بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

اس دن وہ زاشی کو لاہور ہاسٹل چھوڑنے گئی تھی اور اسی دن وہ وہاں سے واپس فیصل آباد آنے کے بجائے اپنے گھر چلی گئی تھی۔ اسے یاد تھا دس سال پہلے بھی وہ ایک بار اسی طرح اس گھر میں گئی تھی تب اس کی زندگی اور عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ دس سال بعد آج پھر وہ اسی دہلیز پر کھڑی تھی۔ تب اس گھر نے اسے پناہ نہیں دی تھی اور آج … لرزتے ہاتھ سے اس نے کال بیل بجائی تھی۔ اندر قدموں کی آہٹ ابھری تھی۔ پھر کسی نے دروازہ کھول دیا۔ اسے کچھ بھی پہچاننے میں دیر نہیں لگی تھی۔ دروازہ کھولنے والے کا بھی یہی حال تھا۔ چند لمحوں تک ایک عجیب سی خاموشی تھی جو دونوں کے بیچ حائل رہی تھی۔
”مومل تم … تم کہاں چلی گئی تھیں؟” سہیل بھائی جیسے اپنے حواس میں واپس آ گئے تھے آنسوؤں نے اس کے چہرے کو بھگونا شروع کر دیا۔
”آپ نے مجھے ڈھونڈا کیوں نہیں؟ آپ نے مجھ سے جان کیوں چھڑالی۔ میں کیا اتنی بوجھ ہو گئی تھی آپ پر۔” وہ جیسے چلا اٹھی تھی۔
”تمہیں اگر اپنی پسند سے شادی کرنا تھی تو تم ہم سے بات کر سکتی تھیں۔ کون سی خواہش تھی مومی! جو ہم نے تمہاری پوری نہیں کی تھی پھر کیوں اس طرح ہماری عزت مٹی میں ملا کر چلی گئیں۔”
انہوں نے اس پر دروازہ بند کیا تھا نہ اسے باہر نکالا تھا۔ وہ اس سے شکوہ کر رہے تھے۔
”میں کیا ایسی تھی کہ اپنی مرضی سے شادی کے لیے گھر سے بھاگ جاتی۔ مجھے تو کسی اور لڑکی کی غلط فہمی میں اغوا کر لیا گیا تھا اور جب انہیں پتا چلا تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں گھر آئی تھی مگر بھابھی نے مجھے گھر سے نکال دیا۔”
مومل میں سچ بتانے کی ہمت نہیں تھی اس نے دس سال پہلے فاطمہ کا گھڑا ہوا جھوٹ بھائی کے سامنے دوہرا دیا۔ ”پھر میں اپنی دوست فاطمہ کے پاس چلی گئی کچھ عرصہ کے بعد اس نے اپنی جان پہچان کے لوگوں میں میری شادی کروا دی۔”
سہیل بھائی جیسے حیرت زدہ تھے۔
”تم یہاں آئی تھیں مگر کب؟ مجھے کسی نے نہیں بتایا۔” انہوں نے حیرانی سے کہا تھا۔ وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ انہیں دیکھتی رہی۔
چند لمحے اسی طرح کھڑے رہنے کے بعد انہوں نے راستہ چھوڑ دیا۔ ”آؤ اندر آ جاؤ۔” ان کی آواز میں شکست خوردگی تھی۔ برستی آنکھوں کے ساتھ وہ اندر آ گئی تھی۔





باقی کے مرحلے اس سے بھی آسان ثابت ہوئے تھے۔ گھر میں کافی دیر جھگڑا ہوتا رہا تھا بھابھی اور بھائی کے درمیان اور پھر یک دم ہی سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا۔ جب بھابھیوں کو یہ پتا چلا تھا کہ اس کا شوہر کیا کرتا ہے۔ چند لمحوں میں ان کے روئیے بدل گئے تھے۔ انہوں نے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی تھی جو مومل نے فراخ دلی سے دے دی تھی۔ اسے کبھی بھی بھائیوں یا بھابھیوں سے شکوہ نہیں ہوا تھا۔ نہ ہی اس نے کبھی انہیں اپنی بربادی کا ذمہ دار سمجھا تھا۔ اسے اسفند کے علاوہ اور کوئی مجرم نظر نہیں آتا تھا۔ پھر وہ ماضی کھنگالنے کیسے بیٹھ جاتی۔ اس کے لیے تو یہ ہی بہت بڑی بات تھی کہ اس کے بھائیوں نے اسے معاف کر دیا تھا نہ صرف معاف کر دیا تھا بلکہ اس کی گھڑی ہوئی کہانی سن کر وہ شرمسار ہوئے تھے اور ایک بار پھر اس کے لیے اس گھر کے دروازے کھول دئیے گئے تھے۔
دس سال میں پہلی دفعہ وہ اتنا ہنسی تھی اس کا جی چاہ رہا تھا۔ وہ ساری دنیا کو بتا دے کہ وہ ایک بار پھر سے دنیا میں واپس آ گئی ہے۔ اس کی جلاوطنی کا حکم واپس لے لیا گیا تھا۔ وہ رات کی فلائٹ سے واپس فیصل آباد آ گئی تھی۔ اس نے اسفند کو اپنے بھائیوں سے ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔
مومل کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ دس سال کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئی ہو اس کے سینے پر جو بوجھ تھا۔ وہ ہٹ چکا تھا۔ پہلی دفعہ اسے اپنا وجود اسفند کے مقابلے میں بے دست و پا نہیں لگ رہا تھا۔ ایک عجیب سی خوشی اور مسرت کا احساس اس کے اندر جاگزیں ہوا تھا۔ اسفند کو اس کے اندر آنے والی تبدیلی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ ورنہ شاید وہ کچھ چونکتا ضرور۔
٭
اس دن ملازم نے مومل کو کسی عورت کے آنے کی اطلاع دی تھی اس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس سے کافی لوگ ملنے آتے رہتے تھے۔ کچھ اسفند سے کوئی کام کروانے کے لیے اور کچھ مختلف فنکشنز کے دعوت نامے لے کر۔ اس نے اس عورت کو بھی ایسا ہی کوئی ملاقاتی سمجھا تھا۔ ملازم کو اس نے اس عورت کو ڈرائینگ روم میں بٹھانے کے لیے کہا اور خود بالوں میں برش کرنے لگی۔ چند منٹوں بعد وہ ڈرائنگ روم میں چلی آئی اور ڈرائنگ روم میں اس نے جس چہرے کو دیکھا تھا اس نے صحیح معنوں میں اس کے ہوش و حواس گم کر دئیے تھے۔ وہ ربیعہ تھی وہ تقریباً دوڑتے ہوئے اس کے گلے لگی تھی اور پھر جو اس نے رونا شروع کیا تو اسے چپ کرواتے کرواتے ربیعہ بھی رونے لگی۔ اچھی طرح آنسو بہا لینے کے بعد وہ اسے اوپر اپنے بیڈ روم میں لے آئی تھی۔ اسے اپنے بیڈ روم میں بٹھانے کے بعد وہ نیچے ملازم کو چائے کے بارے میں ہدایات دینے آئی تھی۔ جب وہ واپس گئی تو ربیعہ اسفند کے بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی زاشی اور اسفند کی تصویر دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس نے پوچھا۔
”زاشی ہے نا یہ ؟ دیکھو میں نے پہچان لیا۔ پہلے سے بھی زیادہ پیاری ہو گئی ہے۔”
مومل اس کی بات پر اثبات میں سرہلاتے ہوئے مسکرائی۔
”کہاں ہے یہ ؟”
”لاہور میں پڑھتی ہے۔ بورڈنگ میں ہے۔” وہ ربیعہ کے پاس بیٹھ گئی۔
”اور باقی بچے کہاں ہیں؟” مومل نے حیرانگی سے ربیعہ کا چہرہ دیکھا۔
”ربیعہ! کیا … کیا اس کی گنجائش تھی؟”
ربیعہ جیسے شاک کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”مومل! کیا تم اب بھی … تم کیا چیز ہو مومل؟”
”بس ربیعہ! یہ سب چھوڑو۔ تم بتاؤ۔ پاکستان کب آئی ہو؟” مومل نے بات کا موضوع بدل دیا۔ ربیعہ چند لمحے خاموش ہی رہی پھر ایک طویل سانس لے کر بولی۔
”دو سال ہوئے ہیں پاکستان میں شفٹ ہوئے۔ اب واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔” مومل تاسف سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”دو سال ہو گئے ہیں تمہیں پاکستان آئے ہوئے اور تم نے ایک بار بھی مجھ سے ملنے کی کوشش نہیں کی اور میں چھ سال سے ہر ماہ تمہیں خط لکھتی رہی ہوں۔ ایک دو سال خط کا جواب دینے کے بعد تم نے اس تکلف کی بھی زحمت نہیں کی اور اب یہاں آنے کے بعد بھی تمہیں میری یاد نہیں آئی۔” مومل کو صحیح معنوں میں دکھ ہوا تھا۔
”بس یار! کیا بتاؤں۔ میں کس قدر مصروف ہو گئی تھی۔ تمہیں پتا ہی ہے شادی اور اس کے بعد کی ذمہ داریاں پھر میں خود بھی جاب کرتی ہوں تو فرصت اور بھی کم ہی ملتی ہے۔ لیکن دیکھو اب جب فرصت ملی ہے تو سب سے پہلے تمہارے پاس ہی آئی ہوں۔”
”کتنے بچے ہیں تمہارے؟”
”تین بیٹیاں ہیں۔ دو کا تو تمہیں پتا ہی ہے۔ جڑواں ہیں اور ایک اور ہے۔”
”کیا کر رہی ہو آج کل؟” مومل نے ملازم کے آنے پر چائے بناتے ہوئے پوچھا۔
”جاب کر رہی ہوں ایک گورنمنٹ ہاسپٹل میں۔”
”تم اپنے بچوں کو ساتھ کیوں نہیں لائیں؟ میں انہیں دیکھ ہی لیتی۔”
”بس یار! ابھی وہ تینوں چھوٹی ہیں۔ اتنے لمبے سفر میں کیسے سنبھالتی۔” مومل سے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے ربیعہ نے کہا۔
”تم اپنے شوہر کو ساتھ لے آتیں پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔”
”انہیں کہاں سے لاتی۔ وہ تو انگلینڈ میں ہی ہیں۔ وہ ابھی کچھ سال وہیں رہیں گے۔ میں تو اس لیے پاکستان آ گئی ہوں’ تاکہ بچے یہاں سیٹ ہو جائیں وہاں بڑے ہوں گے تو بعد میں یہاں ایڈجسٹ ہونے میں انہیں مشکل ہو گی۔” مومل نے اس کی بات پر سرہلا دیا۔
”فاطمہ سے کوئی رابطہ ہے؟” مومل نے اس سے پوچھا۔
”ہاں’ وہ بھی پاکستان آ چکی ہے۔ اس کے فادر ان لا کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔ اسی کے شوہر کو کاروبار سنبھالنا تھا۔ اس لیے انہیں بھی واپس آنا پڑا۔ کراچی ہوتی ہے وہ۔” ربیعہ نے تفصیل سے اسے بتایا۔
”اور اس نے بھی مجھ سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے لگتا ہے’ تم دونوں مجھ سے ملنا چاہتی ہی نہیں تھیں۔” مومل کی زبان پر ایک بار پھر شکوہ آیا تھا۔
”نہیں۔ ایسی بات نہیں تھی۔ جب بھی ہم دونوں ملتی تھیں۔ تمہارا ذکر ضرور ہوتا تھا۔ لیکن ہم دونوں کے پاس تمہارا باقاعدہ پتا نہیں تھا۔ اس لیے ملنے کی کوشش کیا کرتے پھر مصروفیت اتنی تھی کہ ہم چاہتے ہوئے بھی تمہیں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کر سکے۔ اب جب کچھ فرصت ہوئی تو میں نے اسفند کی موجودہ پوسٹنگ کا پتا کروایا اور تمہارے پاس آ گئی۔”
ربیعہ نے جیسے وضاحت کی’ گو مومل اس کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئی’ لیکن اس نے موضوع بدل دیا۔
”اس کے بھی تین بچے ہیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔”
مومل اس سے بہت سی باتیں کرتی رہی اور انہیں باتوں کے دوران اس نے ربیعہ کو بتایا کہ وہ دوبارہ اپنے بھائیوں سے ملنے لگی ہے۔ اس اطلاع پر ربیعہ نے زیادہ خوشی یا جوش کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
”مجھے زیادہ خوشی ہوتی اگر تمہارے اور اسفند کے تعلقات ٹھیک ہو گئے ہوتے۔”
اس نے ایک جملے میں جیسے بات ختم کر دی تھی۔ رات کو ربیعہ کی ملاقات اسفند سے بھی ہوئی تھی۔ چھ سال پہلے جب وہ انگلینڈ گئی تھی۔ آج کا اسفند اس وقت کے اسفند سے بالکل مختلف تھا۔ بے حد سنجیدہ’ بہت کم مسکرانے والا’ ہلکی آواز میں رک رک کر بات کرنے والا۔ اس کی آنکھوں کی وہ چمک مفقود تھی جو لوگوں کے دلوں کو مسحور کر لیا کرتی تھی۔ وہ تو جیسے سرتاپا پچھتاوا تھا۔
ربیعہ کو اس پر بے اختیار ترس آیا۔ لیکن بہت سے مسائل ترس کھانے سے حل نہیں ہوتے۔ وہ جان بوجھ کر اس سے زاشی کے بارے میں بات کرتی رہی اس کے چہرے پر ابھرنے والی چند مدھم مسکراہٹیں اسی ایک نام کی بدولت تھیں۔
اگلے روز وہ شام کو واپس چلی گئی تھی۔ اس نے اس بار مومل کو کوئی نصیحت’ کوئی ہدایت نہیں کی تھی اور اس بات پر مومل کو کچھ حیرانگی ہوئی تھی لیکن وہ مطمئن تھی کہ ربیعہ اب پہلے کی طرح اس پر دباؤ نہیں ڈال سکتی۔
مومل اب اکثر لاہور جایا کرتی تھی۔ اپنے بھائیوں سے ملنے کے علاوہ وہ ربیعہ سے بھی ملتی رہتی تھی۔ اسفند کو بھی بہت جلد پتا چل گیا تھا کہ وہ اپنے گھر آنے جانے لگی ہے لیکن اس نے مومل سے کچھ پوچھنے یاکہنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چند بار زاشی کو بھی اپنے ساتھ اپنے بھائیوں کے گھر لے کر گئی تھی۔ لیکن زاشی وہاں جا کر زیادہ خوش نظر نہیں آئی۔ وہ کسی کے ساتھ زیادہ مکس اپ نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے مومل کے اصرار کے باوجود وہ جانے پر ناخوش ہی رہتی تھی۔
٭
”تم کہاں جا رہے ہو؟” زاشی ویک اینڈ پر گھر آئی ہوئی تھی اور رات کے کھانے کے بعد اسفند تیار ہو کر کہیں جانے لگا تھا۔ جب مومل نے ترش لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔ اسفند نے ٹی وی دیکھتی ہوئی زاشی کی طرف دیکھا۔
”مجھے کام ہے۔” کچھ ناگواری سے اس نے مومل کو جواب دیا تھا۔
”کیا کام ہے؟”
”یہ تمہیں جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”یہ کیوں نہیں کہتے۔ تم اسی عورت کے پاس جا رہے ہو۔”
اس بار مومل کی آواز بہت بلند تھی۔ زاشی ان دونوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اسفند نے زاشی کو دیکھتے ہوئے دھیمی آواز میں اس سے کہا۔
”اس طرح تماشا کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کسی کے پاس نہیں جا رہا۔ زاشی کے سامنے اس طرح کی باتیں مت کرو۔”
”کیوں نہ کروں۔ اسے پتا چلنا چاہیے کہ اس کا باپ کیا ہے اور اس کے کرتوت کیا ہیں۔”
مومل کی آواز اور تیز ہو گئی تھی۔ اس بار اسفند بھی بھڑک اٹھا۔
”تم اپنا منہ بند کرو۔ میں تم سے کسی قسم کی بکواس سننا نہیں چاہتا۔”
”کیا چاہتی ہو تم؟ بتاؤ کیا چاہتی ہو؟ زندگی کو عذاب تو پہلے ہی بنا دیا ہے’ اب باقی کیا رہ گیا ہے جسے بگاڑنا چاہتی ہو؟”
”میں نے نہیں تم نے عذاب بنایا ہے۔ اپنی نہیں میری زندگی کو۔ تمہیں کیا پریشانی ہے۔ تمہاری عیاشیاں تو اسی طرح جاری ہیں۔ تمہیں کس چیز کی کمی ہے؟”
”زاشی! اٹھو۔ تم اپنے کمرے میں جاؤ۔”
اسفند نے سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے زاشی سے کہا جو حیرانی سے اس جھگڑے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر دروازے کی طرف جانے لگی۔ مومل نے آگے بڑھ کر اسے روک دیا۔
”زاشی یہاں سے نہیں جائے گی۔ جو کچھ ہو گا’ اس کے سامنے ہی ہو گا۔ اپنی اصلیت کیوں چھپانا چاہتے ہو اس سے؟ اپنا بھیانک چہرہ کیوں نہیں دکھانا چاہتے اسے؟” مومل کے لہجے میں صرف زہر تھا۔
”میں تم پر ہاتھ اٹھانا نہیں چاہتا ہوں۔ بہتر ہے’ تم خاموش ہو جاؤ۔”
”نہیں’ میں خاموش نہیں رہوں گی۔ تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔ مارنا چاہتے ہو مارو اور میں تمہیں شوٹ کردوں گی۔ گھٹیا آدمی۔” مومل نے بہت زور سے چلا کر کہا تھا۔
”ماما پلیز آپ چلایا مت کریں۔ آپ پاپا سے آرام سے بات کر سکتی ہیں۔”
اس سے پہلے کہ اسفند اس کی بات کا کوئی جواب دیتا۔ زاشی نے یک دم بڑی ناگواری سے اس سے کہا تھا۔
”میں چلا رہی ہوں اور تمہارا باپ کیا کر رہا ہے۔” اس کی بات پر مومل کا خون اور کھول اٹھا تھا۔
”پاپا ٹھیک کہتے ہیں۔ جھگڑا ہمیشہ آپ شروع کرتی ہیں آپ پاپا سے بدتمیزی کرتی ہیں۔ آپ کو تو ہمیشہ …”
”زاشی خاموش ہو جاؤ۔ میں تمہاری بکواس سننا نہیں چاہتا۔ تم جاؤ یہاں سے۔” اسفند نے اس کی بات کاٹ دی۔ زاشی کچھ روہانسی ہو کر کمرے سے نکل گئی اس بار مومل نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!