’’کسے بھول جانے کی بات کر رہی ہو؟‘‘ڈاکٹر فاخرہ نے آہستہ سے اس کی شہ رگ پر ہاتھ رکھا۔
’’برہان کو اور کسے؟‘‘اب وہ ڈاکٹر فاخرہ کی طرف دیکھنے لگی۔
’’برہان کو کیوں بھولنا چاہتی ہو ڈئیر؟‘‘ڈاکٹر فاخرہ نے اطمینان کے ساتھ اپنے ٹریٹمنٹ جاری رکھی۔
’’کیوں کہ اسے بہت چاہتی ہوں۔‘‘اب اس نے ایک گل لہمی کو توڑ کر اپنے بالوں میں پھنسا لیا۔
’’چاہتی ہو تو پا بھی لو۔وہ تو منتظر ہے تمہارے لوٹ کے آنے کا۔‘‘وہ اس کے دونوں بازوؤں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں برہان کی محبت پڑھنے لگیں،جو مری نہیں تھی،سانسیں کھینچ رہی تھی۔
’’میں اس سے شادی کر کے اسے برباد نہیں کرنا چاہتی،اس لیے چاہتی ہوں کہ وہ مجھے چھوڑ دے۔‘‘وہ مکمل طور پر نارمل ہو چکی تھی اس لیے اس کا رویہ نارمل تھا۔ وہ اب وائلنٹ نہیں ہو رہی تھی پر ذکر برہان کا آ پہنچا تھا،اب اسے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
’’تم اس سے شادی نہ کر کے اس کو اور خود کو برباد کر دو گی ممتحنہ۔خیر چھوڑو،وہ آئے یا جائے کیا فرق پڑتا ہے،ہم تو پھولوں کی باتیں کر رہے تھے نا؟‘‘ وہ اسے برہان کی یاد میں ڈبو کر اسے باہر نکالنے لگیں،تیرنے نہیں دیا انہوں نے ممتحنہ کو برہان کی یاد میں،شاید اس کے پیچھے ان کا کوئی اور ہی مقصد تھا۔
’’ہونہہ۔‘‘اسے برہان کی یادوں میں تیرنے کی ضرورت نہیں تھی،وہ تو پہلے ہی سے گہرائی میں تھی۔ڈاکٹر فاخرہ کا اسے اس کی یادوں سے دور کرنا کچھ کام نہ آیا۔
باتوں ہی باتوں میں انہوں نے وہاں رکھے گل لہمی کے گلدستے میں سے ایک گل لہمی نکال کر جان بوجھ کر زمین پر گرادیا جسے ممتحنہ نے فوراً اٹھا لیا۔
’’تم تو فلورسٹ ہو،پھولوں کے بارے میں کافی معلومات ہیں تمہاری،پھولوں کی عزت کرنا جانتی ہو،تو مجھے یہ بتاؤ کہ اگر کوئی پھول زمین پر پھینک دے،تو کیا وہ پھول پہلے جیسا رہے گا؟‘‘وہ تو ممتحنہ کے ساتھ کچھ اور ہی کھیل کھیل رہی تھیں،دو محبت کرنے والوں کو فتح سے ہم کنار کرنے والا کھیل۔
’’ہرگز نہیں!چاہے اس پھول کو کوئی خراش بھی کیوں نہ آئے،وہ پہلے جیسا نہیں رہے گا،زمین پر گر جانے کے بعد۔‘‘
’’تو کیاخیال ہے تمہارا مس فلورسٹ؟ایسے گرے ہوئے پھول کو کون اٹھانا پسند کرے گا جس میں بقول تمہارے،پہلے والی بات ہی نہ رہے؟‘‘وہ ممتحنہ کو اس پھول پر لگا گند،جو بظاہر نظر بھی نہیں آ رہا تھا،صاف کرتا دیکھنے لگیں۔
’’جو اس پھول کی عزت کرنا جانتا ہو،جسے اس پھول سے محبت ہو۔‘‘اب وہ اس گرے ہوئے پھول کو اس کا اصل مقام دینے لگی،اس کی جگہ پر اسے رکھنے لگی،پر کیا اب اس گرے ہوئے پھول میں پہلے والی بات رہی تھی؟
’’اس کا مطلب یہی ہوا کہ تم اس پھول کو ضرور اٹھا ؤ گی۔کیوں؟‘‘
’’بالکل!‘‘ممتحنہ نے شانے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ممتحنہ!عورت بھی ایک پھول کے مانند ہوتی ہے،جسے اگر زمین پر پھینک دیا جائے تو اس میں وہ بات نہیں رہتی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔‘‘ایک بار پھر انہوں نے ممتحنہ کا چہرہ اپنی جانب کیا۔
’’بالکل درست فرمایا آپ نے۔‘‘ممتحنہ ان کی بات سے پوری طرح متفق تھی۔
’’پھر تو میں یہ بھی درست کہہ رہی ہوں کہ تمہاری حالت بھی اس گرے ہوئے پھول جیسی ہے۔If you don’t mind.‘‘مخصوص سائیکاٹرک انداز ان کی گفت گو کا حصہ بن چکا تھا۔
’’ہونہہ۔‘‘اس نے اپنا سر جھکا لیا۔
’’تو تم ہی نے ابھی کہا کہ اس گرے ہوئے پھول کو وہی اٹھائے گا جو اس کی عزت،اس سے محبت کرنا جانتا ہو اور تمہیں برہان نے اٹھایا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ وہ تمہاری عزت اور تم سے محبت کرنا جانتا ہے،پھر یہ بے رخی کیوں ڈئیر؟‘‘وہ اسے ایک بار پھر جھنجھوڑنے لگیں اور ان کے جھنجھوڑنے پر ممتحنہ ایک بار پھر گہری سوچوں میں ڈوب گئی۔
’’خیر چھوڑو! بتاؤ یہ کون سا پھول ہے؟‘‘ اس سے پہلے کہ وہ یادوں میں پوری طرح ڈوب جاتی،ڈاکٹر فاخرہ اُسے کھینچتی ہوئی ایک پیلے پھول کے پاس لے آئیں۔
’’سورج مکھی،جو علامت ہے ایمان کی۔‘‘وہ اب اس پھول کو جی بھر کر دیکھنے لگی جس میں کوئی خوشبونہیں ہوتی۔
’’وہ تو ایمان لے آیا تھا تمہاری محبت پر،اس کا عقیدہ کیوں خراب کر رہی ہو؟‘‘ایک با ر پھر انہوں نے ممتحنہ کو اپنی آنکھوں میں دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
’’پر…‘‘ڈاکٹر فاخرہ کام یاب ہو چکی تھیں پر ابھی انہیں چین کہاں ملنے والا تھا؟ممتحنہ کے منہ سے برہان کے نام کا پہلا حرف ندامت سے گندھی آواز کے ساتھ سنتے ہی انہوں نے اس کا مائنڈ کہیں اور ڈائیورٹ کیا۔
’’یہ کون ساپھول ہے؟‘‘وہ اسے کالے گلاب کے پاس لے آئیں اور وہ اس کو دیکھتے ہی ایک دم سے پیچھے ہٹ گئی۔
’’تم نے غلط سوچا تھا ممتحنہ۔کالا گلاب بھلے موت کی علامت ہوتا ہوگا اور ہمارے لیے بھی یہ موت کی علامت ہی ثابت ہوا۔ہمارے برے دن مر گئے اور آج سے ایک نئی زندگی شروع ہوئی ہے۔‘‘اسے وہ دن یاد آنے لگا جس دن برہان نے اس کالے گلاب کا مفہوم بدل دیا تھا۔
’’چپ کیوں ہو گئیں؟ نہیں جانتی اس پھول کا نام؟چلو میں بتا دیتی ہوں،یہ ہے کالا گلاب، موت کی علامت۔Right? ‘‘
’’نہیں!نئی زندگی کی۔‘‘ڈاکٹر فاخرہ کو یقین تھا کہ جواب یہی موصول ہو گا۔اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہ نکلے پر شاید ڈاکٹر فاخرہ کو اب بھی چین نہیں آیا تھا۔وہ سنگ دل بن چکی تھیں،دو دلوں کو جوڑنے کے لیے اور دو دلو ں کو جوڑنے کے لیے سنگ دل کیا ظالم بھی بننا پڑے تو بن جانا چاہیے۔
’’چلو یہ تو بتا ہی دو گی تم، یہ کون ساپھول ہے؟‘‘اب وہ اسے گھسیٹتی ہوئی نیلے رنگ کے ایک پھول کے پاس لے آئیں۔
’’گل وفا۔‘‘اور اس پھول کا نام لیتے ہی وہ ایک بار پھر یادوں کے گہرے سمندر میں ڈوب گئی۔
’’سمندر کتنا گہرا ہوتا ہے نا؟‘‘
’’ہونہہ۔محبت جتنا، تب ہی تو ہر شاعر محبت کو دریاؤں کے کناروں سے کمپیئر کرتا ہے۔‘‘
’’فرق ہوتا ہے۔محبت اور سمندر میں فرق ہوتا ہے کچھ اتنا جتنا کہ جینے اور مرنے میں ہوتا ہے۔سمندر میں گہرائی مار دیتی ہے اور محبت میں گہرائی جینا سکھاتی ہے۔‘‘
’’اور جب محبت عشق بن جائے تب کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’عشق تو آگ کا دریا ہے،یہ شعر تو سنا ہی ہوگا۔عشق میں بھی گہرائی جینا سکھاتی ہے،پر یہ زندگی آگ کے دریا پر سے گزر جانے کے بعد ملتی ہے۔‘‘
وہ مکمل طور پر ڈوب چکی تھی اور اس بار ڈاکٹر فاخرہ نے اسے ڈوبنے دیا،پر زیادہ دیر تک نہیں!
’’گل وفا۔ نائس نیم ، پر کہاں کی وفا؟کہاں کا عشق؟ عشق کرتی بھی تھی اس سے یا…ٹائم پاس کر رہی تھی اس کے ساتھ؟‘‘ایک اور تلخ جملہ ڈاکٹر فاخرہ نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا پر اب وہ ان کو نہیں سن رہی تھی،وہ تو اپنے دل کو سن رہی تھی۔
’’ہماری محبت جب عشق بن جائے تو ڈوبو گی میرے ساتھ؟آگ کے دریا میں؟‘‘
’’ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا ہی کافی ہوتا ہے اور پھر میرے ساتھ تو آپ ہوں گے،ڈوبیں گے بھی اور پار بھی جائیں گے۔‘‘
وہ ایک جملہ اس کے دل سے تیر کی طرح آر پار ہوا تھا اور اچھا ہوا تھا کہ اس تیر نے اس کے دل کو زخمی کر دیا تھا،ورنہ وہ دل تو محبت میں اب سنگ ِ مر مر کا بن چکا تھا۔پتھر دل۔
’’آپ کیوں آئے ہیں یہاں؟کیوں روز آجاتے ہیں میرے سامنے؟نکاحی بیوی ہوں اس لیے؟تو پھر قصہ ہی ختم کر دیں۔طلاق دے دیں مجھے اور میری نظروں سے دور ہو جائیں۔‘‘کہیں وہ زخم اسے مار ہی نہ دیتا،وہ تو بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔
’’ط…طلا…طلاق؟ممتحنہ تم مجھ سے طلا…؟‘‘
’’یہ تھا تمہارا عشق؟ یہ تھی تمہاری قسم؟‘‘اسے برہان کا اس کی محبت پر سے ایمان اٹھتا دکھائی دینے لگا۔اس کا ہاتھ چھوڑ کر، آنکھوں میں ہزاروں موتی لیے جانا دکھائی دینے لگا۔
’’تم نے تو قسم کھائی تھی نا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے،کچھ بھی کا مطلب کچھ بھی،اس سے جدا کبھی نہیں ہوگی؟تو پھر اب اپنی قسم سے پیچھے ہٹ کر اپنے اوپر خدا کا عذاب نازل کرنا چاہ رہی ہو؟‘‘ممتحنہ کو جب ہوش آیا تو اس نے ڈاکٹر فاخرہ کو اس کی وہ قسم یاد دلاتے ہوئے پایا جو اس نے برہان کے ساتھ کھائی تھی۔
اس کی حالت خراب ہونے لگی،وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گرنے لگی کہ ڈاکٹر فاخرہ نے اسے تھام لیا اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر کہیں جانے لگیں۔
راستے میں انہوں نے برہان کو فون کیا۔ممتحنہ ابھی تک بے ہوش پڑی تھی۔
’’کیا بنا؟‘‘برہان نے چھوٹتے ہی سوال کیا۔
’’دبئی مریکل گارڈن پہنچ گئے؟‘‘برہان کے سوال کرنے پر ڈاکٹر فاخرہ نے الٹا اس سے سوال کیا۔
’’جی!‘‘
’’تو پھر تیار ہو جاؤ معجزے کے لیے۔وہ وہاں آ رہی ہے اور کوئی معجزہ ہونے والا ہے مریکل گارڈن میں اور سنو جیسا میں نے کہا تھا ،ویسا ہی کرنا۔‘‘وہ برہان کے جواب کی منتظر نہیں تھیں،بس اپنی بات پوری کرتے ہی انہوں نے فون رکھ دیا۔
٭…٭…٭
بہتر ہزار سکوائر میٹر کے گارڈن میں ایک سو نو ملین پھولوں کے اردگرد وہ اکیلا کھڑا اپنی وفا کا انتظار کر رہا تھا۔وہ ستمبر کا مہینہ تھا اور دبئی مریکل گارڈن جون تا ستمبر بند رہتا ہے وہ اس لیے کیوں کہ جو ن تا ستمبر دبئی کا درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔چوں کہ وہ ’دا برہان ندیم‘ تھا جسے ادکاری چھوڑے کچھ دن ضرور ہو گئے تھے مگر اس کا اداکاری چھوڑنے کا فیصلہ ابھی عوامی نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود بھی اسے کافی منتیں کرنا پڑیں کچھ وقت کے لیے ۔ ڈاکٹر فاخرہ اسے بہت پہلے ہی بتا چکی تھیں کہ وہ ممتحنہ کو دبئی مریکل گارڈن لے کر آئیں گی،لہٰذا برہان نے سب سنبھال لیا تھا پر اس کا دل اب بھی نہیں سنبھلا تھا۔
وہ برگنڈی رنگ کی ڈیزائنر شرٹ میں ملبوس دبئی مریکل گارڈن کے بیچ و بیچ کھڑا اس حسین دنیا کو ہر جانب سے دیکھنے لگا جو کسی فیری ٹیل کی دنیا سے کچھ کم نہیں بلکہ زیادہ ہی تھی۔کبھی وہ پھولوں سے ڈھکے گھر کا مجسمہ دیکھتا تو کبھی پھولوں سے سجا مور۔کبھی اس پتھریلی سڑک کو دیکھتا جس پر مختلف رنگوں کی چھتریوں کی چھت تھی،تو کبھی اس شاہانہ گاڑی کو دیکھتا جسے حسین پھولوں سے سجایا گیا تھا۔اس کے دل کو خوش کرنے کے لیے وہاں سب موجود تھا پر اس کے دل کو تو صرف اس کی عادت تھی جو اس وقت اس کے آس پاس نہیں تھی۔اسے وہ پھولوں کی حسین جنت بھی پھیکی لگنے لگی،اس کی ہنسی،اس کی خوشی،اس کی زندگی کا سامان جو وہاں موجود نہیں تھا۔
وہ پتھریلی سڑک پر ٹہلتا ایک طرف پھولوں سے سجے محل نما گھر کو دیکھنے لگا، تو دوسری جانب اس گاڑی کو بھی جس کے آگے کے دو پہیے ہوا میں تھے۔ وہاں سب کچھ موجود تھا۔برج خلیفہ، محل، مور، گاڑی، کشتی، پر افسوس! سب محض مجسمہ تھے،نقلی تھے، مگر ایک چیز جو ان سب پر بھاری تھی،ان سب نقلی چیزوں کو زندگی دے رہی تھی،خوب صورتی دے رہی تھی،وہ چیز وہ پھول تھے۔وہ کروڑوں پھول،وہاں کی ایک ایک شے پھولوں میں لپٹی ہوئی تھی،ان کی خوشبوؤں سے گندھی ہوئی تھی۔
گاڑی دبئی مریکل گارڈن کے پاس آ کر رک گئی۔ڈاکٹر فاخرہ اپنے بیگ سے منرل واٹر کی بوتل نکالتی ہوئیں اس میں سے پانی کی کچھ بوندیں ممتحنہ کی بند آنکھوں پر ڈالنے لگیں۔
پانی کی کچھ بوندوں کا ممتحنہ کی آنکھوں کو چھونا ہی تھا کہ اس کی آنکھیں حرکت کرنے لگیں، بے چین ہونے لگیں۔
اس کی آنکھیں بھلے ابھی حرکت کر رہی تھیں،پر وہ ابھی کھلی نہیں تھیں،مگر اس کی سونگھنے کی حس بے دار ہوچکی تھی۔
’’خو…خوشبو…‘‘ اس نے آنکھیں کھولنے سے پہلے اپنا منہ کھولا اور منہ کھولنے کے بعد آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں بھی کھولنا شروع کر دیں۔
’’ممتحنہ…Are you OK now?‘‘وہ جانتی تھیں کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہو چکی ہے، مگر پھر بھی انہوں نے رسماً پوچھا۔
’’مجھے خوشبو آرہی ہے۔دنیا کے تمام پھولوں کی خوشبو!‘‘اس نے آنکھ کھولتے ہی گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور دیکھتے ہی حیران رہ گئی۔
’’Oh My God! Dubai Miracle Garden?‘‘ اس کی زندگی میں ہمیشہ سے خواہش رہی تھی دنیا کے سب سے بڑے فلورل گارڈن میں جانے کی پر اس کا اتفاق نہیں ہواتھا کبھی ادھر جانے کا، مگر اب،جب اس کی آنکھوں کے سامنے بڑا بڑا’’Dubai Miracle Garden‘‘ لکھا نظر آیا تو وہ جیسے پاگل سی ہو گئی۔
’’جانا چاہو گی اندر؟‘‘وہ اسے سیر و تفریخ کے لیے وہاں نہیں لائی تھیں،وہ تو اپنے بھتیجے کی کھوئی ہوئی زندگی واپس لوٹانے اسے وہاں لائی تھیں۔ممتحنہ نے اند ر جانے کے لیے ان کے سوال پوچھنے کا انتظار نہیں کیا،وہ تو پہلے ہی گاڑی سے اترنے لگی تھی۔
وہ جس نے آج تک دبئی مریکل گارڈن صرف تصاویر میں دیکھا تھا،آج براہ راست دیکھ رہی تھی۔
’’یہ تو تصویروں سے بھی کہیں زیادہ خوب صورت ہے میرے اللہ۔‘‘وہ کچھ لمحوں کے لیے گزرے ہوئے لمحات فراموش کر چکی تھی۔وہ پتھریلی سڑک پر چلتی ہوئی اس حسین باغ کے نظارے کرنے لگی۔ڈاکٹر فاخرہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔
وہ پھولوں سے سجے مور کے مجسمے کے پاس بیٹھی اس پر لپٹے ہزاروں پھولوں کو محسوس کر رہی تھی کہ اتنے میں اس کی نظر اپنے سے کچھ فاصلے پر کھڑے برہان پر پڑی۔
’’ب…بر…برہان!‘‘برہان کو دیکھتے ہی،اس کا نام لیتے ہی اسے کلینک میں گزارے گئے لمحات یاد آنے لگے اور ان کے ساتھ برہان کا منہ موڑ کر جانا بھی۔
ان لمحات کو، یاد ایام کو آنکھوں میں سمیٹتی وہ برہان تک جانے لگی اور بالآخر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
’’برہان…میرے برہان۔‘‘وہ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھونے لگی،اس کا لمس محسوس کرنے لگی۔وہ حسرت بھری،آنسوؤں بھری،پشیمانی سے تمام آنکھوں کے ساتھ اس کی زیارت کر رہی تھی پر وہ تو اس کے آگے پتھر بنا کھڑا تھا۔
’’کیا کر رہی ہو ممتحنہ؟‘‘ڈاکٹر فاخرہ نے پوری قوت کے ساتھ ممتحنہ کا وجود اپنی طرف موڑ لیا۔
’’برہان سے بات کر رہی ہوں اور کیا؟‘‘ڈاکٹر فاخرہ نے اس کا رخسار اس طرح پکڑ لیا کہ وہ کچھ لمحوں کے لیے برہان کی طرف رخ نہ موڑ سکے۔اتنے میں برہان اس حسین کتھئی رنگ کی لکڑی سے بنی کشتی میں چھپ گیا جو مختلف رنگوں کے پھولوں کے گلدستوں سے سجی تھی۔
’’وہ تمہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے ممتحنہ۔طلاق مانگی تھی نا اس سے؟پھر وہ کیوں آئے گا تمہارے پاس؟وہ چلا گیا ہے ہمیشہ کے لیے اور یہاں کوئی نہیں سوائے تمہارے وہم کے۔‘‘ وہ اسے غصے سے گھورنے لگیں۔
’’نہیں وہ ہیں یہاں۔میرے پیچھے۔‘‘وہ اپنے رخسار پر سے ان کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے پیچھے مڑی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
’’وہ… وہ یہیں تھے…م…میرے بالکل پاس، وہ کہاں چلے گئے؟‘‘اس نے یہاں وہاں نظر دوڑائی پر اسے وہ کہیں نظر نہیں آیا۔
’’وہ صرف یہیں نہیں،وہ کہیں نہیں ہے ممتحنہ،جس کا ہونا تمہارے لیے نہ ہونے کے برابر تھا اب ا س کا نہ ہونا تمہیں اپنے لیے ہونا لگ رہا ہے؟تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ممتحنہ،گھر چلو۔‘‘وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے جانے لگیں پر اند ر ہی اندر ڈرنے لگیں کہ کہیں وہ واقعی ان کے ساتھ چلی نہ جائے۔
’’ایسے کیسے چلی جاؤں گھر؟اپنا گھر بسائے بغیر چلی جاؤں؟نہیں جاؤں گی میں۔‘‘اب وہ اپنا ہاتھ سونگھنے لگی،وہ ہاتھ جو کچھ ہی لمحے پہلے برہان کے رخسار کو چھو رہا تھا۔
’’ان ہاتھوں میں ان کی خوشبو ہے ڈاکٹر فاخرہ،میں قسم کھا سکتی ہوں کہ وہ یہیں ہیں۔ میں ان سے بات کیے بنا نہیں جاؤں گی۔‘‘ اب وہ پورے دبئی مریکل گارڈن میں دیوانوں کی طرح یہاں وہاں دوڑنے لگی۔
’’آئی ایم سوری ممتحنہ۔ دل تو کر رہا ہے کہ ابھی تمہیں اپنے گلے سے لگا لوں پر چلو…کچھ دیر اور صحیح۔‘‘وہ کشتی میں چھپ کر اسے دیکھنے لگا اور اس کی موجودہ حالت پر ترس کھانے لگا پر وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زندگی بھر کا پیار پانے کے لیے چند لمحوں کی سنگ دلی کرنا بھی جائز ہے۔
’’برہان؟کہاں ہیں آپ؟پلیز میرے سامنے آ جائیں۔‘‘وہ چیخنے لگی،چلانے لگی پر برہان اسے کہیں نظر نہ آیا۔
’’مجھے معاف کر دیں برہان۔ میں جانتی ہوں میں نے جو غلطی کی اس پر معافی کی نہیں سزا کی ضرورت ہے پر مجھے سزائے موت تو نہ دیں۔ دیکھیں نا میں آگئی ہوں آپ کے پاس، کفارہ ادا کرنے۔ آپ مجھے معافی مانگنے کا موقع نہیں دیں گے، تو میں کافر بن جاؤں گی پھر تو خدا بھی مجھے معاف نہیں کرے گا۔‘‘وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی اور اس کے دوست، اس کے پھول ،وہ بھی محبت میں شکست کھائی ہوئی ممتحنہ کو دیکھ کر خاموش ہو گئے۔اگر خدا نے انہیں زبان دی ہوتی تو وہ اس تھکے ہوئے مسافر کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہوتے کہ اس کی منزل کہاں چھپی ہوئی ہے۔
’’نہیں ٹھہراؤں گی خود کو آپ کی گناہ گار،قسم کھاتی ہوں۔ پراگر آپ سامنے نہ آئے تووہ گناہ جو شاید اتنا بڑا نہ تھا، مجھے گناہ کبیرہ لگنے لگے گا۔‘‘وہ روتے روتے زمین پر بیٹھ گئی۔
وہ اس کشتی کے بالکل سامنے قالین نما گھاس پر بیٹھی ہوئی تھی،اپنی غلطی پر شرم سار،اپنی محبت میں شکست خوردہ۔
’’اتنی محبت کب ہوئی مجھ سے؟‘‘وہ جو کشتی کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا،اب اس کشتی پر کھڑا ہو گیا اور اس کے جھکے ہو ئے سر کو دیکھنے لگا۔
’’ب…برہان؟‘‘برہان کی آواز سنتے ہی وہ سر اٹھا کر اس کشتی کی طرف دیکھنے لگی جس پر وہ کھڑا اس سے سوال کر رہا تھا۔
وہ اس کے پاس دوڑتی ہوئی گئی اور کشتی پر سوار ہو گئی۔
’’میری محبت کو محبت کہہ کر محبت کو بدنام نہ کریں۔ میں نے محبت نہیں،گناہ کیا،میں تو آپ کی نفرت کے لائق ہوں۔‘‘وہ اس کے بالکل پاس اپنا سرجھکائے کھڑی تھی۔
’’نفرت تو گناہ سے کی جاتی ہے،ایسے گناہ گار سے نہیں جسے اپنے گنا ہ کا احساس ہو جائے اور نہ ہی ایسے گناہ گا ر سے جو محبت میں ہو۔‘‘برہان اپنے ہاتھوں سے اس کا جھکا ہوا سر اٹھانے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل میں اس کا مقام بھی۔
’’تمہارا پاس رہ کر بھی میرے پاس نہ ہونا،تمہارا مجھے چھوڑ کر چلے جانے کے مماثل تھا، وہ بھی بغیر بتائے۔‘‘وہ اسے اپنے گزر ے ہوئے دنوں کا حال سنانے لگا،اسے بتانے لگا کہ وہ کس طرح جیتے جیتے مرتا رہا اور مر مر کر جیتا رہا۔
’’جب محبوب پاس آجائے ،احسا س ندامت کے ساتھ،تو چھوڑ کے جانے کی بات نہیں کرتے،وہ بھی احساس محبت کے ساتھ۔‘‘وہ اس کی آنکھوں کی تختی پر لکھی اس کی محبت کی شاعری پڑھنے لگی۔
’’تمہاری محبت پر میں ایمان لے آیا تھا۔ زبان سے پتا نہیں کبھی کی ہو یا نہ کی ہو،پر دل سے ہمیشہ تصدیق کی،تمہاری محبت پر اپنے ایمان کی۔تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا؟ طلاق والی بات سننے کے بعد تمہاری محبت پر میرا ایمان ڈگمگایا ضرور تھا،اٹھا نہیں تھا۔‘‘وہ اس کے دل سے کبھی اتری ہی نہیں تھی،اگر اتر جاتی تو وہ کہاں ابھی زندہ ہوتا،اس کے سامنے کھڑا ہوتا۔
’’جو بھی ہو، مجھے آج اپنے کیے کی سزا کاٹے بغیر چین نہیں ملے گا۔دیں مجھے سزا۔‘‘اس نے اقبال جرم تو کر لیا تھا اپنے جرم کا، پر وہ خود کو سزا یاب قرار دینا چاہ رہی تھی۔
’’میرا دل نکاح کے بعد والے دن سے تم نے مجھے واپس کر دیا تھا۔ اب تمہاری سزا یہ ہے کہ میرے دل کو واپس اپنے پاس رکھ لو اور مجھے زندگی دے دو۔میری زندگی میرے دل کے تمہارے دل کے ساتھ دھڑکنے میں ہے۔ میرے پاس رہ کر تو یہ میری سانسوں سے بے وفائی کرتا ہے،میرے نام کی سانسوں سے زیادہ تمہارے نام کی سانسیں بھرتا ہے۔‘‘وہ اسے سزا میں بھی محبت دینے لگا اور ممتحنہ کو سزا بھی جزا سے کہیں بڑھ کر محسوس ہونے لگی۔
’’سزا منظور ہے مسٹر مجازی خدا۔‘‘وہ جو کچھ ہی دیر پہلے تک آنسو بہا رہی تھی اب مسکرا رہی تھی اور اس کے مسکرانے پر مریکل گارڈن کے کروڑوں پھول مسکرانے لگے۔اس حسین کشتی پر برہان نے ممتحنہ کو اپنے گلے سے لگا لیا اور یوں محبت کی داستانی فضا چہار سو چلنے لگی،کروڑوں پھولوں کی سوگند بکھیرنے لگی۔
اب وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے مریکل گارڈن کی سیر کرنا شروع ہوگئے۔
’’اس باغ کو معجزاتی باغ کہنے کی شاید کئی وجوہات ہوں پر میرے لیے اسے معجزاتی باغ کہنے کی صرف ایک وجہ ہے۔‘‘وہ دونوں پتھریلی سڑک پر ٹہلنے لگے جس کی چھت مختلف رنگوں کی چھتریوں سے بنی تھی۔
’’وہ کیا؟‘‘اب وہ برہان کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی،وہ تو سر اٹھا کر ان رنگ برنگی چھتریوں کو دیکھ رہی تھی جو اس پر سایہ کیے ہوئے تھیں۔
’’طلاق والی بات کے بعد مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ اب میں تمہیں حاصل نہیں کر سکوں گا،پر آج اس معجزاتی باغ میں میرے ساتھ کوئی معجزہ ہی ہوا ہے اور وہ معجزہ ہے تمہارا پلٹ کر میرے پاس آنا۔‘‘وہ جو اس کے آگے آگے چل رہی تھی،چلتے چلتے رک گئی اور پلٹ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔
’’میں گئی نہیں تھی برہان،بس بھٹک گئی تھی۔ مجھے آپ کی محبت نے راستہ دکھایا ہے،مجھے منزل تک پہنچانے میں آپ کی محبت راہنما ثابت ہوئی ہے۔‘‘وہ راستے پر کھڑی ہو کر منزلوں کی باتیں کر رہی تھی۔اس کا معصومانہ انداز دیکھ کر برہان اس کے گال دبانے لگا۔
’’پاکستان واپس جا کر ہزاروں انگلیاں اٹھیں گی مجھ پر،میں تو بدنام ہو گئی ہو ں وہاں۔‘‘اب وہ دونوں برج خلیفہ کے پھولوں سے بنے مجسمے کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
’’دنیا والوں کو کچھ پتا چلے گا تب ہو گی نا تم بدنام۔میں نے ایک وجہ بھی باقی نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے ہزاروں تو دور کی بات،ایک انگلی بھی تم پر اٹھائی جا سکے۔‘‘اب وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں پر رکھنے لگا۔
’’تمہارا لباس ہوں میں،پھر تمہیں بے لباس کیسے ہونے دوں گا؟‘‘
٭…٭…٭
’’پاکستان کے مشہورو معروف اداکار برہان ندیم کل بروز پیر ممتحنہ حارث کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنے جا رہے ہیں۔ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔‘‘برہان کے کہنے پر ظہیر نے اس کی رخصتی کی خبر اپنے اخبار میں چھاپ دی جسے کافی سارے قریبی لوگوں نے پڑھا۔
’’محبت کی جیت ہو گئی اور نفرت کی ہار ایک بار پھر ہوگئی۔‘‘نمیر علی جو صبح صبح اپنے آنے والے بگ بجٹ پراجیکٹ کا اسکرپٹ پڑھنے میں مصروف تھا،اخبار پر نظریں دوڑانے لگا۔اس خبر کو پڑھنے کے بعد وہ دل سے مسکرانے لگا پر اس نے جو کیا تھا،اس کی سزا تو اسے ایک دن ملنی ہی تھی۔
’’ماشاء اللہ! اللہ دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے،آمین۔‘‘محمود علی اس خبر کو پڑھ کر مسرور ہو گئے اور دل سے اس جوڑے کو دعائیں دینے لگے۔
’’یا اللہ تیرا شکر کہ سب صحیح ہو گیا ۔ہائے! صرف ایک دن بعد رخصتی؟میں نے تو لہنگا بھی نہیں خریدا۔‘‘زارا اخبار سائیڈ پر رکھتی بازار جانے کی تیاری کرنے لگی۔
’’ن…نہیں…ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ ناممکن ہے۔ب…برہان اس بے آبرو کا نہیں ہو سکتا۔یہ ممکن نہیں،وہ نہیں ہو سکتا اس کا۔‘‘حیال نے اخبار کی ہیڈلائن پر گر م چائے پھینک دی اور پوری طاقت کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’نہیں!ایسا نہیں ہو سکتا۔وہ اس کا نہیں ہو سکتا۔نہیں!‘‘اس کی زبان پر بس وہی جملہ تھا۔ پر اسے کیا پتا تھا کہ محبت میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسے کیا پتا تھا کہ محبت جسم کی عزت کے چلے جانے کے ساتھ نہیں چلی جاتی۔وہ تو محبت کو بازاری سمجھتی تھی پر اسے کیا پتا تھا کہ محبت کی قیمت کیا ہوتی ہے۔اسے سب کچھ پتا تھا بس یہ نہیں پتا تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔
وہ دیوانی ہوچکی تھی،صحیح معنوں میں پاگل ۔اس نے محبت کو بدنا م کرنا چاہا تھا،محبت تو بدنام نہ ہوئی پر وہ ضرور بدنام ہوگئی۔اگلی صبح کے اخبار میں یہ خبر جو شاید ہونے والی تھی کہ مشہور و معروف پاکستانی اداکارہ حیال طاہر پاگل ہو گئیں اور انہیں مینٹل ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے اور ایسا ہی ہوا۔ اگلے روز اسے پاگل خانے منتقل کیا جانے لگا پر اس کی زبان پر آخر وقت تک یہی الفاظ تھے:
’’نہیں۔ایسا نہیں ہوسکتا۔وہ اس کا نہیں ہوسکتا۔نہیں۔‘‘
٭…٭…٭