بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

وہ اب مومل کو طلاق دینا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس نے اپنے روئیے کو بڑی حد تک بدل لیا تھا۔ اب وہ بات بے بات اس سے الجھتی نہ تھی اور اس کی چھوٹی موٹی تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔ اس نے اسفند کے اعتراضات کو بڑی حد تک دور کر دیا تھا۔ انہیں دنوں اس نے مومل اور زاشی کو پرانے فلیٹ سے ایک نئے فلیٹ میں شفٹ کر دیا تھا۔ اس نے زاشی کو ایک مانٹیسوری میں داخل کروایا تھا اور وہ مانٹیسوری پرانے فلیٹ سے بہت فاصلے پر تھی۔ نیا فلیٹ ایک لگژری فلیٹ تھا۔ نیا فلیٹ نہ صرف مکمل طور پر فرنشڈ تھا بلکہ اس میں کمروں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ نوشین سے اس کی ملاقاتیں ویسے ہی جاری تھیں لیکن وہ اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی وہ مومل کی موجودگی میں اس سے شادی کرنے کو تیار نہ تھی۔ اور اسفند کے لیے اب مومل کو طلاق دینا مشکل ہو گیا تھا۔
ان ہی دنوں زاشی کی طبیعت کچھ خراب رہنے لگی تھی۔ مومل نے سوچا کہ شاید موسم کی تبدیلی کی وجہ سے وہ بیمار ہو گئی ہے۔ اس لیے اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن جب اسفند گھر آیا تھا تب تک اس کی طبیعت خاصی خراب ہو چکی تھی۔ وہ اسے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور وہیں پتا چلا تھا کہ اسے یرقان ہے۔ اور مرض کافی بگڑ چکا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے فوری طور پر ایڈمٹ کر لیا۔ اسفند اس کی حالت دیکھ کر کافی پریشان تھا۔ اور اسی پریشانی میں وہ نوشین کے ساتھ اس روز دوپہر کالنچ بھی بھول گیا۔ نوشین نے اس کے نہ آنے پر جب اسے فون کیا تھا تب وہ کلینک پر تھا۔ اسفند نے اسے زاشی کی حالت کے بارے میں بتایا تھا لیکن وہ پھر بھی اصرار کر رہی تھی کہ وہ لنچ کے لیے آئے۔ اس کی ضد پر اسفند کو بے اختیار غصہ آیا۔
”میں نے تمہیں بتا دیا ہے کہ میں نہیں آ سکتا پھر بھی تم ضد کر رہی ہو۔ تم کیا چاہتی ہو کہ میں اپنی بیٹی کو اس حالت میں چھوڑ کر تمہارے ساتھ لنچ کرتا پھروں؟”
نوشین اس کے لہجے پر دنگ رہ گئی تھی۔ ”تم مجھ سے کس طرح بات کر رہے ہو؟ کیوں چلا رہے ہو؟”
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ تمہیں اپنے لنچ کی پڑی ہے یہ احساس نہیں کہ وہ کتنی تکلیف میں ہے۔ اگر وہ تمہاری اپنی بیٹی ہوتی تو کیا پھر بھی تم اسے اس طرح چھوڑ کر مجھے ہوٹل میں لنچ کرنے کے لیے بلواتیں۔”
”بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری بیٹی” نوشین خود پر قابو نہیں رکھ سکی۔
”مائنڈ یور لینگویج۔ میں نہیں جانتا تھا۔ تم اس قدر پاگل ہو سکتی ہو۔”
”کیا پاگل پن دکھایا ہے میں نے؟ وہ صرف بیمار ہے’ مری تو نہیں ہے جو تم اس طرح سوگ میں بیٹھ گئے ہو۔”





”نوشین! مجھے دوبارہ فون مت کرنا۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں نہ تمہاری شکل دیکھنا چاہتا ہوں۔” اسفند نے تلخی سے فون پٹخ دیا۔
نوشین کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایک ننھی سی بچی کے لیے اس طرح اس کی بے عزتی کر سکتا ہے۔ دوسری طرف اسفند بھی اس کی باتوں پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ نوشین اس سے اس طرح بات کرے گی اس کا خیال تھا کہ وہ زاشی کی خیریت دریافت کرے گی اور شاید اسے دیکھنے آ جائے لیکن اس نے رسمی طور پر بھی اس کا حال پوچھنے کی زحمت نہیں کی اور اس بات نے اسفند کے دل میں ایک گرہ سی لگا دی۔ وہ ایک بار پھر اس سے شادی کے فیصلے پر سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ مومل کا وجود زاشی کے لیے کتنا ضروری ہے۔ وہ جیسی بھی تھی بہرحال اس کی ماں تھی اور جو احساسات وہ زاشی کے لیے دل میں رکھتی تھی۔ وہ کوئی دوسری عورت نہیں رکھ سکتی تھی۔ دو دن زاشی ہاسپٹل میں ایڈمٹ رہی تھی پھر ڈاکٹر نے اسے ڈسچارج کر دیا۔
وہ دونوں دن لاہور میں ہی میں رہا تھا۔ اس بیماری نے ایک بار پھر اسے زاشی سے بہت قریب کر دیا تھا۔ وہ اس کے لیے سب کچھ تھی بیٹی’ دوست’ ساتھی سب کچھ۔ شروع شروع میں وہ صرف اپنی غلطی کی تلافی کے طور پر اسے زیادہ توجہ دیتا تھا لیکن بعد میں اس نے نامحسوس طور پر اسے اپنا گرویدہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان دنوں وہ دوستوں سے کم ملتا تھا ماں باپ سے وہ کٹ چکا تھا۔ مومل اس کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں تھی۔ صرف زاشی تھی جو اسے دیکھ کر مسکرا دیتی۔ اس کی انگلی پکڑ کر کھیلتی اس کے چہرے کو چھوتی۔ اس کی باتوں کے جواب میں منہ سے آوازیں نکالتی۔ اسفند کو یوں لگتا’ پوری دنیا میں اگر کسی کو اس کی پروا ہے تو وہ زاشی ہے۔ بعد میں ماں باپ سے میل جول اور نوشین سے ہونے والی ملاقاتوں نے بھی اس محبت کو کم نہیں کیا تھا۔
اسفند نے دوبارہ نوشین سے خود رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بہت دن تک اس کے فون کا انتظار کرتی رہی اور پھر تنگ آ کر اس نے خود ہی اسے کال کیا تھا۔ لیکن اسفند کا غصہ ابھی تک ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے اسے بہت کچھ کہا تھا اور پھر آخر میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”میں ایک ایسی عورت سے شادی نہیں کر سکتا جو میری بیٹی کو پسند نہیں کرتی۔ تم میری طرف سے آزاد ہو جہاں دل چاہے شادی کر لو۔”
بہت سے فیصلے کرنا بہت مشکل لگتا ہے لیکن جب انسان وہ فیصلہ کر لیتا ہے تو سب کچھ جیسے آسان ہو جاتا ہے۔ ایک بار پہلے اس نے نوشین کو مومل کی خاطر چھوڑا تھا۔ دوسری بار اس نے اسے زاشی کی خاطر چھوڑ دیا تھا۔
٭
اس شام وہ دونوں ربیعہ کو چھوڑنے ائر پورٹ گئے تھے۔ وہ انگلینڈ چلی گئی تھی اور ائر پورٹ پر اسے سی آف کرتے وقت مومل کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بالکل تنہا ہو گئی تھی۔ فاطمہ سے پہلے ہی اس کا رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا اور اب ربیعہ بھی چلی گئی تھی اور اس سے بھی جلد ملاقات کا کوئی امکان نہیں تھا۔ واپسی پر گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے اسفند اس کی خاموشی کو محسوس کر رہا تھا۔ زاشی اس کی گود میں بیٹھی مسلسل باتیں کر رہی تھی۔
”پاپا! پتا ہے ربیعہ آنٹی نے کہا ہے کہ وہ میرے لیے انگلینڈ سے بہت سے چاکلیٹس لائیں گی۔ اور ربنز بھی اور فراکس بھی اور انہوں نے پرامس کیا ہے کہ وہ میرے لیے ایک بڑا سا پلین لے کر آئیں گی آپ والے سے بھی بڑا۔”
وہ اسفند سے ربیعہ کے وعدے ڈسکس کر رہی تھی۔ مومل خاموشی سے کھڑکی سے باہر جھانکتی رہی۔ اسے آج ربیعہ اور فاطمہ کی ایک ایک بات ایک ایک احسان یاد آ رہا تھا۔ اور ہر یاد اسے ملول کر رہی تھی۔ اسفند اس کی کیفیات سے بے خبر نہیں تھا۔ زاشی کو گھر جاتے ہی ہوم ورک کا خیال آ گیا۔
”ماما! آپ مجھے ہوم ورک کروائیں۔”
اس سے پہلے کہ مومل کچھ کہتی اسفند بول اٹھا۔
”بیٹا! آج ہم آپ کو ہوم ورک کروا دیتے ہیں۔ آپ اپنی ماما کو سونے دیں۔”
وہ خاموشی سے اپنے بیڈ روم میں چلی آئی لیکن اسے نیند نہیں آئی۔ وہ تقریباً ساری رات روتی رہی تھی۔ دوسرے دن وہ صبح پانچ بجے اٹھی تھی کیونکہ اسفند کو جلدی جانا تھا۔ وہ اس وقت ناشتہ تیار کر رہی تھی جب وہ کچن میں آیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ رات کو سوئی نہیں ہے۔
”ربیعہ کے جانے کا بہت افسوس ہو رہا ہے تمہیں؟”
وہ ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہی تھی جب اسفند نے اسے مخاطب کیا تھا۔ مومل خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔
”مومل! وہ ہمیشہ تو تمہارے پاس نہیں رہ سکتی تھی۔ ایک نہ ایک دن تو اسے واپس جانا ہی تھا۔ لیکن وہ دوبارہ بھی تو آئے گی اور اگر تم چاہو تو آئندہ چھٹیوں میں اس کے پاس انگلینڈ چلی جانا۔”
وہ بڑے نرم لہجے میں اسے چیئر اپ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بمشکل خود پر ضبط کر رہی تھی۔ اس کی بات پر یک دم ڈائننگ ٹیبل پر بازو ٹکا کر رونے لگی۔
چند لمحوں بعد اسے اپنے بالوں پر اس کے لمس کا احساس ہوا تھا۔ اور عجب بات یہ تھی کہ مومل کو یہ لمس بُرا نہیں لگا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا وہ خود بھی بے حد عجیب سے جذبات سے دو چار ہو رہا تھا۔ پھر مومل نے یک دم سر اٹھایا دونوں کی نظریں ملیں اور مومل تیزی سے اٹھ کر کچن سے نکل گئی۔ وہ چند لمحے وہیں کھڑا رہا پھر وہ بھی فلیٹ سے چلا گیا۔ وہ ایک جذباتی لمحہ تھا جو دونوں کے درمیان کوئی آہٹ کیے بغیر گزر گیا تھا۔ مومل کو بعد میں خود پر بے تحاشا غصہ آیا تھا کہ وہ اتنی کمزور کیسے پڑ گئی کہ اس کے سامنے رونے لگی۔ اسے خود پر بہت افسوس ہوا تھا۔
٭
اس کی لاہور آمدورفت میں ایک تسلسل سا آ گیا تھا۔ وہ تقریباً ہر ویک اینڈ پر گھر ضرور آیا کرتا تھا۔ اس دن وہ زاشی کو آئس کریم کھلانے کے لیے باہر لے کر گیا ہوا تھا۔ مومل رات کا کھانا تیار کر رہی تھی جب ڈور بیل بجی۔ مومل نے دروازہ کھولا تو ایک عورت کا اجنبی چہرہ اس کے سامنے تھا۔
”تم مومل ہو؟” بہت عجیب سے لہجے میں اس عورت نے کہا تھا۔ وہ اس عورت کی زبان سے اپنا نام سن کر قدرے حیران ہوئی۔ کالی ساڑھی میں ملبوس بالوں کا جوڑا بنائے وہ عورت ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود بے حد خوبصورت تھی۔
”ہاں میں مومل ہوں۔ آپ کون ہیں؟”
”میں اسفند کی مدر ہوں۔” اس عورت نے بڑی رعونت سے کہا تھا۔
”آپ اندر آ جائیں۔” وہ دروازے سے ہٹ گئی۔
”تم نہ بھی کہتیں۔ تب بھی میں اندر آ جاتی۔ یہ میرے بیٹے کا گھر ہے۔”
وہ نخوت سے کہتی ہوئی اندر آ گئی تھیں۔ مومل نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی۔
”آپ بیٹھیں۔”
”میں یہاں بیٹھنے نہیں آئی ہوں۔ تم سے کچھ باتیں کرنے آئی ہوں۔ اسفند سے علیحدگی کے بدلے میں کیا لو گی؟ بولو کیا لو گی؟ جو مانگو گی میں تمہیں دوں گی صرف اس کا پیچھا چھوڑ دو تم اس کے قابل نہیں ہو۔ اس سے پہلے کہ وہ تم سے پیچھا چھڑائے۔ تم اسے چھوڑ دو۔ اور اس کے بدلے میں جو چاہتی ہو لے لو۔”
مومل نے سکون سے ان کی بات سنی۔
”آپ اسفند کی ماں ہیں میں اس رشتے سے آپ کی عزت کرتی ہوں مگر آپ ایسی باتیں نہ کریں جن سے میرے دل میں آپ کے لیے عزت ختم ہو جائے۔”
عنبرین حسن اس کی بات پر بھڑک اٹھیں۔ ”مجھے تم جیسی عورتوں سے عزت نہیں چاہیے۔ میں نے تمہیں ایک بہت مناسب آفر کی ہے تم مجھے اس کا جواب دو۔”
”اگر میں آپ کو ایک بلینک چیک دوں اور آپ کو اپنا گھر چھوڑنے کے لیے کہوں تو آپ کیا یہ آفر قبول کریں گی؟”
اس کی بات پر عنبرین حسن آگ بگولہ ہو گئیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتیں فلیٹ کے ادھ کھلے دروازے کو کھول کر اسفند اندر داخل ہوا۔ وہ زاشی کی انگلی تھامے ہوئے تھا۔ اپنی ماں پر نظر پڑتے ہی وہ جیسے ہکا بکا رہ گیا۔
عنبرین حسن نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر مومل سے کہا۔
”اپنا مقابلہ مجھ سے مت کرو۔ میں تمہاری طرح بدکردار’ آوارہ اور مردوں پر ڈورے ڈالنے والی نہیں ہوں۔” مومل کا چہرہ ان کی بات پر سرخ ہو گیا۔
”ممی! آپ اس طرح کی باتیں نہ کریں۔” اسفند یک دم آگے بڑھ آیا تھا۔
”کچھ غلط تو نہیں کہا میں نے۔ میں تو اس کو اس کا غلیظ چہرہ دکھا رہی ہوں۔”
”ممی! کافی ہو گیا۔ اب آپ خاموش ہو جائیں۔ کیا آپ جانتی ہیں آپ جس کے بارے میں یہ سب کچھ کہہ رہی ہیں’ وہ میری بیوی اور میری بیٹی کی ماں ہے۔” اسفند نے تلخ لہجے میں ماں سے کہا تھا۔
”تمہاری بیٹی۔ کون سی بیٹی؟یہ؟” عنبرین حسن نے حقارت بھرے لہجے میں زاشی کی طرف اشارہ کیا۔ ”کیا ثبوت ہے کہ یہ تمہاری بیٹی ہے؟”
”ممی! آپ بس یہاں سے چلی جائیں۔ میں آپ کی کوئی بات سننا نہیں چاہتا۔”
”یہ میرے شوہر کی کمائی کا فلیٹ ہے’ تمہاری کمائی کا نہیں۔ میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم اپنے باپ کا روپیہ ایسی عورتوں پر لٹا رہے ہو۔ یہ اس قدر ستی ساوتری ہوتی تو اپنے ماں باپ کے گھر ہوتی۔ یہاں نہ ہوتی۔ اس نے کہا کہ یہ تمہاری بچی ہے اور تم فوراً اس پر جان چھڑکنے لگے۔ کیا دنیا میں تم سے بڑا احمق کوئی اور ہے۔ ایسی عورتوں کے ہزاروں چاہنے والے ہوتے ہیں۔ تمہارے جیسوں کی انہیں تب ضرورت پڑتی ہے جب انہیں اپنی اولاد کو نام دینا ہوتا ہے۔ تم نے اسے اپنی اولاد مان لیا لیکن ہم لوگ نہیں مانیں گے۔ تمہاری اولاد وہی ہو گی جس کی ماں کوئی خاندانی عورت ہو گی۔ گھر سے بھاگی ہوئی اس جیسی لڑکی نہیں۔ یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا کہ جسے تم اپنی بیٹی کہہ رہے ہو۔ اسے ہمارا خاندان کبھی قبول نہیں کرے گا۔ تم کسی باعزت خاندان میں اس کی شادی نہیں کر سکو گے۔”
وہ اسے یہ کہہ کر ایک جھٹکے سے فلیٹ کا دروازہ بند کر کے چلی گئیں۔ مومل سرخ چہرے کے ساتھ ہونٹ کاٹتے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گئی۔
اسفند مرد تھا۔ مرد کے دل میں بدگمانی ہمیشہ بجلی کی طرح آتی ہے جب تک اس کی ماں وہاں تھی’ وہ مومل کا دفاع کر رہا تھا لیکن ان کے جاتے ہی وہ مومل سے بدگمان ہونے لگا تھا۔
”ممی جو کچھ کہہ رہی تھیں’ وہ ناممکن تو نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے زاشی میری نہیں واقعی کسی اور کی بچی ہو اور مومل نے مجھے اندھیرے میں رکھا ہو۔” اس کا ذہن یک دم شبہات سے بھر گیا تھا۔ زاشی اس کے پاس آ کر اس کی ٹانگوں سے لپٹنے لگی۔ اس نے اسے دور دھکیل دیا۔
”میرے پاس مت آؤ۔ اندر جا کر سو جاؤ۔”
زاشی تو باپ کے روئیے پر حیران تھی مگر مومل جیسے سکتے میں آ گئی تھی۔ اس نے پہلی بار اسفند کو زاشی کو اس طرح جھڑکتے دیکھا تھا۔ اسفند اچانک کرسی کھینچ کراس کے مقابل آن بیٹھا۔
”مومل! تم اپنی بیٹی کی قسم کھا کر کہو کہ وہ واقعی میری اولاد ہے؟”
بجلی گرتی تو شاید مومل کو اتنا شاک نہ لگتا جتنا اس کے اس ایک جملے سے لگا تھا۔ چند لمحوں کے لیے وہ کچھ نہیں بول پائی اور اس کی اس خاموشی نے اسفند کے اضطراب میں اضافہ کردیا تھا۔
”تم مجھے بتاؤ’ کیا زاشی میری اولاد ہے؟”
”یہ سوال تم خود سے کرو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ وہ کس کی اولاد ہے۔ یہ تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں جان سکتا۔” اس نے تلخ لہجے میں کہا تھا۔
”مومل! میں تمہارے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا۔ جب میں نے تمہیں چھوڑ دیا تھا تو تم اپنے گھر گئی تھیں لیکن انہوں نے تمہیں نہیں رکھا۔ تمہارے بقول تم ربیعہ اور فاطمہ کے ساتھ رہی تھیں۔ لیکن میں نہیں جانتا۔ یہ بات سچ ہے یا نہیں ہو سکتا ہے تم کسی اور …”
وہ اپنے شبہات کو زبان دے رہا تھا۔ مومل نے اسے روک دیا۔
”اتنا کافی ہے۔ تمہیں اگر یہ لگتا ہے کہ زاشی تمہاری بیٹی نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ میں اسے لے کر کل یہاں سے چلی جاؤں گی لیکن تم اپنی گندی زبان بند رکھو۔”
زاشی حیرت اور خوف کے عالم میں ان کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ جھگڑے کی نوعیت تو سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ اس کے ماں باپ میں جھگڑا ہو رہا تھا۔ مومل نے زاشی کو گود میں اٹھا لیا۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!