بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

”آؤ زاشی! تمہیں سلا دوں۔” اپنے آنسوؤں کو پیتے ہوئے اس نے کہا۔
”نہیں ماما! میں تو پاپا کے پاس سوؤں گی۔” زاشی نے ضد کی تھی۔
”یہ تمہارے پاپا نہیں ہیں۔ تمہارے پاپا مر چکے ہیں۔”
وہ تلخ لہجے میں کہہ کر اسے بیڈ روم میں لے آئی۔ اسے کاٹ میں لٹانے کے بعد اس نے اپنا ایک بیگ نکالا اور اس میں اپنے کچھ کپڑے رکھ لیے۔ پھر ایک اور بیگ نکال کر وہ بیڈ روم سے نکل آئی۔ اسفند ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ دوسرے بیڈ روم میں آئی اور زاشی کے کپڑے بیگ میں رکھنے لگی۔ واپس اپنے بیڈ روم میں آ کر وہ سونے کے لیے لیٹ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں جائے۔ ربیعہ اور فاطمہ تو اب یہاں تھیں نہیں اور ان دونوں کے علاوہ وہ کسی اور سے مدد کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ اسی ادھیڑ بن میں پتا نہیں کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ پتا نہیں رات کا کون سا پہر تھا جب اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ کمرے میں آہٹ ہو رہی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ زیرو پاور کے بلب کی روشنی میں اس نے اسفند کو زاشی کے کاٹ پر جھکا ہوا دیکھا تھا۔ بیڈ کی طرف اس کی پشت تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس وقت وہاں کیا کر رہا تھا۔ وہ دبے قدموں سے کاٹ کی طرف آئی۔ وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اس کی بھیگی ہوئی آواز اس کے کانوں میں اترتی گئی تھی۔
”تمہارا باپ دنیا کا غلیظ ترین آدمی ہے’ وہ اس قابل نہیں تھا کہ تم اس کے گھر میں پیدا ہوتیں’ پھر بھی پھربھی میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں اس کے گناہوں کی سزا نہ دے۔”
وہ زاشی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے خود کلامی کر رہا تھا۔ مومل بنا آہٹ واپس پلٹ گئی۔ اسے اس طرح دیکھ کر اسے عجیب سا سکون ملا تھا۔ باقی رات وہ اطمینان سے سوئی تھی۔
اسفند شاید ساری رات نہیں سویا تھا۔ اس لیے صبح جب وہ اٹھ کر کچن میں آئی تو وہ بھی اس کے پیچھے ہی آ گیا تھا۔
”مجھے چائے بنا دو۔” وہ کہتے ہوئے وہیں ڈائننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ مومل نے کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھا اور پھر چائے کا ایک کپ تیار کر کے اس کے سامنے رکھ دیا۔
”کل رات جو کچھ ہوا۔ میں اس کے لیے تم سے ایکسکیوز کرتا ہوں۔ میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔”
مومل سرد نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ ”کیا تمہیں یقین آ گیا ہے کہ زاشی تمہاری بیٹی ہے؟”
”مومل! میں اپنے الفاظ کے لیے ایکسکیوز کر چکا ہوں۔ اب دوبارہ یہ بات مت کہنا۔ میں چاہتا ہوں۔ تم دونوں میرے ساتھ ملتان چلو۔ میں تم دونوں کو اب اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔”
مومل بے تاثر چہرے سے اسے دیکھتی رہی پھر کچن سے باہر آ گئی۔
٭





ایک ہفتہ بعد وہ ملتان شفٹ ہو گئی تھی۔ پہلی رات وہ زاشی کے ساتھ سوئی تھی مگر اگلی صبح اسفند نے اس سے کہا۔
”تم زاشی کا بیڈ روم الگ سیٹ کر دو اور تم خود میرے کمرے میں سویا کرو۔ میں نہیں چاہتا کہ ملازم تمہیں الگ کمرے میں رہتے ہوئے دیکھ کر میرے یا تمہارے متعلق کوئی بات کریں۔ تم اگر الگ بیڈ روم میں رہو گی تو یہ بات ان سے چھپی نہیں رہے گی۔”
”وہ جو چاہے سوچیں اور جو چاہیں کہیں۔ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔” مومل نے صاف انکار کر دیا تھا ۔
”تمہیں مجھ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” اسفند نے کچھ عجیب سے لہجے میں اس سے کہا۔ وہ اس کا مطلب سمجھ گئی تھی۔
”میں تم سے خوفزدہ نہیں ہوں’ اپنے ذہن سے یہ خوش فہمی نکال دو۔”
اس نے تلخ لہجے میں اس سے کہا۔ اسفند خاموش ہو گیا۔ اس کی بات مومل کو ایک چیلنج کی طرح لگی تھی۔ وہ اگلے دن اس کے کمرے میں شفٹ ہو گئی۔ پہلے کچھ دن وہ ٹھیک سے سو نہیں سکی اسے واقعی اسفند سے خوف محسوس ہوتا تھا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس کا خوف ختم ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اسفند ویسے بھی رات کو دیر سے گھر آتا اور آتے ہی اسٹڈی میں فائلز دیکھنے بیٹھ جاتا۔ رات کے دو بجے وہ کمرے میں آتا اور اس قدر تھکا ہوا ہوتا کہ چند منٹوں میں ہی سو جاتا تھا۔
”میں جاب کرنا چاہتی ہوں۔” وہ چند ہفتے وہاں رہی تھی اور بے زار ہو گئی تھی۔ لاہورمیں گھر کے کاموں میں اس کا وقت گزر جاتا تھا لیکن یہاں پر ملازم ہونے کی وجہ سے اسے سارا دن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ وہ بے مقصد سارا دن گھر میں پھرتی رہتی اور چند دنوں میں ہی اس پر ایک بار پھر ڈپریشن کے دورے پڑنے لگے تھے۔ اسے سارا دن گھر میں رہنا مشکل لگنے لگا تھا اور اس رات اس نے اسفند سے بات کر ہی لی تھی۔
”کس لیے؟” وہ کچھ حیران ہوا تھا۔ ”میرا خیال ہے۔ تمہیں روپے کی تو کمی نہیں ہے۔”
”جاب صرف روپے کے لیے نہیں کی جاتی۔ میں خود کو مصروف رکھنا چاہتی ہوں۔” اس نے تنک کر کہا۔
”مصروف رکھنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ تم کلب جوائن کر لو۔ یہ جو اتنے فنکشنز کے کارڈز آتے ہیں’ وہاں جایا کرو۔”
”نہیں۔ مجھے ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں بس جاب کرنا چاہتی ہوں۔” اس نے اپنی بات پر اصرار کیا۔
”میں تمہارے ساتھ بحث کرنا نہیں چاہتا لیکن میں تمہیں جاب کرنے نہیں دوں گا۔” وہ سونے کے لیے بیڈ پر دراز ہو گیا۔
”میں تم سے اجازت نہیں مانگ رہی ہوں’ صرف تمہیں اطلاع دے رہی ہوں۔ مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں تمہارے کافی ناز نخرے برداشت کر چکا ہوں اور نہیں کر سکتا۔ تم سے شادی کر کے میں پہلے ہی بہت سے مسائل سے دو چار ہوں۔ تم میرے لیے مزید مصیبتیں کھڑی کرنے کی کوشش نہ کرو۔ تمہیں میری اجازت کی ضرورت ہے یا نہیں لیکن اس شہر میں تم میری مرضی کے بغیر کام نہیں کر سکتیں’ تم جابز ڈھونڈتی رہو گی اور میں تمہیں وہاں سے نکلواتا رہوں گا۔ اس لیے بہتر ہے’ تم آرام سے گھر پر رہو۔”
مومل نے ایک شاک کے عالم میں اسے دیکھا تھا۔ اسفند کے لہجے سے اسے اپنی تذلیل کا احساس ہوا تھا۔ اس نے دوبارہ اس سے جاب کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے دن اسی طرح گزرنے لگے تھے لیکن اب وہ پہلے کی طرح گھر پر نہیں رہتی تھی۔ اس نے اپنے لیے بہت سی سرگرمیاں تلاش کر لی تھیں۔ اسفند اور اس کے درمیان تعلقات کی نوعیت اب بھی وہی تھی۔ وہ اب بھی اسے معاف کرنے پر تیار نہیں تھی۔
٭
وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا تھا۔ زاشی اب نو سال کی ہو چکی تھی۔ اسفند نے اسے لاہور میں ایک ہاسٹل میں داخل کروایا ہوا تھا کیونکہ مختلف شہروں میں پوسٹنگ ہونے کی وجہ سے وہ بار بار اس کا سکول تبدیل کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اسفند پہلے سے بہت بدل گیا تھا۔ مومل اور گھر کے معاملے میں وہ کافی لاپروا اور سرد مہر ہو گیا تھا۔ مومل کے ساتھ اس کے روئیے میں وہ پہلے جیسی نرمی نہیں رہی تھی۔ اب وہ پہلے کی طرح خاموشی سے اس کی باتیں نہیں سنتا تھا۔ بلکہ اسے جھڑک دیتا تھا۔
فیصل آباد میں اس کی پوسٹنگ کو ایک سال ہونے والا تھا جب اچانک اسے اسفند بہت بدلا ہوا لگنے لگا تھا۔ وہ یک دم بہت پُرسکون اور مطمئن نظر آنے لگا تھا۔ مومل نے شروع میں اس تبدیلی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن بہرحال وہ ایک عورت تھی جو پچھلے دس سال سے اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ وہ جان گئی تھی کہ ان تبدیلیوں کی وجہ کوئی عورت ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پریشان رہنے لگی تھی۔ اسفند کے معمولات میں بھی تبدیلی آ گئی تھی۔ وہ اکثر راتوں کو گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ پہلے جب وہ کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتا تھا تو ہمیشہ اسے پہلے سے مطلع کر دیتا تھا۔ لیکن اب وہ مومل کو مطلع نہیں کیا کرتا تھا۔ ایک رات وہ گھر سے غائب تھا جب اچانک اس کے لیے آفس سے کال آ گئی تھی۔ پولیس نے کہیں ریڈ کیا تھا اور کسی اشتہاری ملزم کو پکڑ لیا تھا اور اب ایس پی صاحب کو بلایا جا رہا تھا۔
”وہ گھر پر نہیں ہیں۔” آپریٹر نے کال مومل سے ملا دی تھی اور اس نے اسفند کے بارے میں بتا دیا تھا۔
”پھر وہ کہاں ہیں؟”
”پتا نہیں۔”
”ٹھیک ہے’ ہو سکتا ہے وہ پیٹرولنگ پر ہوں۔ ہم پتا کر لیتے ہیں لیکن اگر وہ گھر آ جائیں تو انہیں فوراً کمشنر آفس بھجوا دیں۔” بولنے والے نے اس سے کہا تھا۔
مومل نے فون بند کر دیا۔ پھر وقفے وقفے سے فون آتے رہے لیکن اسفند کا کہیں پتا نہیں تھا۔ وہ صبح چار بجے کے قریب آیا تھا۔ مومل نے اسے پیغام پہنچا دیا۔ وہ فوراً واپس چلا گیا۔ جب دوپہر کو وہ واپس آیا تھا تو اس نے ایک فون نمبر ڈائری پر لکھ کر اس سے کہا تھا۔ اگر کبھی میرے لیے کوئی مسیج آئے اور میں موبائل پر ریسیو نہ کروں تو اس فون نمبر پر مجھے انفارم کر دو۔”
مومل کا دل چاہا تھا’ وہ اس سے پوچھے کہ وہ پچھلی رات کہاں تھا۔ یہ تو اسے کنفرم ہو گیا تھا کہ وہ کسی سرکاری کام پر نہیں تھا۔ کچھ ہفتے اسی طرح سے گزر گئے۔ پھر ایک رات وہ اسی طرح گھر نہیں آیا۔ اور ڈپٹی کمشنر کے گھر سے اس کے لیے کال آئی تھی۔ کچھ لوگوں نے ڈی سی ہاؤس پر فائرنگ کی تھی۔ مومل نے موبائل پر اسے رنگ کیا۔ لیکن شاید موبائل آف تھا۔ پھر اسے اس نمبر کا خیال آیا تھا اور اس نے اس نمبر پر رنگ کیا۔ کچھ دیر تک بیل ہوتی رہی پھر کسی عورت نے ریسیور اٹھایا۔
”ہیلو کون بول رہا ہے؟” اس کی آواز میں غنودگی نمایاں تھی۔ یوں جیسے وہ ابھی نیند سے بیدار ہوئی ہو۔ مومل کو چند لمحوں کے لیے یوں لگا جیسے اس کے دل کی دھڑکن رک گئی ہو۔ اس کے بدترین خدشے کی تصدیق ہو گئی تھی۔
”اسفند حسن سے بات کروائیں۔”
اس عورت کی آواز سے یک دم غنودگی کے آثار غائب ہو گئے۔ ”یہ اسفند حسن کا گھر نہیں ہے۔ آپ نے غلط نمبر پر رنگ کیا ہے۔”
”میں جانتی ہوں یہ اسفند حسن کا گھر نہیں ہے مگر وہ پھر بھی یہیں ہے۔ آپ اسے بتا دیں کہ ڈی سی ہاؤس سے اسے کال کیا گیا ہے۔”
مومل نے اس عورت سے کہا۔ اس بار کچھ توقف کے بعد اس نے ریسیور پر اسفند کی آواز سنی۔ اسے اپنے اندر جواربھاٹا سا اٹھتا محسوس ہوا تھا۔ اس نے پیغام دے کر فون بند کر دیا۔ مومل دوبارہ سو نہیں پائی۔ وہ صبح نو بجے گھر آیا تھا اور اسے دیکھ کر مومل کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
”وہ عورت کون تھی؟”
”جو بھی تھی بہرحال یہ اطمینان رکھو’ وہ میری بیوی نہیں تھی۔”
مومل کو اس کے جواب پر اور غصہ آیا تھا۔
”اگر وہ تمہاری بیوی نہیں ہے تو پھر تم وہاں کس…” اسفند نے تیز لہجے میں اس کی بات کاٹ دی۔ ”میں تم سے اس سلسلے میں کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔ تمہیں میری زندگی میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
”تمہیں خود پر شرم آنی چاہیے۔ تم آج سے دس سال پہلے بھی جانور تھے آج بھی جانور۔”
”تم اپنا منہ بند رکھو۔”
اسفند نے سرخ چہرے کے ساتھ اس کی طرف انگلی اٹھا کر کہا۔
”تمہیں اسفند حسن تمہیں کوڑے لگنے چاہیں۔ پھانسی دے دینی چاہیے تمہیں۔”
”پچھلے دس سال سے پھانسی ہی تو دی جا رہی ہے مجھے”۔ تلخ لہجے میں اس کی بات کا جواب دے کر اس نے اپنی جیکٹ اتار کر بیڈ پر اچھال دی۔
”تم ایک بیٹی کے باپ ہو۔ تمہیں اپنا نہیں تو اس کا احساس ہونا چاہیے۔”
”میں تمہارے اور زاشی کے لیے اور قربانیاں نہیں دے سکتا۔ میں تنگ آ گیا ہوں تم دونوں کی پروا کر کر کے۔ میں تنگ آ گیا ہوں اس زندگی سے۔ یہ زندگی نہیں ہے یہ عذاب ہے۔”
وہ اس کی بات پر بلند آواز سے چلایا تھا۔
”اس عذاب کا انتخاب تم نے خود کیا تھا۔”
”ہاں خود کیا تھا لیکن دس سال کسی غلطی کی تلافی کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ میں اب اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے گزارنا چاہتا ہوں۔ اس زندگی پر میرا بھی حق ہے۔ میں اپنی پوری زندگی کو ایک ایکسکیوز بنا کر گزارنا نہیں چاہتا۔”
وہ واش روم میں چلا گیا۔ مومل ساکت کھڑی اسے جاتا دیکھتی رہی۔
٭
سائرہ سے اسفند کی ملاقات چیمبر آف کامرس میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں ریسپشنسٹ تھی اور اس میں کوئی ایسی بات تھی جو مردوں کو اس کی طرف متوجہ کر دیتی تھی۔ اسفند کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ دو چار بار اسے چیمبر آف کامرس جانا پڑا اور سائرہ کی پرسنالٹی اس کے ذہن سے چپک کر رہ گئی تھی۔ وہ جانتا تھا۔ سائرہ اچھی عورت نہیں ہے اور اسفند واحد آدمی نہیں تھا جس پر وہ اپنے التفات کا اظہار کرتی تھی مگر اسفند کو اس کی پروا نہیں تھی۔ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے اس سے میل جول بڑھاتا گیا اور پھر آہستہ آہستہ بات کافی آگے بڑھ گئی تھی۔ وہ سائرہ کے گھر پر راتیں گزارنے لگا تھا۔ وہ ایک پوش علاقے میں ایک چھوٹے سے بنگلہ میں رہتی تھی اور ایک ریسپشنسٹ اس علاقے میں رہائش کس طرح افورڈ کر رہی تھی۔ یہ تقریباً سب ہی جانتے تھے لیکن پھر بھی اس کے پاس آنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی تھی۔ اسفند اس کا نیا شکار تھا بس فرق یہ تھا کہ یہ شکار سب کچھ جانتے بوجھتے اس کے جال میں پھنسا تھا۔
مومل ایک بار پھر دوراہے پر کھڑی تھی۔ ماضی ایک بار پھر اپنی بھیانک صورت میں اس کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔
”مجھے اب اس شخص کے ساتھ نہیں رہنا۔”
وہ دس سال کے بعد فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ ”مجھے ایک بار پھر اپنی فیملی کے پاس جانا چاہیے ان سے بات کرنی چاہیے۔ دس سال پہلے میں کمزور تھی بات نہیں کر سکتی تھی لیکن اب کر سکتی ہوں۔”
٭




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!