بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

”وہ تمہیں ساتھ لے کر کیوں نہیں گیا؟ اس سے کہو کہ وہ تمہیں ساتھ لے کر جائے۔ اسے کوئی پرابلم نہیں ہے۔ اسے وہاں گھر ملا ہوا ہے وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو ساتھ کیوں نہیں رکھ سکتا۔ تم اس سے بات کرو۔”
وہ اسے سمجھا رہی تھی۔
”ربیعہ! میں اس سے یہ نہیں کہہ سکتی۔ وہ خود ساتھ لے جائے تو ٹھیک ہے لیکن میں اس کی منتیں نہیں کروں گی۔” مومل نے صاف انکار کر دیا۔
”تم بے وقوف ہو۔ اس کے لیے راہ ہموار کر رہی ہو۔ کون بیوی اس طرح شوہر کو دور بھیج دیتی ہے۔ ابھی تک اس کے پیروں میں زاشی کی محبت کی زنجیر تھی۔ اب وہ اس سے دور رہے گا تو یہ رشتہ بھی کمزور ہو جائے گا۔ تم سے تو خیر وہ پہلے ہی برگشتہ ہو چکا ہے۔ تم اس قدر احمق ہو کہ تم اس کی اس کمزوری کو بھی ختم کر رہی ہو۔”
مومل پہلی بار اس کی باتوں پر کچھ فکر مند ہوئی۔ ”تو میں کیا کروں؟”
”اب جب وہ آئے تو تم مجھے فون کر دینا۔ میں خود آ کر اس سے بات کروں گی۔”
مومل نے ربیعہ کی بات پر سرہلا دیا۔
وہ ایک ماہ بعد آیا تھا اور مومل نے ربیعہ کو بلوا لیا تھا۔ تھوڑی دیر اس سے دوسری باتیں کرنے کے بعد ربیعہ نے اس سے ان دونوں کو ساتھ لے جانے کی بات کی وہ یک دم چپ ہو گیا۔
”ہاں لے جاؤں گا۔ ابھی تو میں خود ایڈجسٹ نہیں ہو پایا وہاں۔ پھر ویسے بھی ملتان میں گرمی بہت ہے۔ اور زاشی ایسے موسم میں نہیں رہ سکے گی۔” اس نے جیسے ٹالنے کی کوشش کی۔
”زاشی ہر جگہ ایڈجسٹ ہو جائے گی اگر وہاں تم ہو گے۔ تم جانتے ہو’ وہ تمہیں بہت مس کرتی ہے۔ تمہاری موجودگی اس کے لیے بہت اہم ہے۔”
”اچھا میں دیکھوں گا۔” اس نے یہ کہہ کر بات بدل دی۔
ربیعہ جان گئی کہ وہ اب اس موضوع پر بات کرنا نہیں چاہتا۔
دوسری صبح اسفند واپس چلا گیا تھا اور شام کے وقت ربیعہ ایک بار پھر آئی تھی۔
”مومی! میں ایک بات تم پر واضح کر دینا چاہتی ہوں’ وہ تمہیں ساتھ لے جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ تمہیں ساتھ لے کر جائے گا۔ اور یہی بات میں تمہیں بہت عرصہ سے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اب بھی وقت ہے اپنا رویہ بدلو۔ شاید اس کے دل میں تمہارے لیے کوئی جگہ پیدا ہو جائے۔”
مومل پہلی بار اس کی باتوں کے جواب میں خاموش رہی تھی اور اس کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
٭





اسفند میں آنے والی تبدیلی کا صحیح اندازہ اسے تب ہوا تھا جب وہ دوسری بار آیا تھا۔ زاشی اور وہ دونوں بیڈ روم میں تھے۔ اس نے زاشی کے کپڑے تبدیل کیے تھے۔ اسفند نہانے کے لیے باتھ روم میں گیا ہوا تھا۔ وہ زاشی کے لیے کچھ چاکلیٹس لایا تھا اور وہ بار بار چاکلیٹس کھانے کی ضد کر رہی تھی۔ مومل اسے چاکلیٹ نہیں دے رہی تھی کیونکہ وہ ایک بار پھر ہاتھ اور منہ گندا کر لیتی۔ وہ اسے بیڈ پر بٹھا کر چند منٹوں کے لیے کسی کام سے کچن میں گئی تھی اور جب وہ واپس آئی تو زاشی چاکلیٹ کھا رہی تھی’ شاید اسفند نے اسے چاکلیٹ کھول کر تھما دیا تھا۔
مومل کو یک دم غصہ آیا اور اس نے زاشی کے ہاتھ سے چاکلیٹ لے کر دور پھینک دیا۔ اور پھر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے ایک اور تھپڑ مارتی۔ اسفند نے تیزی سے اس کا اٹھتا ہوا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
”یہ تماشا کافی ہو چکا ہے۔ اب اسے ختم ہو جانا چاہیے۔” اس کا لہجہ بہت سرد تھا۔
”میرا ہاتھ چھوڑو۔”
اس نے اس کا ہاتھ چھوڑنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگایا۔
”تم آئندہ اس پر ہاتھ نہیں اٹھاؤ گی۔”
اس نے ایک بار پھر ایک چاکلیٹ کھول کر روتی ہوئی زاشی کو تھما دیا۔
مومل غم و غصے کے عالم میں اسے دیکھتی رہی پھر یک دم چیخ پڑی۔ ”تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے؟”
”میں اس کا باپ ہوں اور میں اب یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اب اس پر کوئی ہاتھ اٹھائے گا تو میں وہ ہاتھ توڑدوں گا۔”
وہ اتنے تلخ لہجے میں بات کر رہا تھا کہ مومل کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ ہمیشہ اس سے نظر ملائے بغیر بات کرتا تھا اور اب وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس کے مقابل کھڑا تھا۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر کمرے سے چلی گئی۔ اس رات اسے ربیعہ کی ساری باتیں یاد آئی تھیں۔
اگلے ماہ وہ گھر نہیں آیا اور پھر دو ماہ کے وقفہ کے بعد گھر آیا تھا۔ اس رات وہ حسب معمول زاشی کو اس کے پاس چھوڑ کر بیڈ روم میں جانے لگی تو اس نے کہا۔
”آج تم اسے بیڈ روم میں سلادو اور اسے سلانے کے بعد یہاں آنا۔ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
وہ اس کے لہجے سے کچھ کھٹک گئی۔ زاشی کو سلانے میں زیادہ دیر نہیں لگی لیکن اس کے سامنے جانے کے لیے ہمت پیدا کرنے میں اسے کافی وقت لگا۔ وہ جی کڑا کر کے بیڈ روم سے نکل آئی۔
اسفند نے خاموشی سے اسے آتے اور سامنے صوفے پر بیٹھتے دیکھا۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔” ایک لمحے کے لیے مومل کا سانس رک گیا۔
”اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دو اور اگر تم مجھے دوسری شادی کی اجازت نہیں دینا چاہتیں تو پھر میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور میرے خیال میں یہ بہتر ہے کہ تم مجھ سے طلاق لے لو۔ تمہیں مجھ سے نفرت ہے اور شاید تم حق بجانب ہو۔ میں اپنی پوری کوشش کے باوجود تمہارے دل میں اپنے لیے جگہ پیدا نہیں کر سکا۔ ایسے رشتہ کو قائم رکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ میں نے جب تم سے شادی کی تھی تو کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کبھی مجھے تمہیں طلاق دینا پڑے گی۔ میں اس رشتہ کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن تم مجھے معاف نہیں کر سکیں۔ تم اپنے دل میں اتنی وسعت پیدا نہیں کر سکیں۔ میں نے ایک چھوٹا سا گھر خرید کر تمہارے نام کر دیا ہے’ یہ اس کے کاغذات ہیں۔ یہ بارہ لاکھ کا چیک ہے۔ دو لاکھ حق مہر کے ہیں اور دس لاکھ میں تمہیں اور دے رہا ہوں تاکہ تمہیں کوئی مالی پریشانی نہ ہو۔”
اس نے میز پر کچھ کاغذات رکھ دئیے۔
”جہاں تک زاشی کا تعلق ہے تو اگر تم یہ وعدہ کرو کہ تم اس سے محبت کرو گی اور اس پر پوری توجہ دو گی تو تم اسے اپنے پاس رکھ سکتی ہو۔ میں اس کا خرچ تمہیں بھجواتا رہوں گا۔ دوسری صورت میں’ میں اسے اپنے پاس رکھ لوں گا۔ اور میرے خیال میں اس کے حق میں یہی بہتر ہے کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ مانوس ہے۔ ویسے بھی اس کی موجودگی میں شاید تمہیں اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے میں کچھ مسئلہ ہو۔”
”اور اگر میں طلاق نہ لوں تو؟” مومل کو اپنی آواز کسی اندھے کنوئیں سے آتی محسوس ہوئی۔
”تب بھی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بس یہ ہو گا کہ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا لیکن میں پہلے کی طرح یہاں نہیں آؤں گا اور مجھے اپنے والدین سے یہ بات چھپانی پڑے گی کہ میں نے تمہیں طلاق نہیں دی۔ بہرحال آخری فیصلہ تمہیں ہی کرنا ہے تم صبح ربیعہ کو بلوالو اور اس کے ساتھ مشورہ کر لو۔”
مومل وہاں سے اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں آ گئی۔ مومل کو اسفند سے نفرت تھی لیکن پہلی بار اسے احساس ہوا کہ اس سے علیحدگی اختیار کر کے وہ ایک بار پھر آسمان سے زمین پر آگرے گی۔ اسے اپنی حماقتوں کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ لیکن وہ کچھ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔
دوسری صبح اس نے فون کر کے ربیعہ کو بلوایا۔ ربیعہ جس وقت آئی اس وقت اسفند ناشتہ کر رہا تھا اور وہ زاشی کو ناشتہ کر وا رہی تھی۔ اسفند نے بڑی خوش دلی سے اس کا استقبال کیا اور اسے ناشتہ کی آفر کی لیکن ربیعہ نے انکار کر دیا۔
”کیا بات ہے؟ تم نے مجھے کیوں بلایا ہے؟ کیا تم دونوں کے درمیان پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے؟” اس نے مومل سے کچھ متفکر ہو کر پوچھا تھا۔
”نہیں’ اب کوئی جھگڑا نہیں ہو گا کیونکہ میں اسے طلاق دے رہا ہوں اور دوسری شادی کر رہا ہوں۔”
ربیعہ کو اس کی بات پر جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ مومل کچھ کہے بغیر ستے ہوئے چہرے کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
”اسفند! تم یہ کیسے کر سکتے ہو؟”
”تمہیں مجھ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں بلکہ میری ہمت کی داد دینی چاہیے کہ میں نے اب تک ایسا کیوں نہیں کیا۔”
”اسفند! تم زاشی کے بارے میں سوچو’ وہ … ”
”میں نے اس کا سوچ کر ہی یہ فیصلہ کیا ہے۔ یہ طلاق اس کے لیے بھی بہتر رہے گی۔”
”اسفند! کیا تم مومل کو ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دو گے؟”
”میں اسے ٹھوکریں کھانے کے لیے نہیں چھوڑ رہا۔ میں اسے ایک گھر اور بارہ لاکھ روپے دے رہا ہوں اسے اور کچھ چاہیے تو وہ بھی دے دوں گا۔”
”وہ اکیلی کیسے رہے گی؟”
”وہ رہ لے گی۔ اسے اکیلے رہنا پسند ہے۔” اس کے پاس جیسے ربیعہ کے ہر سوال کا جواب تھا۔
”ایسا مت کرو اسفند! اپنا گھر تباہ مت کرو۔” ربیعہ نے لجاجت سے کہا تھا اور وہ یک دم جیسے پھٹ پڑا۔
”گھر … کون ساگھر؟ مجھے بتاؤ ربیعہ! کون سا گھر تباہ ہو گا۔ کیا یہ گھر ہے جو تمہیں نظر آ رہا ہے؟ یہ تو صرف رہنے کا ایک ٹھکانا ہے۔ میرا گھر تو وہ تھا جو میں نے آج سے چار سال پہلے ایک حماقت کی وجہ سے کھو دیا تھا۔ اب مجھے اپنا گھر ہی تو واپس حاصل کرنا ہے۔”
”اسفند! تم …” ربیعہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اسفند نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میری بات سنو ربیعہ! آج صرف میری بات سنو۔ تم مومل کی دوست تو نہیں تھیں۔ صرف معمولی سی جان پہچان تھی پھر بھی تم نے صرف اس لیے اس کا ساتھ دیا کیونکہ تم اسے بے قصور سمجھتی تھیں آج تم انصاف کرو اور پھر اگر مجھے قصوروار پاؤ تو میرا ساتھ نہ دینا۔ میں نے دو سال میں یونیورسٹی میں جو عزت’ جو نام حاصل کیا تھا وہ اس نے تھپڑ مار کر ختم کر دیا تھا۔ مجھے تکلیف نہ ہوتی اگر وہ الزام صحیح ہوتا جو اس نے مجھ پر لگایا تھا لیکن میری کوئی غلطی نہیں تھی پھر بھی اس نے میری انسلٹ کی’ دوسروں کے سامنے مجھے تماشا بنایا۔ جو کام میں نے کیا وہ غلط تھا۔ میں تب بھی کہتا تھا۔ آج بھی کہتا ہوں۔ میں اپنی اس حرکت کو کبھی صحیح نہیں کہوں گا۔ مگر وہ صرف جنون میں آ کر کیا تھا میں نے اور جب میرا غصہ ختم ہوا تو میرا پچھتاوا شروع ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے تم دونوں کے کہنے پر اس سے فوراً شادی کر لی تھی۔ تب میں نے تم سے یہی کہا تھا کہ میں نے اپنے بچے کے لیے شادی کی ہے۔ میں اس کی زندگی تباہ نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ میں نے اپنے بچے کے لیے نہیں بلکہ اس کی زندگی بچانے کے لیے اس سے شادی کی تھی۔ میں نے ایک جرم کیا تھا اور میں اس کا کفارہ ادا کر دینا چاہتا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری اس غلط حرکت کی وجہ سے اس کی پوری زندگی برباد ہو جائے۔ تب میری منگنی کو تین سال ہو چکے تھے نوشین سے بے تحاشا محبت کرنے کے باوجود میں نے اسے چھوڑ دیا’ کیا یہ آسان کام تھا؟ پھر میرے والدین نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ میں نے زندگی میں کبھی پانی کا گلاس بھی اپنے ہاتھ سے نہیں لیا تھا لیکن اس کیلئے میں تین تین جابز کرتا رہا۔ خود دھکے کھاتا اور خوار ہوتا رہا لیکن میں نے اسے کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔
میں نے اسے ہر چیز مہیا کی’ چاہے مجھے اس کے لیے کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنی پڑی صرف اس لیے کیونکہ میں شرمندہ تھا۔ میں اپنی غلطی کی تلافی کرنا چاہتا تھا اور اس سب کے بدلے میں مجھے کیا ملا؟ ذلت’ ذہنی اذیت’ بے سکونی۔ ان چار سالوں میں اس نے میرے لیے کچھ نہیں کیا۔ کبھی میری شرٹ پر بٹن تک لگانے کی زحمت نہیں کی میں کب گھر آتا تھا۔ کب جاتا تھا۔ اسے کوئی پروا نہیں تھی۔
وہ معمولی باتوں پر مجھ سے جھگڑتی’ زاشی کو مارتی۔ میں بے بسی سے دیکھتا رہا۔ میں نے اسے کبھی نہیں روکا۔ لیکن اب میں تھک چکا ہوں۔ میں بہت سزا کاٹ چکا ہوں۔ اب ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ مجھے ایک ایسی بیوی کی ضرورت ہے جو میرا خیال رکھے جسے میری پروا ہو جو مجھ سے محبت کرے جس کے ساتھ میں اپنی پرابلمز شیئر کر سکوں جو میری کامیابیوں پر خوش ہو جسے میری ضرورت ہو اور مومل یہ سب نہیں کر سکتی۔ میں نے نوشین سے زاشی کے بارے میں بات کی ہے وہ اسے ساتھ رکھنے پر تیار ہے اور میرے لیے اتنا کافی ہے۔”
وہ خاموش ہو گیا تھا۔ ربیعہ کچھ بول نہیں سکی۔ وہ کیا کہتی یہ سب کچھ وہی تھا جس سے وہ وقتاً فوقتاً مومل کو روکتی رہی تھی۔
”مجھے تم سے اور تمہارے روپے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے صرف اپنی بیٹی چاہیے۔ مجھے زاشی چاہیے۔”
وہ پتا نہیں کس وقت بیڈ روم سے باہر نکل آئی تھی۔ اس کا لہجہ ایک بار پھر پہلے ہی کی طرح اکھڑ تھا۔
”میں زاشی کو اسی صورت میں تمہیں دے سکتا ہوں جب تم میرے دیے ہوئے گھر میں رہو۔ تم اپنے لیے روپیہ لینا چاہتی ہو یا نہیں۔ وہ تمہاری مرضی ہے مگر میں زاشی کو تمہارے ساتھ دھکے کھانے کے لیے نہیں بھیج سکتا۔”
”میں جیسے چاہوں گی’ اسے رکھوں گی’ وہ میری بیٹی ہے۔”
”آج پہلی بار خیال آیا ہے کہ وہ تمہاری بیٹی ہے’ اس سے پہلے تم نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا۔ اس سے پہلے تو تم ہمیشہ اسے مصیبت کہتی تھیں۔” وہ اس پر طنز کر رہا تھا۔
”میں تمہاری بکواس سننا نہیں چاہتی۔ میں جو چاہوں گی۔ کروں گی۔”
”مومل! اگر اس طرح ضد کرو گی تو تمہیں مجھ سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔”
”میں تمہاری ہر چیز پر لعنت بھیجتی ہوں لیکن زاشی میری ہے۔ میں وہ تمہیں نہیں دوں گی۔”
”تم اگر اس گھر میں رہو تو …”
”میں اس گھر میں نہیں رہوں گی۔” وہ یک دم چلائی۔
”ٹھیک ہے پھر میں زاشی کو تمہیں نہیں دوں گا۔ میں نہیں چاہتا’ وہ تمہارے ساتھ دھکے کھائے’ تم اسے دے کیا سکتی ہو۔ تمہارے پاس کوئی جاب نہیں ہے اور اگر کوئی چھوٹی موٹی جاب کر بھی لو تو بھی ان دو چار ہزار سے تم کیا کرو گی۔ گھر اور دوسری چیزوں کے کرائے بھرو گی’ خرچ چلاؤ گی یا زاشی پر خرچ کرو گی۔ اگلے سال وہ سکول جانا شرع کر دے گی اور تمہارے پاس ہے اتنا روپیہ کہ اسے کسی اچھے سکول میں داخل کروا سکو۔ مان لو مومل! تم اسے کچھ نہیں دے سکتیں۔ اسے میرے پاس رہنے دو۔ تم جب بھی اس سے ملنا چاہو گی۔ میں تمہیں روکوں گا نہیں۔” مومل یک دم اٹھ کر بیڈ روم میں چلی گئی۔ ربیعہ نے اس کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ لیے تھے۔
”اسفند ! میں مانتی ہوں۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن ذرا سوچو۔ طلاق دے کر تم اس کے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے؟ ایک طلاق یافتہ لڑکی کی معاشرے میں کیا عزت ہوتی ہے۔ تم جانتے ہو۔ مجھے بتاؤ۔ وہ کس طرح اکیلی رہے گی۔ تم اسے ایک موقع اور دو۔”
”نہیں ربیعہ! میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ میں اسے دس ہزار مواقع دوں تو بھی اس کے روئیے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ تم خود دیکھ لو’ کیا اسے کوئی پشیمانی یا شرمندگی ہے؟ اور ویسے بھی میں نوشین سے شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔”
”تو ٹھیک ہے۔ تم شادی کر لو لیکن مومل کو طلاق مت دو۔”
”ربیعہ! یہ فیصلہ تم مت کرو’ تم اس سے بات کرو اگر وہ اس پر تیار ہو اور یہ بات چھپائے کہ میں نے اسے طلاق نہیں دی تو میں تمہاری بات مان لوں گا لیکن پہلے تم اس سے بات کرو۔”
وہ ربیعہ سے یہ کہہ کر چلا گیا تھا۔ ربیعہ اندر بیڈ روم میں چلی آئی اور جو اس کے دل میں آیا۔ اس نے مومل کو کہہ دیا۔ اس وقت اسے مومل پر کچھ اتنا ہی غصہ آ رہا تھا۔ اس نے اس کی ساری پیش گوئیوں کو سچ ثابت کر دیا تھا۔ مومل خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔ پھر ربیعہ نے اس کے سامنے اپنی تجویز رکھ دی تھی اور یہ دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی جب وہ بلاتامل اس کی بات مان گئی۔
”میں نے تمہیں ہزار دفعہ سمجھایا تھا کہ اپنی عادتوں کو بدل ڈالو۔ ماضی کو بھول جاؤ لیکن تم نے سب کچھ گنوا کر دم لیا۔ میں تمہیں اب بھی کہتی ہوں۔ اپنا رویہ بدلو۔ اس پر توجہ دو۔ شادی تو اب اس نے کر ہی لینی ہے لیکن تم اسے یہ موقع نہ دو کہ وہ تمہیں اور زاشی کو بالکل ہی بھول جائے۔”
مومل خاموشی سے اس کی نصیحتیں سنتی رہی۔ اس کے سوا وہ اب کر بھی کیا سکتی تھی۔
اسفند پندرہ دن بعد دوبارہ آیا تھا اور اس بار اس نے پہلی بار مومل کے روئیے میں تبدیلی دیکھی۔ اس رات پہلی بار اس نے ٹیبل پر اس کے لیے کھانا لگایا تھا اور کھانے کے بعد خود ہی اسے چائے تیار کر کے دی۔ اگلی صبح پہلی بار اسے اپنے کپڑے خود پریس نہیں کرنے پڑے’ وہ پہلے سے ہی باتھ روم میں لٹکے ہوئے تھے۔ اسے اس کے روئیے میں اتنی معمولی سی تبدیلی بھی بہت اچھی لگی تھی۔ اس دن واپس ملتان جانے سے پہلے وہ نوشین سے ملا تھا اور اس نے اسے اپنے فیصلے کے بارے میں خود ہی سب کچھ بتا دیا وہ اسے کسی دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ نوشین اس کی بات سن کر یک دم بگڑ گئی۔
”اسفند! میں دوسری بیوی بن کررہنا نہیں چاہتی۔ میں شراکت میں زندگی نہیں گزار سکتی۔”
”نوشین! یہ ٹھیک ہے کہ میں اسے طلاق نہیں دوں گا لیکن میں اس سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔ تم میرے پاس رہو گی’ وہ یہیں لاہور میں رہے گی۔”
”اسفند! میں اس معاملے میں تم پر اعتبار نہیں کر سکتی۔”
اس نے صاف صاف کہہ دیا۔
اسفند اسے قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ وہ صرف اس صورت میں شادی پر تیار تھی جب وہ مومل کو طلاق دے دیتا۔ وہ مایوس ہو کر واپس چلا گیا۔ گھر والوں کی طرف سے بھی اس پر مومل کو طلاق دینے اور نوشین سے شادی کے لیے دباؤ تھا اور وہ جیسے دوراہے پر کھڑا تھا۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!