بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

”تم میری بیٹی کے دل میں میرے خلاف زہر بھر رہے ہو۔”
”یہ زہر تم خود اپنے رویے سے اس کے دل میں بھر رہی ہو۔ وہ اب چھوٹی سی بچی نہیں ہے کہ کچھ سمجھ ہی نہ سکے۔ تم ابھی بھی اس کے دل میں اپنی عزت برقرار رکھنا چاہتی ہو تو اپنے رویے کو بدلو۔”
”میں لعنت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری بیٹی پر، اور ایسی عزت پر میں اب اس گھر میں رہنا نہیں چاہتی۔ میں تمہیں مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ تم جیسے غلیظ انسان کے ساتھ دس سال گزار لیے۔ کافی ہیں اب تم اس گھر میں اس عورت کو لے آؤ جس کے لیے تم پاگل ہو رہے ہو۔ تمہاری بیٹی کو بھی تو پتا چلنا چاہیے کہ اس کا باپ کتنا شریف انسان ہے۔”
وہ بڑے صبر اور سکون سے اس کی باتیں سنتا رہا یوں جیسے وہ یہ سب کسی اور کے بارے میں کہہ رہی تھی۔
”جانا چاہتی ہو تو ضرور جاؤ۔ میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ تمہارے بھائی تمہیں کتنی دیر اپنے پاس رکھتے ہیں’ دس سال بعد ملے ہیں۔ کم از کم دس دن تو رکھنا ہی چاہیے۔”
مومل اس کی بات سن کر چیخ اٹھی۔
”میرے بھائیوں کے بارے میں ایک لفظ مت کہو’ وہ تم سے ہزار درجے بہتر ہیں۔”
”مانتا ہوں’ وہ مجھ سے ہزار درجے بہتر ہیں۔ کم از کم وہ یہ تو فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا۔ تم سے جان چھڑانا انہیں بہتر لگا۔ انہوں نے جان چھڑالی۔ تم سے تعلق جوڑنا انہیں فائدہ مند لگا۔ انہوں نے جوڑ لیا۔ تمہارے عظیم بھائی۔”
وہ اب باہر جانے کا ارادہ ترک کر کے صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ کھڑی اسے گھورتی رہی۔
”مجھے طلاق چاہیے ابھی اور اسی وقت۔” اسفند کے سکون میں کوئی کمی نہیں آئی۔
”دے دوں گا۔ تمہارا یہ شوق بھی پورا کر دوں گا لیکن ابھی نہیں’ پہلے مجھے اپنی بیٹی کی کہیں شادی کر لینے دو۔ اس کے بعد میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ بس دس سال اور انتظار کر لو۔”
”دس سال؟ میں تو اس گھر میں ایک منٹ اور نہیں رہ سکتی۔ نہیں اسفند حسن! تمہیں میں اب برداشت نہیں کر سکتی۔ تم طلاق نہ دو۔ میں خود تم سے طلاق لے لوں گی۔”
وہ عجیب سی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ ”میں زاشی کو تمہیں نہیں دوں گا۔”
”مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں یہ خوش فہمی کیسے ہوئی کہ میں اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہوں۔ مجھے زاشی کا عذاب نہیں چاہیے۔ اسے اپنے پاس رکھو اور جو چاہے اس کے بارے میں فیصلہ کرو۔ میں دوبارہ پلٹ کر اس کے بارے میں پوچھنے تک نہیں آؤں گی۔”
وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
اگلی صبح آٹھ بجے اس نے اپنا سامان پیک کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسفند آفس کے لیے تیار ہوتے ہوئے اس کی تیاریوں کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس نے مومل سے کچھ کہا نہیں بلکہ خاموشی سے نیچے ناشتہ کرنے چلا گیا۔ وہ جس وقت اپنا بیگ اٹھا کر نیچے آئی۔ اس وقت زاشی اور اسفند ناشتہ کر رہے تھے۔
”ماما! آپ کہاں جا رہی ہیں؟” زاشی اٹھ کر اس کے پاس آ گئی۔ اس نے سرد نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں جہنم سے نکل کر جنت میں جا رہی ہوں۔ تمہیں میں بری لگتی تھی اس لیے اب تمہارا باپ تمہارے لیے نئی ماں لائے گا جو تمہارے باپ سے کبھی بدتمیزی نہیں کرے گی نہ اس پر کبھی چلائے گی۔” وہ زاشی کو حیران پریشان چھوڑ کر باہر نکل آئی۔
گیٹ عذرا بھابھی نے کھولا تھا اور اسے دیکھ کر حیرانی اور مسرت کا اظہار کیا۔
”بھئی مومل! یہ بیگ کس لیے لائی ہو؟” بھابھی نے اس کے بیگ کو دیکھتے ہی کہا تھا۔ وہ جو یہ تہیہ کر کے آئی تھی کہ وہ بھابھی کو جاتے ہی سب کچھ بتا دے گی اور ان سے کہہ دے گی کہ اس نے گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے سوال پر بے اختیار جھجک گئی۔
”بھابھی! اس بار میں رہنے آئی ہوں۔ میرا دل چاہتا تھا۔ آپ کے پاس کچھ دن گزارنے کو۔ اس لیے میں آ گئی۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”تو زاشی کو بھی لے آتیں۔”
”نہیں۔ اسفند کو اچھا نہیں لگتا زاشی کا کہیں رہنا۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے بورڈنگ میں ہی رکھا جائے۔ ویسے بھی میں تو آرام کرنے آئی ہوں۔ زاشی کے ساتھ تو پھر بہت سے کام ہوتے۔”
اس نے جھوٹ پر جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔ عذرا بھابھی نے کوئی اور سوال نہیں کیا مومل نے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔ اسے دیکھ کر سب ہی نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بھائیوں نے کئی بار اسفند سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن مومل ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیتی کہ اسفند کو اس کا اپنے بھائیوں سے ملنا پسند نہیں ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے مشکل وقت میں اس کا ساتھ نہیں دیا۔





سہیل بھائی نے کئی بار اس سے کہا کہ وہ اسفند سے مل کر یا اس سے فون پر بات کر کے اپنی پوزیشن کی وضاحت کر دیتے ہیں لیکن مومل نے ہمیشہ انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ اسفند بہت سخت ہے شاید وہ یہ بھی پسند نہ کرے اور مومل کے لاہور جانے پر بھی پابندی لگا دے۔ اس کے بھائی مجبوراً اس کی بات مان گئے تھے۔
مومل کو لاہور آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ اور یہ پورا ہفتہ کوئی نہ کوئی رشتہ دار اس سے ملنے آتا رہا۔ وہ دماغ کو کتنا بھی جھٹلاتی’ جانتی تھی میل ملاپ کے اس سلسلے کی وجہ ایس پی اسفند حسن تھا۔ مومل منیر نہیں۔ اسے یاد تھا وہ ان ہی لوگوں کے گھروں میں دس سال پہلے پناہ لینے کے لیے باری باری گئی تھی اور ان میں سے ہر ایک نے مقدور بھر اس کی بے عزتی کی تھی اور آج … اسے یہ سوچ لرزا دیتی تھی کہ جب وہ ان سب کو بتائے گی کہ وہ اسفند حسن کو چھوڑ چکی ہے یا جب وہ اسے طلاق نامہ بھجوائے گا تو کیا ہو گا؟ کیا پچھلے روئیے پھر سے واپس آ جائیں گے۔ وہ سوچتی اور اس کا دم گھٹنے لگتا۔
اس دن وہ گھر چھوڑ دینے کے بعد پہلی بار ربیعہ کے ہاں گئی تھی۔ چھٹی کا دن تھا اور ربیعہ چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف تھی۔ مومل بھی اس کے ساتھ کام نبٹاتی رہی پھر باتوں ہی باتوں میں اس نے ربیعہ کو بتا دیا کہ وہ اسفند کا گھر چھوڑ آئی ہے اور وہ اسے طلاق دینے کا بھی کہہ چکی ہے۔ ربیعہ کو اس کی بات پر جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”تمہارے بھائیوں کو پتا ہے اس بارے میں؟” اس نے مومل سے پوچھا۔
”نہیں ۔ مگر میں انہیں جلد ہی بتا دوں گی۔”
”پھر کیا وہ تمہیں پاس رکھ لیں گے؟”
”ہاں کیوں نہیں۔ وہ مجھے ضرور رکھیں گے اور اگر نہ بھی رکھیں تو بھی مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ میں اپنے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ کر لوں گی۔”
”دس سال اس کے ساتھ رہنے کے بعد آخر اب ایسی کیا بات ہو گئی ہے کہ تم نے اس طرح اپنا گھر اور بیٹی چھوڑ دی؟” ربیعہ کو جیسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔
”بس میں اب وہاں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ربیعہ! ان دونوں کو میری ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں پھر میں وہاں کیوں رہتی۔ وہ شخص۔ وہ شخص سمجھتا ہے۔ اس نے اپنے گناہ کی تلافی کر دی ہے۔ اب میرا اس پر کوئی قرض ہی نہیں رہا۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ پتا نہیں وہ کن کن عورتوں کے پاس جاتا ہے۔ مجھے اس کے وجود سے گھن آتی ہے۔ اسے اپنی کسی بھی حرکت پر شرمندگی نہیں۔ وہ بڑی ڈھٹائی سے سب کچھ کرتا ہے۔ میں ایسے شخص کے ساتھ کیسے رہوں؟”
”مومل ! تم دس سال پہلے بھی احمق تھیں۔ آج بھی بے وقوف ہو پہلے بھی ناقابل اصلاح تھیں آج بھی ہو۔ اس شخص نے تمہارے اور زاشی کے لیے کیا نہیں کیا پھر بھی …”
”ربیعہ! میرے اندر ایک ایسا الاؤ ہے جس میں اس کی تمام مہربانیاں اپنا کوئی نقش چھوڑے بغیر راکھ ہو جاتی ہیں۔ اس نے جو میرے ساتھ کیا تھا۔ میں کبھی وہ سب بھول سکتی ہوں نہ اسے معاف کر سکتی ہوں۔”
مومل نے ربیعہ کی بات کاٹ دی تھی۔
”اس کو معاف نہیں کر سکتیں تو اپنے آپ کو کیسے معاف کر دیا۔ تم اپنے ساتھ ہونے والے حادثے کی خود ذمہ دار تھیں۔ وہ سب کچھ تمہاری غلطی سے ہوا تھا۔ تمہاری جلد بازی اور بے وقوفی سے ہوا تھا۔ تمہاری زندگی اگر برباد ہوئی تھی تو اسفند کی بھی ہوئی ہے۔ دس سال اگر تم نے جہنم میں گزارے ہیں تو اس نے بھی گزارے ہیں۔ کبھی تم نے اس کے چہرے کو دیکھا ہے۔ یہ وہ چہرہ تھا جس نے پہلی بار دیکھنے پر مجھے اور فاطمہ کو مبہوت کر دیا تھا اور اب! اب وہ کیا ہے؟ اگر اس کے عورتوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور تمہارے بقول وہ عیش کر رہا ہے تو پھر تو اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون ہونا چاہیے۔ اس کی آنکھوں میں خوشی اور غرور ہونا چاہیے لیکن وہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں اتنی بے چینی’ اتنا اضطراب نہیں دیکھا جتنا اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں خوف نہیں دیکھا اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے۔ وہ ہر وقت اسی عذاب میں رہتا ہو گا کہ کہیں تم زاشی کو یا کسی اور کو وہ سب نہ بتا دو۔ کہیں تمہاری کوئی بات زاشی کے دل میں اس کے لیے نفرت پیدا نہ کر دے۔ یہاں کتنے مرد ایسے ہوتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے اور تم مومل! تم وہ خوش قسمت ہو جسے خدا نے ایک بار پھر سے زمین پر کھڑا ہونے کا موقع دیا لیکن پتا نہیں کیوں تمہیں پاتال اس قدر پسند ہے پتا نہیں کیوں تمہیں …”
مومل ربیعہ کی باتیں سن کر یک دم غصے میں آ گئی۔
”بس کرو ربیعہ! بس کرو۔ وعظ اور نصیحت کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ تمہارے لیے یہ سب کچھ کہنا اس لیے آسان ہے کیونکہ یہ سب تمہارے ساتھ نہیں ہوا۔ لیکن میں اس شخص کو معاف نہیں کر سکتی۔ میں اسے دیوتا سمجھ کر عبادت کروں۔ اس کی عظمت کے گن گاؤں صرف اسے لیے کیونکہ اس نے مجھ سے شادی کر لی۔ میری بچی کو اپنا نام دے دیا۔ لیکن میں یہ سب کیوں کروں اگر اس نے مجھ سے شادی کی تو صرف اس لیے کیونکہ مجھے اغوا اس نے کروایا تھا اگر اس نے میری بچی کو اپنا نام دیا تو صرف اس لیے کیونکہ یہ اسی کی بچی تھی۔ کسی دوسرے کی نہیں۔ اگر میرے ساتھ یہ سب کسی اور نے کیا ہوتا اور پھر اسفند مجھ سے شادی کرتا تو میں بھی اسے عظیم سمجھتی لیکن اب نہیں۔ تم چاہتی ہو۔ میں روپیہ اور آسائشیں دیکھ کر سب کچھ بھول جاتی۔ کیا یہ چیزیں کسی عورت کی عزت کا متبادل ہو سکتی ہیں کیا ان چیزوں کے بدلے ایسے جرم معاف کر دینے چاہیں۔ نہیں کم از کم میں تو ایسا نہیں کر سکتی۔ ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ زندگی ان چیزوں کے بغیر بھی گزاری جا سکتی ہے۔” ربیعہ یک دم اس کی بات پر بھڑک اٹھی تھی۔
”ان چیزوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ یہ تم مجھ سے پوچھو۔ فاطمہ سے پوچھو۔ ان سے پوچھو جن کے پاس یہ نہیں ہیں۔ میں تمہیں اپنے اور فاطمہ کے بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتی تھی لیکن اب یہ ضروری ہو گیا ہے۔ جانتی ہو’ میں پاکستان کس لیے آئی ہوں اس لیے نہیں کہ میری بچیاں آرام سے یہاں ایڈجسٹ ہو جائیں بلکہ اپنے شوہر سے بھاگ کر آئی ہوں۔”
مومل کو ربیعہ کی بات پر جیسے شاک لگا تھا۔
”شادی سے پہلے ہی کسی انڈین عورت سے اس کے تعلقات تھے اور یہ تعلقات شادی کے بعد بھی جاری رہے۔ مجھے جب اس عورت کا پتا چلا تب میری جڑواں بیٹیاں دو ماہ کی تھیں۔ میرے پاس اسے چھوڑنے کا کوئی راستہ نہیں تھا نہ ہی میں اسے چھوڑنا چاہتی تھی۔ اس شخص نے کبھی مجھے گھر کے اخراجات کے لیے ایک روپیہ نہیں دیا بلکہ مجھے جو تنخواہ ملتی تھی’ وہ بھی لے جاتا تھا کیونکہ اپنی تنخواہ سے اس کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے اور میں مجبور تھی اگر اسے روپے نہ دیتی تو وہ ہنگامہ برپا کر دیتا۔ مجھ پر تشدد کرتا پھر کئی کئی دن گھر نہ آتا۔ اور میں اکیلی نہیں رہ سکتی تھی۔ تم روپے کو اس لیے اہمیت نہیں دیتیں کیونکہ تمہاری ہر ضرورت بنا مانگے پوری ہو جاتی ہے۔ مجھ سے روپے کی قدر پوچھو میں انگلینڈ میں جاب کرتی تھی لیکن میرے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پورے روپے نہیں ہوتے تھے۔ مجھے اپنے والدین سے روپے لینے پڑتے اور جو الاؤنس میری بیٹیوں کو گورنمنٹ کی طرف سے ملتا تھا۔ اس سے میں گھر چلاتی تھی۔ ساتھ اوورٹائم کرتی تھی۔ وہاں سے اس لیے بھاگ آئی ہوں کہ اب بیٹیاں بڑی ہو رہی تھیں۔ ان کی ضرورتیں بڑھ رہی تھیں اور وہ شخص میری جان کو عذاب کی طرح چمٹا ہوا تھا۔ یہاں کم از کم میں اتنا تو کما لیتی ہوں کہ اپنی بیٹیوں کی ضرورتیں پوری کر سکوں۔ ان کے سامنے وہ تماشے تو نہیں ہوتے جو انگلینڈ میں وہ شخص کرتا تھا لیکن جاب کرنے کی وجہ سے میں سارا دن اپنی بیٹیوں کی شکل دیکھنے کو ترستی رہتی ہوں حالانکہ ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے۔ تین اور چار سال لیکن میں کیا کروں اگر کام نہ کروں تو ان کے سکول کی فیس کہاں سے دوں گی؟ گھر کا خرچ کہاں سے چلاؤں گی؟ کل کو ان کی شادیاں کہاں سے کروں گی؟ اپنی ہزار ضرورتوں اور خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے کیونکہ روپیہ نہیں ہے۔ ذرا خود کو میرے ساتھ کمپیئر کرو اور دیکھو کون سی چیز ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ جس سکول میں زاشی پڑھتی ہے۔ میں وہاں اپنی بچیوں کو بھیجنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہوں۔ تم نے کبھی سوچا گھر کے خرچ کے لیے روپے کہاں سے آئیں گے؟ بل کون دے گا؟ زاشی کے سکول کی فیس کے لیے کہاں سے روپے لوں گی۔ ملازموں کو تنخواہ کون دے گا۔ تمہارا خرچ کہاں سے پورا ہو گا۔ نہیں تمہیں کبھی یہ سب سوچنا نہیں پڑا۔ اس لیے کہ یہ سب ذمہ داریاں اسفند نے اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہیں۔
ٹھیک ہے اب وہ جاب کرتا ہے یہ سب افورڈ کر سکتا ہے لیکن مومل! اس نے تب بھی تمہیں کوئی تکلیف نہیں دی جب وہ ادھر اُدھر چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے گھر کا خرچ چلاتا تھا حالانکہ اس نے زندگی میں کبھی اس طرح تھوڑے بہت روپے کمانے کے لیے دھکے نہیں کھائے تھے پھر بھی وہ صرف اس لیے کام کرتا رہا کیونکہ اس نے تمہیں اور زاشی کو سپورٹ کرنا تھا۔ جس طرح وہ زاشی کے ناز نخرے اٹھاتا ہے۔ اس طرح میرے شوہر نے کبھی نہیں کیا۔ اس شخص نے تو کبھی انہیں گود میں اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ پھر بھی میں اس آدمی سے طلاق لینا نہیں چاہتی کچھ نہ ملے کم از کم نام تو رہے کل کو بیٹیاں بیاہتے ہوئے یہ کہنا نہ پڑے کہ وہ کسی مطلقہ کی بیٹیاں ہیں۔
جانتی ہو فاطمہ کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس کے شوہر نے یہاں پاکستان میں بھی کسی کے ساتھ شادی کی ہوئی تھی اور اسے اس بات کا تب پتا چلا جب اپنے سسر کی وفات کی وجہ سے انہیں پاکستان شفٹ ہونا پڑا۔ وہ شخص اسے کس طرح تنگ کرتا ہے۔ تم اندازہ بھی نہیں کر سکتیں۔ اس نے شوہر سے خلع کے لیے درخواست دائر کی تو وہ اس کے بچے چھین کر لندن اپنی بہن کے پاس چھوڑ آیا۔ چھ ماہ وہ بچوں کے لیے روتی پیٹتی رہی پھر مجبوراً اس نے خلع کا مقدمہ واپس لے لیا اور اب وہ شوہر کے ساتھ ہی ہے۔ وہ شخص نہ تو اس پہلی بیوی کو طلاق دینے پر تیار ہے اور نہ ہی فاطمہ کو چھوڑ رہا ہے اور فاطمہ اپنے بچوں کی وجہ سے مجبور ہے۔ وہ شخص اسے جاب کرنے بھی نہیں دیتا۔ لیکن مومل! تم دیکھو پھر بھی وہ صرف بچوں کی وجہ سے اپنی خوشی کی قربانی دے رہی ہے جیسے میں دے رہی ہوں۔ تمہیں ہم نے اسی لیے کچھ نہیں بتایا تھا کہ تم پریشان ہو گی۔ اسی لیے ہم نے تم سے ملنے کی کوشش نہیں کی مومل! یہ زندگی اسی طرح ہے یہاں رہنا بہت مشکل ہے مگر پھر بھی رہنا پڑتا ہے قربانی دینی پڑتی ہے۔ میں اور فاطمہ اپنی زندگی نہیں سنوار سکتے کیونکہ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن تم تو خوش رہ سکتی ہو۔ تمہارے گھر کی خوشی تو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے پھر تم اسے کیوں برباد کرنے پر تلی ہو۔ تمہارے بھائیوں اور رشتہ داروں نے تمہیں اس لیے قبول کر لیا کہ تم ایک ایس پی کی بیوی ہو اگر ایک معمولی مزدور کی بیوی ہوتیں تو وہ کبھی تمہاری سنائی ہوئی کہانی پر یقین کرتے نہ تمہارے ساتھ میل جول رکھتے۔ جس شخص کے ساتھ تم دس سال سے رہ رہی ہو اسے معاف کر دو وہ اپنے اس گناہ کی سزا کاٹ چکا ہے۔ پچھلے دس سالوں نے اسے کیا دیا ہے۔ تم نے زندگی میں کسی سے محبت نہیں کی۔ تمہیں کھونے کی اذیت اٹھانا نہیں پڑی۔ اس نے محبت بھی کی تھی اور اسے کھویا بھی۔ کیا اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کوئی ہو سکتی ہے کہ جس سے محبت کی جائے۔ اسے اپنے ہاتھوں سے کھو دیا جائے لیکن اس شخص نے ایسا کیا۔ مومل! دس سال تم نے جلتے ہوئے گزارے ہیں۔ اب اس آگ کو بجھ جانے دو’ یہ دوسروں کو جتنا جلائے گی جلائے گی لیکن تمہارے وجود کو تو یہ راکھ کر دے گی۔ اب کوئی غلطی مت کرنا اب شاید پہلے کی طرح تمہیں کوئی موقع نہ ملے۔”
مومل نے پہلی بار ربیعہ کو روتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ ساکت تھی کسی مجسمے کی طرح۔ وہ سوچتی تھی فاطمہ اور ربیعہ بہت خوش ہیں بہت اچھی زندگی گزار رہی ہیں مگر وہ تو …
ربیعہ کے گالوں پر بہنے والے آنسو مومل کے وجود کو مضمحل کر رہے تھے۔ اس کے اعصاب جیسے شل سے ہوتے جا رہے تھے۔ ایک عجیب سی تھکن تھی جو اس کے وجود کا گھیراؤ کر رہی تھی۔ وہ ربیعہ کے گھر سے اسی عالم میں کچھ کہے بغیر آئی تھی۔ ربیعہ نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ گھر آ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔ اس نے بھابھی سے کہہ دیا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں’ وہ سونا چاہتی ہے اس لیے اسے کھانے کے لیے ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ کمرے لاک کر کے وہ جا کر بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔
ربیعہ نے ٹھیک کہا تھا۔ اسفند نے اسے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ اس نے اسے اور زاشی کو ہمیشہ سب سے اچھی چیز ہی دینے کی کوشش کی تھی۔ اس نے پچھلے دس سال میں ہمیشہ وہ کام کیا تھا جو اسفند کو ناپسند تھا۔ جس سے وہ روکتا تھا۔ بہت دفعہ اس نے اپنی زبان کے نشتر چلائے تھے ہر بار اسفند نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہر بار وہی خاموش رہتا تھا۔ اسے یاد آیا تھا ایک بار اس نے اسفند سے لڑتے ہوئے زاشی کے سامنے اسے ناجائز اولاد کہا تھا اور بعد میں اس نے کس طرح مومل کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس سے اپنے کیے کی معافی مانگی تھی اور اس سے کہا تھا کہ وہ زاشی کے سامنے دوبارہ کبھی ایسی بات نہ کہے۔ کوئی چیز اس کے گالوں کو بھگونے لگی تھی۔
وہ جانتی تھی۔ اسفند نے اچھی تعلیم کے لیے نہیں اس کے طعنوں’ اس کی باتوں سے بچانے کے لیے زاشی کو بورڈنگ داخل کروا دیا تھا اور پھر کئی دنوں تک وہ گم صم رہا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ اسفند زاشی کے بغیر نہیں رہ سکتا نہ وہ باپ کے بغیر رہ سکتی تھی پھر بھی اس نے اسفند کو زاشی کو بورڈنگ میں داخل کروانے سے منع نہیں کیا تھا۔ اسے جب غصہ آتا تھا وہ جو دل میں آتا اسفند اور زاشی کو کہہ دیتی اس نے کبھی پروا نہیں کی کہ زاشی اس کی باتوں سے کیا سمجھ رہی ہو گی۔ اس کے سامنے زاشی کا چہرہ آ گیا تھا۔ اسے کبھی خبر نہیں ہوتی تھی کہ زاشی کے پاس کس چیز کی کمی ہے یا اسے کس چیز کی ضرورت ہے۔
یہ سب کچھ اسفند ہی دیکھتا تھا۔ وہی زاشی کے لیے شاپنگ کیا کرتا تھا۔ وہی اس کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا اور وہ … وہ کیا کرتی تھی ہاں وہ کبھی کبھار اسے ہوم ورک کروایا کرتی تھی لیکن صرف ہوم ورک کروا دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ کیا اولاد کو ماں سے صرف اسی ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کچھ ہوا اس میں زاشی کا قصور نہیں تھا پھر میں نے اسے کیوں …
آج وہ پہلی بار اپنا محاسبہ کر رہی تھی اور اس کا جی چاہ رہا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ وہ کیسی ماں تھی۔ کیسی بیوی تھی جس نے دس سال سے اپنی بیٹی اور شوہر کو سزا دے رکھی تھی۔ اسے اسفند سے نفرت تھی تو پھر اسے یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ اس کی دی ہوئی چیزوں کا فائدہ اٹھائے۔ اپنے آرام کے لیے اس کا روپیہ استعمال کرے۔ اس کے گھر میں رہے اس کا کھائے اس کا پہنے اور پھر بھی نفرت کا ڈھول بجاتی رہے۔ ربیعہ نے اس سے کہا تھا۔
”تم اسفند کے گناہ کا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ اللہ کو فیصلہ کرنے دو اس کی سزا کا۔ تم خود اپنی اور اس کی زندگی کو عذاب مت بناؤ۔”
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی پھر گھٹنوں میں منہ چھپائے وہ بلند آواز سے رونے لگی۔ آنسو کمال کی چیز ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں بہت شفاف نظر آتے ہیں حالانکہ پتا نہیں کتنا میل’ کتنا کھوٹ’ کتنا پچھتاوا یہ اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہے ہوتے ہیں۔
٭
”چائے لگا دو۔ میں تھوڑی دیر میں پیوں گا۔”
وہ ملازم کو ہدایات دیتے ہوئے اوپر کمرے میں آ گیا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے لائٹ آن کی اور پھر وہ جیسے ساکت ہو گیا تھا۔ صوفہ کے ایک کونے میں وہ پاؤں اوپر کیے’ بازو ٹانگوں کے گرد لپیٹے’ سر گھٹنوں میں چھپائے بیٹھی تھی۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ آہٹ کی آواز پر بھی اس کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تھی۔ ایک گہری سانس لے کر وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے اندر آ گیا۔ بیڈ پر بیٹھ کر اس نے اپنے جوتے اتارنے شروع کر دئیے۔
مومل نے سر اٹھایا تھا اور اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ دس سال پہلے اور آج کے اسفند میں واقعی ہی زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ اس کی سرخ و سفید رنگت سنولا چکی تھی۔ وہ مسکراہٹ جو ہر وقت اس کے لبوں پر رقصاں رہتی تھی۔ اب کہیں بھی اس کا وجود نہیں تھا۔ اس کے ماتھے پر کئی لکیروں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ کنپٹیوں پر جابجا سفید بال نظر آ رہے تھے۔ بھنچے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ وہ جوتے کے تسمے کھول رہا تھا۔ مومل اس پر نظریں جمائے رہی۔ اسفند کو شاید اچانک ہی ان نظروں کا احساس ہوا تھا۔ اس نے یک دم سر اٹھایا۔ مومل کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر اسے اضطراب سے دیکھتا رہا پھر دوبارہ جوتے اتارنے لگا۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتی رہی۔ وہ جوتے اتار کر کھڑا ہو گیا اور بیلٹ اتارنے لگا پھر اس نے رسٹ واچ اتار کر بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھ دی۔
ایک بار پھر اس نے مومل کو دیکھا تھا۔ شاید اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ مسلسل اسے دیکھ رہی ہے اس نے ایک بار پھر مومل کے چہرے سے نظر ہٹالی اس نے اسفند کے چہرے پر بے چینی کے آثار دیکھے۔ وہ کھڑا ہو کر سائڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنے لگا۔ وہ پانی کا دوسرا گھونٹ پی رہا تھا جب اس نے مومل کی آواز سنی۔
”اسفند حسن! میں نے تمہیں تمہارے گناہ کے لیے معاف کیا اور میں خدا سے دعا کروں گی کہ وہ … وہ بھی تمہیں معاف کر دے۔”
گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ دس سال پہلے ضمیر نے جو خنجر اس کے سینے میں گاڑ دیا تھا۔ دس سال بعد دو جملوں نے اس خنجر کو نکال دیا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اپنی زندگی کے سب سے مشکل لفظ دوہرا رہی تھی۔ لیکن خنجر اس کے سینے میں بہت گہرا گھاؤ چھوڑ گیا تھا جسے مندمل ہونے میں بہت وقت لگنا تھا اور جس کا نشان تو ساری عمر ہی رہنا تھا۔ وہ اب آنکھیں کھولے گالوں پر بہتے آنسوؤں کو پونچھ رہی تھی۔ وہ اس کے قریب چلا آیا۔ صوفہ کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس نے مومل کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔
”میں تمہارا گناہ گار تھا۔ ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ کوئی چیز اس پچھتاوے کو ختم نہیں کر سکتی جس کے ساتھ مجھے ہمیشہ رہنا ہے پھر بھی مومل! پھر بھی دعا کرو کہ یہ سب میری بیٹی کے ساتھ کبھی نہ ہو۔ میری زاشی کو کبھی کچھ نہ ہو۔”
مومل نے سینتیس سالہ اس مرد کو اپنے سامنے سرجھکائے ہاتھ جوڑے بچوں کی طرح بلکتے ہوئے دیکھا۔ اسے یاد آیا تھا۔ دس سال پہلے اس رات اس نے کہا تھا۔
”لیکن میں اپنی غلطی پر کبھی شرمندہ ہوں گا نہ تمہارے سامنے ہاتھ جوڑوں گا۔”
اور اب … اب وہ گڑگڑا رہا تھا۔ لرزتے ہوئے ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس نے اسفند کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔
”کوئی چیز اس اذیت کو کم نہیں کر سکتی۔ اس ذلت کو مٹا نہیں سکتی جو تم نے دس سال پہلے میرے ماتھے پر لگا دی لیکن میں … میں سب کچھ بھول کر ایک بار پھر سے اپنی زندگی شروع کرنا چاہتی ہوں۔ ایک بار پھر سے دیکھنا چاہتی ہوں کہ دنیا میں میرے لیے کیا ہے۔ ایک بار پھر سے اپنی مٹھی میں خواہشوں کی کچھ تتلیاں پکڑنا چاہتی ہوں اور پھر شاید … شاید میں تمہارے اور زاشی کے حوالے سے کوئی خواب دیکھنے لگوں۔”
دس سال میں پہلی دفعہ اس نے جو سوچا تھا۔ وہ کہا نہیں تھا۔ وہ بس خاموش رہی تھی۔ کمرے میں پھیلی ہوئی روشنی کھڑکی سے نظر آنے والی تاریکی کو روشن کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور تاریکی میں سے بہت کچھ نظر آنے لگا تھا۔ جو دھندلا تھا اسے تو ہمیشہ دھندلا ہی رہنا تھا۔

٭٭٭٭٭٭




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!