بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

”اچھا۔” جواب ایک بار پھر مختصر تھا۔ مومل کا دل رونے کو چاہا۔
”تم مجھے اسفند کے پاس لے کر جا رہے ہو؟” اس نے ایک بار پھر پوچھا۔ گاڑی میں اس بار خاموشی رہی۔ اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ اس نے آنکھوں سے پٹی ہٹانی چاہی مگر اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”یہ پٹی اتارنے کی کوشش کر رہی ہے۔” اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی نے بلند آواز میں کہا۔
”اب ایسا کرے تو اس کے منہ پر تھپڑ مارنا۔” اسی نوجوان نے کرخت آواز میں کہا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ مومل نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔ وہ دوبارہ ہاتھ پٹی تک لے جانے کی ہمت نہیں کر پائی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ زور زور سے چیخے دھاڑیں مارمار کر روئے لیکن وہ اپنے آنسوؤں کا گلا گھونٹ رہی تھی۔
پہلی دفعہ اسے صحیح معنوں میں اپنے کیے پر پچھتاوا ہوا تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر سکی گاڑی کتنی دیر چلتی رہی۔ اس کے لیے گویا یہ قیامت کا سفر تھا۔ پھر گاڑی رک گئی تھی۔ اس کا دروازہ کھولا گیا اور اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی سے اتارا۔ مومل نے دوسرے ہاتھ سے اپنی آنکھوں کی پٹی اتارنی چاہی مگر ایک بار پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا گیا۔
”اسے ابھی آنکھوں پر ہی رہنے دو۔” اس نوجوان نے اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے کہا تھا پھر اسی طرح اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے وہ اسے کسی گھر کے اندر لے گیا۔ مومل کو بار بار دروازے بند ہونے اور کھلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پھر اچانک اس نے مومل کا ہاتھ چھوڑ کر اس کی پٹی اتار دی۔ چند لمحوں تک مومل کو کچھ نظر نہیں آیا لیکن پھر آہستہ آہستہ اردگرد کا منظر واضح ہونے لگا۔ اس کے پاس کھڑا نوجوان بڑی گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ مومل کو اس کی نظروں سے خوف آنے لگا۔
”تم کون ہو اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟” چند قدم پیچھے ہٹتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔
”میں کون ہوں۔ تمہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں۔ یہ جاننے کے لیے تم کچھ دیر انتظار کرو۔”
وہ کہتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔ وہ بھی تیزی سے اس کے پیچھے گئی اور دروازے کے ہینڈل کو گھمانے لگی مگر دروازہ نہیں کھلا۔ شاید وہ اسے باہر سے لاک کر گیا تھا اور یہ چیز اس کے لیے خلاف توقع نہیں تھی۔ پھر اس نے دروازہ کا ہینڈل چھوڑ دیا۔ اور کمرے کا جائزہ لینے لگی۔ شاید وہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ وہ ایک کشادہ اور ویل فرنشڈ کمرہ تھا۔ کمرے کی ایک دیوار میں اسے کھڑکیاں بھی نظر آئیں۔ وہ تیزی سے ان کی طرف گئی اور پردے کھینچ کر وہ ایک بار پھر مایوس ہو گئی تھی۔ کھڑکیوں کے باہر گرل لگی ہوئی تھی اور کھڑکیوں سے نظر آنے والے منظر نے اسے ہولا دیا تھا۔ اسے شہر سے باہر کسی فارم ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔ باہر دور دور تک کھیت سبزہ اور درخت نظر آ رہے تھے۔





اس نے بے اختیار رونا شروع کر دیا اور اس بار اس نے اپنی آواز دبانے کی کوشش نہیں کی۔ کمرے میں پاگلوں کی طرح چکر لگاتے ہوئے وہ بلند آواز میں روتی رہی مگر اس کی آواز سن کر کوئی اندر نہیں آیا تھا۔ دوپہر کا کھانا وہی سفید شلوار قمیض والا نوجوان لے کر آیا تھا اور خاموشی سے اندر رکھ کر چلا گیا وہ روتے ہوئے اس کے پیچھے گئی مگر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔ وہ بہت دیر تک زور زور سے دروازہ بجاتی رہی۔ اس کی وحشت بڑھتی جا رہی تھی یہ سوچ کر اس کا دل ڈوب رہا تھا کہ جب گھر میں اس کی گمشدگی کا پتا چلے گا تو کیا ہو گا۔ روتے روتے خود ہی اس کے آنسو تھم گئے تھے۔ وہ سر پکڑ کر ایک صوفہ پر بیٹھ گئی۔
شام کے سات بجے اس نے ایک بار پھر دروازہ کے باہر قدموں کی چاپ سنی تھی دروازہ کھلا تھا اور ایک آدمی کھانے کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے پیچھے وہی نوجوان تھا۔ اس آدمی نے میز پر کھانے کی ٹرے رکھ دی اور اس پر پہلے سے موجود دوپہر کے کھانے کی ٹرے اٹھالی۔
”آپ نے کھانا نہیں کھایا؟” اس نوجوان نے بہت نرم لہجے میں اس سے پوچھا۔ مومل کو اس کے لہجے سے جیسے شہ مل گئی۔ وہ بلند آواز سے بولنے لگی۔
”مجھے کھانا نہیں کھانا۔ گھر جانا ہے۔ تم مجھے گھر جانے دو۔ میں یہاں نہیں رہوں گی۔” مومل نے یک دم کمرے کے دروازے سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش کا نتیجہ ایک زبردست تھپڑ کی صورت میں نکلا تھا۔
”میں عام طور پر عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا مگر بعض عورتوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے۔ جیسے تمہارے لیے۔ تمہیں یہاں جس شخص کے کہنے پر لایا ہوں’ صرف وہی تمہیں یہاں سے نکال سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں۔ اس لیے تم اپنا شور شرابا بند کر دو۔ جس جگہ پر تم ہو یہاں میرے علاوہ تین اور آدمی ہیں اور تینوں میں سے کوئی بھی تمہارا ہمدرد نہیں ہے اس لیے کسی سے مدد کی توقع مت رکھو۔”
وہ حلق میں اٹکے ہوئے سانس کے ساتھ دہشت زدہ اس کی باتیں سنتی رہی۔ وہ اپنی بات ختم کر کے اس آدمی کے ساتھ کمرے میں چلا گیا۔ اسے ایک بار پھر رونا آ گیا تھا۔
”پتا نہیں ‘ گھر والوں کا کیا حال ہو گا۔ پتا نہیں بھائی مجھے کہاں کہاں ڈھونڈ رہے ہوں گے۔” اس کا ذہن جیسے سوچوں کا گرداب بن گیا تھا۔
تیسری دفعہ کمرے کا دروازہ رات گیارہ بجے کھلا تھا اور آنے والے کو دیکھ کر اس کا سانس رک گیا تھا۔ اسے شک تو تھا کہ اسے اسفند کے کہنے پر اغوا کیا گیا ہے مگر اغوا کرنے والوں نے اس کی بات کی نہ تصدیق کی تھی نہ تردید’ اس لیے اس کا شبہ یقین میں نہیں بدلا تھا یا شاید اسے توقع نہیں تھی کہ اسفند حسن جیسا شخص ایسی گھٹیا حرکت کر سکتا تھا۔ اور اب … اب اسفند حسن اس کے سامنے تھا۔ اس کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا یوں جیسے وہ اسے جانتا ہی نہ ہو۔ وہ ستے ہوئے چہرے’ سوجھی آنکھوں اور ٹھنڈے ہوتے ہوئے وجود کے ساتھ اسے کمرے میں آتا دیکھتی رہی۔
”تو مومل عباس! کوئی بات کریں۔ کچھ کہیں۔ میرے عشق میں کتنی طاقت تھی جو آپ کو یہاں کھینچ لایا ہے۔”
اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور لہجے میں زہر تھا۔
”مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ خدا کے لیے مجھے معاف کر دو۔ مجھے گھر جانے دو۔” وہ یک دم گھٹنوں کے بل گر کے رونے لگی۔
”میں گھر بھجوا دوں گا۔ تمہیں اپنے پاس رکھ کر مجھے کرنا ہی کیا ہے۔ ہاں بس جب تم واپس جاؤ گی تو اتنی ہی ذلت اور رسوائی ساتھ لے کر جاؤ گی۔ جتنی کل میں یونیورسٹی سے لے کر گیا تھا۔” وہ اس کے قریب آ گیا۔
”جو کچھ میں نے کل کیا’ وہ غلط تھا۔ مجھے اس پر افسوس ہے میں ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی مانگتی ہوں۔” اس نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دئیے۔
”جو کچھ میں آج کروں گا’ مجھے اس پر کبھی بھی افسوس نہیں ہو گا کیونکہ تم اس کی مستحق ہو۔”
مومل نے روتے روتے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ وہ اس کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ نہیں سکی۔ فرار آسان نہیں ہوتا نہ زندگی سے نہ قسمت سے نہ ان حرکتوں سے جو ہم خود کو عقل کل سمجھ کر کرتے ہیں۔ ہر شخص کو گرنے کے لیے ٹھوکر کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض ٹھوکر لگے بغیر ہی گر جاتے ہیں پھر انہیں اٹھانے کے لیے کوئی ہاتھ بڑی مشکل سے ہی آگے بڑھتا ہے۔
وہ صبح بے حد خاموشی سے باہر چلا گیا تھا اور اندر وہ دھاڑیں مار مار کر روتی رہی۔ اس رات کے بعد وہ دوبارہ اس کے پاس نہیں آیا۔ تیسرے دن وہ صبح کے وقت آیا اور وہ اسے دیکھ کر ایک بار پھر خوفزدہ ہو گئی۔
”تم کھانا کیوں نہیں کھاتیں؟” اس بار اس کا لہجہ اور انداز دونوں بدلے ہوئے تھے۔
”مجھے گھر جانے دو۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ خدا کے لیے مجھے گھر جانے دو۔” اس نے روتے ہوئے ایک بار پھر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔
”ٹھیک ہے اگر تم گھر جانا چاہتی ہو تو میں تمہیں گھر پہنچا دوں گا۔ مگر پہلے تم کھانا کھاؤ اور کپڑے تبدیل کر لو۔”
وہ ایک پیکٹ اس کی طرف اچھال کر چلا گیا۔ وہ بجلی کی تیزی سے کپڑے بدل کر کھانا کھانے بیٹھ گئی۔ چند لقمے زہر مار کرنے کے بعد وہ پھر اٹھ گئی۔ اس کے بعد وہ کسی کی آمد کا انتظار کرتی رہی مگر کوئی نہیں آیا۔ اگلی صبح اسے اسی طرح آنکھوں پر پٹی باندھ کر گھر سے لے جایا گیا۔ اور پھر اس کو گھر کے پاس چھوڑ دیا گیا۔
مومل بازوؤں میں منہ چھپائے رو رہی تھی اور فاطمہ جیسے سکتہ کے عالم میں تھی۔ اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ اب مومل کو چپ کروانے کی کوشش کرتی۔ ربیعہ بھی گم صم تھی۔ پھر اچانک فاطمہ بھی مومل سے لپٹ کر رونے لگی’ شاید اسے خود پر قابو نہیں رہا تھا۔ ربیعہ کچھ دیر تک ان دونوں کو روتے دیکھتی رہی پھر اس نے نرمی سے فاطمہ کو مومل سے علیحدہ کیا تھا۔
”مومل! تم چپ ہو جاؤ۔ رونے سے کیا ہو گا۔ جو کچھ ہو چکا ہے’ اسے بھول جاؤ۔ وہ ماضی ہے’ اب آئندہ کا سوچو’ تمہارے آگے پوری زندگی پڑی ہے۔ دنیا ختم تو نہیں ہو گئی۔”
”کیا میری دنیا ختم نہیں ہو گئی؟” مومل نے روتے روتے سر اٹھا کر اس سے کہا۔ اس کی شکل دیکھ کر ربیعہ کے دل کچھ ہوا مگر اس نے ایک بار پھر خود پر قابو پا لیا۔
”مومل! خود کو سنبھالو۔ جو کچھ ہو چکا ہے’ اسے تم نہیں بدل سکتیں مگر جو زندگی آئندہ تمہیں گزارنی ہے۔ اس کے بارے میں تو سوچ سکتی ہو۔”
”زندگی؟ کون سی زندگی؟ میرے گھر والوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ کوئی رشتہ دار مجھے پناہ دینے کو تیار نہیں۔ میری بات پر کسی کو اعتبار ہی نہیں آتا۔”
ربیعہ نے اس کی بات پر ایک طویل سانس لی۔
”مومل! صرف رونے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ابھی ہمارے پاس وقت ہے۔ ہم تمہارے گھر والوں سے بات کریں گے۔ ہم یہ نہیں بتائیں گے کہ تمہارے ساتھ کوئی غلط حرکت ہوئی ہے۔ یہ کہیں گے کہ تمہیں کسی اور لڑکی کے دھوکے میں اغوا کیا گیا تھا اور جب اغوا کرنے والوں کو حقیقت کا پتا چلا تو انہوں نے تمہیں چھوڑ دیا۔”
”اور اگر انہوں نے پھر بھی مجھے نہ رکھا تو؟” مومل نے ربیعہ سے پوچھا۔ وہ فاطمہ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”تو پھر کچھ نہیں۔ ہم لوگ تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں سڑک پر نہیں پھینکیں گے۔”
ربیعہ نے قطعی لہجے میں کہا۔ مومل حیرت سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی کہ یہ بات فاطمہ کہتی تو شاید اسے حیرت نہ ہوتی لیکن ربیعہ کے منہ سے یہ بات اسے بڑی عجیب لگی تھی۔ اس کی ربیعہ سے صرف سرسری سی جان پہچان تھی۔ وہ فاطمہ سے ملنے آتی اور ربیعہ سے بھی سلام دعا ہو جاتی کیونکہ وہ فاطمہ کی روم میٹ تھی اور اس کی بہت اچھی دوست بھی تھی اور اس وقت وہ اس کے لیے جیسے رحمت کا فرشتہ بن کر آئی تھی۔ اس نے زبردستی مومل کو کھانا کھلایا تھا اور پھر اسے نیند کی گولی دے کر سلا دیا۔ پھر وہ فاطمہ کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
”اب کیا ہو گا ربیعہ! اب کیا ہو گا؟ مومل زندگی کیسے گزارے گی؟ کیسے رہے گی؟” فاطمہ نے بھرّائی ہوئی آواز میں اس سے کہا تھا۔
”کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے اور افسوس کرنے سے تو کچھ نہیں ہو گا۔ تم اب اس کے سامنے رونا مت۔ تمہارے آنسو اسے اور ڈپریس کر دیں گے۔ جو کچھ ہو چکا ہے’ ہم اسے بدل نہیں سکتے لیکن اسے تسلی اور دلاسا تو دے سکتے ہیں۔ بار بار وہی بات دوہرانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ صبح ہم ہاسپٹل جانے سے پہلے اس کے گھر جائیں گے اور اس کی بھابھیوں سے بات کریںگے۔ ہو سکتا ہے وہ اسے رکھنے پر تیار ہو جائیں ورنہ دوسری صورت میں ہم اسے کسی ہاسٹل میں داخل کروا دیں گے۔ کچھ روپے میرے پاس ہیں اور کچھ تم دے دینا۔ ہم بہت آسانی سے اس کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں پھر وہ اپنی تعلیم مکمل کر لے گی تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔”
ربیعہ نے جیسے سب کچھ پہلے سے طے کر رکھا تھا۔ فاطمہ پر سوچ انداز میں سرہلا کر رہ گئی۔
دوسرے دن وہ مومل کے گھر گئیں لیکن مومل کی بھابھیوں کے چہرے کے تاثرات نے انہیں بتا دیا کہ وہ اب مومل کی کسی دوست سے ملنا نہیں چاہتیں اور جب انہیں ان کی آمد کا پتا چلا تو وہ یک دم غضب ناک ہو گئیں۔ ان کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ وہ اپنے سارے دلائل دل میں لیے واپس آ گئیں۔ جب مقابل بات کرنے پر تیار نہ ہو تو اسے قائل کرنا تو بہت مشکل ہوتا ہے۔ بجھے دل کے ساتھ انہوں نے مومل کو سب کچھ بتا دیا۔ وہ زرد چہرے کے ساتھ گم صم ان کی باتیں سنتی رہی۔
”ان کا قصور نہیں ہے۔ وہ بھی مجبور ہیں اگر مجھے گھر میں رکھیں گی تو خاندان والے ان کا جینا حرام کر دیں گے اور بھائی تو شاید مجھے قتل ہی کر دیں۔”
”وہ مجبور نہیں ہیں۔ ڈرامہ کر رہی ہیں۔ صرف تم سے جان چھڑانا چاہتی ہیں اگر یہ ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ ہوا ہوتا تو کیا وہ اسے بھی اسی طرح گھر سے نکال دیتیں۔”
ربیعہ غصے میں آ گئی تھی اس کی بات سن کر۔
”یہ سب اس ذلیل شخص کی وجہ سے ہوا ہے اگر وہ یہ سب نہ کرتا تو کوئی مجھے گھر سے نکال نہیں سکتا تھا۔” وہ جانے کس طرح خود پر ضبط کیے بیٹھی تھی مگر ربیعہ کی بات نے اسے پھر رلا دیا۔ فاطمہ اسے چپ کروانے لگی۔
ایک ہفتے تک وہ اسی طرح رہی تھی۔ کبھی بیٹھے بیٹھے بغیر کسی وجہ کے رونا شروع کر دیتی اور کبھی اسفند کو گالیاں دینے لگتی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے نارمل ہونا شروع کر دیا۔ ایک ورکنگ ویمن ہاسٹل میں ربیعہ نے اسے کمرہ لے دیا اور اس نے ایک بار پھر اپنی تعلیم پر توجہ دینے کی کوشش کرنی شروع کر دی۔ یونیورسٹی جانے کا تو اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ لوگوں کی نظروں کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھی اور پھر وہاں وہ شخص اسفند حسن بھی ہوتا اور اس کا وجود اسے خوف میں مبتلا کیے رکھتا۔ اس نے پرائیویٹ طور پر امتحان دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ربیعہ اور فاطمہ تقریباً ہر روز اس کے پاس آتی تھیں اور پھر باتیں کر کے اس کا دل بہلایا کرتیں۔ کبھی وہ اسے اپنے ساتھ گھمانے کے لیے لے جاتیں۔ ان دونوں کا وجود اس کے لیے بہت سکون بخش تھا۔ اسے بعض دفعہ حیرت ہوتی تھی کہ وہ دونوں اس پر اتنی توجہ’ اتنی محبت کیوں دے رہی تھیں۔ وہ اس کے گھر والوں اور دوسرے دوستوں کی طرح بھاگی کیوں نہیں۔ انہوں نے اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ بہرحال وہ ان کی ذمہ داری تو نہیں تھی اور نہ ہی ان پر اس کا کوئی حق تھا مگر ساری سوچیں اس کے وجود کو ان دونوں کے احسانوں کے قرض میں جکڑ دیتیں۔
ان ہی دنوں اس کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ شروع میں اس نے اتنا دھیان نہیں دیا مگر ربیعہ ایک دن اسے زبردستی ہاسپٹل لے کر گئی اور اس کے ٹیسٹ کروائے اور ٹیسٹوں کی رپورٹس نے ان تینوں پر جیسے سکتہ کر دیا تھا۔ مومل پریگننٹ تھی۔ جس حادثے کو وہ بھول جانے کی کوشش کر رہی تھی وہ ایک بار پھر ایک بھیانک سچائی کی طرح اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
”ربیعہ! اب کیا ہو گا؟” کسی ڈوبتے ہوئے شخص کی طرح وہ ایک بار پھر ربیعہ کو پکار رہی تھی۔ ربیعہ بے بسی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ ہر قدم پر اس کی مدد نہیں کر سکتی تھیں۔
”تم پریشان مت ہو مومل! میں کچھ سوچوں گی کہ تمہیں اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا دلایا جائے۔”
ربیعہ اور فاطمہ اسے تسلیاں دیتی ہوئی واپس آ گئیں۔
”ربیعہ! اب کیا ہو گا؟ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔” فاطمہ نے ہاسٹل واپس آتے ہی سر پکڑ لیا۔
”کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ ہم اسے ایسے ہی تو نہیں چھوڑ سکتے مگر میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم کریں کیا؟” ربیہ بھی اسی کی طرح الجھی ہوئی تھی۔
”ربیعہ! ربیعہ، کیوں نہ ہم اس لڑکے کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ وہ مومل سے شادی کرلے۔” ربیعہ حیرانی سے فاطمہ کی بات پر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
”کس قدر احمقانہ خیال ہے تمہارا۔ وہ اس قدر رحم دل ہوتا تو یہ سب کچھ کرتا کیوں؟ تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ہمارے کہنے پر وہ شادی پر تیار ہو جائے گا۔”
”ربیعہ! کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ ہو سکتا ہے’ وہ ہماری بات مان جائے اور اگر وہ نہ مانا تو کم از کم ہم اسے اس بات پر مجبور کریں گے کہ مومل کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلوائے۔ ہم اسے دھمکی دیں گے کہ ہم یہ معاملہ اس کے گھر لے کر جائیں گے۔” ربیعہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”ہمارے پاس تو اتنے روپے نہیں ہیں کہ ہم اس کو چھٹکارا دلا سکیں۔ مگر وہ تو مومل کی مشکل حل کر سکتا ہے ذرا سوچو تو؟” وہ ربیعہ کو قائل کرنے پر تلی تھی۔
”تمہاری یہ تجویز کتنی موثر ثابت ہوتی ہے’ میں نہیں جانتی مگر ٹھیک ہے ایک بار ٹرائی کر لیتے ہیں۔” ربیعہ نے بے دلی سے کندھے اچکا دئیے۔
اگلے دن وہ دونوں یونیورسٹی چلی گئیں۔ مختلف ڈپارٹمنٹس سے اس کے بارے میں پوچھتے پوچھتے وہ اس تک پہنچ ہی گئیں۔ وہ لائبریری میں بیٹھا تھا۔ چند لمحوں تک وہ بھی اس پر سے نظر نہیں ہٹا سکیں۔ وہ واقعی خطرناک حد تک مردانہ حسن کا مالک تھا۔ اور کسی لڑکی کا اسے دیکھ کر اس پر فدا ہو جانا کوئی تعجب خیز بات نہیں تھی۔
”آپ کا نام اسفند حسن ہے؟” ربیعہ نے اس کے قریب جا کر پوچھا۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!