے آپ سے کہنے لگی۔
٭…٭…٭
زارا آرڈرز پہنچانے ڈرائیو ر کے ساتھ گئی تھی۔آج اس نے اپنی نرسری کا لان ہر رنگ کے گلاب سے سجا دیا۔ لال، گلابی،نارنجی،پیلا،غرض ہر رنگ کا گلاب موجود تھا۔وہ سرخ لان کی فراک زیب تن کیے ہوئے تھی۔اس نے اپنے بال کھول لیے یہ سوچنے کے بعد کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی لیکچر کے شروع ہوتے ہی منگیتر صاحب کے درشن ہو جائیں گے۔کھلے ہوئے بالوں کی اس نے پونی باندھ لی اور پونی کے ساتھ ایک لال گلاب گھسا لیا۔
’’آج بھی راستہ بھول گئے تھے؟‘‘اس نے برہان کے بارے میں سوچا ہی تھا کہ وہ حاضر ہو گیا۔
’’نہیں،اب تو یاد ہو گیا ہے۔‘‘ممتحنہ کے سوال کا جواب اس نے بڑی چالاکی سے دیا۔
’’مجھے لال رنگ بہت پسند ہے۔پر مجھے آج سے پہلے یہ رنگ کسی پر بھی اچھا نہیں لگا۔پری لگ رہی ہو۔‘‘لال جوڑے میں ملبوس ممتحنہ پر سے اس کی نظریں ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
’’بہت شکریہ۔‘‘وہ ممتحنہ کے ساتھ مل کر کرسیاں سیٹ کرنے لگا۔
’’مجھے اب تک صرف نظر اتروانا آتی تھی،اپنی امی سے،پر تمہارے ساتھ رہ کر میں نظر اتارنے کا ہنر بھی سیکھ لوں گا۔‘‘فی الحال لال مرچیں نہیں تھیں۔ وہ سورۃ فلق اور سورۃ الناس پڑھ کر اس پر پھونکنے لگا اور اس کی آنکھوں میں لگے کاجل سے تھوڑا سا کاجل اپنی انگلی میں لیتا اس کے کان کے پیچھے لگانے لگا۔
’’میں پچھلے کئی لیکچرز سے نوٹ کر رہا ہوں،تم لیکچرز کی ویڈیو ریکارڈ نہیں کرتیں اور تمہاری گل لہمی والی ویڈیو بھی یو ٹیوب سے کہیں غائب ہو گئی ہے۔‘‘اسٹوڈنٹس آنا شرو ع ہو گئی تھیں۔
’’جب سے آپ مجھے ملے ہیں،تب سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سب مجھے نہیں کرنا چاہیے۔ ویڈیو کا غلط استعمال بھی ہوسکتاہے اور نہ اب میرا دل ہی کرتا ہے۔‘‘ممتحنہ کے جواب پر وہ بہت خوش ہوا اور کھل کر مسکرانے لگا۔
’’تم بہت اچھی ہو ممتحنہ۔تم پر دنیاجہان کے تمام پھولو ں کی خوب صورتی،سادگی اور نزاکت آکر ٹھہر سی گئی ہے،ہمیشہ ایسے ہی کھلتی رہنا،کبھی نہ مرجھانا۔‘‘وہ ممتحنہ کو اسٹوڈنٹس سے سلام دعا کرتا دیکھ کر دل میں اس کی توصیف کرنے لگا۔
’’السلام و علیکم دوستو! آپ سب ہی کو پتا ہوگا کہ آج کون ساپھول ہماری محفل کا موضوع بننے والا ہے؟‘‘سب کی نظریں اپنے اردگرد سجے گلاب پر پڑیں۔
’’گلاب۔‘‘سب نے یکجا ہو کر بولا۔
’’جی بالکل صحیح کہا۔گلاب،جو انگلینڈ کا قومی پھول ہے۔اسے انگریزی میں روز (Rose) کہتے ہیں جو کہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’لال‘ یا ’گلابی‘ ۔اس کے مطلب سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ پایا جانے والا گلاب لال یا گلابی رنگ کا ہوتا ہے۔‘‘لیکچر کی ابتدا اس نے گلاب کی ابتدائی معلومات سے کی۔
’’اس سے پہلے کہ میں آپ سب کو اس پھول کی علامات بتاؤں،میں چاہتی ہوں کہ آپ سب کوئی بھی رنگ کا گلاب توڑ لیں،دیکھتے ہیں کہ کس کے گلاب کا مطلب کیا ہے۔‘‘ممتحنہ کے کہتے ہی سب اپنے پسندیدہ رنگ کا گلاب توڑنے لگے پر برہان نے اس رنگ کا گلاب توڑا جسے کسی نے ہاتھ بھی نہ لگایا تھا۔ کالا گلاب۔
’’برہان، کالا توڑنا ضروری تھا؟آج میرے بالوں میں لگا گلاب نظر نہیں آیا آپ کو؟‘‘وہ دل ہی دل میں مایوس ہونے لگی پر اس کی مایوسی کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔
’’گلاب کو پھولوں کے بادشاہ کے ساتھ ساتھ پھولوں کی رانی بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ صرف بادشاہوں والی خوبیوں کی علامت ہے جیسے شان و شوکت،بلند مرتبہ اور طاقت بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ رانیوں والی خوبیوں کی بھی علامت ہے جیسے کہ خوب صورتی اور سادگی۔‘‘برہان کے ہاتھ میں اس کالے گلاب کو دیکھ کر ممتحنہ کا دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ اپنا لیکچر جاری رکھے۔
’’سب سے پہلے آتے ہیں لال گلاب کی طرف، یہ محبت کی علامت ہے اور محبت کے ساتھ ساتھ رومانس،خوب صورتی اور بہادری کی بھی۔اگر آپ کسی سے آئی لو یو کہنا چاہتے ہیں، تو آپ اپنی زبان کھولے بغیر اسے لال گلاب تھما سکتے ہیں،‘‘اس نے سب سے پہلے اپنی فلورل بکٹ میں سے لال گلاب نکالا۔
’’اب آتے ہیں پنک یعنی گلابی گلاب کی طرف۔یہ گلاب عام طور پر ’تھینک یو‘ کہنے کے لیے دیا جاتا ہے یا اگر آپ کسی کو ایڈمائر کرتے ہوں یا کسی کو اس کے اٹھائے گئے اچھے قدم پر اس کی قدردانی کرنا چاہتے ہوں تو گلابی گلاب آپ کے کام کا ہے۔‘‘ا ب اس کے ہاتھ میں گلابی رنگ کا گلا ب تھا۔
’’اب باری آتی ہے پیلے گلاب کی اور پیلا گلاب علامت ہے دوستی کی،خوشیوں کی،ایک نئی شروعات کی اور یہ جیلسی کی بھی علامت ہے۔‘‘
’جیلسی‘ کا لفظ زبان پر آتے ہی وہ دونوں ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے دیکھنے لگے۔پر وہ اب بھی اس کے ہاتھ میں کالے گلاب کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہی تھی۔
’’اے خدا، میرے والے گلاب کا نمبر کب آئے گا؟‘‘اسے انتظار تھا تو صرف اپنے کالے گلاب کا مطلب جاننے کا۔
’’اب باری ہے میرے پسندیدہ سفید گلا ب کی۔سفید گلاب علامت ہے پاکیزگی کی،انوسینس یعنی بے گناہی کی، سکون کی ،احترام کی اور اگر آپ کسی سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ اس کے لائق ہیں تو یہ سفید گلاب بہترین ذریعہ ہے یہ کہنے کا۔‘‘اس نے سفید گلاب بکٹ سے نکالتے ہوئے اس کی تشریح کر دی اور اب باری تھی اس رنگ کے گلاب کی جو وہ اوّل سے ہی اپنی بکٹ سے نہیں نکالنا چاہ رہی تھی پر بالآخر اسے نکالنا ہی پڑا۔
’’شکر! میرے گلاب کا بھی نمبر آیا۔‘‘
’’اب باری ہے کالے گلاب کی۔یہ علامت ہے م…مو…موت کی۔‘‘ برہان کو شاک لگ گیا اور وہ کچھ پل کے لیے سکتے میں آ گیا۔
’’یہ گلاب کسی کے مرنے پر،ج…جنا…جنازے پر…‘‘اب وہ آگے مزید کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔برہان کو ہوش آیا تو اس نے ممتحنہ کو روتے ہوئے دیکھا۔اس نے فوراً سے وہ منحوس گلاب پھینک دیا۔اس سے پہلے کہ وہ ممتحنہ کے پاس جاتا، ممتحنہ خود روتے ہوئے اس کے پاس آنے لگی۔
’’برہان آپ نے کیوں اس رنگ کے گلاب کا انتخاب کیا؟مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ وہ برہان کے قریب آتے ہی اس کے گلے سے جا لگی۔اسے اس وقت کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کر رہی ہے بس اسے اس وقت ایک ہی بات سمجھ آئی اور وہ یہ کہ فجر کے وقت والا ڈر اسے کالے گلاب کی شکل میں سچ ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
برہان کو محسوس ہونے لگا تھا کہ ممتحنہ نے اس کالے گلاب کے مطلب کو دل پر لے لیا ہے۔
’’مت ڈرو۔میں تمہارے پاس ہوں اور ہمیشہ پاس ہی رہوں گا۔‘‘ممتحنہ کو جب ہوش آیا تو اس نے فوراً سے خود کو برہان سے دور کر لیا۔
’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘وہ اسے کرسی پر بٹھانے لگا۔اسٹوڈنٹس ابھی تک وہیں موجود تھیں۔برہان کے کہنے پر وہ بھی وہاں سے روانہ ہونے لگیں۔
’’میں ٹھیک ہوں۔شاید کچھ زیادہ ہی دل پر لے گئی تھی اس کالے گلاب کے مطلب کو۔‘‘وہ آنسو پونچھ کر مسکرانے لگی اور سب کچھ سچ ہو گیا۔
’’اگر کالا گلاب میرے ہاتھ لگا، تو اس کا مطلب ہرگز وہ نہیں ہوا جو تم نے سوچا ہے،یہ محض ایک اتفاق تھا۔‘‘وہ اسے سمجھانے لگا اور اتنے میں زارا بھی واپس آ گئی۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔میں جذباتی ہو گئی تھی۔‘‘وہ زارا کو اپنے پاس آتا دیکھ کر مسکرانے لگی۔
’’اچھی لگ رہی ہو۔لگتا ہے گھر سے ہوتے ہوئے آئی ہو۔‘‘زارا کے بدلے لباس کو دیکھ کر ممتحنہ نے اندازا لگایا۔
’’ہونہہ۔آج ہمیں لوکیشن پر جو جانا ہے۔‘‘وہ لوکیشن پر جانے کے لیے کافی ایکسائیٹڈ تھی۔
’’ممتحنہ نے بتایا تھا مجھے،کب نکلو گے تم لوگ؟‘‘برہان ان دونوں کو ڈراپ کرنے کے موڈ میں تھا۔
’’ہم بس نکلنے ہی والے ہیں تھوڑی دیر میں۔‘‘زارا بھی چاہنے لگی کہ برہان انہیں ڈراپ کرے۔
’’تو پھر ٹھیک ہے۔میں تم دونوں کو وہاں تک ڈراپ کر دوں گا۔‘‘
’’کوئی ضرور ت نہیں ،ہم چلے جائیں گے۔‘‘ممتحنہ ساتھ جانے سے منع کرنے لگی۔
’’اس کا انکار تھوڑی ہی دیر کا ہے برہان بھائی،میں دو منٹ میں چائے بنا کر لاتی ہوں،پھر نکلتے ہیں۔‘‘وہ ممتحنہ کے سر پر چپت لگاتی ہوئی نرسری کے کچن کی طرف چلی گئی۔
٭…٭…٭
’’السلام و علیکم حیال صاحبہ۔طبیعت ٹھیک ہے اب آپ کی؟‘‘آج حیال ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والی تھی۔نمیر علی اس کی خیریت دریافت کرنے پیلے گلابوں کا گلدستہ لیے آپہنچا۔
’’طبیعت خراب ہی کب ہوئی تھی؟وہ تو بس خبروں میں آنے کے لیے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے لیے دو دن ہسپتال رہنا پڑا۔‘‘وہ ہنسنے لگی۔
’’ویری گڈ۔ویسے آپ کے اس منصوبے نے آپ کو کتنا فائدہ پہنچایا اس بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا،مگر پورے سوشل میڈیا کو اس بات پر شک ہونے لگا ہے کہ برہان ندیم منگنی شدہ ہو کر اپنی کواسٹار کے ساتھ چکر چلا رہے ہیں۔‘‘وہ اسے خوش خبری سنانے لگا۔
’’جانتی ہوں اور آج جب میں ہسپتال سے باہر نکلوں گی، میڈیا والے اپنے اپنے کیمرے اور مائیک لے کر میرے اردگرد کھڑے ہو جائیں گے اور جب وہ مجھ سے پوچھیں گے کہ مس حیال،کیا آپ اپنے کو اسٹار برہان ندیم کے ساتھ ری لیشن میں ہیں تو تم سوچ سکتے ہو کہ میرا کیا جواب ہوگا؟‘‘وہ اس کے ہاتھ پر تالی مارنے لگی۔
’’زبردست۔ویسے حیال صاحبہ آپ نے مجھ سے جو کام کہا، وہ میں نے کیا۔اب آپ کو بھی اپنا وہ کام کرنا ہوگا جس کا مجھ سے وعدہ کیا۔‘‘وہ بغیر ہچکچائے اپنی بات اس کے سامنے رکھنے لگا۔
’’میں نے بیگ صاحب سے بات کی ہے اور انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ میں جس کا بھی نام لوں گی وہ اسے اپنے اگلے پراجیکٹ میں کاسٹ کریں گے۔ بس اب تم مجھ پر ایک احسان کر کے میرا آخری کام کر دو۔‘‘ وہ کچھ سوچنے لگی۔
’’اور یہ کام کس دن ہوگا؟‘‘نمیر نے طے کر لیا تھا کہ یہ اس کا آخری کام ہوگا پھر حیال کو اس کا پہلا اور آخری کام کرنا ہی ہوگا،اسے ایک میگا پراجیکٹ دلانا ہی ہوگا۔ورنہ وہ پورے شوبز میں اس کو بدنام کر دے گا۔وہ اس کی کہی ہر بات ہر فون کال ریکارڈ کر تا تھا اور اس بار بھی وہ کر رہا تھا۔وہ ایک چالاک اداکار تھا۔سیف سائیڈ پر رہ کر اپنا ہر کام کر تا تھا۔اچھا یا برا۔
’’ابھی تم کچھ دنوں تک پر سکون رہو۔یہ کام ممتحنہ کے نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے ہوگا۔‘‘ اس نے اسے اس کام کے بارے میں نہیں بتایا پر اتنا ضرور بتا دیا کہ وہ کام اسے کب کرنا ہے۔
٭…٭…٭