باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

ریحان اور کنول آفس پہنچے تو وہاں آڈیشن دینے والوں کاایک ہجوم اکٹھاتھا۔وہ آڈیشن دینے کے لیے آنے والی دیگر لڑکیوں کو دیکھنے لگی۔سب لڑکیاں بہت تیار ہو کر آئی ہوئی تھیں،اس کی اپنی تیاری بھی کچھ کم نہ تھی۔اپنی باری آنے پر وہ ریسپشن پر گئی جہاں اسے 117نمبر الاٹ کیا گیا۔پروگرام ڈائریکٹر سب کو ہدایات دے رہا تھا کہ تمام امیدوار آرام سے اپنی باری کا انتظار کریں اور اپنی باری پر اندر جائیں، لیکن اندر جانے سے پہلے ہمارے کیمرا مین کو اپنے بارے میں تھوڑی انفارمیشن ریکارڈ کروا دیں۔
کنول نے یہ سنا تو خوش ہو گئی۔وہ اٹھی اور کیمرا مین کے پاس چلی گئی۔کیمرا مین نے اس کے سامنے آکر اس کی ویڈیو بنانی شروع کر دی۔وہ بہت اِٹھلا اِٹھلا کر بول رہی تھی۔
”Hi,this is Kanwal Baloch, I am a professional model.، میں ماڈلنگ اور سنگنگ بھی کرتی ہوں برانڈ شوٹس بھی کیے ہیں۔ لتا جی اورشریا گھوشال میری فیورٹ سنگرز ہیں۔ میڈم اور نیرہ نور جی کی غزلیں اور بہت شوق سے سنتی ہوں۔ Singing is my passionاور مجھے لگتا ہے میں پاکستان کی بہترین سنگر بن سکتی ہوں۔”
لڑکیاں آڈیشن دے کر باہر آرہی تھیں،کچھ توواپسی پربہت ایکسائیٹڈ تھیں اور کچھ جن کا آڈیشن اچھا نہیں ہوا تھا ان کے چہرے اترے ہوئے تھے۔
”اف میں بتا نہیں سکتی ججز کے سامنے میرا کیا حال ہوا۔بالکل نروس ہو گئی تھی،میری آواز ہی نہیں نکل رہی تھی،لیکن ججز بہت اچھے ہیں بہت حوصلہ دیا انہوں نے مجھے۔”پہلی لڑکی نے اشتیاق سے اندر کی روداد سنائی۔
”اوپر سے فون کروایا تھا کیا؟”دوسری لڑکی نے اس سے پوچھا۔
”ہاں وہ کروانا پڑتا ہے اس کے بغیر کون کام دیتا ہے۔ اس کے بغیر کسی مقابلے میں کوئی کامیابی ممکن نہیں۔ چلو سیکنڈ راؤنڈ میں اور زیادہ محنت کروں گی۔” پہلی لڑکی نے غرور سے جواب دیا۔
”تم لکی ہوکہ سیکنڈ راؤنڈکا چانس مل گیا،ورنہ اچھی اچھی آوازوں کو انہوں نے نو کر دیا ہے۔”دوسری لڑکی نے رشک سے کہا۔
ان کی گفت گو سن کر پاس بیٹھے کنول اور ریحان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ریحان نے ذومعنی انداز میں کنول کومسکرا کر دیکھا۔ اسی وقت ججز کے کمرے سے ایک لڑکی روتی ہوئی نکلی۔
” بہت زیادتی ہوئی ہے میرے ساتھ، اتنا اچھا گایا تھا میں نے ریجیکٹ کر دیا مجھے۔”لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
”یہ جھوٹ بول رہی ہے،میں جانتی ہوں ججز ایسے نہیں ہیں۔اس کی اپنی آواز اچھی نہیں ہوگی۔” کنول نے ججز کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔
” ہاں یہ تو تم اندر جاؤ تو پتا چلے گا تمہاری باری بھی آنے والی ہے۔ تیار رہو دو لڑکیوں کے بعد تمہارا نمبر ہے۔ نروس تو نہیں؟”ریحان نے اس سے پوچھا۔
” ہاں نروس ہو رہی ہوں، اتنے بڑے بڑے سنگرزبیٹھے ہوں گے تو کیسے گاؤں گی؟”کنول نے ہاتھ مسلتے ہوئے جواب دیا۔وہ بہت نروس تھی۔
٭…٭…٭
کنول اپنی باری کی منتظر تھی کہ آخر کار اس کا نمبر پکارا گیا۔اس نے ریحان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا۔
”ریحان میںجاؤں؟”
” ہاں لیکن دیکھو گھبرانا نہیں۔یہ تمہارے لیے اچھا موقع ہے،جہاں تم نروس ہوئیں بس کام ختم۔” ریحان نے اسے سمجھایا۔
” تم میرا حوصلہ ہو۔میں ججز کو ضرور امپریس کر لوں گی، دعا کرنا۔جب میں کام یاب ہو جاؤں گی تو تمہارا نام لوں گی کہ یہ ایوارڈ مجھے خاص طور پر ریحان کی وجہ سے ملا ہے۔” کنول نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں ضرور، مگر ابھی تو اندر جاؤ۔” ریحان نے مسکرا کر کہا۔
٭…٭…٭





تینوں ججزآپس میں باتیں کر رہے تھے اور آنے والوں کا مذاق بھی اڑا رہے تھے۔
” اف خدایا کتنی بھونڈی آواز تھی کہ کانوں کے پردے پھٹ گئے۔ ”پہلی خاتون جج نے جو خود ایک سنگر تھیں،کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
” یار اب تک کوئی اچھی آواز نہیں ملی۔”دوسری خاتون جج نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”پچھلی والی بھونڈی آواز کو بھی برداشت کرنا پڑا ہے کیوں کہ برانڈ کی سفارش تھی۔” مرد جج مایوس آواز میں بولا۔
”ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں۔”پہلی خاتون جج نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”صبح سے اب تک یہ ٹائم ہوگیا ہے،کوئی ڈھنگ کی آواز نہیں ملی۔”مر د جج نے کہا۔
”جن تین کو سیلیکٹ کیاہے ان میں سے بھی دو برانڈ کی سفارشی ہیں۔” پہلی خاتون جج نے مایوس ہوتے ہوئے کہا۔
” یار یہ پروگرام پرچیوں پر کیسے چلے گا۔کیاایسی ہی بھونڈی آوازوں سے کام چلانا پڑے گا۔”مر د جج زچ ہو گیا تھا۔
”مجھے بھی یہی پریشانی ہے۔ سریلا تو کوئی آہی نہیں رہا، راگ اور آواز کے بارے میں اب تک کسی کو نہیں معلوم۔ خیر دیکھتے ہیں۔”پہلی خاتون جج نے کہا اور پھر ڈائریکٹر سے اگلے امیدوار کو بھیجنے کا حکم دیا۔
”وہ کسی برانڈ کا سفارشی contestantتو نہیں؟”پہلی خاتون جج نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
” نہیں نہیں۔”دوسری خاتون جج نے کہا۔
”ٹھیک ہے،اللہ کرے آوازاچھی ہو۔” پہلی خاتون جج ٹھنڈی سانس بھر کر بولی۔
٭…٭…٭
تینوں ججزدروازے کی طرف ہی دیکھ رہے تھے۔کنول اندر داخل ہوئی تو بہت نروس تھی۔ ایک خاتون جج نے اس کانام پوچھا اور پھر خود ہی مذاق اڑانے والے انداز میں بولی۔
”کیا نام ہے آپ کا پنکی، ببلی یا…؟”
کنول نے انگلش بولنے کی کوشش کی۔
“No,my name is Kanwal Baloch,I am doing modeling and acting.”
ایک خاتون جج اس کی یہ بات سن کر طنزیہ لہجے میں ہنسی اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولی۔
”آپ تو پہلے سے ہی بہت مصروف ہیں۔ہم آپ کو اور کیا چانس دیں۔ ”
“I am available all the time, I am not masroof.”کنول نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔
”آپ تو میک اپ بھی بہت اچھا کرتی ہیں۔”ایک خاتون جج جو بیوٹیشن بھی تھیں نے کنول کے میک اپ پر طنز کرتے ہوئے کہا۔
”یہ سب میں نے خود کیا ہے۔ ”کنول نے مسکرا کر بتایا۔
”بس تھوڑی سی نروس ہو رہی ہیں۔آپ کیا سنائیں گی ہمیں؟”مرد جج پہلی بار بولا۔
” یاد سجن دی آئی… سنا دوں؟”کنول اس وقت شدید نروس تھی۔
”جی جو اچھی طرح آتا ہے سنائیں۔”ایک خاتون جج نے کہا۔
کنول نے گانا شروع کیا تو وہ بہت نروس سی تھی،اسی لیے اُس کی آواز پھٹ گئی۔وہ اسی پھٹی آواز میں گانے کی کوشش کرتی رہی۔
” بس بس اب رُک جائیں بی بی گانا ہو گیا۔” خاتون جج نے منہ بنا کر اسے روکا ۔
”پلیز آپ مجھے ریجیکٹ مت کیجئے گا۔”کنول نے گھبرا کر ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا اور پھر بولی۔
“I can sing very well, please give me one more chance.”





”رُک جائیں پلیز ،اب ایک چانس کافی ہے اور نہیں سننا،آپ باہر جائیں۔ ”خاتون جج نے اسے دھتکارتے ہوئے کہا۔
کنول روتے ہوئے آڈیشن روم سے باہر آگئی۔سامنے پروگرام کا ہوسٹ کھڑا تھا۔ہوسٹ نے اسے روتے دیکھا تو اس نے کیمرا مین کو شوٹ کرنے کا اشارہ کیا۔کنول ہوسٹ کے سامنے غم غلط کرنے لگی۔
”مجھے اتنا دکھ ہے،میں نے اپنے گھر میں سب کو بتا دیا کہ میں سلیکٹ ہو جاؤں گی۔”
” لیکن آپ روئیں تو مت پلیز۔”ہوسٹ اس صورت حال سے گھبرا گیا تھا۔
”کیسے نہ روؤں؟”کنول اور زور سے رونے لگی۔
روتے روتے اس نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ بس ایک اور چانس دے دیں،میں دوسرا چانس لیے بغیر نہیں جاؤں گی۔یہ شور سن کر ایک خاتون جج باہر آگئی اور کنول کو ڈانٹتے ہوئے بولی۔
”ہاں لڑکی بتاؤ کیوں شور مچا رہی ہو اتنا؟”
”پلیز! میں نے سب جگہ بتا دیا ہے کہ اس شو میں آرہی ہوں۔ میرا مذاق بنے گا پلیز ایک چانس اوردے دیں۔”کنول التجائیہ انداز میں بولی۔
” لیکن اس طرح تو ہمیں سب کو چانس دینا پڑے گا۔”خاتون جج نے بے رخی سے کہا۔
” جن کی سفارش ہے آپ انہیں تو چانس دے رہی ہیں،جانتی ہوں میں۔”کنول نے غصے سے کہا۔
”اچھا تو تم ہم پر الزام لگا رہی ہو؟”خاتون جج نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
”میں الزام نہیں لگا رہی سب جانتی ہوں۔”کنول نے دبنگ لہجے میں کہا۔
” پہلے جا کر گانا سیکھو،اتنی بُری آواز ہے تمہاری۔پورے پاکستان نے ہمیں گالیاں دینی ہیں۔” خاتون جج نے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”مجھ سے بھی بُری بُری آوازوں کو آپ نے چانس دیا ہے،مجھے بھی دینا پڑے گا۔”کنول نے قطعیت سے کہا۔
”اچھا کوئی زبردستی ہے کیا؟” خاتون جج نے بھڑکتے ہوئے پوچھا۔
”زبردستی نہیں پلیز ایک چانس صرف ایک میں ثابت کر دوں گی کہ میں گانا گا سکتی ہوں۔” کنول نے التجائیہ انداز میں منت کرتے ہوئے کہا۔
”دیکھو ٹائم برباد مت کرو اور جاؤ یہاں سے، کوئی دوسرا چانس نہیں ہے۔بہت لوگ باقی ہیں ابھی۔”خاتون جج نے کہا اور پھر طنز کرتے ہوئے بولی۔”اس طرح چانس دیتے رہے تو ہو گیاہمارا کام۔”
”تم لوگ دو نمبر ہو۔سفارشیوں کو چانس دے رہے ہو میں چھوڑوں گی نہیں۔اخبار میں دوں گی جاکر۔”کنول ہیجانی انداز میں چیخنے اور رونے لگی۔
”جاؤ جاؤ جس کو جاکر بتانا ہے بتاؤ،ہمیں کسی کا ڈر نہیں ہے ۔”خاتون جج نے بے خوفی سے کہا پھرپاس کھڑے گارڈ کو دیکھ کر ڈانٹا۔”تم ادھر کھڑے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ اسے باہر نکالو،اب مجھے نظر نہ آئے یہ یہاں پر۔”
گارڈ نے کنول کاہاتھ پکڑ کر کھینچا تو اس نے گارڈ کو دھکا دیا۔اب وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ریحان نے بڑی ہمت سے یہ سارا تماشا دیکھا،اسے گلے سے لگا کر چپ کروایااور ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
وہ ٹیکسی میں بیٹھی تو اس کے ذہن میں ایک بار پھر ماضی کے واقعات چلنے لگے۔جب وہ چودھری صاحب کے گھر شادی میں گانا گا رہی تھی،جب وہ نہر پر گانا گا رہی تھی،جب وہ عابد سے ٹی وی پر آنے کی ضد کر رہی تھی، جب وہ گوہر کے آفس میں بیٹھی تھی، جب وہ ”گاؤں کی جٹّیاں”میں لڑائی لڑ رہی تھی اور جب وہ ریحان سے اس میوزک شو میں آنے کی ضد کررہی تھی۔ اس کے آنسو مسلسل بہ رہے تھے اور وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ریحان نے اسے رونے دیا،بس ایک ٹشو پکڑایا اور وہ آنسو پونچھنے لگی۔اس کے چہرے پر بہت دکھ تھا۔شاید یہ رائیگاں جانے کے دکھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔چہروں پر ٹھہرسے جاتے ہیں،آپ سب کے لیے ایک کھلی کتاب بن جاتے ہیں۔آنے جانے والے ٹھہر کر سوچتے ہیں نہ جانے کیا دکھ ہے اس کو۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گلّو اور لومڑ

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!