بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

اس نے حیرانگی سے انہیں دیکھا۔ ”ہاں۔”
”ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔”
ربیعہ کی بات پر اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”ٹھیک ہے کریں۔”
”دیکھیں آپ پلیز باہر آ کر ہماری بات سن لیں۔ ہم ان کے سامنے بات کرنا نہیں چاہتے۔” ربیعہ نے کچھ جھجکتے ہوئے اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوستوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد اٹھ کر ان کے ساتھ باہر آ گیا۔ ربیعہ نے باہر آنے کے بعد مختصر لفظوں میں اپنا اور فاطمہ کا تعارف کرایا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ انہیں دیکھتا رہا۔
”ہم آپ سے مومل کے بارے میں بات کرنے آئے ہیں۔” تعارف کرواتے ہی ربیعہ بلاتوقف اصل موضوع پر آگئی۔ اسفند کے چہرے کا رنگ یک دم بدل گیا۔
”اس کے بارے میں کیا بات کرنا چاہتی ہیں؟ اور آپ کا اس سے کیا تعلق ہے۔” اس نے سرد لہجے میں ان سے پوچھا تھا۔
”اس سے ہمارا کیا تعلق ہے’ اسے جان کر آپ کیا کریں گے۔ ہم تو آپ کو صرف یہ اطلاع دینے آئے ہیں کہ وہ پریگننٹ ہے۔”
”کیا؟” ربیعہ کی بات پر بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تھا اور چند لمحے وہ کچھ بول ہی نہیں پایا۔
”اتنی حیرت کس بات پر ہے آپ کو؟ جو کچھ آپ نے کیا تھا۔ کیا اس کے بعد ایسی کوئی خبر حیرت انگیز ہو سکتی ہے؟”
ربیعہ کا لہجہ بے حد کٹیلا تھا۔ وہ اس کی بات پر چند لمحوں تک کسی سوچ میں گم رہا اور پھر اس نے یک دم تیز آواز میں کہنا شروع کر دیا۔
”میں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے اور کیوں کیا ہے’ یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے۔ آپ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ جو ہوا’ وہ اس کی مستحق تھی۔ اب اگر وہ پریگننٹ ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔ اس لیے مجھے اس اطلاع سے کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ کو میرے پاس نہیں آنا چاہیے تھا۔”
”کیوں نہیں آنا چاہیے تھا۔ یہ بچہ جائز ہے یا ناجائز۔ اولاد تو تمہاری ہی ہے۔ پھر سارے نقصان وہ اکیلی کیوں برداشت کرے۔ تم اس سے شادی کرو۔” فاطمہ یک دم بیچ میں بولنے لگی تھی۔
”آپ پاگل ہو گئی ہیں۔ میں اور اس سے شادی کروں’ یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا۔” اسفند کا لہجہ قطعی تھا۔
”ٹھیک ہے پھر ہم اسے تمہارے گھر بھجوائیں گے تاکہ وہ تمہاری فیملی کو تمہارے کرتوتوں کے بارے میں بتائے۔” فاطمہ کا لہجہ بے حد تلخ ہو گیا تھا۔
”تم لوگ ایسا نہیں کر سکتیں۔”
”کیوں نہیں کر سکتے اگر تم کسی کی زندگی تباہ کر سکتے ہو تو ہم کیا کسی کو یہ سب بتا نہیں سکتے۔ تمہیں بھی پتا چلنا چاہیے’ ذلت اور رسوائی کیا ہو تی ہے۔” فاطمہ ایک بار پھر بول اٹھی تھی۔





”دیکھو۔ میری منگنی ہو چکی ہے’ اس سال کے آخر میں میری شادی ہونے والی ہے۔ میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔ اگر میری فیملی کو یہ سب کچھ پتا چل گیا ‘ تب بھی میں ان کی نظروں سے گر ضرور جاؤں گا مگر وہ میری شادی وہیں کریں گے۔ وہ مومل کو میری بیوی کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اس لیے تم اس حوالے سے مجھے بلیک میل مت کرو۔ مگر ہاں ٹھیک ہے۔ مجھ سے جو غلطی ہوئی ہے میں اس کا تاوان دے سکتا ہوں۔ اسے جتنے روپے کی ضرورت ہے وہ لے لے اس مصیبت سے چھٹکارا پالے میں اب اس کی صرف یہی مدد کر سکتا ہوں۔”
اسفند کے لہجے میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ اس کی آواز اب بہت دھیمی ہو چکی تھی۔
”اسفند ! کبھی انسان بن کر سوچو تو تمہیں خیال آئے گا کہ تم جسے مارنے کی بات کر رہے ہو’ وہ تمہاری اپنی اولاد ہے’ اپنی اولاد کو تو صرف سانپ کھاتا ہے مگر وہ بھی اسے دنیا میں ضرور آنے دیتا ہے۔ تم تو سانپ سے بھی گئے گزرے ہو۔ تمہاری وجہ سے ایک لڑکی کی زندگی برباد ہوئی ہے اس کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا ہے۔ وہ دردر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ ہم نے اسے سہارا دیا ہے مگر کب تک؟ اور تم ایک بات یاد رکھنا ہم نے اسے سہارا ضرور دیا ہے۔ مگر تمہاری اولاد کو نہیں دیں گے۔ ابا رشن تو ہم اس کا کبھی نہیں کروائیں گے۔ تمہاری درندگی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تو ہونا ہی چاہیے اس دنیا میں جو بیس پچیس سال بعد تمہارا گریبان پکڑ کر تم سے پوچھے کہ کیا تم انسان ہو؟ ناجائز بچوں کو جب لوگ نام نہیں دیتے تو وہ کیا بن جاتے ہیں یہ تمہیں بھی پتا چل جائے گا۔ اور ایک بار سوچو۔ بیٹی پیدا ہوئی تو تم کیا کرو گے۔ وہ بھی اپنی ماں کی طرح ٹھوکریں کھاتی پھرے گی اور اگر اسے بھی تمہاری طرح کے لوگ ملنے لگے تو کیا ہو گا۔ کبھی سامنا ہونے پر کیا تم شرم سے ڈوب نہیں مرو گے۔ ایک بار اس بھیانک دل کے بغیر سوچو۔ لوگ اپنی اولاد کے لیے کیا کیا کرتے ہیں اور تم کیا کر رہے ہو؟”
وہ ربیعہ کی باتوں پر نظریں زمین پر جمائے خاموش کھڑا رہا۔ ربیعہ نے مزید کچھ نہیں کہا اور فاطمہ کے ساتھ واپس ہاسٹل آ گئی۔
”تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ شادی پر تیار ہو گا؟” ہاسٹل واپسی پر فاطمہ نے ربیعہ سے پوچھا۔
”پتا نہیں’ بہرحال اگر وہ شادی پر تیار نہ ہوا تو میں اس سے کہوں گی کہ وہ مومل کا ابارشن خود کروائے۔ یہ کام ہم نہیں کریں گے۔” ربیعہ کو تھکن محسوس ہو رہی تھی۔
شام کے وقت ربیعہ کا فون آیا تھا۔ وہ وارڈن کے کمرے میں فون سننے گئی اور جیسے حیرت سے جم کر رہ گئی تھی۔ فون پر اسفند حسن تھا کسی تمہید کے بغیر اس نے کہا تھا۔
”میں مومل سے شادی کرنے پر تیار ہوں۔”
ربیعہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔ ”لیکن میں فی الحال اس شادی کا اعلان نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میں ابھی اپنے والدین سے کوئی جھگڑا افورڈ نہیں کر سکتا۔ چند ماہ بعد میں پیپرز سے فارغ ہو جاؤں گا۔ تب میں اپنی فیملی کو شادی کے بارے میں بتا دوں گا۔ ابھی میں اس سے نکاح کر لیتا ہوں۔ میرے دوست کا ایک فلیٹ ہے’ وہ چاہے تو وہاں شفٹ ہو جائے۔ آپ لوگ نکاح کی تاریخ طے کر لیں اور مجھے انفارم کر دیں۔”
اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ربیعہ کو اپنا فون نمبر اور موبائل نمبر لکھوایا تھا۔ ربیعہ کی ساری تھکن جیسے غائب ہو گئی تھی۔ وہ بھاگتی ہوئی واپس کمرے میں آئی تھی اور یہ خبر سن کر فاطمہ کی بھی یہی حالت ہوئی تھی۔ اس رات وہ دونوں بڑے سکون سے سوئی تھیں کیونکہ انہیں لگ رہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
٭
ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی تھی۔ دوسرے دن جب انہوں نے مومل کے ہاسٹل جا کر اسے یہ خبر سنائی تو وہ جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھی۔ ”میں جانتی ہوں’ میں تم لوگوں پر بوجھ ہوںمگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھے اس شخص کے سرتھوپنے کی کوشش کرو جو میری بربادی کا ذمہ دار ہے۔ تم اگر مجھ سے تنگ آ گئی ہو تو مجھ سے صاف صاف کہہ دو میں کہیں چلی جاؤں گی۔ لیکن مجھے دوبارہ پلیٹ میں رکھ کر اس شخص کے سامنے پیش کرنے کی کوشش مت کرو۔”
ربیعہ اور فاطمہ اس کا منہ دیکھتی رہ گئی تھیں۔ انہیں اس سے اتنے شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی۔
”دیکھو مومل! تم ایموشنل (جذباتی) ہو رہی ہو۔” ربیعہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر اس نے ربیعہ کی بات کاٹ دی۔
”میں نہیں تم لوگ ایموشنل ہو رہے ہو۔ میں جس شخص کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس کی بیوی بن کر کیسے رہ سکتی ہوں۔ میں اس سے شادی کرنے کے بجائے جان دینا زیادہ بہتر سمجھتی ہوں۔ میرے دل میں اس کے لیے کتنی نفرت ہے یہ تم کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔ وہ اذیت’ وہ تکلیف’ وہ ذلت صرف مجھے اٹھانی پڑی تھی۔ وہ تمہارے ساتھ ہوا ہوتا تو پھر میں تم سے پوچھتی۔”
”مومل! میں جانتی ہوں’ تم اس سے بہت نفرت کرتی ہو لیکن اپنے بچے کے بارے میں سوچو۔”
”ربیعہ! میں کیوں سوچوں اس کے بارے میں۔ وہ جہنم میں جائے۔ مجھے کسی بچے کی کوئی پروا نہیں ہے۔ میں ہر قیمت پر اس سے چھٹکارا حاصل کر لوں گی’ چاہے تم لوگ میری مدد کرو یا نہ کرو۔”
”مومل! تم اپنے بچے کو مار ڈالوگی؟”
”اس کے باپ نے بھی تو مجھے مار ڈالا تھا نا۔ کیا اس نے مجھ پر رحم کھایا تھا پھر میں اس پر رحم کیوں کروں؟ میں اپنی آستین میں ایک اور سانپ کیوں پالوں؟” اس کے پاس ربیعہ کی ہر بات کا جواب تھا۔
”اتنی دیر سے تمہاری باتیں سن رہی ہوں۔ اب تم ہماری بات سنو۔ اپنی تباہی کی ذمہ دار تم خود ہو۔” فاطمہ نے یک دم بولنا شروع کر دیا۔ مومل کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”فاطمہ ! یہ تم کہہ رہی ہو؟”
”ہاں’ یہ میں کہہ رہی ہوں۔ تم نے کیوں اپنی دوستوں کے کہنے پر اس سے لڑنا شروع کر دیا تھا؟ کیوں اس کے منہ پر تھپڑ مارا تھا؟ اگر تم ایک فضول سی بات پر اس سے جھگڑا مول نہ لیتیں تو آج اس حالت میں نہ ہوتیں۔ تمہیں اپنی ذلت اور رسوائی کا احساس ہے لیکن اسفند کے لیے کیا کہو گی۔ عزت صرف عورت کی نہیں ہوتی۔ مرد کی بھی ہوتی ہے۔ تم نے بھی اسے ذلیل کیا تھا اور تمہاری پہل نے ہی اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔ تمہاری دوستوں نے تمہیں ایک غلط بات پر اکسایا۔ تم نے فوراً وہ کام کر ڈالا۔ ہم تمہیں سیدھا راستہ دکھا رہے ہیں۔ تمہاری سمجھ میں ہماری بات نہیں آ رہی۔ مجھے لگتا ہے۔ تمہیں ابھی بھی عقل نہیں آئی۔ تم نے اپنی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا۔ تمہیں اپنی زندگی بچانے کا ایک موقع مل رہا ہے اور تم اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتیں۔ اسفند نے اگر تمہیں اغوا کر کے ذلالت کا ثبوت دیا تھا تو اپنے بچے کو مار کر تم کون سی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر رہی ہو؟” فاطمہ بہت غصے میں تھی مگر مومل یک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔
”میں اعلاظرف ہوں ہی نہیں تو اعلاظرفی کا مظاہرہ کہاں سے کروں۔ میں اس سے شادی تو کسی قیمت پر نہیں کروں گی’ ہاں تم لوگوں کا بوجھ ختم کرنے کے لیے خود کو ختم کر لیتی ہوں۔” وہ تیزی سے کمرے کی کھڑکی کی طرف چلی گئی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ چھلانگ لگاتی’ ربیعہ نے اسے پکڑ لیا تھا اور زوردار تھپڑ مار کر دور دھکیل دیا۔ ان دونوں کے جیسے ہوش اڑ گئے تھے۔
”تم یہ صلہ دے رہی ہو ہمیں؟ تمہاری وجہ سے ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں اور تم ہمارے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرنا چاہتی ہو تاکہ ہمارا کیریر ختم ہو جائے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ ہم تمہارا مستقبل بچانا چاہتے ہیں اور تم ہمارا مستقبل تباہ کرنا چاہتی ہو؟”
پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کھڑکی بند کرتے ہوئے ربیعہ نے اس سے کہا تھا۔ مومل یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ”آئی ایم سوری میں نے سوچا نہیں تھا کہ میری خودکشی کا نتیجہ تم لوگوں کے لیے اتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ تم دونوں کے مجھ پر بے شمار احسانات ہیں اور میں احسان فراموش نہیں ہوں۔ میں کل صبح دارلامان چلی جاؤں گی۔”
ربیعہ اس کی بات پر ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔ ”وہاں جا کر کون سی امان مل جائے گی تمہیں؟ وہاں تو اس سے بھی بڑے درندے ہیں’ وہاں کس کس سے بچوگی۔”
”تو میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟” اس کی سسکیاں اور تیز ہو گئی تھیں۔
”مومل! تمہیں اپنی زندگی بچانے کا ایک موقع مل رہا ہے پھر اس کو کیوں گنوا رہی ہو۔ ہم تم سے یہ تو نہیں کہہ رہے کہ تم ساری عمر اس کے ساتھ بندھی رہنا۔ ہم تو وقتی طور پر اس سے شادی کا کہہ رہے ہیں کم از کم فی الحال تو یہ آدمی تمہارے تحفظ کا واحد ذریعہ ہے بعد میں تم اس سے طلاق بھی لے لو تو بھی کوئی تم پر اب کی طرح انگلی نہیں اٹھا سکے گا اور تمہارے بچے کو بھی اس کا نام ملے گا اور تم طلاق لیتے ہوئے اس کو چھوڑنا چاہو تو اس کے باپ کے پاس چھوڑ سکتی ہو۔ لیکن کم از کم فی الحال تو اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچاؤ۔”
وہ بے بسی سے ان دونوں کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”اگر تمہیں ہم سے ذرا بھی محبت ہے تو تم ہماری بات مان لو۔” فاطمہ نے بات کرتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
٭
دو دن بعد اسفند کے دوست کے فلیٹ پر اسفند کے ساتھ اس کا نکاح ہو گیا تھا۔ سارے انتظامات اسفند نے ہی کیے تھے۔ ربیعہ اور فاطمہ نکاح کے بعد شام تک اس کے پاس اسے تسلیاں دیتی رہیں۔ وہ خالی ذہن کے ساتھ ان کے چہرے دیکھتی رہی۔ شام کو وہ دونوں چلی گئی تھیں۔ ان کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ آیا تھا۔
”یہ فلیٹ کی چابیاں ہیں۔ رات کے کھانے کے لیے کچھ چیزیں لا کر میں نے کچن میں رکھ دی ہیں۔ فلیٹ میں تقریباً ہر چیز موجود ہے۔ اگر کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو لسٹ بنا دینا۔ میں تمہیں کل لادوں گا۔ میں اب جا رہا ہوں تم دروازہ لاک کر لو۔ میں صبح آؤں گا۔”
وہ اسے یہ ہدایت دے کر اس کا جواب سنے بغیر فلیٹ سے چلا گیا۔ اس نے فلیٹ کا دروازہ لاک کر لیا تھا۔ واپس بیڈ روم میں آ کر اس نے پہلے کی طرح گھٹنوں میں منہ چھپا لیا تھا۔ پچھلے چند ماہ ایک بار پھر اس کے دماغ کی اسکرین پر ابھرنے لگے تھے’ ایک ایک بات’ ایک ایک چہرہ۔ ایک ایک منظر جیسے اس کے ذہن پر نقش تھا۔ ”تمہیں زندگی میں کچھ نہیں ملنا چاہیے اسفند حسن! کچھ بھی نہیں۔ میری طرح خالی ہاتھ ہو جانا چاہیے تمہیں بھی۔ میری طرح ذلت اور رسوائی ملنی چاہیے تمہیں۔ میری طرح تمہارے سارے خوابوں کو دھواںبن جانا چاہیے۔ مجھے اپنی زندگی میں نہیں لائے تم عذاب کو لائے ہو۔ میں تمہیں بتاؤں گی سب سے اوپر والی سیڑھی سے منہ کے بل گرنا کیسا لگتا ہے۔”
اسفند کے خلاف اس کے دل اور دماغ کا زہر بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ ساری رات کسی آگ کی طرح بھڑکتی رہی۔
وہ دوسرے دن صبح دس بجے آیا۔ اپنی چابی سے فلیٹ کا دروازہ کھول کر وہ کھانے کے کچھ ڈبے لیے اندر آیا ۔ وہ اسی کے انتظار میں ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے دونوں کی نظریں ملیں پھر وہ نظریں چراتا ہوا کچن کی طرف چلا گیا۔
”تم نے اپنے پاس اس فلیٹ کی دوسری چابی کیوں رکھی ہے؟” اس کے کچن سے باہر آتے ہی مومل نے تیز آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ ٹھٹک گیا۔ حیرت سے اس نے مومل کا چہرہ دیکھا۔
”صرف اپنی سہولت کے لیے؟”
”لیکن میں نہیں چاہتی تمہارے پاس اس فلیٹ کی کوئی دوسری چابی ہو۔ میں تم پر اعتبار نہیں کر سکتی ہوں۔” مومل کا لہجہ بے حد تلخ تھا۔
اسفند نے اس کے چہرے سے نظر ہٹالی۔ کچھ دیر تک وہ کچھ بولنے کی کوشش کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
”دیکھو مومل! میں …” مومل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اپنی گندی زبان سے میرا نام مت لو۔” اسفند کا چہرہ یک دم سرخ ہو گیا۔
”اگر میری زبان تمہیں گندی لگتی ہے اور میں تمہیں اس قدر ناپسند تھا تو پھر تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہیے تھی۔”
”میں تمہیں ناپسند نہیں کرتی ہوں۔ میں تم سے نفرت کرتی ہوں اور یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی’ مجھے مجبور کیا گیا تھا۔ ورنہ میں وہ سب کچھ نہیں بھولی ہوں جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا۔”
وہ عجیب سے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے ایک گہری سانس لے کر اس کے چہرے سے نظر ہٹالی۔
”میں جانتا ہوں۔ تم نے وہ سب کچھ نہیں بھلایا ہو گا۔ وہ سب کچھ بھلانا اتنا آسان ہے بھی نہیں لیکن میں تم سے ایکسکیوز کرتا …”
”مجھے تمہارے ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے اور مجھ سے آئندہ بھی کبھی ایکسکیوز مت کرنا۔” مومل نے تیز آواز میں اس کی بات کاٹ دی۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!