’’یہ کیا طریقہ ہے برہان؟آپ کو اپنے آس پاس لگے ہزاروں کی تعداد میں گل اشنھ نظر نہیں آ رہے؟‘‘ممتحنہ برہان کا یہ رویہ دیکھ کر تلملا سی گئی۔
’’جب سامنے محبت ہو تو نظریں اِدھر اُدھر دیکھنے کا گناہ نہیں کیا کرتیں۔‘‘وہ اس کے کانوں میں سرگوشی کرتا ہوا اس کے بالوں سے پھول چرا لے گیا۔
’’آپ سدھرنے والی قوموں میں سے نہیں ہیں۔‘‘وہ محبت میں طنز کرنے لگی۔
’’محبت چاہے سنوار دے یا برباد کر دے،عاشق دونوں صورتوں میں اسے سدھرنے سے ہی تشبیہ دیا کرتے ہیں۔‘‘وہ محبت میں فنا ہو کر سنورنے والوں میں سے تھا۔
’’یہاں تو آپ صرف کچھ ہی رنگ و اشکال کے گل اشنھ دیکھ رہے ہیں۔ دنیا میں اس پھول کی پچیس ہزار سے زائد قسمیں ہیں۔ وہ بھی ایک لاکھ سے زائد ورائٹی کے ساتھ۔‘‘ایک لاکھ کے الفاظ سنتے ہی سب دنگ رہ گئے۔
’’اچھا ہوا میں تمہیں پھولوں سے تشبیہ نہیں دیا کرتا، ان جیسے تو اور بھی دنیا میں موجود ہوتے ہیں،پھر میں تمہیں ان پھولوں سے تشبیہ دے کر محبت میں شرک کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘وہ دل ہی دل میں ممتحنہ کا مقام اٹھانے لگا۔
’’یہ کراچی جیسے شہر میں بڑی مشکل سے اگائے جاتے ہیں کیوں کہ انہیں اگانے کے لیے بہت زیادہ ہیومڈٹی(Humidity) یعنی نمی کی ضرورت ہوتی ہے تبھی یہ پھول یہاں زیادہ تر برسات کے موسم میں کھلتے ہیں۔‘‘سب کی نظریں گل اشنھ پر جم گئیں۔اس پھول کی خوشبو بہت متاثر کن تھی۔
’’اب آتے ہیں اس پھول کے سمبل یعنی علامات پر۔‘‘
وہ انہیں گل اشنھ کی علامات کے بارے میں بتانے ہی لگی کہ اتنے میں زارا بھی واپس آ گئی۔
’’السلام و علیکم ! ارے برہان بھائی بھی آئے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے اجتماعی سلام کے بعد برہان کی طرف دیکھا۔
’’وعلیکم السلام سالی صاحبہ کیسی ہو؟اور احمر کیسا ہے؟‘‘وہ تینوں احمر کانام سنتے ہی ہنس پڑے۔
’’میں ٹھیک ہوں بالکل۔میں ذرا چائے ناشتے کا دیکھتی ہوں۔‘‘وہ نرسری کے کچن کی طرف جانے ہی لگی کہ برہان نے اسے روک لیا۔
’’چائے ناشتا بھی ہو جائے گا،ابھی یہاں آ کر بیٹھو۔‘‘وہ اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا۔اس نے اپنے ہونے والے بہنوئی کی بات کی لاج رکھی اور اس کے برابر آ کر بیٹھ گئی۔
’’تو ہم بات کر رہے تھے گل اشنھ کی علاما ت کی۔یہ خوب صورت پھول علامت ہے محبت کی،خوب صورتی کی،تخیل کی اور مقنا طیس کی۔‘‘وہ بتاتی گئی اور سب لکھتی گئیں۔
’’پھر تو آپ کو یہ پھول ممتحنہ ہی کو دینا چاہیے۔‘‘زارا، برہان کے ساتھ کھسر پھسر کرنا شروع ہوگئی۔
’’ہونہہ…صحیح کہہ رہی ہو تم۔وہ میری محبت بھی ہے اور خوب صورتی کی انتہا بھی۔ اس کی وجہ سے میں تخیل میں رہتا ہوں اور اس میں ایسا مقناطیس بھی ہے جو مجھے نہ صرف اپنی طرف کھینچتا ہے اور اپنے سے دور جانے سے روکتا بھی ہے۔‘‘وہ گل اشنھ کی علاما ت کو ممتحنہ کی چند خوبیوں سے تشبیہ دینے لگا۔
’’مختلف رنگ کے گل اشنھ مختلف مطالب کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘‘اب وہ اپنے پاس رکھی فلورل بکٹ میں سے ایک ایک کرکے مختلف رنگ کے گل اشنھ نکالنے لگی۔
’’سب سے زیادہ نیلے رنگ کا گل اشنھ پایا جاتا ہے اور گل اشنھ کا نیلا رنگ انوکھے پن یا نرالے پن کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘سب سے پہلے اس کے ہاتھ میں نیلے رنگ کا گل اشنھ آیا۔
’’یہ تم پر سوٹ کر ے گا ۔تم سب سے الگ سب سے جدا ہو۔‘‘وہ دل ہی دل میں نیلے گل اشنھ کو ممتحنہ کو دینے کے بارے میں سوچنے لگا۔
’’لال رنگ کا گل اشنھ طاقت اور بہادری کی علامت ہے۔‘‘اب اس کے ہاتھ میں لال رنگ کا گل اشنھ تھا۔
’’یہ بھی شاید تم پر سوٹ کرے گا۔تمہاری محبت میں کتنی طاقت اور کتنی بہادری ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ اس بات کا اندازہ بھی مجھے بہت جلد ہو جائے گا۔‘‘
پنک یعنی گلابی رنگ کا گل اشنھ معصومیت، صنف نازک اور سادگی کی علامت ہے۔‘‘ برہان کی نظر اپنے ہاتھ میں پکڑے گلابی گل اشنھ پر پڑی،اسی رنگ کا گل اشنھ اس وقت ممتحنہ کے ہاتھ میں تھا۔
’’یہ تو صرف تم ہی پر سوٹ کرے گا۔سادگی،معصومیت اور صنف نازک،یہ سب تو تمہاری نمایاں خوبیوں میں شامل ہیں۔‘‘وہ دونوں اپنے ہاتھوں میں پکڑے گلابی گل اشنھ کو دیکھتے ہی ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور ایک دوسرے کے خیالات سے ملاقات کرنے لگے۔
’’سفید رنگ کا گل اشنھ احترام،عاجزی ،پاکیزگی اور نفاست کی علامت ہے۔‘‘اب اس کے ہاتھ میں سفید گل اشنھ تھا۔
’’تم نے تو پھولوں کا ہر رنگ اوڑھ رکھا ہے،تم پر کون کون سے رنگ کے پھول نچھاور کروں؟‘‘وہ اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتا ہوا دل ہی دل میں سوال کرنے لگا۔
’’تو بتائیے کہ آپ کون سے رنگ کا آرکڈ کس کو دیں گی اور اس خاص رنگ کے آرکڈ دینے کی وجہ؟‘‘ لیکچر ختم کرتے ہی وہ اسٹوڈنٹس سے مخاطب ہوئی۔
’’آج تو یہ سوال برہان ندیم سے ہونا چاہیے کہ وہ آپ کو کس رنگ کا گل اشنھ دیں گے اور کیوں؟‘‘اسٹوڈنٹس سے پوچھا گیا سوال اسٹوڈنٹس نے برہان کے سر ڈال دیا۔
’’ہاں برہان بھائی آپ بتائیں، ممتحنہ کو کون سے رنگ کا گل اشنھ دیں گے؟‘‘زارا کو تجسس ہوا۔
’’ہر رنگ کے گل اشنھ کی علامت تمہاری خوبیوں سے جاملتی ہے،پر فی الحال میں لال رنگ کا گل اشنھ تمہیں نہیں دوں گا۔‘‘وہ اس کی فلورل بکٹ میں رکھے ہر رنگ کے گل اشنھ اس پر نچھاور کرنے لگا، سوائے لال رنگ کے۔
وہ اپنے آپ پر برستے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر اپنا شمار خوش قسمتوں کی فہرست میں کرنے لگی۔
’’لال رنگ کیوں نہیں؟ممتحنہ تو سمجھ چکی تھی کہ برہان لال رنگ کا گل اشنھ اس پر کیوں نہیں نچھاور کر رہا پر زارا اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہی۔
’’وہ اس لیے کیوں کہ میں اس کی سادگی کی ابتدا کیا انتہا بھی دیکھ چکا ہوں، لیکن چاہتا ہوں کہ محبت میں اس کی بہادری کی بھی ابتدا اور انتہا سے آشنا ہوں۔‘‘وہ اس کی سادگی کا عاشق تو بن ہی چکا تھا، اب اس کی بہادری سے بھی ملنا چاہتا تھا۔
لیکچر ختم ہو چکا تھا۔اسٹوڈنٹس چلی گئی تھیں اور اب وہ تینوں لان میں بیٹھے بارش کے موسم سے لطف اندوز ہونے لگے۔بارش کی رفتار اب سست ہو چکی تھی اس لیے چھتری کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
زارا نے چائے ناشتا لا کر رکھ دیا۔
’’تو بتائیے برہان بھائی،کیا آج حیا ل کوئی نئی کوشش کرے گی؟ــ‘‘ چاہے اچھائی میں ہو یا برائی میں،حیال ان کی گفت گو کا موضوع بن چکی تھی۔
’’یہ تو تم ممتحنہ سے پوچھو۔‘‘وہ چائے میں کیک رس ڈبو کر کھانے لگا۔
’’میں تو یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ وہ کوشش کرے گی۔‘‘اسے بہت بھوک لگ رہی تھی، وہ پھر نگٹس کھانے لگی۔
’’کتنا یقین ہے؟‘‘برہان نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’جتنا اپنی محبت پر۔‘‘برہان کے پوچھنے پر اس نے فوراً جواب دیا۔
’’اگر اس نے کوشش نہیں کی تو؟‘‘وہ اسے گھورنے لگا اور ممتحنہ،وہ تو اس کا سوال سن کر جیسے خاموش ہی ہو گئی۔
’’ممتحنہ نے کہا ہے، تو ضرور کرے گی۔ اس کی کہی ہر بات کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔‘‘زارا نگٹس منہ میں ٹھونستے ہوئے بولی۔
’’ہونہہ۔وہ تو ہے۔‘‘زارا اور برہان ہنسنے لگے۔
٭…٭…٭
’’کل اس کا مقصد پورا نہیں ہوا تھا، آج وہ کچھ بڑا کرے گی۔‘‘برہان گاڑی چلا رہا تھا کہ اس نے ممتحنہ کو اپنے آپ سے باتیں کرتا سنا۔
’’اس کا تو پتا نہیں پر تمہیں دیکھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ آج تم بھی کچھ بڑا کرنے والی ہو۔‘‘ممتحنہ کو اپنے آپ سے باتیں کرتا دیکھ کر اسے اپنی منگیتر پر بہت پیار آیا۔
’’اگر اس نے کچھ بڑا کیا،تو میں بڑا اور برا دونوں کر دوں گی۔‘‘آج وہ پوری طرح تیار ہو کر آئی تھی۔
’’مطلب یہ ہوا کہ محترمہ کو لال گل اشنھ دینے کا وقت جلد آنے والا ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کے بدلتے رویوں سے محظوظ ہونے لگا۔ اسے اس کی سادگی تو پسند تھی ہی پر اس کا غصہ بھی اس کی سادگی کے مقابلے کا تھا۔
’’تمہاری سادگی اور تمہارے غصے سے تو واقف ہو گیا ہوں۔ اب نہ جانے اور کن کن جان لیوا خوبیوں سے تم میری ملاقات کروانے والی ہو۔‘‘وہ اسے جی بھر کر دیکھنے لگا۔
’’میری بہادری سے۔‘‘وہ برہان کے ماتھے پر آئے بال درست کرنے لگی۔
وہ لوگ سیٹ پر پہنچتے تو وہاں سب ہی پہلے سے موجود تھے۔
’’یہ توکمال ہی ہوگیا۔آج بھی ممتحنہ بھابی آئی ہیں۔Pink color really suits you‘‘ حیال، ممتحنہ کو دیکھتے ہی اس کا استقبال کرنے لگی۔
’’شکریہ۔‘‘وہ بس اتنا کہہ کر برہان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
’’برہان تمہیں یاد ہے جب میں نے ایک مرتبہ ’ میں درد اور تم‘ میں پنک رنگ کی کرتی پہنی تھی تو تم نے مجھے پریوں سے تشبیہ دی تھی۔‘‘وہ برہان کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کرنے لگی۔
’’برہان تمہارا ٹیسٹ اتنا خراب کب سے ہو گیا؟‘‘ وہ برہان کو ہاتھ مار کر دبے دبے لفظوں میں کہنے لگی۔
’’ جی بالکل کہا ہو گا پر کیا صرف پنک رنگ کے لباس میں ملبوس دیکھ کر کہا تھا؟اونہہ۔ میں تو کچھ بھی پہن لوں،یہ مجھے پری نہ صرف کہتے ہیں بلکہ پریوں کی طرح ٹریٹ بھی کرتے ہیں۔‘‘آج ممتحنہ نے اپنی کمر پوری طرح کسی ہوئی تھی۔
’’قسمت تم پر بہت مہربان ہوئی ہے جو برہان تمہیں مل گیا ورنہ آئی ایم ڈیم شیور آج وہ میرا منگیتر ہوتا، کیوں برہان؟‘‘آج حیال اسے جلا نہیں رہی تھی، ہنسا رہی تھی۔
’’نہیں ایسا بھی نہیں ہے اور قسمت تو مجھ پر مہربان ہوئی ہے ،ورنہ ایسا سادگی کا جیتا جاگتا مجسمہ مجھ جیسے گناہ گار کو کہاں نصیب ہوتا۔‘‘برہان ممتحنہ کا ہاتھ تھام کر حیال کو اپنا دل تھامنے پر مجبور کرنے لگا۔
’’دل تو چاہ رہا ہے آج جو آگ میں نے اپنے لیے لگوائی ہے اسے تمہارے نام کر دوں ،پر نہیں۔ایسا کرنے سے تم بچ تو جاؤ گی پر تم دونوں کی محبت اور بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔‘‘وہ دل ہی دل میں ممتحنہ کے بارے میں زہر اگلنے لگی۔
’’برہان چلیں شوٹ شروع ہو گیا ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کی آنکھوں کے سامنے برہان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگی۔
’’سین کچھ اس طرح سے ہے کہ تم یعنی ثمرین کچن میں برہان یعنی ارزان کے لیے چائے بنانے جاؤ گی اور ارزان اپنے بیڈ روم میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر آفس کا ورک کر رہا ہوگا۔ چولہا جیسے ہی جلے گا،کچن میں آگ لگ جائے گی اور تم جل رہی ہوگی ۔ایکسپریشنز معیاری ہونے چاہئیں کیوں کہ آگ تو لگنی ہی نہیں ہے،وہ تو ہم ایڈٹ کرتے ہوئے ہی لگائیں گے،لیکن تمہارے تاثرات ایسے ہونے چاہئیں کہ جیسے تم جل رہی ہو۔‘‘ محمود علی نے سین کے بارے میں پوری طرح ہدایت کر دی تھی۔اب صرف لائٹس، کیمرا ،ایکشن کہنے کی دیر تھی اور وہ بھی کہہ دیا گیا۔
’’کاش اصل میں ہی آگ لگ جائے کچن میں۔‘‘ممتحنہ، حیال کو دیکھ کر دل ہی دل میں اسے اوربدعائیں دینے لگی۔
’’ارزان،آپ ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں،تھک نہیں جاتے؟‘‘ارزان لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا کہ ثمرین اس کا سر دبانے آگئی۔
’’ہونہہ۔تھک تو جاتا ہوں،پر جب تمہارا لمس محسوس کرتا ہوں،تب ساری تکان دور ہو جاتی ہے۔‘‘وہ ثمرین کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’میں آپ کے لیے ادرک والی چائے بنا کر لاتی ہوں،پھر آپ دیکھیے گا تکان کس طرح دور ہوتی ہے۔‘‘وہ ارزان کا تھوڑی دیر سر دبانے کے بعد کچن کی طرف چلی گئی۔
’’جلدی آنا۔‘‘ارزان اسے جاتے دیکھ کر کہنے لگا۔
ثمرین نے کچن میں چولہا جلایا اور پورے کچن میں ’’بھڑ‘‘ کی آواز سنائی دی۔کچن میں پوری طرح آگ لگ چکی تھی۔وہ آ گ چولہے کی وجہ سے لگی تھی یا کسی حادثے کی وجہ سے،کوئی سمجھ نہیں پایا۔کچن میں لگی اصل آگ کو دیکھتے ہی محمود علی باؤلا سا ہو گیا۔
’’برہان… برہان میں مر جاؤں گی ۔یہاں آگ لگ گئی ہے۔‘‘نمیر علی کے اندر اتنی ہمت نہ تھی اسے اس خطرناک آگ میں سے باہر نکال سکے اور نہ ہی وہ اسے اس آگ سے نکالنے کی کوشش کر سکتا تھا،حیا ل نے جو منع کیا تھا۔یہ جرأت محمود علی یا کسی کیمرا مین نے بھی نہ کی۔
’’یا اللہ! میں نے دل سے بد دعا نہیں دی تھی اسے،یہ کیا ہو گیا؟‘‘وہ بھاگتی ہوئی برہان کے پاس گئی۔
’’برہان اسے بچا لو پلیز! آگ مصنوعی نہیں اصل لگ چکی ہے،وہ مر جائے گی۔‘‘وہ منتیں کرنے لگی پر برہان نے اس کی ایک نہ سنی۔
’’یہ تو اچھی بات ہے نا!دیوار خود گر جائے گی تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔اسے جلنے دو،وہ مرے گی نہیں، مگر اسے جو غرور اپنی مصنوعی خوب صورتی پر ہے،وہ ضرور مر جائے گا۔‘‘برہان کو تو جیسے حیال کی کوئی پروا ہی نہیں تھی۔
فائر بریگیڈ کو فون کیا جانے لگا پر وہ کہاں بلانے پر فوراً آ جاتے ہیں۔
’’آپ کو قسم ہے میری اسے بچا لیں۔بس اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ کو میری قسم عزیز ہے یا اپنی خوشی۔‘‘ممتحنہ کا اسے قسم دینا ہی تھا کہ وہ دوڑتا ہو ا کچن کی طرف چلا گیا۔
آگ کا سامنا بڑی مشکلوں سے کرنے کے بعد وہ حیال تک جا پہنچا جو زمین پر بے ہوشی کی حالت میں پڑی تھی۔وہ اسے گود میں اٹھا کر کچن کے باہر لاؤنج میں لے آیا۔کچن سے لاؤنج میں آنے تک کے رستے میں حیال کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔
’’ب…برہان…برہان میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔ تم سے… مجھے اپنا بنا لو۔ ت…تم جیسا چاہو گے میں و…ویسی ہی بن جاؤں گی۔ بس مجھے اپنی محبت دے دو۔‘‘وہ کھانستے ہوئے برہان سے سب کچھ کہے جا رہی تھی۔
’’تمہیں بہت خوش رکھوں گی۔ مم…ممتحنہ سے بھی زیادہ۔ بس میرے لیے اسے چھوڑ دو۔ پ…پلیز۔‘‘وہ بے ہوش ہوئی نہیں تھی بس دھوئیں کی وجہ سے اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی۔برہان اشتعال کی کیفیت میں آگیا۔اس سے پہلے کہ وہ حیال کو کھرا جواب دیتا، وہ بے ہوش ہو گئی۔
برہان جب اسے گو د میں اُٹھا کر کچن سے باہر لایا، تو اس وقت ممتحنہ بھی پاس تھی اور وہ سب کچھ سن رہی تھی جو حیال برہان کی بانہوں میں اس سے کہہ رہی تھی۔ممتحنہ کے لیے اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔
حیال کا چہرہ تھوڑا بہت جل چکا تھا۔محمود علی چھوٹی سی چوٹ پر اس کو ہسپتال لے گیا۔وہ جیسے ہی ہوش میں آئی، سب اس کے وارڈ میں آ گئے۔محمود علی بہت غصے میں تھا۔
’’یہ آگ لگی کیسے؟کیا مجھے کوئی بتانا پسند کرے گا؟‘‘وہ آگ بگولا ہو کر سب کی طرف دیکھنے لگا۔
’’چھوڑئیے نا محمود صاحب،میں ٹھیک ہوں،اب اور کیا چاہیے۔ برہان اگر تم نہ ہوتے تو میں تو مر ہی جاتی۔‘‘وہ برہان کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
وہ آگ کس نے لگوائی تھی اس بات سے محمود علی ناواقف تھا۔برہان اور ممتحنہ کو بھی یقین آ گیا تھا کہ آگ کس نے لگوائی تھی۔
’’بہر حال جو بھی ہے،میں یہاں یہ اعلان کرتا چلوں کہ چوں کہ حیال جو کہ فلم کی مرکزی اداکارہ ہے،اس کی حالت فی الحال درست نہیں ہے،اس لیے اس فلم کی شوٹنگ میں ایک ماہ کے لیے ملتوی کرتا ہوں۔‘‘وہ جج کی طرح اپنا فیصلہ سنانے لگا۔
’’م…میں بالکل ٹھیک ہوں محمود صاحب۔آپ شوٹنگ جاری…‘‘وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھی کہ محمود علی نے اسے خاموش کرا دیا۔
’’بس!میں نے فیصلہ سنا دیا ہے۔جب تک تم پوری طرح ٹھیک نہیں ہو جاتی،فلم کی شوٹنگ نہیں ہوگی۔‘‘وہ اپنا فیصلہ سنانے کے بعد وہاں سے روانہ ہوگیااور اس کے ساتھ ساتھ نمیر علی بھی۔اب صرف ممتحنہ اور برہان ہی حیال کے پاس موجود تھے۔
’’تمہیں خود کو جلا کر کیا ملا؟مجھے جلانے کا موقع؟اپنے آپ کو برہان کی حفاظت میں رکھنے کا موقع؟برہان کے ذریعے اپنے آپ کو اس آ گ سے نکلوانے کا موقع جو تم نے خود لگوائی تھی؟تمہیں سب کچھ ملا پر افسوس، وقتی طور پر۔‘‘ابھی ممتحنہ کا لیکچر ختم نہیں ہواتھا ۔ابھی تو اس نے نیت ہی باندھی تھی۔
’’تم اپنے آپ کو آگ کیا سمندر میں بھی دھکیل دو،میرا برہان تمہیں بچانے ضرور آئے گا۔ یہ عورتوں کی حفاظت کرنا اپنا فرض جو سمجھتا ہے۔ پر مت بھولنا،تم مجھے اس سے چھیننے کی صرف کوشش ہی کرسکتی ہواور آج میں تمہیں اجازت دیتی ہوں،جاؤ،جتنی چاہو کوششیں کرو،تم لاکھ کوشش کر لو حیال طاہر پر وہ مجھے اپنے دل سے نکالنے کی ایک کوشش بھی نہیں کرے گا،یہ بات تم یاد رکھنا۔‘‘ممتحنہ آج رکنے والوں میں سے نہیں تھی،وہ تو محبت کرنے والوں میں سے تھی ،جو رکتے ہیں تو بس صنم کے آگے۔
’’مجھے برہان سے چھیننا چاہتی ہو؟بہت بڑی بے وقوفی کر رہی ہو۔‘‘ممتحنہ نے بولنا ختم نہیں کیا تھا،پر برہان بھی اپنا کچھ حصہ ڈالنا چاہتا تھا۔
’’ہم تمہارے ہر عمل سے واقف ہیں اس لیے میری بات پر عمل کرو۔ ہم سے دو ر ہی رہو،کیوں کہ اگر تمہاری وجہ سے خدانخواستہ یہ پھول مرجھایا، تو میں تمہارا وہ حال کروں گا جس کے بعد نہ کبھی تم کھل سکو گی اور نہ مرجھا سکو گی۔وہ تمہارا ڈائیلاگ تھا نا کہ مر بھی جاؤں گی اور جنازہ بھی نصیب نہ ہو گا،بس وہی حال کروں گا تمہارا۔وہ اسے دھمکی دینے لگا۔حیال کی زبان سل چکی تھی۔وہ ہکا بکا رہ گئی۔
آگ سے باہر آتے ہوئے اس نے برہان سے جو کچھ بھی کہا تھا بے ہوشی کی حالت میں کہا تھااور اب وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ انہیں یہ سب آخر کیسے پتا چلا۔
’’مجھے آج پتا چلا کہ تم کس حد تک گر سکتی ہو، لیکن تم نے ابھی میری حد نہیں دیکھی،میں تمہیں گرانے کے لیے اپنی حد کو کس حد تک گرا سکتا ہوں۔ اس بات کا یہاں بستر پر لیٹ کر اندازہ ضرور لگانا۔‘‘وہ اس کی گناہ گار آنکھوں کے سامنے اس کا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے تھا۔
’’ویسے مجھے تمہاری اسٹریٹجی کچھ سمجھ نہیں آئی حیال طاہر،اتنی بچگانہ کوششوں سے ہماری محبت ختم کرنا چاہتی تھی؟تمہیں کیا لگا تم مجھے محبت میں جلا کر برہان سے لاتعلق کر دو گی؟کچھ بڑا کرو تو سمجھ بھی آئے۔‘‘وہ بستر پر لیٹی اس مریضہ کو ٹھیک ٹھاک سنا رہی تھی۔
’’تم خود کو میرے قریب کر کے ممتحنہ کو ضرور جلا سکتی ہو،تم نمیر کو ممتحنہ کے قریب کر کے مجھے ضرور جلا سکتی ہو، پر ممتحنہ اور برہان کے نکاح نامے کو نہیں جلا سکتی۔ہاں حیال، ہم نکاح کر رہے ہیں،بس کچھ ہی دنوں بعد۔ آنا مت! تم سے دیکھا نہیں جائے گا اور تمہاری حالت ہم سے نہیں دیکھی جائے گی۔وہ کیا ہے کہ ایک ساتھ دگنی خوشی کا ملنا بھی ہمارے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘وہ طنزیہ مسکراہٹ لیے اسے دیکھنے لگا۔اس سے پہلے کہ ممتحنہ اپنے حصے کی مزید بھڑاس نکالتی،وہ گویا ہوا۔
’’تم جانتی ہو میں نے ممتحنہ میں کیا دیکھ کر اسے پسند کیا؟‘‘وہ اپنا اور ممتحنہ کا ہاتھ جو مضبوطی سے تھاما ہوا تھا، اس کے چہرے کے بالکل نزدیک لے آیا۔
’’اس کی سادگی۔ وہ سادگی جو تمہارے اندر تو سرے سے نہیں۔مجھے نفرت ہے شاید اس خوبی سے جو تمہارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور وہ ہے تمہاری بناوٹ جس بندے کو سادگی سے محبت ہو وہ بناوٹ سے کتنی نفرت کرتا ہوگا۔دونوں ایک دوسرے کے متضاد جو ہیں۔کہاں ایک طرف سادگی اور کہاں دوسری طرف بناوٹ۔‘‘اس نے آخری جملہ اشاروں میں ادا کیا۔سادگی کا لفظ کہتے ہوئے اس نے ممتحنہ کی طرف اشارہ کیااور ’بناوٹ‘ کا لفظ اس نے حیال کی طرف دیکھتے ہوئے ادا کیا۔
’’جب محبت کرتے ہیں، تو پھر اس کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیتے ہیں اور میں نے اپنی محبت کا معاملہ خد ا پر چھوڑ دیا ہے،پر تم اسے برباد کرنے کی ایک بھی کسر نہ چھوڑنا،میں تمہاری کوششوں کی انتہا دیکھنا چاہتی ہوں۔جہاں تمہاری کوششوں کی انتہا ہوگی، وہیں سے ہماری ازدواجی زندگی کی ابتدا ہو گی۔‘‘برہان کی بھڑاس تھوڑی دیر کو رکی تو ممتحنہ کی باری آ گئی۔
’’ویسے شکریہ حیال۔تمہاری ناکام کوششوں نے ممتحنہ کی وفا پر میرے یقین کو اور پختہ کر دیا۔‘‘ اب وہ دونوں اس کے پاس سے ہاتھوں میں ہاتھ تھامے جانے لگے،عیادت بہت اچھی طرح کی جا چکی تھی مریضہ عشق کی۔جاتے جاتے ممتحنہ رک گئی۔
’’تم اچھی نہیں ہو پر بن ضرور سکتی ہو۔مت کوشش کرو اسے حاصل کرنے کی جو تمہارے لیے محض ایک سراب ہے۔‘‘ممتحنہ اس سے لاکھ نفرت کرتی تھی پر اس سے نفرت کرنے کی وجہ برہان سے محبت تھی ورنہ وہ بھی ایک لڑکی تھی،دوسری لڑکی کے احساسات کو سمجھنے والی۔اسے حیال سے نفرت تھی پر وہ اس کا برا نہیں چاہتی تھی۔اگر برا چاہتی ہوتی تو برہان کو اپنی قسم دے کر اسے آگ سے بنکالنے کا نہیں کہتی۔
’’اب تم مجھے سکھاؤ گی اچھے اور برے میں تمیز کرنا؟‘‘وہ جو اب تک بت بنی لیٹی تھی، زبان کھولنے لگی اور اب بھی اس ناگن کی زبان زہر ہی اگل رہی تھی۔
’’اسے اس کے حال پر چھوڑ دو ممتحنہ،جو محبت اور نفرت میں تمیزنہ کر سکے،اس کے لیے اچھے اور برے میں تمیز کرنا بھی بہت مشکل ہے۔‘‘اور وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اُسے اس کے حال پر چھوڑ کر چلے گئے۔
’’میں تمہیں اپنا نہیں بنا سکتی،جان چکی ہوں،پر میں اسے تمہارا بھی نہیں بننے دوں گی۔ یہ بات تم اچھی طرح جان لو برہان۔‘‘ان کے جاتے ہی وہ چیخ چیخ کر کہنے لگی پر اس وقت وہاں سننے والا کوئی نہیں تھا۔پر ایک ایسا شخص تھا جس کے کانوں تک اس کی آواز پہنچ چکی تھی،وارڈ بوائے۔
’’تم تو بڑی بہادر نکلیں،کہاں سے آئی یہ بہادری؟‘‘وہ گاڑی میں بیٹھتے ہی اپنی منگیتر کی بہادری کے قصیدے پڑھنے لگا۔
’’یہ بہادری آپ کی محبت کی دین ہے ویسے بھی جہاں محبت ہو،وہاں بہادری خود بہ خود اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔‘‘وہ اپنے بیگ سے موبائل نکال کر اس پر وقت دیکھنے لگی،اسے گھر کے لیے دیر ہو چکی تھی۔
’’تمہاری بہادری پر تمہیں لال گل اشنھ دینا تو بنتا ہے۔‘‘ممتحنہ کی بہادری اسے پوری طرح متاثر کر چکی تھی۔وہ اسے لال گل اشنھ کے بارے میں یاد دلا کر اسے جتانے لگا کہ وہ دوپہر والا لیکچر نہیں بھولا،اسے بتانے لگا کہ اس کا شمار عشق کے ان طالب علموں میں ہوتا ہے جو اپنے محبوب کا پڑھایا ایک ایک سبق یاد رکھتے ہیں۔
’’آپ کا لال دل اور لال عشق کافی ہے میرے لیے۔اب اور کچھ لال کی تمنا نہیں۔‘‘وہ بیگ سے چیونگم نکال کر ایک برہان کے اور ایک اپنے منہ میں ڈالنے لگی۔
’’لال گلاب بھی نہیں؟‘‘وہ اسے دیکھنے لگا۔
’’نہیں۔آپ کا لال دل اور لال عشق ،لال گلاب سے زیادہ عزیز ہے مجھے۔‘‘وہ اسے بتانے لگی کہ وہ اسے سب سے زیادہ عزیز ہے۔
’’تمہیں ایک بات پتا ہے ممتحنہ؟کسی دور میں ستاروں کے ذریعے مسافر اپنی منزلیں تلاش کیا کرتے تھے اور تم میرا ستارہ ہو،میری راہنمائی کرنا۔ اپنی روشنی ہر وقت میرے سرہانے رکھنا تاکہ اس مسافر کو بھٹکنے کا موقع ہی نہ ملے جس کا راستہ بھی تم ہو اور منزل بھی تم۔‘‘وہ اس کی چمکتی لائٹ براؤن آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔
’’جب راہنما کو مسافر سے محبت ہوجائے ،تو نہ صرف اپنی روشنی مسافر کے سرہانے رکھتا ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ ہی اپنی تمام تر روشنی کے ساتھ چلتا رہتا ہے اور پھر اس چرخ سے راہنما کو بھی مسافر کی عادت سی ہو جاتی ہے۔‘‘ گاڑی میں چلتے ائیر کنڈیشنر نے اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے کر دیے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ برہان سے کہتی،برہان نے پہلے ہی اے سی بند کر دیا اور گاڑی کے شیشے نیچے کر دیے۔
’’اپنے آپ کو میری امانت سمجھ کر اپنا خیال رکھنا۔رات بہت ہو گئی ہے اس لیے کل پرسوں چکر لگاؤں گا تمہارے گھر۔ خدا حافظ۔‘‘وہ اسے گھر کے باہر چھوڑتے ہوئے الوداع کہنے لگا۔
’’اگر میں اپنا خیال آپ کی امانت سمجھ کر رکھوں گی تو آپ بھی اپنا خیال میری محبت سمجھ کر رکھیے گا اور آپ کوئی سپر ہیرو نہیں ہیں،جو چھوٹی موٹی چوٹیں آپ کو آئی ہیں ان کی مرہم پٹی یاد سے کروا لیجیے گا۔خدا حافظ۔‘‘
٭…٭…٭