بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

”میں مانتا ہوں۔ میں نے ایسی غلطی …” اس نے دوبارہ اس کی بات کاٹ دی۔
”وہ کوئی غلطی نہیں تھی۔ وہ تمہارا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔”
”نہیں۔ میں نے یہ سب صرف وقتی اشتعال میں آ کر کیا تھا اگر یہ سب غصے کی حالت میں نہ ہوا ہوتا تو تم تین دن وہاں رہی تھیں۔ میں دوبارہ بھی تمہارے پاس آتا لیکن میں نہیں آیا اگر میرا غصہ اس رات سے پہلے ختم ہو جاتا تو میں تمہیں اسی طرح واپس چھوڑ آتا۔ میں ایسا آدمی نہیں ہوں جو کسی عورت کی عزت نہ کرے لیکن میں نہیں جانتا۔ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ میں اس رات کے بعد سے ٹھیک سے سو نہیں پایا’ تم مجھے جتنا بُرا سمجھ رہی ہو۔ میرا ضمیر مجھے اس سے زیادہ بُرا سمجھ رہا ہے۔ پھر بھی میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم مجھے معاف کر دو۔”
مومل کا دل چاہا تھا اس کے ہاتھ میں تیزاب کی بوتل ہو اور وہ اس کے چہرے کو اس سے مسخ کر دے۔ اب شکست خوردگی تھی۔ اس کے لہجے میں تب کیا تھا۔ اب ندامت تھی اور تب ۔ تب فخر تھا۔ غرور تھا’ اب سرجھکا ہوا تھا اور تب …
”تم اب ساری زندگی بھی میرے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہو تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں معاف کیا جائے۔ میری دعا ہے کہ تمہاری بیٹی ہو اور اس کے ساتھ بھی یہی سب کچھ …”
اسفند نے بہت تیز آواز میں اس کا جملہ کاٹ دیا۔ ”تم ایسی باتیں مت کرو۔ ایسا مت کہو۔”
”کیوں نہ کہوں۔ میں کہوں گی۔ ایک بار نہیں ہزار بار کہوں گی۔ کیا کر لو گے تم؟ بتاؤ کیا کرو گے تم؟ بولو کیا کرو گے؟”
وہ یک دم چلانے لگی تھی۔ اسفند نے بے بسی سے اسے دیکھا پھر سامنے پڑی ٹیبل پر فلیٹ کی چابی پھینکتے ہوئے تیزی سے فلیٹ سے چلا گیا۔
٭
اس دن کے بعد دوبارہ دونوں میں بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہر روز چند منٹوں کے لیے وہاں آتا اور ضرورت کی چیزیں چھوڑ کر چلا جاتا مومل سارا دن اس فلیٹ میں بند رہتی۔ فاطمہ اور ربیعہ روزانہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے اس کے پاس آتی تھیں اور وہ وقت بجلی کی چمک کی طرح گزر جاتا پھر باقی سارا وقت وہ پنجرے میں بند جانور کی طرح بیڈ روم’ بالکونی’ لاؤنج اور کچن کے چکروں میں گزارتی۔ اسے اپنا گھر اور لوگ بے تحاشا یاد آتے۔ اسے یاد آتا۔ اس کے بھائی کس طرح اس کے ناز اٹھایا کرتے تھے کس طرح اس کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش کو پورا کرتے تھے۔ اور ہر یاد جیسے اس کا گلا دبانے لگتی تھی۔ اس کا دم گھٹنے لگتا۔ اسے اپنے بھتیجے’ بھتیجیوں کے قہقہے یاد آتے اسے ان کی شرارتیں اور شوخیاں یاد آتیں اور وہ کئی کئی گھنٹے سر ہاتھوں میں پکڑے اپنے گال بھگوتی رہتی۔
”اور اس سب کا ذمہ دار یہی ایک شخص ہے۔ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔”
وہ سوچتی اور سفند کے لیے اس کے دل میں زہر بڑھتا جا رہا تھا۔





اسفند بہت دنوں تک اپنے ماں باپ سے یہ خبر نہیں چھپا سکا تھا کسی نہ کسی طرح یہ خبر اس کی فیملی تک پہنچ ہی گئی تھی۔ پہلے پہل تو اس کے والدین نے اس خبر پر دھیان نہیں دیا اور اسے صرف ایک افواہ سمجھی کیونکہ اسفند کی منگنی چند سال پہلے ہی اس کی اپنی پسند سے اس کی چچا زاد سے ہوئی تھی۔ دونوں شروع سے ہی اکٹھے پڑھتے رہے تھے اور یہ باہمی انڈر اسٹینڈنگ بعد میں محبت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ گریجویشن کے بعد اسفند نے نوشین کے بارے میں اپنے والدین کو آگاہ کر دیا تھا اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب یک دم ان عجیب قسم کی خبروں نے حسن علی کو کافی پریشان کر دیا تھا۔ انہوں نے ڈائریکٹ اسفند سے بات کرنی مناسب سمجھی۔ وہ دو بہنوں اور تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور ماں اور باپ دونوں کے کافی قریب تھا یہی وجہ تھی کہ حسن علی نے اس معاملے پر اس سے بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا تھا۔ اور اس وقت انہیں شاید زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا تھا جب اسفند نے ان کے استفسار پر انکار یا تردید کرنے کے بجائے اپنی شادی کا اعتراف کر لیا تھا۔ حسن علی کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا مگر جب انہیں یقین آیا تو وہ جیسے آگ بگولہ ہو گئے تھے۔
”اگر تمہیں اس طرح کا کارنامہ کرنا تھا تو تمہیں نوشین سے منگنی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔”
”آپ نوشین سے میری منگنی ختم کر دیں۔ اس شادی کے بعد اب کسی اور رشتہ کی گنجائش نہیں رہی۔”
”تم کون ہوتے ہو یہ کہنے والے’ تم منگنی کہیں اور کرو شادی کہیں اور۔ لیکن اگر تم اس فیملی میں رہنا چاہتے ہو تو کل شام تک اچھی طرح سوچ لو اور اس لڑکی کو طلاق دے دو۔”
حسن علی نے چند لمحوں میں اپنا فیصلہ سنایا تھا اور اٹھ کر چلے گئے تھے۔
دوسرے دن شام کو انہوں نے پھر اسفند کو بلوایا۔ ”پھر کیا فیصلہ کیا ہے تم نے؟” انہوں نے اس کے بیٹھتے ہی پوچھا۔
”پاپا! آپ جانتے ہیں۔ میں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔” اس نے دھیمے لہجے میں سرجھکائے ہوئے کہہ دیا۔ حسن علی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”تمہارے سامنے صرف دو راستے ہیں۔ سامنے ٹیبل پر طلاق کے کاغذات پڑے ہیں اور ایک بلینک چیک ہے۔ پیپرز پر سائن کر دو اور چیک میں جتنی رقم چاہے بھرو اور اس لڑکی کو بھیج دو اور دوسرا راستہ ہے یہ کہ تم اس گھر سے چلے جاؤ۔”
اسفند ستے ہوئے چہرے کے ساتھ انہیں دیکھتا رہا پھر وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”پاپا! میں دوسرا راستہ اختیار کروں گا۔” وہ کمرے سے جانے لگا۔
”اسفی! احمق مت بنو۔ ایک دفعہ پھر سوچو۔” اس کی ممی نے اسے جاتے ہوئے روکا۔
ممی! میں اپنا فیصلہ بدل نہیں سکتا۔ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا۔
”ٹھیک ہے۔ تم فیصلہ نہیں بدلو گے تو مت بدلو لیکن پھر اس گھر سے کچھ بھی لے کر مت جانا۔ اسی طرح جاؤ اور جس فلیٹ میں تم نے اس لڑکی کو رکھا ہوا ہے۔ وہ میں آج تمہارے دوست کے باپ سے خرید چکا ہوں۔ کل تک اسے خالی کر دو۔ اپنی عیاشیوں کے لیے خود روپیہ کماؤ میری کمائی تم ان لڑکیوں پر نہیں اڑا سکتے۔”
وہ چند لمحے زرد چہرے کے ساتھ باپ کو دیکھتا رہا پھر ہونٹ کاٹتے ہوئے دروازے کے طرف بڑھ گیا۔
”میری آفر ابھی بھی وہیں ہے۔ تم جب چاہو اس لڑکی کو طلاق دے کر واپس آ سکتے ہو تمہیں ہر چیز مل جائے گی۔”
وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ وہ بالکل خالی الذہنی کے عالم میں تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا’ وہ کیا کرے۔ کس کی مدد مانگے۔ اسے اپنے ماں باپ پر غصہ آیا تھا۔ یہ سب اس کے لیے خلاف توقع نہیں تھا مگر اسے یہ توقع نہیں تھی کہ اس کی شادی کی خبر اس کے باپ تک اتنی جلدی پہنچ جائے گی۔ اپنے کمرے میں آ کر اس نے اپنے سارے ڈاکومنٹس نکالے اور پھر اپنے گھر سے نکل آیا۔ اس نے ایک پی سی او سے راشد کو فون کیا۔
”سوری اسفند! میں نہیں جانتا۔ ڈیڈی کو کیسے پتہ چل گیا کہ میں نے فلیٹ تمہیں دے رکھا ہے اور وہاں تمہاری بیوی رہتی ہے میرا خیال ہے یہ ساری انفارمیشن حسن انکل نے ڈیڈی کو دی ہے۔ اب ڈیڈی نے مجھ سے کہا ہے کہ میں ایک دن کے اندر اندر تم سے یہ فلیٹ خالی کروالوں۔ میں نے ایک آدمی سے بات کی ہے۔ اس کے کچھ فلیٹس ہیں جنہیں وہ کرائے پر دیتا ہے ۔ وہ لگژری فلیٹ تو نہیں ہیں لیکن بہرحال اتنے برے بھی نہیں ہیں۔ تم دونوں کے لیے کافی ہے۔ میں نے اسے تین ماہ کا کرایہ دے دیا ہے لیکن تم کسی دوسرے دوست کو اس فلیٹ کا اتاپتا نہ دینا اگر پھر کہیں حسن انکل تک بات پہنچ گئی تو وہ یہ فلیٹ بھی خالی کروانے کی کوشش کریں گے اور تمہارے لیے بہت سے مسئلے پیدا ہو جائیں گے۔ میں کل صبح تمہارے فلیٹ پر آؤں گا اور تمہیں ساتھ لے جاؤں گا۔”
اسفند نے شکریہ ادا کرتے ہوئے فون بند کر دیا۔
٭
اس شام جب وہ فلیٹ پر آیا تو کافی پریشان تھا۔ مومل اس وقت کھانا کھا رہی تھی۔ وہ بے مقصد ادھر ادھر پھرتا رہا جب اس نے کھانا ختم کر لیا تو وہ اس کے پاس آیا۔
”تم اپنی چیزیں پیک کر لو’ ہم صبح یہ فلیٹ چھوڑ دیں گے۔”
مومل نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا مگر کچھ پوچھا نہیں۔
”کل ہم ایک دوسرے فلیٹ میں شفٹ ہو جائیں گے۔ میں تم پر کچھ باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ میرے والدین کو میری شادی کا پتا چل گیا ہے اور میں نے گھر چھوڑ دیا ہے یا یہ سمجھ لو کہ انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ میرے پاس اب صرف چند ہزار روپے ہیں اور وہ بہت عرصہ نہیں چلیں گے جب تک میرے پاس روپیہ تھا۔ میں نے تمہیں ہر آسائش دینے کی کوشش کی۔ اب میرے پاس روپیہ نہیں ہے اس لیے میں تمہیں پہلے کی طرح سہولیات فراہم نہیں کر سکوں گا۔ لیکن پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ تمہیں کسی چیز کی کمی نہ ہو بہرحال تمہیں کچھ بُرا وقت گزارنا پڑے گا۔”
وہ اپنی بات مکمل کر کے اس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا مگر وہ کسی ردعمل کے بغیر ڈائننگ ٹیبل سے برتن اٹھا کر کچن میں چلی گئی۔ وہ بے دلی سے وہ سامان پیک کرنے لگا جو وہ وقتاً فوقتاً خرید کر لاتا رہا تھا۔
اگلی صبح وہ راشد کے ساتھ نیا فلیٹ دیکھنے گیا۔ دو کمروں’ کچن’ باتھ روم اور ٹیرس پر مشتمل وہ فلیٹ اس کے لیے کافی تھا۔ یہ فلیٹ پہلے فلیٹ کی طرح فرنشڈ نہیں تھا لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر تھا۔ دوپہر تک وہ اپنا تھوڑا بہت سامان نئے فلیٹ میں منتقل کر چکا تھا۔ اپنے والٹ میں موجود رقم سے اس نے ضرورت کی کچھ اور بنیادی چیزیں خریدیں پھر وہ راشد کی گاڑی میں مومل کو نئی جگہ لے آیا تھا۔ وہ خود ہی اس تھوڑے بہت سامان کو فلیٹ میں سیٹ کرتا رہا۔ مومل کسی تماشائی کی طرح اس کی سرگرمیاں دیکھتی رہی۔ اسفند کے چہرے کی سنجیدگی اور پریشانی اسے ایک عجیب سا سکون پہنچا رہی تھی۔
”اسفند حسن! اب … اب تمہیں احساس ہو گا کہ اپنوں سے کٹ کر رہنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے زندگی گزارنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کل تک جو آپ کے لیے جان دینے پر تیار تھے وہ آج آپ کو دیکھنا تک نہیں چاہتے۔”
رات کو وہ بیڈ روم میں سونے کے لیے چلی گئی اور وہ خالی ڈرائنگ روم میں اپنے خریدے ہوئے میٹرس کو بچھا کر اس پر لیٹ گیا۔ اس کی آنکھوں میں دور دور تک نیند نہیں تھی۔ آنکھیں کھولے وہ اندھیرے میں کمرے کی چھت دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔
”تم نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟ اس طرح مجھے بے وقوف کیوں بنایا۔ میں ہمیشہ ہر معاملے میں تمہارے ساتھ فیئر رہی ہوں پھر تم نے اسفند! تم نے میرے ساتھ اس طرح کیوں کیا؟” اس کے کانوں میں کسی کی سسکیاں گونجنے لگی تھیں۔
دو دن پہلے نوشین نے اسے فون کیا تھا۔ شاید ممی نے اسے فون کر کے اس کے اعتراف کے بارے میں بتایا تھا۔
”تم ایسے نہیں تھے اسفند! تم تو کبھی بھی ایسے نہیں تھے۔” وہ بلکتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”ہاں پہلے نہیں تھا’ اب ہو گیا ہوں۔ نوشین! تم مجھے معاف کر دو اور آئندہ … آئندہ کبھی میرے ساتھ کوئی رابطہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ میں تمہارے قابل نہیں رہا ہوں۔ تمہیں مجھ سے بہت بہتر’ بہت اچھے انسان مل سکتے ہیں۔ میرے جیسا تھرڈ ریٹ اور تھرڈ کلاس شخص تمہارے لائق نہیں تھا۔ ” اس نے اسے یہ کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔
پھر بہت دیر تک فون کی بیل بجتی رہی لیکن اس نے ریسیور نہیں اٹھایا۔ پھر وہ اس کے گھر آئی تھی لیکن وہ اپنے کمرے سے نہیں نکلا۔ وہ بہت دیر تک اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دیتی رہی اور وہ کسی پتھر کے مجسمے کی طرح راکنگ چیئر پر جھولتا رہا۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسے اپنا چہرہ دکھاتا۔ اس کے سامنے آتا ۔ اس سے بات کرتا۔ وہ مایوس ہو کر روتی ہوئی چلی گئی تھی۔ وہ ساری رات اپنے اور نوشین کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کا چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے آتا رہا۔ اس کی باتیں بار بار اس کے ذہن میں گونجتی رہیں۔
”ہر شخص کو اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ میری غلطی کا کفارہ یہ ہے کہ مجھے تم نہ ملو۔ میں ساری زندگی اس چیز کے بغیر رہوں جس سے میں سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔”
اس نے اپنی آنکھوں پر بازو رکھتے ہوئے سوچا۔
٭
اگلے چند دنوں میں اس نے ایک نائٹ کالج میں جاب ڈھونڈلی۔ چند ہفتے اس نے وہاں کام کیا اور پھر اس کے پیپرز شروع ہو گئے۔ وہ تین ہفتے پیپرز میں مصروف رہا۔ پیپرز سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ایک بار پھر مختلف جگہوں پر جابز ڈھونڈنی شروع کر دیں۔ اپنے دوستوں کے ذریعے سے وہ جہاں بھی جاب ڈھونڈتا’ وہاں سے بہت جلد حسن علی اسے فارغ کروا دیتے۔ اس نے تنگ آ کر دوستوں کی مدد لینا چھوڑ دیا۔ ایک پارٹ ٹائم جاب اسے راشد نے دلوائی ہوئی تھی۔ ایک اکیڈمی کے ذریعے اس نے کچھ ٹیوشنز حاصل کر لیں اور رات کو وہ اسی نائٹ کالج میں پڑھاتا تھا لیکن پھر بھی وہ مطمئن نہیں تھا۔ یہ سب کوئی مستقل انتظام نہیں تھا۔
اسے ہر ماہ تقریباً آٹھ دس ہزار مل جاتے تھے۔ لیکن فلیٹ کا کرایہ’ بل اور دوسرے اخراجات نکال کر اس کے پاس صرف ایک دو ہزار بچتا تھا اور یہ رقم کافی نہیں تھی۔ پہلی بار اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ روپیہ کمانا کتنا مشکل کام ہے۔ اس نے بچپن اور جوانی دونوں آسائشوں میں گزاری تھی۔ جتنی رقم اب اسے کمانے کے لیے رات دس بجے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ اس سے دوگنی رقم حسن علی اسے ہر ماہ جیب خرچ کے طور پر دیتے تھے پھر بھی اس کے اخراجات پورے نہ ہوتے اور وہ وقتاً فوقتاً ان سے مزید رقم لیتا رہتا تھا۔
حسن علی ایک نامور صنعت کار تھے اور چیمبر آف کامرس کا صدر ہونے کی وجہ سے ان کی بے تحاشا مصروفیات تھیں لیکن اپنے بزنس میں بے حد مصروف رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر ہمیشہ بہت توجہ دی تھی اور یہی حال عنبرین حسن کا تھا۔ جو شادی سے پہلے ایک کالج میں لیکچرر تھیں لیکن شادی کے بعد انہوں نے اپنی جاب چھوڑ کر پوری توجہ بچوں پر دی تھی۔ انہوں نے کبھی بچوں پر بے جا پابندیاں نہیں لگائیں اور نہ ہی ان پر کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میں دباؤ ڈالا۔
اسفند کے سب سے بڑے بھائی نے اپنی مرضی سے باپ کے ساتھ بزنس سنبھالنا شروع کر دیا تھا لیکن اسفند کا دوسرا بھائی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سول سروس میں چلا گیا تھا اور یہی کام اسفند نے کیا تھا۔ اکنامکس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے بھی باپ کے ساتھ بزنس میں ہاتھ بٹانے کی بجائے سول سروس میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی بڑی بہنوں میں سے بھی دو ڈاکٹر تھیں اور ایک کسی بینک میں کام کرتی تھی۔
اسفند اور اس کی ایک بہن کے علاوہ باقی سب شادی شدہ تھے اور اب جیسے اسفند کا ایک قدم اسے زندگی کے سب سے بڑے بحران میں لے آیا تھا۔ وہ اپنی پوری فیملی کا چیہتا تھا لیکن اس پیار محبت نے اسے بگاڑا نہیں تھا۔ اس کی زندگی بہت سکون سے گزر رہی تھی اور پھر یک دم جیسے اسپیڈ بریکر آگیا تھا۔ اس کا تھوڑا سا غصہ اسے آسمان سے زمین پر لے آیا تھا اور اب … اب وہ کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا۔
مومل نے خود بھی کبھی ان حالات میں رہنے کا تصور نہیں کیا تھا اس کی فیملی مالی لحاظ سے اسفند حسن کے مقابل نہیں آ سکتی تھی لیکن وہ کوئی عام سے لوگ بھی نہیں تھے۔ اس کے دونوں بھائی انجینئر تھے اور اس کا بڑا بھائی ایل ڈی اے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ زندگی کی ہر سہولت اسے دستیاب تھی اور اب وہ جس فلیٹ میں رہ رہی تھی۔ اس میں برائے نام فرنیچر تھا۔ آسائشات تو بہت دور کی بات تھی۔
دونوں کے تعلقات میں وقت گزرنے کے ساتھ بھی کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔ مومل اسفند کا کوئی کام نہیں کرتی تھی جو واحد عنایت وہ کرتی تھی’ وہ یہ تھی کہ وہ کھانا تھوڑا زیادہ پکا لیا کرتی تھی اور اسفند کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔ وہ صبح گھر سے نکلتا اور پھر رات گئے واپس آتا۔
مومل سارا دن گھر میں بند رہتی۔ اس نے آس پاس کے فلیٹ والوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی ان کے گھر آئے ۔ ان کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرے۔ جوں جوں ڈلیوری کے دن قریب آ رہے تھے۔ اسفند سے اس کی نفرت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اسے یہ سوچ کر وحشت ہو رہی تھی کہ وہ اپنے بچے کو کیسے دیکھے گی۔ کیسے چھوئے گی۔ کیسے قبول کرے گی۔ بعض دفعہ اسے یہ سوچ کر گھن آنے لگتی کہ اس نے اس شخص سے شادی کرنا کیسے قبول کیا ہے جس نے اس کی زندگی تباہ کر دی تھی۔ فاطمہ اور ربیعہ اب بھی اس کے پاس آتی تھیں مگر اب ان کی آمدورفت میں کچھ وقفہ آ گیا تھا۔ وہ دونوں ہر بار اسے ماضی بھول جانے کی تلقین کرتیں اور وہ آگ بگولا ہو جاتی۔
اس دن وہ آفس میں تھا جب ربیعہ نے اسے فون کر کے ہاسپٹل بلوایا تھا۔ اور جب ہاسپٹل پہنچا تو اسے بیٹی کی پیدائش کی اطلاع ملی تھی وہ بڑے عجیب سے احساسات سے دوچار ہوا تھا۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!