باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

”ہاں لیکن دوبارہ ڈیمانڈبھی تو نہیں آتی تمہاری۔”گوہر نے کندھے اچکا کر کہا۔
”ڈیمانڈکا کیا مطلب؟ ”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”تمہیں ابھی بھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے خود کو اپ گریڈکرو گی،ڈیمانڈ بھی بڑھ جائے گی۔”گوہر نے رسان سے کہا۔
”کیا کمی ہے مجھ میں؟”کنول صدمے سے باہر آئی تو اس نے سوال کیا۔
”سٹائلش نہیں ہو ابھی تک تو ڈیمانڈ کیسے بڑھے گی۔ماڈلز کو دیکھو کیا چمک دمک ہوتی ہے۔ ان کا چلنا، کھانا، بولنا،انگلش میں بات کرتی ماڈلز کو فوراً کام مل جاتا ہے تم بھی محنت کرواور اگر اسی حلیے میں رہیں تو میراخیال ہے کہ بہت جلد جو یہ تھوڑا بہت کام مل رہا ہے وہ بھی بند ہو جائے گا۔”گوہر نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
کنول نے کوئی جواب نہیں دیامحض اس کی طرف دیکھتی رہی۔ گوہر لیپ ٹاپ پر مصروف ہو گیا اور یہ ظاہر کرنے لگا کہ وہ بہت مصروف ہے اوراب اس سے مزید بات نہیں کرنا چاہتا۔ جب کنول کچھ نہ بولی تو گوہر نے نظریں اٹھاتے ہوئے سامنے کھڑی کنول سے پوچھا۔
” کیا ہے اب؟”
”کچھ نہیں، تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔مجھے ڈیمانڈ بڑھانے کے لیے ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔” کنول نے نم آنکھوں کے ساتھ جواب دیا اور باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
اپنے کمرے میں آکر اس نے رونا شروع کرد یا۔ ہر چیز بے وقعت ہوگئی تھی۔ روتے روتے وہ اپنے بال نوچنے لگی۔اس کے دماغ میں گوہر کے الفاظ گونج رہے تھے۔”سٹائلشنہیں ہو،ڈیمانڈ کیسے بڑھ گی۔” روتے روتے اسے اچانک محسوس ہوا جیسے دنیا گھوم رہی ہو۔
ریحان اُسے پورے گھرمیںڈھونڈتا ہوا آوازیں دے رہا تھا۔وہ اس کے کمرے میں داخل ہوا لیکن کمرے میں اُسے نہ پاکر بہت پریشان ہوگیااور اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے واش روم میں چلا گیا۔واش روم میں اس کی نظر کنول پر پڑی جو وہاں کھڑی بلیڈ سے اپنی کلائی زخمی کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ ریحان نے پریشان ہوکر اُسے تھام لیا اور واش روم سے باہر لے آیا۔
٭…٭…٭





ریحان نے اسے بستر پر لٹایا اورجلدی سے فرسٹ ایڈ بکس لے کر آیا اور خون روکنے کی کوشش کرنے لگا۔ شکر ہے بلیڈ نے زیادہ گہرائی میں اسے نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ جلدہی خون بند ہوگیا۔ وہ اپنے ہوش میں نہ تھی لیکن جب ہوش میں آئی تو ریحان نے اُسے بہت سنائیں،وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔کنول بستر پر لیٹی بہت اُداس سی تھی اور خاموشی سے چھت کو تک رہی تھی۔
”یہ کیاکررہی تھیں تم؟حرام موت مرنا چاہتی ہو؟”ریحان نے قدرے سختی سے کہا۔
”ریحان کیا فائدہ ایسی زندگی کا؟” کنول نے بے بسی سے تکیے پر سر مارا۔
”اب کیا ہوا؟کیوں کیا یہ سب؟”ریحان نے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”سب کچھ گنوا دیا میں نے اور وہ کمینہ گوہر کہہ رہا ہے میری ڈیمانڈنہیں۔مرد پسند نہیں کرتے مجھے،کیوں؟کیا میں اتنی بری ہوں؟”بات کرتے کرتے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور پھر رونے لگی۔
”نہیں تم بالکل بُری نہیں ہو، بس تمہیں اپنی سوچ میں تھوڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔” ریحان نے اسے پیار سے سمجھایا۔
” کیسی تبدیلی؟”کنول نے فوراً پوچھا۔
”بس وہ میں تمہیں سمجھاؤں گا کہ تم نے کیا کرنا،خودکشی کرنا کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔یہ بالکل غلط راستہ ہے۔”ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر تسلی دی۔
”مجھے تو صرف ایک یہی راستہ نظر آیا۔”کنول نے بے بسی سے کہا۔
”شکر ہے کہ میں آگیا ورنہ تم تو اب تک دوسرے جہان میں ہوتیں،اور پھر میرا کیا ہوتا کبھی سوچا۔تمہارے پیچھے میں کیا کیا بھگتتا رہتا۔پولیس تھانہ کچہری،اف جیل کی دال روٹی۔ ”وہ ہلکے پھلکے انداز میں اس کا دھیان بٹا رہا تھا۔
”ریحان اگر تم نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا۔”کنول نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
”ارے واہ! میں کیوں نہ ہوتا۔سب کی زندگی میں کوئی ایک ضرور ہوتا ہے اس کا اپنا،بے بی میں ہوں نا تمہارا۔”ریحان نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
٭…٭…٭





منا روٹی کھانے کے بعد گھر میں ہی ادھر ادھر گھومنے لگا تو فوزیہ کی ماں نے پوچھا۔
”تم اسکول کیوں نہیں جارہے؟”
”اماں ماسٹر صاحب روز فیس مانگتے ہیں۔ بے عزت کرتے ہیں مجھے سب کے سامنے،آج میں نے اسکول نہیں جانا۔” منے نے جواب دیا۔
”دیکھ اگر سکول نہیں جائے گا تو تیرا نام کٹ جائے گا۔”ماں نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔
”وہ تو ویسے ہی کٹ جانا ہے اماں۔” منے نے کہا۔
” کیوں؟”ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
”اب تو ماسٹرصاحب نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر آج میں فیس نہ لایا تواسکول سے میرا نام کاٹ دیں گے۔”منے نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
”بس ایک دو دن اور رک جا، میں نے چودھرانی سے مانگے ہیں جیسے ہی وہ دیتی ہیں میں تجھے دے دوں گی۔”ماں نے اسے تسلی دی اور پھر بولی۔”تو اسکول جا، میں آج ہی تیری فیس کے لیے کچھ کرتی ہوں۔”
”ٹھیک ہے اماں، تو کہتی ہے تو چلا جاتا ہوں۔ورنہ بے عزتی بہت کرتے ہیں ماسٹر صاحب!” منے نے بے دلی سے بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
وہ اسکول جانے کے لیے بستہ کندھے پر ڈال کر نکلا اور اُدھر اُدھر دیکھتا ہوا بے زاری سے جارہا تھا۔ گلی کے نکڑ پر اس کے چند دوست کھیل رہے تھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ کھیل میں لگ گیا۔اسی وقت رحیم کسی کام سے وہاں سے گزرا اور منے کو بچوں کے ساتھ کھیلتا دیکھ کر رُک گیا۔وہ حیران تھاکہ اس وقت تو اسے اسکول میں ہونا چاہیے۔ ادھر مناکھیلنے کے ساتھ ساتھ سگریٹ کے کش بھی لگا رہا تھا۔رحیم نے اسے کالر سے پکڑا اور ایک تھپڑمارتے ہوئے بولا۔
” اس وقت تو یہاں کیا کررہا ہے ،اسکول نہیں گیا؟اور یہ تو نے سگریٹ پینا کب شروع کیا؟”
مناگھبرا کر کھڑا ہو گیا اور سگریٹ پھینک دی۔
”بس بھائی دیر ہوگئی ابھی جارہا ہوں۔”
”آوارہ گردی کرتا ہے، چل ابھی اُٹھ گھر چل میرے ساتھ۔میں ماں کو بتاؤں تو کیا کررہا ہے یہاں۔” وہ اُسے گھسیٹتا ہوا وہاں سے لے کر جارہا تھا اور منے کے سارے دوست تالیاں بجا کر اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔
٭…٭…٭





رحیم نے منے کو ماں کے سامنے لے جا کر پھینکا تو وہ رونے لگا۔
”لے سنبھال اپنے آوارہ بیٹے کو، دوستوں کے ساتھ گلی میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔”رحیم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
” تُواسکول نہیں گیا؟”ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
” اماں بس جا رہا تھا،راستے میں بھائی نے دیکھ لیا۔”منے نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔
”یہ جھوٹ بول رہا ہے، آوارہ دوستوں کے ساتھ سگریٹ پی رہا تھا۔ایک بیٹی تو تیرے ہاتھوں سے نکل گئی اماں اب اس کو سنبھال لے ورنہ پھر نہ کہنا کہ بتایا نہیں۔ تودیکھنا ایک دن نشئی بنے گا یہ۔” رحیم نے سفاکی سے کہا۔
”اللہ نہ کرے رحیم!بدفال کیوں منہ سے نکال رہا ہے۔ بھائی ہے تیرا، اچھا اچھا بول۔”ماں نے دہل کر دل پر ہاتھ رکھا۔
”اچھا ہو گا تو اچھا بولوں گا۔ میں تیری اس بیٹی کے بارے میں بھی جب بولتا تھا تو تجھے بُرا لگتا تھا۔اب تو سنبھل جا،اسے سنبھال لے ورنہ دیکھنا جس طرح یہ آوارہ ہو رہا ہے سرپکڑ کر روئے گی تو۔”رحیم نے منے کو ایک اور تھپڑ مارا ۔
”او بس کر دے جا تو یہاں سے۔”ماں نے منے کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
راجدہ سو رہی تھی کہ مُنے نے رونا شروع کر دیا۔وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھی اور اُسے پیار کرنے لگی لیکن وہ چُپ نہ ہوا۔اس کا شوہر بھی بچے کو گود میں لے کر پیار کرتا رہا لیکن بچہ کسی طور خاموش نہ ہوا۔
ادھر اپنے فلیٹ میں کنول اچانک نیند سے گھبرا کر اُٹھ بیٹھی ۔اس کے چہرے پر بہت سارا پسینا تھا۔اس نے پہلے تودونوں ہاتھوں سے اپنے بال پکڑ ے اور پھر رونا شروع کردیا۔اسے اپنا بیٹایاد آرہا تھا۔
”اے اللہ! میرے بچے کی حفاظت کرنا،کہیں اس کو کچھ ہو نہ گیا ہو۔ میں کیا کروں؟ عابد تو نے بالکل اچھا نہیں کیا میرا بچہ راجدہ کو دے کر، مجھے راجدہ سے بات کرنی چاہیے۔ ہاں مجھے اس کو فون کرنا چاہیے۔”کنول نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور اپنا موبائل ڈھونڈ کر راجدہ کا نمبر ملانے لگی۔
٭…٭…٭





راجدہ بچے کو چپ کروانے کی کوشش میں ہلکان ہو چکی تھی لیکن وہ چپ نہیں ہورہاتھاکہ فون کی گھنٹی بجی۔اس نے بچہ اپنے میاں کی گود میں دے کر فون اٹھایا۔
” ہیلو کون؟”راجدہ اس وقت فون آنے پر حیران تھی۔
” راجدہ اللہ کے واسطے ایک بار میرے بیٹے کی آواز مجھے سنا دے، وہ ٹھیک تو ہے؟”کنول نے گڑگڑا کر کہا۔
” تو کون بول رہی ہے؟”راجدہ فوزیہ کو پہچان چکی تھی مگر جان بوجھ کر انجان بن گئی۔
”میں اس کی ماں، بدنصیب ماں ہوں۔”کنول نے روتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں تو بدنصیب تو ہے مگر ماں نہیں۔”راجدہ نے طنز کی پھر بولی۔”مائیں ایسی ہوتی ہیں؟گھر چھوڑتے وقت تجھے بچے کا خیال نہ آیا؟اب کیسا بچہ…”
”راجدہ تو بس ایک بار اس کی آواز مجھے سنا دے۔”کنول کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔وہ گھگھیا رہی تھی۔
”دیکھ فوزیہ توآخری بار یہاں فون کررہی ہے۔ اب تیرا اس بچے سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں نے اپنے بھائی سے لکھوا لیا ہے، کاغذ ہے میرے پاس۔”راجدہ نے روکھے انداز میں اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”ماں کا رشتہ خون سے لکھا ہوتا ہے راجدہ! اسے کسی کاغذ کی ضرورت نہیں تو مجھ سے میرا بیٹا نہیں چھین سکتی۔میں لے جاؤں گی ایک دن۔”کنول نے غصے سے کہا۔
”جا جاتجھ جیسی بہت سی دھمکیاں دینے والی دیکھی ہیں۔تیرے بغیر تیرا بیٹا بہت خوش ہے۔ سُن رہی ہے؟ اُسے تیرے بغیر رہنے کی عادت ہوگئی ہے۔ تو سننا چاہتی ہے تو سن وہ کیسے کھلکھلا رہا ہے۔”راجدہ بدتمیزی سے بولی اور فون بچے کے سامنے کر دیا۔بچہ روتے روتے اچانک چُپ ہو گیااور ہنسنا شروع کر دیا۔فون کے دوسری طرف کنول بھی بھی اس کی آواز سن کر ہنسنے لگی۔اس کے بعدراجدہ نے بے رحمی سے فون بند کر دیا۔
ریحان اس کی ہنسی سُن کر کمرے میں داخل ہوا تو وہ اونچی اونچی آواز میں ہنس رہی تھی۔
”تم ٹھیک ہو کنول؟ کیا ہواکیوں ہنس رہی ہو؟”ریحان نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”میرا بچہ ہنس رہا ہے،میرا بچہ ہنس رہا ہے تو میں نہ ہنسوں؟ وہ خوش ہے میرے بغیر بہت خوش۔”کنول ہیجانی انداز میں بول رہی تھی۔اس نے ریحان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔” ریحان تمہیں پتا ہے میری جیسی ماؤں کے بچے اپنی ماں کے بغیر بھی خوش رہ سکتے ہیں۔میں ایک بہت بری ماں ہوں جو اپنے چھوٹے سے بچے کو چھوڑ کر آگئی۔ جب میں نے اس کا خیال نہ کیا تو وہ بھی میرے بغیر رہنا سیکھ لے گا۔”یہ کہہ کر وہ ہنستے ہنستے زور زور سے رونے لگی۔
٭…٭…٭





اگلے دن وہ اپنے فیس بک پیج پر مختلف میسجز پڑھ رہی تھی۔ سلمان نے میسج کیا ہوا تھا کہ اس کے پاس اس کی ویڈیو کلپس موجود ہیں۔فیس بک پیج پر لوگوں نے کنول کو خوب گالیاں دی ہوئی تھیں۔ریحان نے لیپ ٹاپ اس کی طرف بڑھایا تو اس نے سب مواد پڑھ کر حیرانی سے پوچھا۔
” یہ کیا ہے؟”
”اب تم پلیز اسے کوئی جواب دو۔”ریحان نے غصے سے کہا۔
”ہاں ریحان اب میرا جواب دینا بنتا ہے، چھوڑوں گی نہیں اسے۔ بہت برا کیا اس نے میرے ساتھ۔تم دیکھو میں کرتی کیا ہوں۔”کنول نے ایک عزم سے کہا پھر بولی۔” ٹھہرو میں تیار ہوکر آتی ہوں ابھی پھر جواب دوں گی اور ایسا جواب دوں گی کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔”
٭…٭…٭
وہ تیار ہو کر بستر پر بیٹھی اور موبائل سے ویڈیو بنانے لگی۔ طنزیہ انداز اختیار کرنے کے لیے بناوٹی لہجے میں بولنے لگی۔
”سلمان ایک چھوٹا سا میسج ہے تمہارے لیے،میری جان… میری جان کے ٹوٹے۔ کتنا گرو گے دنیا کی نظر میں؟ روز کچھ نہ کچھ ایسا کرتے ہو کہ تم دنیا کی نظر میں آسکو۔کبھی تمہارافیس بک آئی ڈی ہیک ہو جاتا ہے، کبھی میرے خلاف بولتے ہو۔ یہ سب بھی ویسا ہی ایک ڈرامہ ہے جیسا ڈرامہ کبھی تم نے اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے میرے ساتھ کھیلا تھا۔بہت گندی اور چھوٹی حرکت ہے یہ I hate u. تم نے کنول بلوچ سے ٹکر لی ہے اور میں تمہیں مزہ چکھاؤں گی کہ میں ہوں کون؟ تم کیا سمجھتے ہو لوگ پاگل ہیں جو تمہارے ایسے ڈراموں سے واقف نہیں۔ بند کرو لوگوں کو بے وقوف بنانا۔ عورت کو جتنا ذلیل تم اپنے پروگرام میں کرتے ہو کوئی نہیں کرتا۔ عورت کی عزت کرنا سیکھو۔ خیر نہیں کرو گے تو میرا یا مجھ جیسی لڑکیوں کا کچھ نہیں بگڑتا، تم خود ایک دن ذلیل ہوگے۔ جس طرح تم نے مجھے پلاننگ سے باہر کروایا،ایک دن تم بھی باہر ہو گے یاد رکھنا۔یہ ایک عورت کی آواز ہے اور ہر عورت کمزور نہیں ہوتی۔کچھ میری طرح کی باغی بھی ہوتی ہیں جو تم جیسوں کے آگے آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔یاد رکھنا!”
٭…٭…٭
سلمان اپنے آفس میں بیٹھا لیپ ٹاپ پرکنول کی ویڈیو دیکھ رہا تھا۔اس کے پاس ہی ایک پروڈیوسر کھڑا تھا۔ سلمان ویڈیو دیکھتے ہوئے زور سے ہنسا تواس نے حیرانی سے پوچھا۔
”کیوں ہنس رہے ہیں سلمان بھائی؟”
” ہنس اس لیے رہا ہوں کہ مینڈکی کو بھی زکام ہوگیا۔”سلمان نے ہنستے ہنستے جواب دیا۔
” کون مینڈکی؟ یہ لڑکی کون ہے؟”پروڈیوسر نے انگلی سے سکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ریٹنگ ہے میرے بھائی ریٹنگ۔دیکھ کتنے لائیکس اور کتنے کمنٹس ہیں اس کی wall پر۔” سلمان نے جواب دیا۔
”لیکن اس میں تو لوگ آپ کو بھی بُرا بھلا کہہ رہے ہیں ۔”پروڈیوسر نے تبصرے پڑھتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

گلّو اور لومڑ

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!