باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

” اویار مجھے کیا فرق پڑتا ہے، ہاں میری ریٹنگ بڑھ رہی ہے اور اس وقت مشہور ہونے کے لیے اس سے بڑی کوئی چیز نہیں۔اسے خود خبر نہیں کہ یہ راتوں رات کتنی بڑی سٹار بن گئی ہے۔”سلمان نے کندھے اچکاتے ہوئے بے پروائی سے جواب دیا۔
”لیکن اب اس ویڈیو کا کیا کریں گے؟”پروڈیوسر نے پوچھا۔
” میں بھی ویڈیو بنا کر ہی اس کا جواب دوں گا اور کیا کروں گا، تو دیکھتا جا۔”یہ کہتے ہی وہ کی بورڈ پر کچھ ٹائپ کرنے لگا۔
٭…٭…٭
کنول لیپ ٹاپ پر سلمان کی ویڈیو دیکھ رہی تھی۔ ویڈیومیں سلمان انگلی اُٹھا کر کنول بلوچ کو مخاطب کرتے ہوئے طنزاً کہہ رہا تھا۔
”کنول بلوچ اگر میں جھوٹا ہوں اور اس طریقے سے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتا ہوں، تم بتاؤ تم بھی تو وہی کام کررہی ہو۔ تم سلمان کو چیلنج کررہی ہو۔ تم جیسی بہت سی آئیں اور چلی گئیں مجھے کوئی فرق نہیںپڑا۔یہاںہر لڑکی مادھوری بن کر آتی ہے اورجلد ہی چلی جاتی ہے تم بھی چلی جاؤ گی،یہ میری پیشین گوئی ہے تمہارے لیے یاد رکھنا۔ آسمان پر تھوکنے سے آسمان کو کوئی فرق نہیں پڑتا،اگر تم نے زیادہ باتیں کیں تو میں تمہارا سارا بھانڈا پھوڑ دوں گا کہ تم کیا ہواور کہاں سے آئی ہو۔”
ویڈیو دیکھ کر کنول کو غصہ آگیا اور وہ سلمان کو گالیاں دینے لگی توپاس بیٹھا ریحان زور سے ہنسنے لگا۔کنول نے غصے سے ریحان کو ڈانٹا۔
” وہ میری بے عزتی کررہا ہے اور تم ہنس رہے ہو؟”
”اس میں بے عزتی والی کون سی بات ہے؟” ریحان نے بے پروائی سے کہا۔
”ہزار وں لوگ اس ویڈیو کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں،یہ میری بے عزتی ہی ہے۔”کنول نے غصے میں جواب دیا۔
”اگر اس کو بے عزتی سمجھو گی تو ہوچکیں مشہور۔وہ صحیح کہہ رہا ہے، بہت سی ہیروئنز آئیں اور چلی گئیں کیوں کہ انہیں مشہور ہونے کے ایسے طریقہ نہیں آتے تھے۔”ریحان اسے سمجھانے لگا پھر بولا۔”آج کے دور میں صرف اچھا بن کر لوگوں کے دلوں میں نہیں رہا جاسکتا،اگر زیادہ عرصے تک رہنا ہے تو یہ طریقہ سیکھو،کیا سمجھی؟”
” سمجھ گئی۔”کنول نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
” اگر سمجھ گئیں تو دوبارہ اس کا جواب دو،تمہاری مشہوری میں اس جنگ کا بہت بڑا حصہ ہے،یہ چلتا رہنا چاہیے۔”ریحان نے کہا۔
” اوکے! دوں گی،ضرور دوں گی۔”کنول نے عزم سے کہا۔
ریحان نے لیپ ٹاپ اپنی طرف موڑا اور ان باکس میں آئے میسجز پڑھنے لگا۔”تم ذرا دیکھو کہ لوگ تمہیں ان بکس میں کیا کیا میسج کررہے ہیں۔ سو کے قریب میسج ہیں تمہارے لیے کنول،او مائی گاڈ تم تو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر چلی گئیں۔” اس نے ہیجان خیز لہجے میں کہا۔
کنول نے اس کی بات سن کر لیپ ٹاپ اپنی طرف کیا اورمیسجز پڑھنے لگی۔مختلف لوگوں نے اسے پیار بھرے میسج کیے ہوئے تھے ،بعض نے سستی جذباتیت کا مظاہرہ کیا تھا تو کسی نے ایک شام ساتھ گزارنے کی حسرت کا۔
”میں تو سمجھتی تھی کہ مردوں کے پاس وقت نہیں ہوتا،لیکن مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ مردوں کے پاس اچھی اور اپنی عورت کے لیے وقت ہو نہ ہو،لیکن ایک بری عورت کے لیے بہت وقت ہوتا ہے۔”کنول نے یہ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر کے لیپ ٹاپ بند کر دیا۔
٭…٭…٭





عابد اپنی دکان پر پر کھڑا رانی کے ساتھ بات چیت کے دوران اسے شہر کی سیر کرانے کا کہہ رہا تھا،رانی کوئی جواب دیے بنا کچھ سوچ رہی تھی۔
”رانی تو چل نا میرے ساتھ،پورا شہر گھما کر لاتا ہوں تجھے اور سٹیج ڈرامہ بھی دکھاؤں گا، دیدار کا ڈانس۔”عابد نے رانی کو آنکھ مارتے ہوئے اشتیاق سے کہا۔
”چل تو دوں مگر گھر میں کیا بہانہ کروں؟”رانی نے سوال کردیا۔
”اب یہ تیرا درد سر ہے ،میری طرف سے تو کھلی آفر ہے۔”عابد نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا اس ہفتے ٹھہر جا،اگلے ہفتے بابا دوسرے گاؤں جا رہا ہے،اماں سے اجازت لے کر چلتی ہوں تیرے ساتھ۔”رانی نے کہا۔
” اماں کو کیسے منائے گی؟”عابد نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”وہ مجھ پر چھوڑ دے۔”رانی نے بے فکرے انداز میں جواب دیا پھر بولی۔”دوسرے گاؤں میں میری ایک سہیلی رہتی ہے، اماں سے کہہ دوں گی اس سے ملنے جارہی ہوں۔رضیہ سے ملے ہوئے ویسے بھی بہت دن ہوگئے ہیں،اماں منع نہیں کریں گی۔”
”تو تو بڑی سیانی ہے،پھر تو پکا کر تو میں بھی تیاری کرلوں۔”عابد نے مزے سے کہا۔
”تھوڑا ٹائم دے میں بتاتی ہوں۔”رانی نے ناز سے کہا۔
”یہ رکھ لے ،نئی لپ اسٹک آئی ہے۔ جب چلے گی ساتھ تو یہی لپ اسٹک لگانا۔”عابد نے ایک لپ اسٹک اُٹھا کر اسے دی۔
” کتنا خوب صورت شیڈ ہے۔”رانی نے خوشی سے کہا۔
”تجھ پر زیادہ خوب صورت لگے گا،تو گوری بھی تو کتنی ہے۔”عابد نے اسے مکھن لگاتے ہوئے کہا۔
”اب بنا مت مجھے،تو میرا مذاق اڑا رہا ہے۔”رانی اپنی تعریف سن کر شرما گئی۔
”اوئے! ناراض کیوں ہوتی ہے،اللہ کی قسم سچ کہہ رہا ہوں۔یہ رنگ تو لگتا ہے تیرے لیے ہی بنا ہے۔”عابد نے کہا۔
” لا پھر دے۔”رانی نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”تیاری کر لے، دونوں خوب گھومیں گے۔”عابد نے لپ اسٹک شاپر میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے، اب میں چلتی ہوں ابا آنے والا ہوگا۔”رانی نے جلدی جلدی کہا۔
”یہ پکڑ اور چل۔”عابد نے شاپر اسے پکڑا دیا۔رانی شاپر لے کر مسکرائی ہوئے دروازے سے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
مُنا اسکول سے جلدی آگیا اور آتے ہی اس نے بستہ اُٹھا کر زور سے پٹخا۔ ماں دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی دوڑی آئی۔
” ارے تو اسکول سے اتنی جلدی آگیا؟”ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں وہ تو آنا ہی تھا۔”اس نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
” مگر کیوں؟” ماں نے پھر سوال پوچھا۔
منا بستہ پھینک کر چارپائی پر بیٹھ گیا اور بولا۔
” نام کٹ گیا ہے میرا سکول سے۔”
” لیکن میں نے ماسٹر کو بتا تو دیا تھا کہ اگلے مہینے اور اس مہینے کی فیس اکٹھی دے دوں گی۔”ماں نے اداس سے لہجے میں کہا۔
”اماں یہ لارے تین مہینے سے دے رہی ہوتم انہیں۔کبھی کہتی ہو چوہدرانی سے لاتی ہوں، کبھی تیرے ابا سے مانگتی ہوں۔ اب خوش ہو جاؤ،اب کسی مہینے کی فیس نہیں دینا پڑے گی۔”منا بات کرتے ہوئے رو دیا۔
”ہائے اللہ! اب کیا کروں۔”ماں نے سر پکڑ لیا۔
” اماں باجی ایک مہینے کی فیس بھی لیٹ نہیں ہونے دیتی تھی،جیب خرچ الگ دیتی تھی۔”بھائی کو بہن کی یاد آ رہی تھی۔
”بھول جا اُس بے غیرت کو۔”ماں نے نفرت سے کہا۔
منا باجی کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا تھا اس لیے فوراً بولا۔
”تو بس انہیں ہی بُرا بھلا کہنا۔”
” تواور کسے کہوں،یہ سب اسی کا تو کیا دھرا ہے۔” ماں نے غصے سے کہا اور منہ پر دوپٹہ منہ پر ڈال کر رونے لگی اور منا گھر سے باہر نکل گیا اور اپنے آوارہ دوستوں کے پاس جا کر سگریٹ پینے لگا۔
٭…٭…٭





”کوئی ایڈ دلوا دو،گوہر بہت دن گذر گئے ہیں کوئی ایڈ تو دے دو اب۔”کنول گوہر کے دفتر میں بیٹھی اس سے التجا کر رہی تھی۔
”ایک کلائنٹ کا فون آیا تھاابھی، ایک پاکستانی فیس کریم ہے ،کہو تو دلوا دوں؟”گوہر نے کہا۔
”نہیں وہ تو بی کلاس ایڈ ہوگا۔”کنو ل نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”تو ابھی تم کون سا A Class ماڈل بن گئی ہو۔تمہیں جانتا کون ہے جو بڑے ایڈ کی بات کررہی ہو۔”گوہر نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”مگر اسٹارٹ میں ہی ایسے ایڈ؟ کوئی برانڈبھی تو ہو۔”کنول تذبذب کا شکار تھی۔
”دیکھو کنول بڑے بڑے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا کرو۔برانڈز کے لیے پہلے خود کو اس کے لائق تو بناؤ پھر بات کرنا۔”گوہر نے اس پر طنز کا ایک اور نشتر برسایا۔
”کیا کمی ہے مجھ میں ؟جیسا تم نے کہا میں ویسے ہی کر رہی ہوں۔”کنول نے ایک نظر خود پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”ابھی پالش کرو خود کو۔دیکھو اگر یہ ایڈکرنا ہے تو بات کرو ورنہ لائن میں بہت سی لڑکیاں کھڑی ہیں،میں کسی کو بھی دے دوں گا۔”گوہر نے روکھے انداز میں کہا۔کنول نے اسے گھورا اور کوئی جواب دیے بنا آفس سے باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
آخر کنول کو وہ ایڈ کرنا ہی پڑا۔ حالات کے ہاتھوں وہ اتنا مجبور ہو چکی تھی،اس کے پاس پیسے بھی بہت کم بچ رہے تھے اس لیے اس نے فیس کریم کا ایڈ کرنے کی حامی بھرلی۔چوں کہ وہ دل سے اس پر راضی نہیں تھی اس لیے شوٹنگ کے دوران بار بار ری ٹیکس کرنا پڑ رہے تھے۔جب چوتھی دفعہ بھی اس کی ڈائیلاگ ڈیلیوری ڈائریکٹر کو متاثر نہ کر پائی تو اس نے چیختے ہوئے کنول سے کہا۔
”بی بی یہ کریم مفت میں نہیں بیچ رہی ہو۔تھوڑا خیال کرو اور اسٹائل سے بات کرو۔”
کنول نے اس کی بات سن کر خون کے گھونٹ پیے اور مارے با ندھے شوٹ مکمل کروا دیا۔
گھر آکر اس نے اپنا فین پیج دیکھا اور پھر ویڈیو بنانے لگی۔
”مجھے نہیں معلوم تم سب مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہو۔کیوں لکھتے ہو اتنے گندے گندے تبصرے۔ میں بُری ہوں مگر منافق نہیں۔میں جو کچھ کرتی ہوں کھلے عام کرتی ہوں، سب کے سامنے کرتی ہوں، گھروں میں بیٹھ کر پردوں میں چھپ کر خراب کام کرنے والی عورت نہیں ہوں میں۔مجھے فرق نہیں پڑتا تم سب کی باتوں سے۔ میں نے جو کرنا ہے وہ کروں گی۔love u all Good night”یہ کہہ کر اس نے کیمرا ریکارڈنگ بند کی اور ویڈیو اپ لوڈ کر دی۔
٭…٭…٭





اگلی صبح وہ آنکھوں پر گاگلز چڑھائے رکشے کا انتظار کررہی تھی کہ اس کے پاس ہی کھڑا ایک پچیس سالہ نوجوان اسے بڑے غور سے دیکھ کر اس کے پاس آیا۔
”میم پلیز ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟”نوجوان نے جھجکتے ہوئے بات شروع کی۔
”جی!” کنول نے روکھے انداز میں جواب دیا۔
”آپ کنول بلوچ ہیں؟” نوجوان نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں مگر تم نے کیسے پہچانا؟”کنول حیران رہ گئی۔
”میں نے فیس بک پر آپ کا پیج لائیک کیا ہوا ہے،مجھے آپ بہت پسند ہیں۔آپ کے اسٹیٹس بہت سچے ہوتے ہیں۔”نوجوان اس کے پاس آکر بولا۔
”اچھا آپ کو میرے اسٹیٹس پسند ہیں لیکن وہ تو زیادہ تر مردوں کے خلاف ہوتے ہیں،اس پر تو گالیاں پڑتی ہیں مجھے۔”کنول نے طنزیہ انداز میں کہا۔
” نہیں وہ مردوں کے خلاف نہیں بلکہ عورتوں کے حق میں ہوتے ہیں۔کوئی تو ہے جو عورتوں کے حق کے لیے بات کرتا ہے۔”نوجوان نے ادب سے جواب دیا۔
”واہ!آپ ان چند مردوں سے ہیں جنہیں میرے اسٹیٹس پڑھ کر مجھ سے نفرت نہیں ہوئی۔”کنول نے کہا۔
”میری ماں نے مجھے ہمیشہ عورت کی عزت کرنا سکھایا ہے میں تو عورتوں کی empovermentکے حق میں ہوں۔”نوجوان جوش سے بولا۔
”مجھے تم سے بات کرکے بہت خو شی ہوئی۔”کنول نے مسکرا کر کہا۔
”میم میری ایک خواہش پوری کردیں گی؟” نوجوان نے جیب سے موبائل نکالتے ہوئے کہا۔
”ہاں بولو!” کنول نے ادھر اد ھر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”پلیز ایک سیلفی لینا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ۔” نوجوان نے اجازت مانگی۔
کنول نے مسکرا کر اجازت د ی۔ نوجوان نے مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ سیلفی لی اور پھر بہت شکرگزاری سے بولا۔
”بہت شکریہ میم آپ کا۔”
”اب یہ تم فیس بک پر لگاؤ گے؟” کنول نے پوچھا۔
”آپ کہتی ہیں تو نہیں لگا تا،ویسے میری خواہش ہے کہ میں دنیا کو دکھاؤں کہ آج میری ملاقات کس سے ہوئی،مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔” نوجوان نے جواب دیا۔
اتنے میں ایک رکشہ کنول کے پا س آگیا، کنول نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
”اٹس اوکے، لگا دینا تصویر۔”
٭…٭…٭
کنول اپنے کمرے میں بیٹھی فیس بک پیج کو چیک کررہی تھی کہ ریحان آگیا اور اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”کیا ہورہا ہے؟دن کیسا گزرا؟”
”کچھ نہیں اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے لگی ہوں۔” کنول نے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے چلاتے جواب دیا پھر بولی۔”ریحان تمہیں معلوم ہے آج مجھے کون ملا؟”
”کون؟”ریحان نے تجسس سے پوچھا۔
”آج مجھے میرا پہلا فین ملا،اس نے میرے ساتھ سیلفی بھی لی۔”کنول نے اشتیاق سے بتایا۔




Loading

Read Previous

گلّو اور لومڑ

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!