بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

گیٹ کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ پہلے وہ جب گھر آتی تھی تو اس کے بھتیجے بھتیجیوں کا ہنگامہ باہر تک آ رہا ہوتا تھا۔ لان عبور کر کے وہ اندرونی دروازے تک پہنچ گئی اور پھر اس میں اتنی ہمت اور حوصلہ باقی نہیں رہا کہ وہ بیل بجاتی اور گھر والوں کو اپنی آمد کی اطلاع دیتی’ کوئی بھی لڑکی اس کی جگہ ہوتی تو اتنی ہی بے حوصلہ ہوتی۔ وہ برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ گئی۔ آنسو اس کے گالوں کو بھگوتے ہوئے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے۔ اور وہ جیسے ان سے بالکل بے خبر تھی۔ پھر عذرا بھابھی نے اچانک اسے اندر والی کھڑکی سے دیکھ لیا تھا۔ غم و غصہ میں ڈوبی ہوئی وہ کچن میں گئی تھیں۔
”کیا ہوا؟” میمونہ بھابھی نے انہیں اس سراسیمگی کے عالم میں آتے دیکھ کر پوچھا تھا۔
”مومل واپس آ گئی ہے۔”
”کیا؟” میمونہ بھابھی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”کہاں ہے وہ؟”
”وہاں برآمدے میں بیٹھی ہے۔ میں نے اسے کھڑکی سے دیکھا تھا۔ تم یہ بتاؤ’ فاروق کیا کر رہا ہے؟”
”وہ تو سو رہے ہیں۔”
”بس ٹھیک ہے ۔ تم میرے ساتھ آؤ۔” عذرا بھابھی میمونہ کو ساتھ لے کر باہر آ گئیں۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا اور بے ساختہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے۔
”کیا لینے آئی ہو یہاں؟” عذرا بھابھی کا سوال اس کی سماعت سے بم کی طرح ٹکرایا تھا۔
”بھابھی!” وہ صرف یہی کہہ سکی۔
”یہاں سے چلی جاؤ جہاں تین دن گزارے ہیں وہاں باقی زندگی بھی گزار سکتی ہو۔” عذرا بھابھی نے دبی آواز لیکن تلخ لہجے میں اس سے کہا۔
”بھابھی! میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ مجھے تو اغوا کر لیا گیا تھا۔ آپ…”
عذرا بھابھی نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی۔ ”یہ ڈرامہ کسی اور کے سامنے کرنا۔ ہمارے لیے تم اور تمہارے لیے ہم مر گئے ہیں۔ تم اپنے بھائیوں کو اچھی طرح جانتی ہو اگر انہیں تمہارے آنے کا پتا چل گیا تووہ تمہیں جان سے مار دیں گے۔ اس لیے بہتر ہے تم اپنی جان بچاؤ اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ ” عذرا بھابھی نے بہت زہریلے لہجے میں کہا تھا۔
”بھابھی پلیز’ مجھ پر رحم کریں۔ میری کوئی غلطی نہیں۔ میں کہاں جاؤں گی؟” وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ عذرا بھابھی پر اس کے آنسوؤں کا الٹا اثر ہوا۔
”یہ اس وقت سوچنا تھا جب گھر سے بھاگی تھی۔ تمہیں اپنے بھائیوں کو تماشا بناتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ تم نے یہ نہیں سوچا کہ لوگ ان سے کیسے کیسے سوال کریں گے۔ تم نے ہم پر رحم نہیں کیا ہم تم پر رحم کیوں کریں۔ ہم نے بھی اپنی بیٹیاں بیاہنی ہیں اور تمہیں گھر میں رکھ کر ہم ان کی زندگی برباد کرنا نہیں چاہتے۔ ہمیں معاف کرو اور یہاں سے چلی جاؤ۔ ہم پر رحم کرو۔ تمہارے بھائی تمہیں قتل کر دیں گے اور خود پھانسی چڑھ جائیں گے۔ تم کیوں ہمارا گھر برباد کرنا چاہتی ہو؟ یہاں سے جاؤ۔”
بھابھی بات کرتے کرتے اسے بازو سے پکڑے ہوئے گیٹ تک لے آئیں اور پھر گیٹ کھول کر ایک جھٹکے سے اسے باہر دھکیل دیا۔ گیٹ بند کرتے وقت انہوں نے کہا۔
”دوبارہ یہاں مت آنا۔” وہ سکتے کے عالم میں بند گیٹ کو دیکھتی رہی۔ یہ سب کچھ اس کے لیے ناقابل یقین تھا۔ وہ جانتی تھی۔ اسے گھر والوں کی نفرت اور غصے کا سامنا کرنا پڑے گا مگر اسے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اسے گھر سے نکال دیں گے ۔ شاید اس لیے کیونکہ وہ اپنے آپ کو بے قصور سمجھ رہی تھی۔ لیکن اسے بے قصور نہیں سمجھا گیا۔ وہ نہیں جانتی تھی’ وہ اب کہاں جائے گی پھر اس نے باری باری اپنے سارے رشتہ داروں اور دوستوں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کیے اور جیسے کوئی پینڈورا باکس کھل گیا تھا۔





ایک ہی دن میں اس نے بہت کچھ سیکھ لیا جو چیزیں گزرے ہوئے بیس سال اسے نہیں سکھا سکے تھے۔ وہ اس ایک دن نے اسے سکھا دی تھیں۔ وہ رشتہ داروں کے رویے سے دلبرداشتہ نہیں ہوئی اگر سگی بھابھیاں اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکی تھیں تو کوئی چچا یا پھوپھی کیسے رکھ لیتے لیکن دوستوں کے روئیے نے اسے حقیقتاً رلایا تھا۔ شاید اس کے بھائی اس کی تلاش میں اس کی سب دوستوں کے گھر جا چکے تھے۔ اس لیے وہ جہاں گئی وہاں پہلے سے ہی اس کے بارے میں بہت سی داستانیں موجود تھیں۔ باری باری وہ اپنی چاروں دوستوں کے گھر گئی۔ فاریہ کی امی نے دروازے پر ہی اس سے کہہ دیا کہ فاریہ گھر پر نہیں ہے اور پھر دروازہ بند کر لیا۔
سائرہ کی امی نے بڑی درشتی سے اس سے پوچھا۔
”سائرہ سے کیا کام ہے؟” وہ کہنے کی ہمت نہیں کر پائی اور وہاں سے پلٹ آئی۔ باقی دونوں دوستوں کے گھر بھی اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا تھا۔ وہ دوست جو تین دن پہلے تک اسے کھینچ کھینچ کر اپنے گھر لے جاتی تھیں۔ اب اسے پانی تک پلانے پر تیار نہیں تھیں۔ مومل میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان سے مدد مانگتی’ اس نے ان کی شہہ پر اپنی زندگی برباد کر لی تھی اور وہ اسے پہچاننے کو تیار نہیں تھیں۔ اس کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ ایک سڑک کے کنارے لگے ہوئے سرکاری نلکے سے اس نے پانی پیا اور دوبارہ بے مقصد سڑکوں پر چلنے لگی۔ اس کی دوست اس کا واحد سہارا اور آخری امید تھیں اب اور کوئی نہیں تھا جس کے پاس وہ مدد کے لیے جا سکتی۔ وہ خالی الذہنی کی کیفیت میں سڑک پر چل رہی تھی جب اس نے اچانک کسی کے منہ سے اپنا نام سنا تھا۔
”مومل! مومل۔” اسے اپنا نام بے حد اجنبی لگا تھا۔ پھر اچانک کسی نے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
”کہاں گم ہو تم؟ آواز ہی نہیں سنتیں۔ میں کب سے تمہیں آوازیں دے رہی ہوں۔”
اس بار اس نے آواز اور چہرہ پہچان لیا’ وہ فاطمہ تھی۔ اس کے ساتھ ایک اور لڑکی تھی جو بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ مومل سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ فاطمہ اس کا چہرہ دیکھتے ہی کچھ چونک گئی تھی۔
”کیا ہوا مومل! تم ٹھیک تو ہو ؟” اس نے تشویش سے اس کی سوجی ہوئی آنکھوں اورستے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا تھا۔
”کیا ہوا ہے مومل! تم اس طرح مجھے کیوں دیکھ رہی ہو؟” اس بار فاطمہ نے ہلکے سے اس کا کندھا جھنجھوڑا تھا۔ مومل کے لیے بس اتنا ہی کافی تھا۔
”انہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا۔” وہ یہ کہہ کر بلک بلک کر رونے لگی۔
فاطمہ اور اس کی ساتھی لڑکی اسے روتے دیکھ کر گھبرا گئیں۔ وہ مین روڈ پر کھڑی تھیں اور لوگ آتے جاتے ہوئے انہیں گھور رہے تھے۔
”فاطمہ! میں گاڑی لاتی ہوں۔ ہم مومل کو ہاسٹل لے جاتے ہیں پھر وہیں سب کچھ پوچھنا۔”
ربیعہ یہ کہہ کر تیزی سے کار پارکنگ کی طرف گاڑی نکالنے چلی گئی۔ فاطمہ اسے چپ کروانے میں لگ گئی لیکن وہ چپ ہونے کے بجائے اور زیادہ رونے لگی تھی۔ اس کے اس طرح رونے پر فاطمہ کے ہاتھ پیر پھول رہے تھے۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ چند منٹوں بعد ربیعہ کار لے آئی اور فاطمہ اسے کار میں بٹھا کر ہاسٹل لے آئی تھی۔ ہاسٹل کے کمرے میں پہنچنے کے بعد بھی وہ اسی طرح ہچکیوں اور سسکیوں سے روتی رہی مگر اس بار فاطمہ نے اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی۔ ربیعہ اور فاطمہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔ پھر ربیعہ نے دراز سے ایک ٹیبلٹ نکال کر پانی کے گلاس کے ساتھ فاطمہ کو تھما دی۔
”اسے یہ ٹیبلٹ کھلا دو اگر یہ اسی طرح روتی رہی تو مجھے ڈر ہے کہیں اس کا نروس بریک ڈاؤن نہ ہو جائے۔ تم اسے چپ کرواؤ۔ میں تمہارے لیے چائے اور اسنیکس بھجواتی ہوں۔”
ربیعہ ہلکی آواز میں کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ فاطمہ نے بڑی نرمی سے ایک بازو اس کے کندھے کے گرد حمائل کر لیا اور پیار سے اسے تھپکنے لگی۔
”میری طرف دیکھو مومی! دیکھو چپ ہو جاؤ۔ مجھے بتاؤ۔ تمہیں کیا پریشانی ہے۔ پرسوں تمہاری بھابھی نے ہاسٹل فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ تم یونیورسٹی سے گھر نہیں پہنچیں اور تمہاری یونیورسٹی کی فرینڈز نے بتایا ہے کہ تم اس دن یونیورسٹی گئی ہی نہیں۔ وہ مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ کہیں تم میرے پاس تو نہیں آئیں۔ میں نے انہیں بتا دیا کہ تم یہاں نہیں آئیں اور دو دن میں انہیں فون کر کے پوچھتی رہی کہ تمہارا کچھ پتا چلا کل میں تمہارے گھر بھی گئی مگر تمہارے گھر والوں کو تمہارا کچھ پتا نہیں تھا۔ اور آج تم مجھے سڑک پر مل گئی ہو اور تم کہہ رہی ہو کہ انہوں نے تمہیں گھر سے نکال دیا۔ آخر معاملہ کیا ہے؟ تم اتنے دن کہاں غائب رہی تھیں؟” فاطمہ اس سے پوچھ رہی تھی اور وہ آنسو بہاتی رہی۔
”مومل! اپنی پریشانی مجھے بتاؤ۔ ہو سکتا ہے’ میں تمہاری مدد کر سکوں۔” وہ بڑے نرم لہجے میں اس سے پوچھ رہی تھی۔
”فاطمہ ! اگر میں نے تمہیں سب کچھ بتا دیا تو کیا تم مجھے یہاں سے نکال دو گی؟”
اس نے روتے روتے فاطمہ سے پوچھا تھا۔ فاطمہ نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ ”نہیں مومل! میں بھلا ایسا کیوں کروں گی۔ میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گی’ چاہے تم سے کوئی غلطی کیوں نہ ہوئی ہو۔”
فاطمہ نے جیسے اس کی ڈھارس بندھائی تھی۔ وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ ہونٹ بھینچے ہوئے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
فاطمہ سے اس کی دوستی بڑے عجیب انداز میں ہوئی تھی۔ فاطمہ میڈیکل کی اسٹوڈنٹ تھی۔ پہلی دفعہ ان کی ملاقات مومل کے کالج میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے بلڈ کیمپ لگایا تھا۔ مومل اپنا بلڈ گروپ چیک کروانے گئی تھی مگر وہاں فاطمہ کے اصرار پر اس نے اپنا بلڈ ڈونیٹ کیا۔ دونوں کے درمیان دوستی کا آغاز ہو گیا تھا۔ فاطمہ کی ساری فیملی سعودی عرب میں تھی اور وہ اکیلی پاکستان میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ پھر دونوں اکثر ملنے لگیں۔ مومل ہر ویک اینڈ پر فاطمہ کو اپنے گھر بلا لیتی اور اکثر خود بھی اس کے ہاسٹل جایا کرتی۔ جلد ہی دونوں کی دوستی اتنی مضبوط ہو گئی تھی کہ باہر سے آنے والی چیزوں میں سے آدھی چیزیں فاطمہ اسے تھما دیا کرتی تھی۔ مومل کے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے کے بعد ملاقاتوں میں کچھ کمی آ گئی تھی مگر فاطمہ کے التفات میں نہیں’ وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح اسے فون کیا کرتی تھی لیکن اب وہ پہلے کی طرح ہر ویک اینڈ پر اس کے گھر نہیں آتی تھی کیونکہ وہ میڈیکل کے فائنل ایر میں تھی اور اتنا فالتو ٹائم اس کے پاس نہیں ہوتا تھا۔
مومل کو پہلے فاطمہ کے پاس جانے کا خیال نہیں آیا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ بھی دوسری دوستوں کی طرح اسے دھتکار دے گی۔ مگر اب اسے فاطمہ کے پاس ہی پناہ ملی تھی۔
مومل دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ وہ اس وقت دس سال کی تھی جب اس کے والدین کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا اور اسے دونوں بڑے بھائیوں نے پالا تھا۔ انہوں نے اسے بالکل پھولوں کی طرح رکھا تھا۔ بھابھیوں کو نند سے شوہروں کا یہ التفات کھٹکتا تھا لیکن وہ زہر کے گھونٹ پینے پر مجبور تھیں۔ شوہروں کو خوش کرنے کے لیے وہ ظاہری طور پر اس پر صدقے واری جاتی تھیں۔ کیونکہ اس کے طفیل ان کی بہت سی فرمائشیں ان کے شوہر پوری کر دیتے تھے۔ مومل اگر سمجھ دار ہوتی تو بھابھیوں کے بناوٹی روئیے کو سمجھ جاتی لیکن اس میں اگر یہ خوبی ہوتی تو شاید وہ اس حال تک کبھی نہ پہنچتی۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے اشاروں پر چلا کرتی تھی۔ کسی نے اس کی تھوڑی سی تعریف کی اور کسی کام پر اکسایا اور اس نے بلا سوچے سمجھے وہ کام کر دیا۔ اس بات کا اندازہ لگائے بغیر کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا اور اس پر کیا اثر ہو گا۔ وہ ہمیشہ وہی کرتی تھی جو اس کی دوستیں کہا کرتی تھیں۔
بعض دفعہ اسے اس بات کا فائدہ ہوتا مگر زیادہ تر اسے نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کی دوستوں کو سائنس سبجیکٹس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی’ اس نے شاندار نمبروں کے باوجود سائنس پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس کی دوستوں کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی’ وہ کسی کو بتائے بغیر وہ چیز اپنی فرینڈز کو پہنچا دیتی۔ اس کی دوستوں نے ہمیشہ اس کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی۔ سائرہ کو سکول سے باہر کوئی لڑکا تنگ کرتا تھا۔
”مومل یار! تم تو بہت بہادر ہو۔ یار! کسی طرح میرا پیچھا اس لڑکے سے چھڑاؤ۔”
سائرہ کا اتنا کہنا ہی کافی تھا۔ اگلے دن وہ چھٹی ہوتے ہی سائرہ کے بتانے پر سیدھی اسی لڑکے کے پاس پہنچ گئی اور جاتے ہی اسے دھمکانے لگی۔ وہ لڑکا اس صورت حال پر گھبرا گیا۔ اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور دوبارہ سائرہ کے لیے وہاں کھڑا نہیں ہوا’ اس کی دوستوں نے اسے خوب شاباشی دی۔ لیکن سکول میں اس کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ شاید ان داستانوں میں کچھ اور اضافہ ہو جاتا لیکن خوش قسمتی سے وہ سکول میں اس کا آخری سال تھا۔
کالج پہنچنے پر بھی اس نے اپنے طور طریقے نہیں چھوڑے۔ دوستوں کے لیے اس کے کارناموں میں وہاں بھی کمی نہیں آئی۔ ہر مشکل مرحلے پر وہ اسے ہی سامنے کرتیں اور وہ بلاخوف و خطر ڈٹ جاتی۔ بعد میں اس کی دوستیں اس کی بے تحاشا تعریفیں کرتیں۔
”بھئی ‘ مجھے تو مومل پر رشک آتا ہے۔ کتنی بولڈ ہے وہ’ ہم تو لڑکوں کو دیکھتے ہی چھپنے لگتی ہیں۔ یہ اسی کی ہمت ہے کہ انہیں منہ توڑ جواب دیتی ہے۔ لڑکیوں کو اسی جیسا ہونا چاہیے۔”
تعریفوں کے یہ پل مومل کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیتے۔ یونیورسٹی میں جانے کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پہلی دفعہ وہ اور اس کی فرینڈز کو ایجوکیشن میں آئی تھیں۔ اس لیے کافی نروس تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی دوستوں نے پھر پرانے حربے استعمال کرنے شروع کر دئیے۔ جو لڑکا ان پر ریمارکس پاس کرتا وہ جواب دینے کے لیے مومل کو آگے کر دیتیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پہلے سال ہی یونیورسٹی میں خاصی مشہور ہو گئی۔ لیکن یہ شہرت نیک نامی کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔ لڑکے پہلے کی نسبت اب اس پر زیادہ ریمارکس دیتے تھے۔
پھر انہیں دنوں ڈیپارٹمنٹ میں ایک لڑکے کے چرچے ہونے لگے اور یہ چرچے صرف لڑکیوں میں ہی نہیں لڑکوں میں بھی تھے۔ اسفند حسن کے لیے یونیورسٹی نئی نہیں تھی۔ چند ماہ پہلے اس نے اسی یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز میں ٹاپ کیا تھا اور اب وہ سی ایس ایس کی تیاری کے لیے دوبارہ کلاسز اٹینڈ کرنے کے لیے یونیورسٹی آنے لگا تھا۔ اور اس کی آمد نے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی لڑکیوں کے درمیان بناؤ سنگھار کا ایک مقابلہ شروع کر دیا تھا۔ اور اس میں ان کا کوئی اتنا زیادہ قصور بھی نہیں تھا جس شخص کا نام اسفند حسن تھا۔ وہ واقعی دیکھنے کی چیز تھا۔ اس کی صرف پرسنالٹی ہی زبردست نہیں تھی بلکہ اس کا ذہن بھی کچھ غیر معمولی ہی تھا۔ سارے پلس پوائنٹ ہونے کے باوجود حیرت کی بات یہ تھی کہ یونیورسٹی میں اس کا کوئی سکینڈل کبھی مشہور نہیں ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ یونیورسٹی میں اس کی پرسنالٹی اور ذہانت کی وجہ سے اس کا شہرہ تھا۔ وہ مکمل تیاری کے ساتھ لیکچرز اٹینڈ کیا کرتا تھا اور کلاس میں اس کی موجودگی پروفیسرز کو خاصا چوکنا رکھتی تھی کیونکہ اس کی نالج کسی بھی چیز کے بارے میں بہت اپ ٹوڈیٹ تھی اور وہ کسی بھی لمحہ کوئی بھی سوال کر سکتا تھا اور اس کے سوالات عام نہیں ہوتے تھے۔ وہ اکثر پروفیسرز کو مشکل میں ڈالتا رہا تھا۔ سی ایس ایس کی تیاری کے سلسلے میں وہ انگلش ڈیپارٹمنٹ میں بھی ایک کلاس اٹینڈ کرنے آیا کرتا تھا اور اس کی آمد نے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں اچھی خاصی ہلچل مچا دی تھی۔
جن دنوں اس نے آنا شروع کیا تھا۔ ان دنوں مومل بیمار تھی اور اس نے ایک ہفتہ کی چھٹی لی ہوئی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد جب وہ یونیورسٹی آئی تھی تو وہ اپنی دوستوں کی گفتگو سن کر حیران رہ گئی تھی۔ ان کی زبان پر بس ایک ہی بات تھی۔
”ہائے آج اسفند بلیک ڈینم میں کیسا لگ رہا تھا؟”
”اسفند پرگلاسز کتنے اچھے لگ رہے تھے۔”
مومل کو اس کے بارے میں سن سن کر اسے دیکھنے کا اشتیاق ہو گیا تھا۔ پھر جب وہ ان کے ڈیپارٹمنٹ میں آیا تو اس کی دوستوں نے بطور خاص اسے اسفند کا دیدار کروایا تھا۔ چند لمحوں کے لیے تو وہ بھی بہت متاثر ہوئی تھی۔ وہ واقعی مردانہ حسن کا نمونہ تھا۔ چند دن وہ بھی اپنی دوستوں کے ساتھ اس کے حسن اور پرسنالٹی کے قصیدے پڑھتی رہی اور اپنی دوستوں کی طرح ڈیپارٹمنٹ میں اس کی آمد کا انتظار کرتی رہتی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ اس روٹین سے تنگ آ گئی۔ وہ یکسانیت پسند نہیں تھی لیکن اپنی دوستوں کی خاطر وہ اب بھی اس کے انتظار میں کھڑی ہوتی تھی کہ وہ ڈیپارٹمنٹ میں کب آتا اور کب جاتا ہے۔ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ اس کلاس کے باہر کھڑی ہوتی کیونکہ اس کی دوست اکیلے وہاں نہیں کھڑی ہو سکتی تھیں اس لیے مومل جیسے ”جواں مرد” کی موجودگی ضروری تھی۔ اسے مجبوراً ان کے ساتھ جانا پڑتا حالانکہ اس کے انتظار میں بے وقوفوں کی طرح آدھ گھنٹہ گزارنا اسے کافی مشکل لگنے لگا تھا۔ لیکن دوستی تو دوستی ہے۔ میں انہیں اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتی۔ وہ ہر بار یہی سوچتی۔ لیکن وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ان کا گروپ آہستہ آہستہ لوگوں کی نظروں میں آ رہا ہے۔ پورے ڈیپارٹمنٹ میں ان کے بارے میں سرگوشیاں ہونے لگی تھیں۔ لیکن اس نے اس جانب زیادہ توجہ نہیں دی۔




Loading

Read Previous

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

Read Next

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!