بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

اس دن وہ اپنی ایک دوست کے ساتھ لائبریری میں شیکسپیئر کا ایک ڈرامہ لینے گئی تھی۔ اس ڈرامے کا اوریجنل ٹیکسٹ بازار میں دستیاب نہیں تھا۔ اور اس نے سوچا کہ جب تک وہ مارکیٹ میں نہیں آتا۔ وہ لائبریری سے اسے ایشو کروا کر پڑھ لے گی۔ جب وہ کاؤنٹر پر اپنی دوست کے ساتھ کتاب ایشو کروانے گئی تو اس نے دیکھا۔ اسفند بھی کچھ کتابیں ایشو کروا رہا ہے۔ اس کی دوست کچھ نروس ہو گئی تھی۔ اس کا اپنا دھیان بھی اس کی جانب تھا۔ اسی وقت لائبریرین اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ ”میکبتھ کا اوریجنل ٹیکسٹ ہے لائبریری میں؟ شیکسپیئر کا مشہور ناول ہے۔” اس نے کچھ نروس سے انداز میں لائبریرین سے پوچھا۔
اسفند نے رجسٹر پر سائن کرتے کرتے ہاتھ روک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس کی اس حرکت پر حیران ہوئی۔ کیونکہ اس سے اس کی کوئی جان پہچان نہیں تھی جو وہ اس طرح مسکراتا۔ مومل نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر کچھ نہ سمجھتے ہوئے نظر ہٹالی۔
”ایکسکیوزمی مس! شیکسپیئر نے میکبتھ نام کا کوئی ناول نہیں لکھا۔ ” لائبریرین کے بجائے اس نے اسفند کوکہتے سنا تھا۔
وہ سرگھما کر پھر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ فوری طور پر مومل کو کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس نے اپنی دوست پر نظر دوڑائی وہ بھی کچھ حیرت زدہ تھی۔
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ شیکسپیئر کا ناول میکبتھ ہمارے سیلبس میں شامل ہے۔” مومل نے قدرے بلند آواز میں اس سے کہا تھا مگر وہ اسی طرح مسکراتا رہا۔
”آپ کے سیلبس میں شیکسپیئر کا کوئی ناول نہیں ہے۔” اس نے ایک بار پھر کہا۔ اس کا اصرار مومل کی سمجھ سے باہر تھا۔
”میں شرط لگا کر کہتی ہوں کہ ہمارے سیلبس میں شیکسپیئر کا یہ ناول ہے۔”
اس بار وہ اس کی بات پر کھکھلا کر ہنس پڑا۔
”چلیں ٹھیک ہے بیٹنگ (شرط) ہی سہی کیوں عمر! کیا شیکسپیئر نے اس نام سے کوئی ناول لکھا ہے؟” اس نے بڑے معنی خیز انداز میں اپنے پاس کھڑے ہوئے لڑکے سے پوچھا۔
”نہیں۔” اس کے دوست نے بڑا مختصر سا جواب دیا تھا۔
”آپ نے سنا۔ عمر نے لٹریچر میں ماسٹرز کیا ہے لیکن وہ شیکسپیئر کے ایسے کسی ناول کو نہیں جانتا۔ اب آپ ثابت کریں کہ شیکسپیئر نے اس نام کا کوئی ناول لکھا ہے۔”
وہ اب اس کی باتوں پر جھنجھلانے لگی۔
”آپ کو کچھ نہیں پتا۔ شیکسپیئر نے اس نام کا ناول لکھا ہے اور وہ ہمارے سیلبس میں بھی ہے بلکہ آپ ٹھہریں۔ میں آپ کو سیلبس دکھاتی ہوں۔”
بات کرتے کرتے اچانک اسے یاد آیا کہ اس کے بیگ میں پارٹ ون کا سیلبس موجود تھا۔
سیلبس نکال کر اس نے بڑے فخریہ انداز میں اسفند کے چہرے کے سامنے کر دیا۔
”اگر آپ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ یہ ناول اس سیلبس میں شامل ہے اور اسے شیکسپیئر نے ہی لکھا ہے۔”
لیکن اسفند نے سیلبس پر نظر دوڑانے کے بجائے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اگر میرے بجائے آپ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ یہ ناول نہیں play ہے اور شیکسپیئر ناول نہیں plays لکھتا تھا۔” اس کے جملے پر مومل کو جیسے کرنٹ لگا۔ وہ جانتی تھی کہ شیکسپیئر نے ناول نہیں plays لکھے ہیں لیکن اس نے نروس ہو کر ایک واضح غلطی کی تھی اور بعد میں وہ اسی پر اڑی رہی۔ خجالت سے اس کا بُرا حال تھا۔ کسی طرف دیکھے بغیر خاموشی سے وہ لائبریری سے باہر آ گئی۔ اس کی دوست بھی اس کے پیچھے آ گئی باہر آ کر وہ اپنی دوست پر دھاڑنے لگی۔
”تمہیں مجھے میری غلطی کے بارے میں بتا دینا چاہیے تھا۔ تم منہ بند کر کے سارا تماشا دیکھتی رہیں۔”
اس کی دوست اپنی صفائی پیش کرنے لگی۔





”یار! مجھے تو خود پتا نہیں تھا۔ مجھے کیا اندازہ کہ وہ کس حوالے سے بات کر رہا ہے ورنہ میں تمہیں کبھی اس بحث میں انوالو نہ ہونے دیتی۔ ویسے یار! دیکھو اس نے کس طرح تمہاری غلطی کو پکڑا ہے۔ مگر میں تو حیران ہوں کہ اس نے تم سے بات کیسے کر لی۔ مجھ سے بات کرتا تو میں تو فوت ہی ہو جاتی۔”
عالیہ کی بات پر مومل کا پارہ اور چڑھ گیا۔ وہ کافی دیر عالیہ پر برستی رہی خجالت سے اس کا بُرا حال تھا اور اسی خجالت کے مارے وہ اگلے دن یونیورسٹی نہیں گئی۔
تیسرے دن جب وہ یونیورسٹی گئی تو اس کی دوستیں اسے دیکھ کر بڑے معنی خیز انداز میں مسکرائی تھیں۔
”تمہارے لیے ایک تحفہ بھیجا ہے اسفند نے۔”
وہ عالیہ کی بات پر حیران رہ گئی۔
سائرہ نے اسے ایک کتاب تھما دی۔
”تم تو کل آئی نہیں تھیں مگر اسفند آیا تھا اور یہ ڈرامہ دے کر کہنے لگا کہ اپنی دوست کو یہ ”ناول” میری طرف سے دے دیجئے گا۔”
وہ سائرہ کی بات پر یک دم بگڑ گئی۔ ”اور تم نے خاموشی سے یہ کتاب تھام لی۔ وہ میرا مذاق اڑا رہا تھا اور تم لوگوں نے ذرا پروا نہیں کی۔”
”صرف کتاب نہیں اس کے اندر ایک خط بھی ہے۔ تمہارے لیے۔ وہ پڑھو پھر غصہ کرنا۔” فاریہ نے ہنس کر کہا۔
مومل نے کچھ پریشانی کے عالم میں خط نکالا ۔
مائی ڈیئر مومل!
میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ میں نہیں جانتا۔ یہ سب کیسے ہوا لیکن یہ سچ ہے کہ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ تم وہ پہلی لڑکی ہو جس سے مجھے محبت ہوئی ہے۔ اب میں تمہارے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو اور اب میں تمہاری جانب سے جواب کا انتظار کروں گا۔ مجھے یقین ہے’ تم مجھے مایوس نہیں کروگی۔
تمہارا اور صرف تمہارا اسفند
خط پڑھ کر اس کا خون کھول اٹھا۔ اس نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔ ”اس کمینے کی اتنی جرأت کہ وہ مجھے اس قسم کے محبت نامے بھیجے۔”
”ہم تو خود اس کو دیکھ کر حیران ہو گئے تھے۔ پہلے تو ہم نے سوچا کہ یہ خط خود جا کر اس کے منہ پر مارتے ہیں لیکن پھر ہم نے سوچا کہ ہمارا یہ کرنا بہتر نہیں ہو گا جو کچھ کرنا چاہیے۔ تم کو کرنا چاہیے تاکہ اسے اندازہ ہو جائے کہ تم ایسی ویسی لڑکی نہیں ہو اور ہو سکتا ہے’ وہ تم سے معذرت بھی کر لے۔ اس وقت وہ کیفے ٹیریا میں بیٹھا ہو گا۔ تم وہیں جا کر اس سے بات کرو’ ذرا اسے پتا تو چلے کہ تم کیا ہو۔”
اس نے فاریہ کے مشورے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور سیدھا کیفے ٹیریا میں پہنچ گئی۔ بڑی آسانی سے اس نے اسفند کو وہاں پا لیا تھا۔ اسفند اسے اپنی جانب آتے دیکھ کر مسکرایا اور اس کی اس مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مومل نے اس کی میز پر پہنچ کر کتاب کھینچ کر اس کے منہ پردے ماری۔
”تم نے کیا سمجھ کر مجھے یہ کتاب دی ہے؟” وہ بلند آواز میں چلائی۔ اسفند نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھا تھا اور جب اس نے ہاتھ ہٹایا تو خون کے چند قطرے اس کی ہتھیلی پر نظر آ رہے تھے۔ اس کا چہرہ یک دم سرخ ہو گیا۔ اردگرد کی میزوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ان کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔ ”میں نے یہ play آپ کو اس لیے دیا تھا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ صرف نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ۔ اس کے علاوہ میرا کوئی مقصد نہیں تھا۔ اگر آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگی تو آپ بڑے آرام سے یہ کتاب واپس کر سکتی تھیں۔ اس قسم کی بے ہودگی کی ضرورت نہیں تھی۔”
اس نے بہت سرد لہجے میں اس سے کہا تھا مگر اس کی آواز بے حد دھیمی تھی۔ شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں تک اس کی آواز پہنچے۔ مومل پر اس کے لہجے کی سختی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے ایک بار پھر وہ ہاتھ میں پکڑا ہوا خط اس پر اچھال دیا۔
”یہ لو لیٹر تم نے کون سے خلوص کے اظہار کے لیے دیا ہے؟”
وہ جیسے اس کی بات پر دم بخود رہ گیا تھا۔ ”میں نے کوئی لولیٹر نہیں لکھا۔”
”تو کیا یہ تمہارے فرشتوں نے لکھا ہے۔ تم نے کیا سوچا کہ تم مجھے پھنسا لوگے اس طرح کے خط بھیج کر۔”
”میرے پاس ان خرافات کے لیے وقت نہیں ہے۔ میں یونیورسٹی اس لیے نہیں آتا اور جہاں تک تمہیں پھنسانے کا تعلق ہے تو مجھے خط لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ تم تو پہلے ہی میرے انتظار میں کھڑی رہتی ہو۔” اسفند نے بہت تلخ لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔
مومل کے جسم میں جیسے آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس نے ایک زناٹے کا تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیا۔ کیفے ٹیریا میں یک دم جیسے سناٹا چھا گیا۔ اسفند حسن اپنے گال پر ہاتھ جمائے کھڑا تھا اور وہ چیلنج کرنے والے انداز میں اس کے سامنے کھڑی تھی۔
”اس تھپڑ کے لیے تم ساری عمر پچھتاؤ گی۔”
اسفند نے بھنچے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک لفظ کہا۔ اس کی آنکھوں میں جیسے خون اترا ہوا تھا۔
”کیا کرو گے تم؟” وہ اس کے تاثرات سے خائف نہیں ہوئی۔
”یہ تم بہت جلد جان جاؤگی۔” ٹیبل پر پڑی ہوئی کتابیں اٹھا کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کیفے ٹیریا سے نکل گیا۔
مومل پر اس کی دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ واپس اپنی دوستوں کے پاس ڈیپارٹمنٹ چلی گئی۔ اور انہیں سارے واقعات سنا دئیے۔
”مومی! تم نے اسے تھپڑ کیوں مارا؟” فاریہ اس کی بات سن کر چیخ پڑی۔
”کیوں نہ مارتی۔ وہ بے ہودہ بکواس کر رہا تھا۔ کیا میں اتنے لوگوں کے سامنے اپنی رسوائی برداشت کرتی اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا نہ تم لوگ اس کے لیے کلاسز کے باہر کھڑی ہوتیں اور نہ مجھے تم لوگوں کے ساتھ جانا پڑتا۔” وہ اپنی دوستوں پر برس پڑی۔
”مومی…! ہم نے تمہارے ساتھ صرف ایک مذاق کیا تھا کیونکہ آج اپریل فول تھا اور تم نے بغیر سوچے سمجھے اتنی بڑی حماقت کر دی۔”
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد یک دم عالیہ نے اس سے کہا۔ مومل کو یوں لگا جیسے اس کے پاس کوئی بم پھٹا ہو۔ اس نے بے یقینی سے فاریہ اور عالیہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ کہہ رہی تھی۔
”وہ خط اقصیٰ نے لکھا تھا اسفند نے نہیں’ تم نے اس کی ہینڈ رائٹنگ بھی نہیں پہچانی۔ تم بھی بعض دفعہ حد کر دیتی ہو۔”
مومل کا پارہ اس وقت آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ اس نے پہلی بار اپنی دوستوں کو بے نقط سنائیں۔ وہ وضاحتیں پیش کرتی رہیں مگر اس نے کوئی وضاحت قبول نہیں کی تھی۔ چند منٹوں پہلے کا منظر بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا اور اس کی خلش بڑھتی جا رہی تھی۔
پھر اس کا دل یونیورسٹی میں نہیں لگا تھا۔ دوستوں کے روکنے کے باوجود وہ وہاں نہیں رکی اور پوائنٹ کی طرف چلی گئی۔ اپنے گھر کے پاس وہ حسب معمول بس سے اتری تھی اور پھر مین روڈ سے بائی روڈ پر مڑ گئی۔ اس کا ذہن اتنا الجھا ہوا تھا کہ اس نے سفید رنگ کی اس ہونڈا پر بھی غور نہیں کیا تھا جس نے گھر تک اس کا پیچھا کیا تھا۔ گھر آ کر بھی اس کی پریشانی کم نہیں ہوئی تھی اس کا ضمیر اسے مسلسل لعنت ملامت کر رہا تھا۔
”میں نے غلطی کی اور ٹھیک ہے۔ میں کل اسفند سے معذرت کر لوںگی۔”
رات کو سونے سے پہلے اس نے فیصلہ کیا تھا اور پھر بڑی جدوجہد کے بعد سونے میں کامیاب ہو گئی۔
اگلے دن صبح حسب معمول تیار ہوئی تھی اور مقررہ وقت پر پوائنٹ پکڑنے کے لیے گھر سے باہر بائی روڈ پر آ گئی۔ وہ ابھی مین روڈ سے کافی دور تھی جب بہت تیزی سے ایک گاڑی یک دم اس کے قریب آ کر رک گئی۔ اس نے حیران ہو کر اس سیاہ رنگ کی گاڑی کو دیکھا جس کا فرنٹ ڈور کھلا تھا۔ اور سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک درازقد نوجوان اس کے قریب آ گیا تھا۔
”آپ مومل عباس ہیں؟” بہت شستہ لہجے میں اس سے پوچھا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے وہ صرف اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”آپ کون ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”تعارف کی ضرورت نہیں ہے’ آپ بس اتنی زحمت کریں کہ گاڑی میں بیٹھ جائیں۔ میں نہیں چاہتا کہ سڑک پر آپ کے ساتھ کوئی بدتمیزی کی جائے۔”
مومل اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر دھک سے رہ گئی۔ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر دو اور لمبے تڑنگے آدمی اس کے اطراف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ اس کا جسم کانپنے لگا۔ فق ہوتی ہوئی رنگت کے ساتھ اس نے کسی مدد کی آس میں سڑک کو دیکھا تھا۔
”اگر آپ کو یہ امید ہے کہ سڑک سے کوئی گاڑی گزرے گی اور آپ شورمچا کر اسے متوجہ کر لیں گی تو ایسا نہیں ہو گا۔ اس بائی روڈ کے دونوں اطراف میں دو گاڑیاں ہیں اور وہ کسی کو بھی اس وقت تک اس سڑک پر آنے نہیں دیں گی۔ جب تک ہم یہاں سے چلے نہیں جاتے اس لیے آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں۔”
اس بار اس کا لہجہ بے حد سخت تھا۔ اس نے مومل کے اطراف کھڑے ہوئے آدمیوں کو کوئی اشارہ کیا تھا اور ایک آدمی نے اسے گاڑی کے دروازے کی طرف دھکیل دیا تھا دوسرے آدمی نے کہیں سے ایک ریوالور برآمد کیا تھا اور اس پر تان دیا۔ سفید شلوار قمیض والا نوجوان کچھ کہے بغیر پُرسکون انداز میں دوبارہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ڈوبتے ہوئے دل کے ساتھ وہ بھی گاڑی میں سوار ہو گئی۔ وہ دونوں آدمی اس کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ ان کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ دائیں طرف بیٹھے ہوئے آدمی نے اپنی جیب سے ایک سیاہ پٹی نکال کر اس کی آنکھوں پر باندھ دی۔ اسے پوری دنیا اندھیرے میں ڈوبتی محسوس ہوئی۔
”تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟” کانپتی ہوئی آواز میں اس نے پوچھا۔
”آپ کو بہت جلد پتا چل جائے گا۔” اس نوجوان کی آواز ابھری تھی۔
”میرے بھائیوں کو پتا چل گیا تو وہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ وہ سرکاری افسر ہیں۔ کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔” اس نے انہیں دھمکانے کی کوشش کرنا چاہی تھی۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!