باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

کنول شکل سے اجڑی ہوئی، چہرے پر خراشیں اور چوٹ کے نشان لیے بار بار بے چینی سے ریحان کے فلیٹ پر کھڑی بیل دے رہی تھی۔ ریحان نے دروازہ کھولتے ہی کہا۔
” پھر آگئیں تم۔”جیسے اُسے پورا یقین تھا کہ کنول واپس ضرور آئے گی۔
” ہاں…کوئی اور ٹھکانہ جو نہیں تھا۔” کنول نے تھکے تھکے قدموں سے اندر داخل ہوتے کہا۔
” پتا تھا تم واپس لوٹو گی۔ کمرا تیار کروا دیا تھا تمہارا۔”ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”دنیا میں صرف تم ہو جو مجھے اچھے طریقے سے جانتے ہو۔”کنول کے لہجے میں دکھ ہی دکھ تھا۔
”لیکن یہ تمہیں ہوا کیا ہے چوٹیں کیسے لگیں؟” ریحان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
” کچھ نہیں ہوا،بس…”کنول نے چہرہ چھپاتے ہوئے جواب دیااورپھرصوفے پرڈھیرہوکربولی ۔ ”تھکی ہوئی ہوں،کچھ کھانے کو ہے؟”
” ہاں ہے ،ٹھہرو میں لاتا ہوں اور ساتھ دوابھی دیتا ہوں۔” ریحان نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
٭…٭…٭
”رات کو نیند کی گولی لے لی تھی؟”صُبح ریحان نے اس کے آگے ناشتے کی ٹرے رکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں وہ کھا کر ہی نیند آئی تھی،ورنہ تو بہت مشکل تھا سونا۔”کنول نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
”لیکن تم نے اچھا کیا وہاں سے نکل کر۔میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا وہ جگہ تمہارے مطلب کی نہیں۔”
”پتا نہیں کون سی جگہ میرے مطلب کی ہے۔ہر جگہ چھوڑنی پڑتی ہے۔باپ کا گھر، شوہرکا گھر، یہ گھروہ گھر۔ کسی جگہ میری کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ”کنول نے اداسی سے کہا پھر بولی۔”ریحان مجھے یہ بتاؤ پی آر کیسے بناتے ہیں؟”
”تمہیں بتایا تو تھا۔”ریحان نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں یاد آیاگاڈ فادر۔” کنول ہیجانی انداز میں زور سے ہنسی۔”جونا ہی گاڈ جیسا ہوتا ہے اور نافادر جیسا۔”
” دیکھو کنول تمہیں سچ کو جلد ہی قبول کرنا پڑے گا۔”ریحان نے قطعیت سے کہا۔
” اورسچ کیا ہے؟ ”کنول نے اس کی بات کاٹ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”سچ یہ ہے کہ عورت کے لیے بیچ کی کوئی راہ نہیں یا تو وہ پوری طرح شریف ہو یا پھر بہت بُری۔” ریحان نے حتمی انداز میں کہا اور پھر رُک کر دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔”اور ہاں شریف کے ساتھ لمبی زبان والی عورت کی بھی کوئی عزت نہیں۔ عورت کو اپنی زبان پر بھی قابو رکھنا چاہیے۔ ”
” ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔”کنول تھکے تھکے انداز میں بولی۔”لیکن غلط بات برداشت نہیں ہوتی مجھ سے، میں کیا کروں اب؟”اس کے لہجے میں بہت بے بسی تھی جس کا احساس ریحان کو بھی ہوگیا۔
” تم وہی کرو جو گوہر نے تم سے کہا تھا۔اس کے بغیر یہاں جینا بہت مشکل ہے۔”ریحان نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”لیکن گوہر کی بات مان کر عزت کی روٹی نہیں کھائی جا سکتی۔”کنول نے غصے سے اسے دیکھا۔”میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں،تم جانتے ہو۔”
” پھر کیا سوچا ہے کیسے کماؤ گی ؟اپنے بچے کو کیسے واپس لو گی؟”ریحان نے سوال کیا۔
”میں ایک آخری کوشش ضرور کروں گی۔اپنی آواز کو بھی آزمانا چاہتی ہوں۔”کنول نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
” کیسے؟”ریحان نے ایک اور سوال کیا۔
”ایک نیامیوزک شو شروع ہونے والا ہے۔اس میں اڈیشن دے کر دیکھتی ہوں۔”کنول چائے کا سِپ لیتے ہوئے عام سے انداز سے بولی۔
” تم ابھی بھی کسی مقابلے میں جانے کو تیار ہو؟تم لاعلاج ہو بی بی۔”ریحان نے نفی میں سر ہلایا اور پھرہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگنے لگا۔ ”میں بے کار اپنا وقت تم پر ضائع کر رہا ہوں، بخشو مجھے اور جو مرضی آئے کرو۔” وہ ناراض ہو کر اٹھ کھڑا ہوا۔
٭…٭…٭





کنول اس میوزک شو کے دیے گئے پتے پر آڈیشن دینے گئی جہاں بہت ساری لڑکیاں آڈیشن کے لیے فارم بھر رہی تھیں۔ اس نے ارگرد دیکھااور پھر صوفے پر بیٹھ گئی ۔
ریسپشنسٹ نے اسے آواز دی تو کنول اُٹھ کر ریسپشن پر چلی گئی۔
” جی میڈم؟”کنول نے پوچھا۔
”یہ لیں فل کریں۔ ” ریسپشنسٹ نے ایک فارم اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”مجھے گانا بھی ابھی سنانا پڑے گا؟”کنول نے فارم دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
”نہیں آپ کا آڈیشن ججز لیں گے۔ ”ریسپشنسٹ نے نفی میں سر ہلایا اور بولی۔” ابھی آپ صرف فارم فل کر دیں پھر اگلی ڈیٹ پر آپ کو بلایا جائے گا۔”
” یہ جو تصاویر لگی ہیں یہ سب شو کے ججز ہیں کیا؟”کاؤنٹر پر ججز کی بڑی بڑی تصاویر دیکھ کر کنول نے پوچھا۔
ریسپشنسٹ نے اثبات میں سر ہلایا اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔
” میں تو ان کی بہت بڑی فین ہوں۔”کنول نے ایک فی میل جج کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”اللہ! میں کیسے گاؤں گی ان کے سامنے۔”
” جیسے سب گائیں گے،آپ بھی گا لیجئے گا۔”ریسپشنسٹ نے مسکرا کر جواب دیا پھر اس سے پوچھا۔”پہلے کوئی گانا گایا ہے کبھی؟”
”جی شادی بیاہ میں گاتی تھی زیادہ تر۔” کنول نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔” بہت اچھا گاتی ہوں،میڈم کے تو سارے گانے ہی مجھے یاد ہیں آپ کہیں تو سناؤں؟ ”کنول نے گانے کی تیاری کے لیے اپنا گلا صاف کیا۔
”نہیں نہیں پلیز،اتنا وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔” ریسپشنسٹ نے گھبرا کر کہا کہ کہیں وہ گانا ہی نہ شروع ہو جائے۔”آڈیشن والے دن ہی گائیے گا،یہ فارم وہاں بیٹھ کر فِل کر دیں۔”
وہ صوفے پر بیٹھ کرفارم فِل کر نے لگی اور پھر فل کرنے کے بعد ریسپشن پر دے دیا۔ رخصت ہوتے ہوئے ججز کی بڑی بڑی تصویروں کو بہت عقیدت سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
ریحان کے فلیٹ جانے کے لیے وہ ٹیکسی میں بیٹھی اور اسے ماضی کے وہ تمام لمحات یاد آنے لگے جب وہ شادی بیاہ پر گاتی تھی اور لوگ گانے کے اختتام پر اس کے لیے تالیاں بجاتے تھے۔
”اسی طرح کی تالیاں پھر بجیں گی میرے لیے،مجھے پہلا انعام لینا ہے۔ مجھے ہی جیتنا ہے میں سب کو دکھا دوں گی کہ عزت کے ساتھ اس طرح بھی پیسا کمایا جاتا ہے۔”ایک پر عزم مسکراہٹ کے ساتھ اس نے خود سے کہا۔
ٹیکسی ایک جھٹکے سے رُکی تووہ چونک کر ہوش میں آگئی۔
” بی بی جی آپ نے جو پتا بتایاتھا وہ آگیا ہے ۔”ڈرائیور نے کہا۔
کنول نے ٹیکسی سے اتر کر اسے کرایہ ادا کیا اور فلیٹ کی طرف قدم بڑھا دیے۔
٭…٭…٭
اندر آتے ہی وہ صوفے پر ڈھیر ہو گئی۔ ریحان اس کے شو میں جانے کے فیصلے کی وجہ سے منہ بنائے بیٹھا تھا۔کنول نے اس کی ناراضی کی پروا کیے بغیر کہا۔
”آڈیشن اسی ہفتے میں ہوجانے ہیں۔ ”
” چائے پیو گی؟” ریحان نے اس کی پوری بات سنے بغیر پوچھا۔
” تم اب تک ناراض ہو؟”کنول نے سوال کیا۔
”تو کیا لڈو بانٹوں تمہاری من مانی پر؟”ریحان نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں میری بات سمجھ میں ہی نہیں آرہی۔اتنی آسانی سے ان راستوں پر منزل نہیں ملتی۔بڑے بڑے پہاڑ سر کرنا پڑتے ہیں۔”
” میں بھی ان ہی پہاڑوں سے راستہ کاٹ کر منزل پر پہنچ کر دکھاؤں گی۔”کنول نے قطعیت سے کہا۔
” خوش فہمیاں ہیں تمہاری۔”ریحان نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”پتا ہے ریحان اتنے بڑے بڑے بورڈز لگے تھے میرے آئیڈل ججز کے، مجھے ان سے گانا سیکھنا ہے۔”کنول بہت پرجوش تھی۔
”تم سمجھتی ہو تمہارے یہ سب بڑے بڑے آئیڈیلزتمہیں گانا سکھائیں گے؟” ریحان نے پوچھا۔
” ہاں تو اور کیا میں اگر آڈیشن میں کامیاب ہو گئی تو ان سب سے ہی سیکھنے کا موقع ملے گا۔”کنول نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”اللہ کرے تمہاری خوش فہمی پوری ہو جائے لیکن ان سب میں کوئی آئیڈیل نہیں ہوتا، سب کے اپنے مفاد ہوتے ہیں۔”ریحان نے ذومعنی انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”تم ہمیشہ ایسی باتیں کیوں کرتے ہو؟”کنول اب زچ ہو گئی تھی۔
” میں تمہارا سچا دوست ہوں،جن باتوں سے تم بعد میں ہرٹ ہوتی ہو میں وہ تمہیں پہلے سے بتا دیتا ہوں۔”ریحان نے رسان سے کہا۔
”دیکھنا میں اس بار ہرٹ نہیں ہوں گی، تم دیکھنا میں اپنے گانے سے ان ججز کو ضرور متاثر کروں گی۔” کنول کے لہجے میں یقین ہی یقین تھا۔
”اللہ کرے ایسا ہو،تمہارا یقین اس بار نہ ٹوٹے۔”ریحان نے دعا دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں بس تم میرے لیے دعا کرو،بالکل ایک اچھے دوست کی طرح۔”کنول اس کی دعا سن کر مسکرا دی۔
٭…٭…٭





صُبح اُٹھ کر وہ سیدھی واش روم میں آئی۔ باتھ روم میں شیشے کے سامنے دانت برش کرتے کرتے اسے خیال آ یا کہ آڈیشن میں ججز اس سے کچھ سوالات بھی کریں گے،اس کی پریکٹس تو کر لوں۔اس نے شیشے کی طرف دیکھتے ہوئے خود سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔
”مائی نیم از کنول بلوچ!مجھے گانے کا بہت شوق ہے اور آپ میم مریم میری فیورٹ ہیں۔ ”پھر اس نے خود ہی اپنی بات کی نفی کی۔” نہیں نہیں کسی ایک کا نام لوں گی تو دوسرا ناراض ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے پھر مجھے سلیکٹ ہی نہ کرے۔ میں کہوں گی کہ آپ سب ہی میرے فیورٹ ہیں۔”اس نے خود ہی اپنی اصلاح کی۔
”مجھے گانے کا بہت شوق ہے بلکہ گانا میرا Passion ہے۔ پھر وہ کہیں گے، اچھا آپ سنائیں کچھ تو میں کہوں گی میڈم جی میری فیورٹ ہیں میں ان کا کوئی گانا آپ کو سناتی ہوں۔”وہ جذباتی سی ہو کرگانے لگی اوراسی جذباتیت میں اس کی آواز پھٹ کر رہ گئی۔
” او خدا کے واسطے خاموش ہو جاؤ۔کل سے میرے کان پک گئے ہیں یہ سن سن کر۔” باہر کھڑے ریحان نے اسے ڈانٹا تو وہ منہ بناتی ہوئی چپ ہو گئی،لیکن کچھ سوچ کر وہیں سے چِلائی:
”دیکھنا جب میں مشہور ہو جاؤں گی تو تمہیں آٹوگراف نہیں دوں گی۔”
٭…٭…٭
وہ ریحان کے کمرے میں آئی تو وہ کسی کو فون کر رہا تھا۔ ریحان نے اسے دیکھ کر فون بند کر دیا۔
”ریحان تم سے ایک کام تھا۔”کنول نے کہا۔
”ہاں کہو۔”ریحان نے موبائل سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
” تمہیں پتا ہے ناکہ کل میرا آڈیشن ہے۔” اس کے پاس بیٹھے ہوئے کنول نے کہا۔
”ہاں، پھر میں کیا کروں؟”ریحان بے پروا انداز میں بولا۔
”دیکھو میرے پاس کل کے آڈیشن کے لیے اچھے کپڑے نہیںہیں۔وہاں بڑے اچھے اچھے گھروں سے لڑکیاں آئیں گی۔پلیز مجھے کوئی اچھے سے کپڑے دلوا دو۔”کنول نے اس کی منت کی۔
ریحان یہ فرمائش سن کر کھڑا ہو گیا اور غصے سے بولا۔”بس میں جتنا کر سکتا تھا میں نے کر دیا، اب اس سے زیادہ کی مجھ سے توقع مت رکھنا۔”
”دیکھو میرے اچھے دوست نہیں ہو، تمہارے سوا کون ہے میرا۔”کنول نے التجائیہ انداز میں کہا۔
” مجھے ایموشنلی بلیک میل مت کرو، میں اب تمہیں کچھ نہیں لے کر دے سکتا۔بہت ہوگیا، اب تم خود دیکھو کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔” ریحان نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”ریحان پلیز۔” کنول نے پھر منت کی توریحان نے دوبارہ فون ملا کر فون کان سے لگایا اور بولا۔
” جاتے ہوئے دروازہ آہستہ سے بند کر کے جانا۔” اس کی یہ بات سن کر کنول کو جیسے آگ لگ گئی۔اس نے گھور کر ریحان کو دیکھا اور دروازہ زور دار آواز میں بند کر کے گئی، ریحان اچھل پڑا۔
٭…٭…٭





وہ آڈیشن کے لیے شاپنگ کرنے لنڈابازار چلی گئی ۔ پہلے وہ مختلف دکانوں سے کپڑے سلیکٹ کر تی رہی اور اس کے بعد اس نے جوتوں کے لیے دکانیں چھانیں اور پھر خوب صورت سا جوتا لے لیا۔ ایک موبائل گلاسز والانظر آیا تو اسے روک کر گلاسز سلیکٹ کیے اور گلاسز والے سے قیمت پوچھی۔
”ویسے تو تین سو کا ہے آپ دو سو میں لے لیں۔”گلاسز والے نے جواب دیا۔
کنول نے گلاسز آنکھوں پر لگا کر چیک کیے اور پھر واپس کرتے ہوئے بولی۔
”تمہارا دماغ خراب ہے؟اتنا سستا ملتا ہے یہ۔ تم ہی رکھ لو یہ۔”
”باجی آپ بتا دیں آپ کیا دیں گی؟”گلاسز والے نے پوچھا۔
” نہیں رہنے دو،تم بہت مہنگا دے رہے ہو۔”کنول نے پرس کھنگالتے ہوئے جواب دیا۔
”چلیں آپ جو چاہیں دے دیں،صبح سے ایک بھی نہیں بکا۔”گلاسز والے نے کہا۔
” میرے پاس تو یہ سو روپے بچے ہیں،دینا ہے تو بولو۔”کنول نے کہا۔
گلاسز والے نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر پیسے لے کر گلاسز اسے دے دیے۔کنول گلاسز لے کر آگے بڑھ گئی۔کپڑوں کی ایک ریڑھی نظر آئی تواس نے ایک بڑی خوب صورت فراک انتہائی سستے داموں خرید لی،ٹراوزر اس کے پاس اسی رنگ کا موجود تھا۔ وہ خوش خوش واپس آئی تو ریحان نے اسے کوئی لفٹ نہ کروائی۔ اس نے بھی کندھے اچکا کر اپنے کمرے میں جانا مناسب سمجھا۔
دوسری صبح وہ تیار ہوکر ٹی وی لاؤنج میں آئی تو ریحان صوفے پر بیٹھاکافی پی رہا تھا۔
”سنو! تمہارے پاس کیمرا ہے؟” کنول نے اس سے پوچھا۔
” نہیں لیکن تمہیں کیوں چاہیے؟” ریحان نے حیرانی سے سوال کیا۔
” میں ججز کے ساتھ سیلفی لینا چاہتی ہوں۔”کنول نے بہت اشتیاق سے جواب دیا۔
” لیکن آج کل کیمروں سے سیلفیاں کون لیتا ہے، اینڈرائیڈفون کافی ہے۔”ریحان نے بے پروائی سے کہا۔
” لیکن میرے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے،پلیز تم کچھ دیر کے لیے اپنا فون مجھے دے دو۔”کنول نے بڑے پیار سے فرمائش کی۔
” قطعاً نہیں ،ایساسوچنا بھی مت۔” ریحان نے جلدی سے موبائل اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
”تو پھر میں سیلفی کیسے لوں گی؟”اس کے لہجے میں جھنجلاہٹ تھی۔ وہ تھوڑی دیر کھڑی سوچتی رہی اور پھر ریحان کے پاس آکر بیٹھ گئی اوربڑی ادا سے اسے مناتے ہوئے بولی۔”ریحان سنونا!”
”ہاں بولو! مگر کوئی فرمائش مت کرنا۔”ریحان نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔
” دیکھو پلیز جہاں اتنا کیا ہے وہاں ایک آخری فیور دے دو،پھر کچھ نہیں کہوں گی۔”کنول نے التجائیہ انداز میں ہاتھ جوڑے۔
”بولو کیا چاہتی ہو؟”ریحان اس کے اس انداز پر پگھل ساگیا۔
”پلیزمیرے ساتھ چلو۔”کنول نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”نہیں،مجھے بہت کام ہیں۔ ایسے فضول کاموں کے لیے میرے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔”ریحان نے بدک کر قطعیت سے جواب دیا۔
”دیکھو پلیز صرف لاسٹ ٹائم،پھر کچھ نہیں کہوں گی، کبھی نہیں۔”کنول اسے منانے لگی۔
ریحان نے اس کی طرف دیکھا اور پھر کچھ سوچ کراس کی معصومیت کے آگے ہار مان لی۔
” اچھا چلتا ہوں مگر وعدہ کرو آئندہ جیسا میں کہوں گا وہی کرو گی۔”
”وعدہ پکا وعدہ۔اس کے بعد ہر بات تمہاری مانوں گی۔”کنول نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
” ٹھیک ہے ،تم بیٹھو میں تیار ہو کر آتا ہوں۔”ریحان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
” مجھے معلوم تھا تم میرا ساتھ دو گے۔”کنول نے خوشی سے کہا اور اس کے گلے لگ گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گلّو اور لومڑ

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!