باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

”کنول ان سے ملو،یہ یہاں کے ایک بڑے جیولر ہیں حنیف رائے۔”سیکرٹری نے کنول کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
” حنیف صاحب بہت نام سُنا ہے میں نے آپ کا۔مجھے بھی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔”کنول نے ہنستے ہوئے نازو انداز سے کہا۔
کنول نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا تو حنیف رائے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر قدرے دبایااور دیر تک تھامے رکھا۔
”ویسے آپ کب سے اس فیلڈ میں ہیں؟”حنیف نے نرمی سے اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے پوچھا۔
”ان کا ابھی اسٹارٹ ہے ،بلکہ میں ان کو ریفر کروں گا آپ کے اگلے پراڈکٹ کے لیے۔” کنول کے بجائے سیکرٹری نے جواب دیا۔
”اوہ ضرور ہمارا دبئی میں ایک فوٹو شوٹ ہونے والا ہے، مس کنول آپ یقیناانٹر سٹڈ ہوں گی اس میں۔”کنول کا ہاتھ ابھی تک حنیف کے ہاتھ میں ہی تھا۔
حنیف کی بات سن کر کنول کے چہرے پر ایک دم خوشی سی چھا گئی۔
”جی کیوں نہیں، ضرور۔”
”میرا میڈیا منیجر آپ سے رابطہ کرلے گا۔”حنیف نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔
”مجھے بہت خوشی ہوگی،انڈسٹری میں بہت نام ہے آپ کا۔”کنول نے اٹھلا کر کہا۔
”جی بس نام میں کیا رکھا ہے، کچھ تھوڑا بہت کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”حنیف نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”سر! نام ہی تو قدر کرواتا ہے،نام نہ ہو تو انسان مٹی کا ڈھیر ہے۔” کنول نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ویسے مجھے خوب صورت خواتین فلسفہ بولتے ہوئے بہت عجیب سی لگتی ہیں۔” حنیف نے بھی مسکرا کر طنزیہ انداز میں کہا۔
”سر یہ فلسفہ نہیں وہ سبق ہے جو زندگی ہمیں سکھاتی ہے۔”کنول نے عام سے انداز میں کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”چلیں کبھی ساتھ بیٹھے تو آپ سے آپ کی زندگی کا فلسفہ ضرور سنیں گے، ناؤ انجوائے یور پارٹی۔”حنیف نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
”ضرور سر جب چاہیں۔”کنول نے پیچھے سے کہا۔
حنیف کے جانے کے بعد سیکرٹری اور کنول فرداً فرداً دوسرے مہمانوں کے پاس جاتے رہے اور اسی طرح کھانے کی ٹیبل تک پہنچ کر کھانا نکالنے لگے۔ساتھ ساتھ وہ دونوں اپس میں ہنسی مذاق بھی کررہے تھے۔وقت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔پارٹی ختم ہوئی توسیکریٹری صاحب اورکنول میزبان سے اجازت لے کر پارکنگ میں آگئے۔
”میرا دل چاہ رہا ہے آج میں آپ کے ساتھ رہوں۔”کنول نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بڑی ادا سے کہا۔
یہ سن کر سیکرٹری کے چہرے پر جیسے خوشی چھلکنے لگی۔” ارے واہ ضرور،چلیں جناب آپ کواپنے گھر لے کرچلتے ہیں۔ آپ نے پہلے کیوں نہیں کہا۔”
”آپ کی مسز کو تو کوئی اعتراض نہ ہوگا؟” کنول نے جھجک کر پوچھا۔
”نہیں وہ یہاں نہیں ہیں۔”سیکرٹری نے فوراً جواب دیا۔
”پھر کہاں ہیںوہ؟”کنول نے ایک اور سوال کیا۔
”پھر بتاؤں گا،ابھی تو گھر چلتے ہیں۔”سیکرٹری نے اسے ٹالنے والے انداز میں کہا اورگاڑی گھر کی طرف موڑ لی۔
تھوڑی دیر بعدگاڑی ایک خوب صورت بنگلے کے دروازے پر رُکی اور ہارن کی آواز سُن کر دروازے پر کھڑے چوکی دار نے دروازہ کھولا۔گاڑی اندر داخل ہوئی۔سیکرٹری فوراً اترا اوردوسری طرف سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔کنول ایک ادا سے باہر نکلی اور سیکرٹری کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گئی۔
٭…٭…٭





وہ دونوں ٹی وی لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئے۔ملازم پانی اور کافی لے آیا تھا۔کنول نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ کا گھر تو بہت خوب صورت ہے۔”
” گھر نہیں مکان،اس وقت میرا مکان خوب صورت ہے۔”سیکرٹری نے بڑے درد سے کہا۔
”گھر اور مکان میں کیا فرق ہے؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”مکان میں مکین کا ہونا بہت ضروری ہے۔اس وقت ایک خوب صورت مکین سے مکان خودبہ خود خوب صورت ہو گیا ہے۔”سیکرٹری نے اپنی طرف سے فلسفہ جھاڑا۔
”اُف کتنی مشکل باتیں کرتے ہیں آپ۔”کنول نے ناسمجھی کے انداز میں کہا۔
”تم کو میری بات سمجھ میں آئی؟”سیکرٹری نے سوال کیا۔
”جی بالکل،آتو گئی۔”کنول نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”تو پھر مشکل کیا ہے؟”سیکرٹری نے کندھے اچکائے۔
”بھئی آپ یوں بھی کہہ سکتے تھے کے آپ کے آنے سے میرا گھر خوب صورت ہوگیا۔” کنول نے اسے سمجھایا اور ہنسنے لگی۔
”تم یہی سننا چاہتی تھیں؟”سیکرٹری نے ذومعنی انداز میں پوچھا۔
”بالکل! آپ تعریف بہت کم کرتے ہیں۔”کنول نے شکوہ کیا۔
” ویسے میں بہت حیران ہوں۔”سیکرٹری نے حیرانی سے کہا۔
”کس بات پر؟”کنول نے پوچھا۔
” پچھلی بار تم میرے گھر سے بہت غصے میں گئی تھیں،اب تمہارا دل کیسے بدل گیا؟” سیکرٹری نے اس پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔
”دلوں کے فیصلے تو یوں چٹکیوں میں تبدیل ہوتے ہیں،اس وقت میرا دل نہیں چاہا میں نہیں آئی،اب آگئی۔آپ کو اچھی نہیں لگی یہ تبدیلی؟”کنول نے چٹکی بجاتے ہوئے سوال کیا۔
”مجھے لگ رہا ہے اب تم میں بہت تبدیلی آگئی ہے اسی لیے حیران ہوں۔”سیکرٹری نے کہا۔
”کیوں کہ میں اب جان گئی ہوں کہ یہاں شریف عورت کی صرف عزت ہوتی ہے، قدر کوئی نہیں کرتا۔ ایک بُری عورت کی عزت ہو نہ ہو قدر سب کرتے ہیں۔” کنول کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا۔
” کافی پیو ٹھنڈی ہورہی ہے۔” سیکرٹری نے بات بدلی۔ کنول نے کافی کا کپ اُٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں میں سوچیں ہی سوچیں تھیں۔
٭…٭…٭
وہ اگلی دوپہر کوفلیٹ پر واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں کافی سارے شاپنگ بیگز تھے۔ دروازہ ریحان نے کھولا اور اسے اندر آنے کا رستہ دیا۔وہ اندر آکر صوفے پر ڈھیر ہونے والے انداز میں بیٹھ گئی۔
”ایک بج گیا ہے،کافی دیر نہیں ہوگئی تمہیں؟” ریحان نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں وہ شاپنگ پر لے گئے تھے،ڈھیرساری شاپنگ کروائی ہے انہوں نے۔یہ دیکھو سب برانڈڈ چیزیں ہیں۔جوتے، پرفیومز، کپڑے، اورریحان یہ تمہارے لیے۔”کنول نے ٹانگیں پسارے ایک موبائل فون اس کی طرف بڑھایا۔
”میرے لیے؟”ریحان نے موبائل پکڑتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں وہ میرے لیے خرید رہے تھے تو میں نے کہا مجھے دو چاہئیں، دوسرا تمہارے لیے۔” کنول نے بے پروائی سے جواب دیا پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔”تمہیں پتا ہے ریحان عزت رہے نا رہے قدر رہنی چاہیے،اب میری عزت ہو نہ ہو،قدر بڑھ گئی ہے۔”
ریحان اس کی بات سن کر خاموش رہا۔کنول زچ ہو گئی۔
”خاموش کیوں ہو؟بولو گے نہیں کچھ؟”
” نہیں۔”ریحان نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پھر طنزیہ انداز میں بولا۔” تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں،مجھے بھی اس فیلڈ میں اپنی عزت کے عوض قدر کا سودا کرنا پڑا تھا۔میں تو مرد ہوں لیکن مجھے بھی عزت گنوا کر قدر ملی۔اس فیلڈ میں بنا مطلب کے کوئی کسی کے کام نہیں آتا، give and take ہوتا ہے۔اسی لیے پہلے دن سے ہی مجھے اپنا اور تمہارا درد مشترکہ لگا اورمیں چاہ کر بھی تم سے خود غرضی نہ کرپایا۔ہمیشہ اپنا دروازہ تمہارا لیے کھلا رکھا۔”ریحان کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا۔
”جانتی ہوں،اسی لیے ہمیشہ تمہاری طرف ہی لوٹ کر آجاتی ہوں۔”کنول نے مسکرا کر کہا۔
”تم یہ دروازہ اپنے لیے ہمیشہ کھلا پاؤ گی۔”ریحان کی بات میں ایک مخلص دوست کا خلوص شامل تھا۔
٭…٭…٭





ریحان اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھافیس بک چلا رہا تھا کہ ایک بیج پر فوزیہ کے گاؤں والے پروگرام کی ایک ویڈیونظر آئی جس میں کنول کو ایک لڑاکا لڑکی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
”کنول!کنول ادھر آؤ یہ دیکھو۔”ریحان نے کنول کو آواز دی۔
”کیا ہوا؟”کنول اندر آئی۔ریحان نے ویڈیو کی طرف اشارہ کیا۔ وہ جیسے جیسے ویڈیو دیکھ رہی تھی ویسے ویسے اس کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔
”یہ دیکھو…اور یہ تبصرے بھی پڑھو لوگوں کے۔”ریحان نے اسے اس ویڈیو پر ہونے والے تبصرے پڑھاتے ہوئے کہا۔
ریحان نے سلمان کا نمبر ملا کر فون کنول کو تھما دیا۔کنول نے غصے اور دبنگ انداز میں بات شروع کی۔
”کنول بات کر رہی ہوں۔”
”ہاں بولو۔”سلمان نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”تم اتنی چالاکی سے کھیلو گے مجھے معلوم نہ تھا۔”کنول نے گرجتے ہوئے کہا۔
”اپنی اوقات میں رہو۔تم نے اس پروگرام کے پیسے لیے ہیں۔تمہارا وقت خریدا ہے ہم نے۔” سلمان نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”لیکن اپنی بے عزتی کروانے کا حق نہیں بیچا تھا میں نے۔”کنول کا غصہ برقرا ر تھا۔
” اس انڈسٹری میں سب لوگ اپنے پروگرامز کی ریٹنگ کے لیے ایسے کام کرتے ہیں،ہم نے بھی وہی کیا۔”سلمان نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”یہ کیسی ریٹنگ ہے جس میں کسی کی عزت نیلام ہورہی ہے،جس میں میں ہی مجرم نظر آرہی ہوں؟”کنول غصے اور دکھ سے بولی۔
”دیکھو زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ہمیں جو مناسب لگا ہم نے کیا۔”سلمان نے بہت رعونت سے جواب دیا۔
”دیکھو سلمان تم نے ہی کہا تھا کہ تم خود چلی جاؤ پروگرام سے، ورنہ میں نے تو مقابلہ کرنا تھا۔” کنول نے نرم لہجے میں کہا۔
”وہ بھی ہماری ٹِرک تھی ریٹنگ کے لیے اور دیکھو کتنی ریٹنگ آئی ہے پروگرام کی۔ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں، تم پر کمنٹ کررہے ہیں۔”سلمان نے کمینگی سے جواب دیا۔
”کمنٹ؟تم انہیں کمنٹ کہتے ہو؟وہ مجھے گالیاں دے رہے ہیں سلمان،برا بھلا کہہ رہے ہیں۔” کنول ہیجانی انداز میں چیخی۔
”وہ تم نے سنا نہیں کہ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔انجوائے کرو بے بی۔”سلمان نے قہقہہ لگایا۔
”میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔”کنول نے غصے سے کہا اور فون بند کر دیا۔
”جاؤ جو چاہے کرو،بہت دیکھی ہیں تمہارے جیسی۔”سلمان نے موبائل کان سے ہٹا کر کہا۔
٭…٭…٭
کال ختم کرنے کے بعدکنول نے ویڈیو دوبارہ دیکھی اور اس پر موجود سارے تبصرے دوبارہ پڑھے۔ اس کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا۔ریحان اس کے پاس ہی بیٹھا تھا۔
”دیکھو غصہ مت کرو، ٹھنڈے دماغ سے سوچو اس کا جواب کیسے دیا جاسکتا ہے؟”ریحان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”میں سوچ رہی ہوں کہ اخبار کے دفتر جاؤں، یا کسی چینل کو اپرووچ کروں۔”کنول نے ریحان کو اپنی حکمت عملی سے آگاہ کیا۔
”تمہارا کیا خیال ہے اتنی آسانی سے وہ تمہاری بات پر کان دھر لیں گے؟یہ تمام راستے out dated ہیں،بے بی اس دور میں پروپیگنڈاکیا جاتا ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔سالوں تک جو خبر اخبار کی زینت نہیں بنتی اس کے ذریعے لمحوں میں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔” ریحان نے اسے ایک نیا رستہ دکھایا۔
”مطلب؟” کنول کو کچھ سمجھ نہ آئی۔
”مطلب یہ کہ فیس بک پر اپنا پیج بناؤ،وہاں اپنی ویڈیوڈالو اور وضاحت کردو۔ ہزاروں لوگوں تک تمہارا موقف پہنچے گا۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو،مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا مگر کیا کروں؟ ”کنول نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
”وقار کے خلاف ایک ویڈیو بناؤ،وقار کو چار گالیاں دو اس میں۔بس پھر دیکھو یہی لوگ تمہارے آگے ہاتھ پیر جوڑ کر نہ آجائیں تو کہنا۔”ریحان کے ذہن میں مکمل منصوبہ تھا۔” ان سب کو تو میں وہ سبق پڑھاؤں گی کہ یاد کریں گے۔”کنول نے کچھ سوچتے ہوئے سرہلایا اورجواب دیا۔
٭…٭…٭
کنول گوہر کے آفس اپنا چیک لینے گئی۔ گوہر نے چیک لکھ کر اس کی طرف بڑھایا۔وہ چیک دیکھ کر پہلے تو خوش ہوئی پھر اُس پر لکھی رقم دیکھ کر ایک دم شاکڈ ہو گئی۔
”او تھینک یو… مگر… ”اس کی نظریں چیک پر تھیں۔
”مگر کیا؟”گوہر نے بے پروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”یہ پیسے بہت کم نہیں ہیں؟”کنول نے چیک واپس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”دیکھو بے بی ہم نے خرچ بھی تو بہت کیا ہے تم پر۔جب ہی آج تم اس قابل ہو کہ کچھ نہ کچھ کام مل رہا ہے۔”گوہر نے رعونت سے کہا۔
”لیکن تم جہاں جہاں بھیج رہے ہو میں جارہی ہوں،کبھی انکار نہیں کیا۔”کنول نے دکھی لہجے میں کہا۔




Loading

Read Previous

گلّو اور لومڑ

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!