باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

کنول ٹی وی پر چینل بدل بدل کر دیکھ رہی تھی لیکن چہرے پر سوچوں کے گہرے سائے لہرا رہے تھے۔اس کا حلیہ بہت خراب تھا مگرچہرے پر جیسے ایک عزم سا تھا۔وہ یک دم بولی۔
” ریحان میں نے گوہر سے ملنا ہے صبح۔”
”لیکن تم تو…”ریحان کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”ہاں میں ہی عزت کی بات کرتی تھی نا،اب میں ہی کہتی ہوں عزت گئی بھاڑ میں۔” کنول کے لہجے میں شدید نفرت تھی۔
٭…٭…٭
گوہر اپنے اسٹوڈیو میں ایک لڑکی کے فوٹو شوٹ میں مصروف تھا اور ہر کلک کے بعد فوٹو گرافر کو ہدایات دے رہا تھا۔ماڈل ایک دبلی پتلی سی لڑکی تھی ۔وہ شوٹ کے باعث تھک چکی تھی۔ اس نے گوہر سے کہا۔
” میں تھک گئی ہوں I need a break please.”
”ایک تو تم ماڈلز کے نخرے بہت ہوتے ہیں۔ابھی صرف گھنٹہ ہی ہوا۔تھوڑا ٹائم اور دو پھر بریک کر لینا۔”گوہر نے غصے سے منہ بنا کر کہا تو لڑکی نے بھی منہ بنایا اور دوبارہ فوٹو گرافر کو پوز دینے لگی۔
اتنے میں ریحان اسٹوڈیو میں وارد ہوا۔
”کیامیں اندر آسکتا ہوں سر؟”ریحان نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
گوہر نے اسے دیکھ کر ایک لمحے کو کچھ سوچااورپھر روکھے انداز میں کہا۔”ہاں ریحان بولو کیسے آنا ہوا؟”
” سربس ایک چھوٹا سا کام ہے۔ ” ریحان نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ہاں بولو کیا کہہ رہے تھے۔” گوہر نے کیمرے کے لینز کو سیٹ کرتے ہوئے بے پروائی سے پوچھا۔
”سروہ کنول آپ سے ملنا چاہتی ہے۔” ریحان نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے میں فارغ ہو کر دیکھتا ہوں۔”بات کرتے ہوئے گوہر کی پوری توجہ کیمرے کی جانب تھی۔”ٹائم ہوگا تو مل لوں گا ،تم باہرانتظار کرو۔”
” سر وہ آپ سے معافی مانگنا چاہتی ہیں،ایک بار ضرور مل لیں۔”ریحان نے التجائیہ انداز میں کہا۔
”میں نے کہا نا کہ باہر جاؤ اور انتظار کرو۔اگر جلدی فارغ ہوگیا تو مل لوں گا اور تم کیا منہ دیکھ رہے ہو،چلو آگے شوٹ کرو۔اتنا فارغ وقت نہیں ہے میرا۔”گوہر نے ریحان کا غصہ فوٹوگرافر پر نکالتے ہوئے کہا۔ ریحان اس کے غصے کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا۔
ریحان باہر آ کرکنول کے پاس بیٹھ گیا،اس کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔
”کیا ہوا؟ کیا کہہ رہا ہے گوہر؟”کنول نے سرگوشی کی۔
” شوٹنگ چل رہی ہے اندر۔ کہہ رہا ہے انتظار کرو،فارغ ہوگیا تو مل لوں گا۔”ریحان نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”مجھے لگتا ہے وہ سخت ناراض ہے،نہیں ملے گا۔”کنول نے مایوسی سے کہا۔
”ناراض ہونا بھی چاہیے،تم نے جیسے اس کے ساتھ بہت اچھا کیا تھا نا۔” ریحان کے لہجے میں بھی ناراضی تھی۔
”ہاں تو اب اسی غلطی کی معافی مانگنے آئی ہوں،لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ سخت خفا ہے، کام نہیںدے گا۔”کنول نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”دیکھو زیادہ sensitiveہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر خفا ہے تو منا لینا اُسے،جیسا کہتا ہے خاموشی سے سُن لینا۔”ریحان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”دیکھو! میں نے معافی کبھی کسی سے نہیں مانگی،مجھے نہیں پتا میں کیسے react کروں گی۔” کنول نے پریشانی سے کہا۔
”یہ تمہاری زندگی کا آخری موقع ہے۔ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، تخت یا تختہ۔اس لیے اب یہ تم سوچو کہ یہ بازی کیسے جیتو گی؟”ریحان نے قطعیت سے کہا۔
”میں اپنی اس بازی کو جیتنے کے لیے کچھ بھی کر گزروں گی۔”کنول نے کچھ سوچتے ہوئے عزم سے کہا۔
”بس طے ہوگیا،دماغ سے کیڑا نکال دو اور جیسا کہے مان لینا،اُسے منا لینابس۔”ریحان نے خوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”ہاں اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔”کنول اداسی سے بولی۔
اسی دوران گوہر اسٹوڈیو سے باہر آیا اور اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اپنے آفس کی طرف چلا گیا۔ ریحان بھی اس کے پیچھے پیچھے لپکا اور کنول کو بھی گھسیٹتا ہوااپنے ساتھ لے گیا۔





ریحان اور کنول اندر داخل ہوئے تو گوہر لیپ ٹاپ پر فوٹو شوٹ کی تصاویر دیکھ رہا تھا۔تصویریں دیکھتے ہوئے اس نے سر اُٹھائے بغیر روکھے انداز میں کہا۔
” ہاں بولو،کیا بات ہے؟”
”سر کنول آپ سے کوئی بات کرنا چاہتی ہے۔”ریحان نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا۔
گوہر نے یہ بات سُن کر کنول کی طرف دیکھے بغیر ریحان کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ریحان نے جاتے ہوئے نظروں ہی نظروں میں کنول کو کچھ سمجھایا اور دروازے کی طرف جاتے ہوئے تک کر مڑا اور انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر باہر نکل گیا۔ گوہر نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوے کنول کو مخاطب کیا۔
”بیٹھو، اور بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو؟”
” میں معافی مانگنا چاہتی ہوں۔”کرسی پر بیٹھتے ہوئے وہ شرمندہ سی تھی۔
”اس سے کیا ہوگا؟ میرا وقت اور پیساجو تم نے برباد کیا وہ واپس مل جائے گا؟” گوہر نے روکھے انداز سے سوال کیا۔
”میں واقعی بہت شرمندہ ہوں۔”کنول کی شرمندگی کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔
”کس بات پر؟” گوہر نے کندھے اچکاتے ہوئے سوال کیا۔
”اپنی بدتمیزی پر،مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔” کنول نے نظریں جھکائے ہوئے جواب دیا۔
” دیکھو یاد رکھو!اس انڈسٹری میں شرمندگی بہت فضول کام ہے۔ کام یا تو صحیح ہوتا ہے یا غلط، درمیان کی کوئی راہ نہیں۔یہ بتاؤ اب کیا سوچ کر آئی ہو؟شرافت کا کیڑا دماغ سے نکلا؟” گوہر نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
” شرافت کے ساتھ پیسہ نہیں کمایا جاسکتا،اتنا تو جان گئی ہوں۔”کنول نے اعتماد سے جواب دیا۔
”بہت جلد سمجھ آگیا ،اب کیا کرو گی؟”گوہر کے لہجے میں پھر طنز تھا۔
”اب گاڈ فادر ڈھونڈوں گی کیوں کہ میں اب جان گئی ہوں کہ کسی نئی عورت کے لیے اس انڈسٹری میں گاڈ فادر کا ہونا کتنا ضروری ہے۔”کنول نے اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے جواب دیا۔ گوہراس کی بات سن کرکچھ سوچنے لگا۔
٭…٭…٭
عابد اپنے کمرے میں روبی کی طرف پشت کیے گہری نیند میں سویا ہوا تھاکہ اس کا موبائل بجنے لگا۔ روبی نے اٹھ کر موبائل اٹھایا۔اس پر یکے بعد دیگرے میسج آرہے تھے۔روبی نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میسج پڑھنا شروع کیے۔وہ کسی لڑکی نے عابد کو کیے تھے اور اسے کہا تھا کہ میں کل شام کو آؤں گی، میرا تحفہ تیار رکھنا۔روبی حیرت زدہ رہ گئی اورجلدی جلدی دوسرے میسجز پڑھنے لگی۔عابد کے موبائل میسجز اور ویڈیوز دیکھ کر اس کی آنکھیں غم و غصے سے پھٹ گئیں۔ اس نے تکلیف دہ نظروں سے عابد کو دیکھا۔وہ تھکے تھکے انداز میں بستر پر بیٹھ گئی۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے،اس نے عابد کی پشت کو گھورا اور اور خودکلامی کے سے انداز میں بولی۔” تو نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ عابد۔ بہت بُرا کیا، بہت بُرا۔”
٭…٭…٭





صبح روبی کا موڈآف تھا۔ جیسے ہی عابد اس کے سامنے آیا وہ رات والے میسجز کی بابت اس سے جھگڑنے لگی۔
”تو جو کھیل میرے ساتھ کھیل رہا ہے ،وہ مجھے سب معلوم ہے۔مجھے فوزیہ مت سمجھنا کہ میں چُپ ہوجاؤں گی۔ ”روبی نے درشتی سے کہا۔
”کیا کھیل کھیل رہا ہوں تیرے ساتھ؟” عابد نے بھی غصے سے چیخ کر پوچھا۔
”تیری رانی کا میسج پڑھ لیا تھا میں نے ،اور کیسی بے شرموں والی چیزیں رکھی ہوئی ہیں تو نے اپنے موبائل میں۔”روبی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”مجھ سے پوچھے بغیر تو نے میرے موبائل کو ہاتھ کیوں لگایا؟”عابد نے آگے بڑھ کر غصّے سے اسے چٹیا سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔
”لگاؤں گی،ہزار بار لگاؤں گی۔مجھ سے کوئی دغا کیا تو تجھے معاف نہیں کروں گی،سب کو بتاؤں گی۔”روبی نے ہیجانی انداز میں چیختے ہوئے کہا۔
عابد نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تو وہ دور جا گری۔
”دھمکی دیتی ہے کمینی،جا!جا کر بتا دنیا کو اور اس کے بعد دوبارہ اس گھر میں قدم مت رکھنا۔” عابد شیر کی طرح دھاڑا۔
”عابد تو اتنی جلدی بھول گیا ہماری محبت کو۔”روبی نے حیرانی اور دُکھ سے پتھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
”او کیسی محبت؟مرد کو عورت سے کبھی محبت نہیں ہوتی بلکہ اسے عورت کی صرف ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت پوری کرنے والی عورتیں دس ہزار مل جاتی ہیں۔تو نے اگر میرے ساتھ ر ہنا ہے تو خاموشی سے رہ ورنہ تیرا انجام بھی فوزیہ جیسا ہوگا، اس کی طرح تیری طلاق کے کاغذ بھی بنوا دوں؟ بول؟”عابد نے رعونت بھرے لہجے میں کہا۔
عابد کی بات سن کر روبی کی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔
”عابد یہ تو کہہ رہا ہے؟ ”روبی بہ مشکل بولی۔
”تو یاد رکھ،تیرے ہی جیسی عورتیں ہوتی ہیں جو زیادہ بُڑبُڑ کرتی ہیں تومرد مجبور ہو جاتا ہے۔طلاق کے کاغذت نکالنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔”عابد نے چیخ کر کہا۔
” لیکن تو نے تو مجھ سے محبت کی تھی عابد۔”روبی کی آواز بھرا گئی۔
”محبت تو میں نے فوزیہ سے بھی کی تھی!مرد زندگی میں ہزار محبتیں کرتا ہے۔ مرد ہوں ایک کے بعد دوسری عورت رکھ سکتا ہوں،میرے اللہ نے اجازت دی ہے مجھے۔”عابد نے کمینگی سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
” عابد تو ایسا کہہ بھی کیسے سکتا ہے؟”روبی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہنے لگیں۔
٭…٭…٭
رحیم نے گھر میں اب الگ ہی لڑائی شروع کر لی تھی۔اس کا باپ سے ایک ہی تقاضا تھا کہ گھر میں اسے اس کا حصہ دے دیا جائے۔
” میں اب یہاں نہیں رہ سکتا،ابا مجھے میرا حصّہ چا ہیے مکان سے۔” رحیم نے ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہرایا۔
”تو نے ایسا سوچا بھی کیسے کہ میں تیرا حصہ دے دوں گا۔”باپ نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اب میرے بچے بڑے ہورہے ہیں ابا ۔”رحیم نے روکھے اندازمیں کہا۔
”ہم سب بھی تو گزارا کررہے ہیں۔ تو بھی رہ آرام سے۔”باپ نے غصے سے کہا۔
”مجھے اپنے بچوں کو اچھے ماحول میں پالنا ہے، میں اب یہاں نہیں رہ سکتا۔”رحیم نے کندھے اچکاتے ہوئے بے پروائی سے کہا۔
”کیا ہوا اس گھر کے ماحول کو؟” باپ نے حیرانی سے پوچھا۔
”تو خود سمجھ دار ہے ابا، سب جانتا ہے کہ گھرکا ماحول کیسا ہے ۔ہر وقت کی چخ چخ۔”رحیم نے ماں کو دیکھتے ہوئے نفرت سے جواب دیا۔
”یہ تو نہیں،تیری بیوی کی زبان بول رہی ہے۔”ماں نے اس کی بات سن کر غصے سے کہا۔
”ابا دیکھ یہی باتیں ہیں اماں کی جن سے گھر میں لڑائی بڑھتی ہے۔ ”رحیم نے باپ سے کہا پھر ماں کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔”روز تو اسماسے لڑتی ہے،گھر کا ماحول تو خراب ہوگا۔”
”میں لڑتی ہوں اور وہ جو جواب دیتی ہے، وہ تجھے سنائی نہیں دیتے؟ ”ماں کے لہجے میں شکوہ تھا۔
”جب تو بولتی ہے تب بات بڑھتی ہے ۔”رحیم نے غصے سے کہا اور باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭





”رات کو تیار رہنا،سیکرٹری صاحب کے ساتھ ایک پارٹی میں جانا ہے۔بڑے بڑے لوگ آئیں گے وہاں۔”گوہر فون پر کنول کو ایک پارٹی کے متعلق ہدایات دے رہا تھا۔
”او کے!”کنول نے اطمینان سے جواب دیا۔
”میرا ڈرائیور کپڑے اور دوسرا سامان لے کر پہنچنے والا ہے۔ ریحان سے اچھا سا میک اپ کرواؤ اورپارٹی میں ایٹی کیٹس کا خیال رکھنا۔کسی قسم کی شکایت نہ آئے،اوکے؟”گوہر نے کہا۔
”اور کوئی حکم؟”کنول نے ایک ادا سے پوچھا۔
”بس کوشش کرنا پارٹی میں موجود بڑے بڑے لوگ تم سے متاثر ہوسکیں تاکہ تمہارا کام بھی چل پڑے۔کسی ایک کی بھی منظور نظر بن گئیں تو وارے نیارے ہوجائیں گے۔” گوہر نے اسے سمجھایا۔
” یس باس! حکم کی تعمیل ہوگی۔”کنول کھلکھلا کر ہنسی۔اس کی ہنسی میں ایک اعتماد تھا، ایک نئے راستے اور کامیابی کا اعتماد۔اس کے خیال میں یہ کامیابی تھی حالاں کہ یہ کامیابی نہیں ناکامی کا ایک ایسا الاؤ تھا جس میں گرنے والے ساری عمر اپنی اصل پہچان کے لیے ترس جاتے ہیں۔
٭…٭…٭
کنول سیکرٹری کے بازوؤں میں بازو ڈالے بڑے اعتماد کے ساتھ اندر داخل ہورہی تھی۔ اکثر لوگوں نے اُسے سر اٹھا کر دیکھا۔اس کے انداز میں بہت اعتماد تھاجسے لوگوں نے نوٹ کیا۔وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ سیکرٹری کو ایک شناسا نظر آیا تو اسے دیکھ کر اونچی آواز میں پکارا۔
” ارے حنیف صاحب کیسے ہیں آپ؟”
”میں ٹھیک ہوں، آپ سنائیں،کیا عیاشیاں ہورہی ہیں آج کل؟”حنیف نے کنول پر ایک بھرپور نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ارے ہماری قسمت میں عیاشیاں کیسی؟”سیکرٹری نے قہقہہ لگاتے ہوئے جوب دیا۔
”جیسی حسینائیں آپ اپنے پہلو میں لیے پھر رہے ہیں ایسی قسمت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے جناب۔”حنیف نے کنول کو دیکھتے ہوئے رشک آمیز انداز میں کہا۔
”اچھا! اوہ ان سے ملیے، یہ ہیں مس کنول بلوچ، مستقبل کی ایک بڑی ماڈل۔”سیکرٹری نے اس کا مطلب سمجھتے ہوئے ان کا تعارف کروایا۔
”اوہ گُڈ!آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی مس کنول۔”حنیف نے گرم جوشی سے کہا۔




Loading

Read Previous

گلّو اور لومڑ

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!