ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

اگلے بہت سے دن ان کے درمیان ایک عجیب سی دیوار حائل رہی۔ ایمان یک دم بہت زیادہ سنجیدہ اور خاموش ہو گیا تھا۔ امید کے ساتھ اس کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ پہلے کی طرح اب بھی اس کا بہت خیال رکھتا تھا مگر امید کو محسوس ہوتا جیسے وہ کسی بے چینی کا شکار ہے۔ وہ اس سے اس بے چینی کی وجہ پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔ وہ جانتی تھی اس کا تعلق خود اس کی ذات سے ہے۔ اسے پچھتاوا ہوتا کہ اس نے ایمان کو ہر بات سے آگاہ کیوں کیا… یہ ضروری نہیں تھا… بعض دفعہ وہ شرمندگی بھی محسوس کرنے لگتی۔
ان ہی دنوں اس کے بھائی کی شادی طے ہو گئی۔ وہ شادی میں شرکت کے لیے راولپنڈی چلی آئی۔ ایمان لاہور میں ہی تھا۔ وہ دو ہفتے وہاں رہی اور ان دو ہفتوں میں ایک بار پھر اسے اس بات کا احساس ہوا تھا کہ وہ اپنے گھر کی عادی ہو چکی ہے۔ کہیں اور رہنا اب اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ اور وہ صرف گھر کی کمی ہی محسوس نہیں کر رہی تھی۔ ایمان کو بھی اتنا ہی مس کر رہی تھی۔ وہ شادی میں شرکت کے لیے راولپنڈی آیا امید کو تب بھی وہ بہت سنجیدہ لگا تھا۔ اس کی اس خاموشی اور سنجیدگی کو سب نے ہی محسوس کیا تھا۔ امید کا اضطراب اور بڑھ گیا۔
لاہور واپسی کے بعد دن اپنی مخصوص رفتار سے گزرنے لگے۔ ایمان ڈاکٹر خورشید کے پاس اب پہلے سے زیادہ وقت گزارنے لگا تھا۔ یہ اس کی روٹین میں آنے والی واحد تبدیلی تھی جن اکا دکا پارٹیز میں وہ امید کو لے کر جایا کرتا تھا اب وہاں بھی اسے لے کر نہیں جایا کرتا تھا۔ پہلے کی طرح اس سے محبت کا اظہار بھی نہیں کیا کرتا تھا۔ اس کا سوشل سرکل کچھ اور بھی محدود ہو گیا تھا۔ امید کو بعض دفعہ اس کی سرگرمیوں پر حیرت ہوتی۔ اس نے کبھی کسی شخص کو اس طرح کی محدود زندگی گزارتے نہیں دیکھا تھا۔ بعض دفعہ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کا نیوکلیس صرف گھر ہے۔ دوسری کسی چیز میں اسے کوئی دلچسپی ہے ہی نہیں۔ وہ گھر کے لیے اکثر کچھ نہ کچھ خرید کر لاتا۔ آنے والے بچے کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا رہتا۔ اسے حیرانی نہیں ہوتی تھی۔ وہ جانتی تھی بعض حوالوں سے وہ بہت جذباتی ہے اور اپنے بچے کا حوالہ بھی انہی حوالوں میں سے ایک تھا۔ وہ خود کو محفوظ محسوس کرنے لگی تھی۔ آنے والا بچہ اس کے بہت سے خدشات کو ختم کر دینے والا تھا۔
”مجھے کمپنی کے کسی کام سے جرمنی جانا ہے۔” اس رات وہ امید کو بتا رہا تھا۔
”ایک دو ہفتہ لگے گا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ تم یہاں اکیلی کیسے رہ پاؤ گی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم راولپنڈی چلی جاؤ؟”
”نہیں میں اکیلی رہ سکتی ہوں۔ ایسا کوئی پرابلم نہیں ہے۔”
”نہیں پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ تم راولپنڈی چلی جاؤ۔ اب تمہارے لیے اکیلے رہنا مناسب نہیں ہے۔” ایمان نے ایک بار پھر اصرار کیا مگر اس نے دوبارہ انکار کر دیا۔
”میں رہ سکتی ہوں۔ صرف ایک دو ہفتے کی بات ہے پھر تم واپس آ جاؤ گے۔”
ایمان کے بہت زیادہ اصرار کے باوجود وہ راولپنڈی جانے پر تیار نہیں ہوئی۔ ایمان کچھ ناراض ہو گیا تھا۔





دو تین دن وہ اپنے کچھ کاموں میں مصروف رہا پھر اس کی روانگی کا دن آ گیا۔
”تمہیں ایئرپورٹ جانے کی ضرورت نہیں۔ ڈرائیور مجھے چھوڑ دے گا۔” اس نے اپنا بریف کیس چیک کرتے ہوئے امید سے کہا۔
”نہیں میں ایئرپورٹ تک جانا چاہتی ہوں۔” امید نے اصرار کیا۔
”رات ہو رہی ہے۔ واپسی پر اور بھی دیر ہو جائے گی۔ تم مجھے یہیں خدا حافظ کہہ سکتی ہو۔” وہ اب بھی دراز میں سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ امید خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ اب صابر کو اپنا سامان اٹھانے کے لیے کہہ رہا تھا۔ صابر اس کے بیگز اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
ایمان اپنا بریف کیس اٹھا کر کھڑا ہوا اور امید کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اسے ہولے سے اپنے ساتھ لگانے کے بعد وہ اسی طرح اپنا بازو اس کے کندھے پر پھیلائے باتیں کرتے ہوئے اس کے ساتھ لاؤنج میں آ گیا۔
”اپنا خیال رکھنا۔ میں فون کرتا رہوں گا۔”
لاؤنج کے دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے امید کو تاکید کی۔ اس نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔ وہ گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ امید وہیں لاؤنج کے دروازے میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر اس نے بریف کیس اندر رکھا اور پھر پلٹ کر امید کو دیکھا۔ امید نے تیز قدموں کے ساتھ اسے ایک بار پھر واپس آتے دیکھا۔
”یار! میں تو بہت مس کروں گا تمہیں۔ میرا دل ہی نہیں چاہ رہا جانے کو۔”
اس کے قریب آ کر ایمان نے جیسے اعتراف کیا۔ وہ مسکرائی۔ وہ چند لمحے کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر ایک گہری سانس لے کر وہ پلٹ گیا۔ امید نے گاڑی کو گیٹ سے نکلتے دیکھا پھر وہ اندر آ گئی۔
چند گھنٹوں بعد ایمان نے موبائل پر اسے فون کیا تھا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔ جرمنی پہنچنے کے بعد بھی اس نے امید کو فون کیا تھا۔ پھر یہ جیسے ایک معمول بن گیا۔ وہ دن میں دو تین بار اسے فون کرتا تھا۔ ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔ پھر ایک دن اس نے فون نہیں کیا۔ امید کو حیرانی ہوئی جب اس نے دن میں ایک بار بھی اسے کال نہیں کیا۔
”شاید وہ اپنی کسی مصروفیت کی وجہ سے بھول گیا ہوگا یا اسے وقت نہیں ملا ہوگا۔” اس نے خود کو تسلی دی۔
دوسرے دن بھی ایمان نے اسے کال نہیں کیا۔ اس دن وہ کچھ بے چین رہی۔ اس بے چینی میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب تیسرے دن بھی ایمان کی طرف سے مکمل خاموشی رہی تو وہ حقیقتاً پریشان ہو گئی۔ ”پتہ نہیں ایمان ٹھیک ہے یا نہیں ورنہ وہ اتنا لاپرواہ تو نہیں ہے کہ…”
اس نے اگلے چند دن اور انتظار کیا اور جب اسے کوئی رابطہ کیے ایک ہفتہ ہو گیا تو وہ بہت فکرمند ہو گئی۔ اس کے پاس ایمان کے موبائل کا نمبر تھا لیکن بہت دفعہ کوشش کرنے کے باوجود بھی موبائل پر رابطہ نہیں ہو سکا۔ اس کا موبائل مسلسل آف تھا۔ اس نے تنگ آ کر ایمان کے والدین کے گھر فون کیا۔ وہاں سے بھی کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ اسے اچانک خیال آیا کہ ایمان کا اپنے آفس سے یقینا رابطہ ہوگا اور ان کے پاس ایمان کا کانٹیکٹ نمبر ضرور ہوگا۔ اس نے اضطراب کے عالم میں ایمان کے آفس فون کیا۔
”یہاں کوئی ایمان علی کام نہیں کرتے۔”
ٹیلی فون آپریٹر نے اس کی انکوائری کے جواب میں کہا۔ وہ دھک سے رہ گئی۔ بے یقینی کے عالم میں اس نے آپریٹر کو ایمان کے عہدے کے بارے میں بتایا۔
”نہیں! اس عہدے پر ایمان علی کام نہیں کرتے بلکہ ہماری کمپنی میں ایمان علی نام کا کوئی شخص نہیں ہے۔”
اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ آپریٹر سے کیا کہے۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ایمان اسی کمپنی میں اسی عہدے پر کام کرتا تھا۔ وہ کبھی اس کے آفس نہیں گئی تھی اور نہ ہی اس نے کبھی اس کے آفس کال کیا وہ اگر کبھی اسے کال کرتی تو اس کے موبائل پر اور اب یہ عورت کہہ رہی تھا کہ وہ وہاں کام نہیں کرتا۔ یک دم اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔
”آپ آپ ڈینیل ایڈگر کو جانتی ہیں؟”
”ہاں جس پوسٹ کی آپ بات کر رہی ہیں اس پر ڈینیل ایڈگر ہی کام کرتے ہیں۔”
اس بار آپریٹر نے جواب دیا۔ اس کے ذہن میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ پچھلے کچھ عرصے سے ایمان اسے یہ بتاتا رہا تھا کہ وہ آفس میں سب کو اپنے مذہب کی تبدیلی سے آگاہ کر چکا ہے اور اپنے نئے نام کے بارے میں بھی بتا چکا ہے اور وہاں اب اس کا نیا نام ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی چھٹی حس اسے کسی خطرے سے آگاہ کرنے لگی۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ آپ مجھے ڈینیل ایڈگر کا کانٹیکٹ نمبر دے دیں جرمنی میں جہاں وہ کمپنی کے کام سے گئے ہیں۔”
”کمپنی کے کام سے؟ مگر وہ تو تقریباً تین ہفتے پہلے ریزائن کر چکے ہیں۔ ان کی کچھ چھٹیاں باقی تھیں اور آفیشلی وہ اس وقت چھٹی پر ہیں لیکن وہ انفارم کر چکے ہیں کہ چھٹی پوری ہونے کے بعد وہ دوبارہ جوائن نہیں کریں گے۔ وہ اور ان کی گرل فرینڈ دونوں نے اکٹھے جاب چھوڑی ہے۔”
اسے پہلی بار احساس ہوا پیروں کے نیچے سے زمین کس طرح نکلتی ہے۔ ریسیور اب اس کے ہاتھ میں کانپ رہا تھا۔ ”گرل فرینڈ؟” اس کے حلق سے پتہ نہیں کس طرح آواز نکلی۔
”ہاں! وہ سیکرٹری تھیں ان کی لیکن جرمنی… میرا خیال ہے وہ جرمنی نہیں امریکہ گئے ہیں کیونکہ انھوں نے ویزہ کے لیے اپلائی کیا تھا۔ میں ہی امریکن ایمبیسی میں ان کے لیے کال ملاتی رہی تھی۔”
وہ لڑکی اسے ساری معلومات فراہم کرتی جا رہی تھی۔ امید نے بات سنتے سنتے فون بند کر دیا۔
”ایمان میرے ساتھ یہ کیسے کر سکتا ہے۔ وہ اس طرح تو نہیں کر سکتا۔” وہ بہت دیر تک شاک کی حالت میں بیٹھی رہی پھر بے اختیار اٹھ کر ایمان کی وارڈ روب کی طرف چلی گئی۔ ایمان کی تمام چیزیں وہاں تھیں۔ اس نے خود کو کچھ تسلی دینے کی کوشش کی۔ دراز میں اس کی چیک بک بھی پڑی ہوئی تھی۔ کچھ مقامی اور غیر ملکی کرنسی بھی تھی۔
اس نے باری باری تمام دراز کھولنے شروع کر دیے۔ سب سے نیچے والی دراز کھولتے ہی وہ ساکت رہ گئی۔ وہ دراز خالی تھی۔ ایمان اس میں اپنے تمام ڈاکومنٹس رکھتا تھا۔ وہ بھاگی ہوئی اسٹڈی میں چلی گئی اسٹڈی کی تمام درازوں میں سے بھی اس کے ضروری کاغذات غائب تھے۔ بیڈ روم میں واپس آ کر فق چہرے کے ساتھ اس نے بینک فون کیا۔ ایمان اپنا اکاؤنٹ بند کروا چکا تھا۔ اس نے امریکن ایمبیسی فون کیا وہاں سے اسے معلوم ہو گیا کہ ایمان کو کچھ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ویزا جاری کیا گیا۔ وہ اس کی زندگی کا سب سے بھیانک اور ہولناک دن تھا۔
چند گھنٹوں میں وہ ایک بار پھر آسمان سے زمین پر آ گئی تھی۔ شاید زمین پر نہیں پاتال میں…
اس بار ذلت اور رسوائی اس کے تعاقب میں تھے۔ اس نے ان تمام لوگوں کو فون کر کے اس کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی جو ایمان کو جانتے تھے اور جن سے وہ مل چکی تھی۔ ایمان کسی کو بھی کچھ بتا کر نہیں گیا۔ کراچی میں ایمان کے ایک دور پار کے انکل بھی کسی کمپنی میں پوسٹڈ تھے۔ وہ بھی ایمان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ سعود کے علاوہ کسی دوسرے کو اس کے مذہب کی تبدیلی کا پتا نہیں تھا اور ایمان پچھلے کچھ عرصے سے اسے بتا رہا تھا کہ وہ سب کو اس بارے میں بتا چکا ہے حتیٰ کہ اپنے انکل کو بھی… مگر اس کے انکل نے اس کے سوالوں پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔
”ڈینیل نے بتایا تھا کہ تم دونوں نے آپس میں کوئی ایڈجسٹ منٹ کی ہے کہ تم دونوں اپنے اپنے مذہب پر کاربند رہو گے۔”
اس نے فون بند کر دیا۔ ایمان مالکِ مکان کو بھی انفارم کر چکا تھا کہ اس ماہ کے بعد وہ مکان خالی کر دے گا۔ پورچ میں کھڑی ہوئی گاڑی کمپنی کی دی ہوئی تھی۔ گھر میں موجود سارا سامان بھی مالکِ مکان کی ملکیت تھا۔ پھر اس کے پاس کیا رہا تھا۔
”لیکن ایمان نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟ وہ اپنے ماؤف ذہن سے صرف ایک ہی بات سوچ رہی تھی۔ وہ ساری رات جاگتی رہی۔ آگے اسے کیا کرنا چاہیے؟ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ میں کس طرح راولپنڈی جا کر اپنے گھر والوں کو بتاؤں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میں ذلت کے کس پاتال میں جا گری ہوں۔ مسلمان سمجھ کر ایک یہودی کے ساتھ زندگی گزارتی رہی ہوں اور جس بچے کی ماں بننے والی ہوں وہ… اوہ خدایا! میں زندگی میں کتنی بار منہ کے بل گروں گی۔ آخر اور کتنی بار… میں نے زندگی میں ہر بار گناہ سے بچنے کی کوشش کی ہے ہربار… اور اس کا صلہ مجھے ایمان علی کی صورت میں ملا… مجھ سے غلطی کہاں ہوئی میں کون سی سیڑھی سے گری ہوں۔”
اسے یاد آیا وہ جرمنی جانے سے کچھ دن پہلے امریکہ میں ہونے والے یہودیوں کے کسی سالانہ اجتماع کا ذکر کر رہا تھا۔ جس میں پیٹرک جانا چاہتا تھا۔ اسے اب معلوم ہوا تھا کہ وہ خود وہاں گیا تھا۔ اس نے امید کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے گھر چلی جائے۔ شاید وہ یہ اس لیے چاہتا تھا تاکہ وہ گھر خالی کر سکے۔ جانے سے پہلے اس کا عجیب سے انداز میں اس کے سامنے کھڑے ہو جانا کیا وہ اس وقت یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر جا رہا ہے مگر اس طرح بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسے امید سے کہنا چاہیے تھا کہ وہ اسے چھوڑنا چاہتا تھا۔ اسے بتانا چاہیے تھا کہ اس کے مذہب کی تبدیلی صرف ایک دھوکا تھی۔ کیا اس کے اس طرح بھاگ جانے کی وجہ یہ بچہ تھا۔ کیا وہ اس بچے کو اپنانانہیں چاہتا تھا۔ کیا اسی لیے اس نے امید پر یہ ظاہر کیا تھا کہ اس کا سوشل سرکل بہت محدود ہے اور اسے پارٹیز میں جانا پسند نہیں۔ اس کی گرل فرینڈ… وہ اس کی کسی موجودہ گرل فرینڈ سے واقف نہیں تھی۔ کیا ان دونوں کے درمیان کوئی دوسری عورت آ گئی تھی۔ کیا ایمان اتنی جلدی کسی دوسری عورت کی محبت میں اس طرح گرفتار ہو سکتا تھا کہ اس کے لیے سب کچھ چھوڑ کر چلا جائے؟ وہ میرے لیے بھی تو سب کچھ چھوڑ آیا تھا حتیٰ کہ مذہب بھی۔ تو کسی دوسری عورت کے لیے کیوں نہیں؟
”اور اب… اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کیا جرمن ایمبیسی سے رابطہ کرنا چاہیے۔ مگر وہ میرے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ بالفرض وہ ایمان کو ڈھونڈ بھی لیتے ہیں تو کیا ہوگا۔ میں اس شخص کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہوں جو میرے دین سے تعلق نہیں رکھتا اور اگر یہ سب ایمبیسی کی وجہ سے میڈیا کے سامنے آ گیا تو کیا ہوگا۔ میں اور میرے گھر والے کس طرح لوگوں کا سامنا کریں گے۔ میرا بچہ دنیا میں کس حیثیت سے آئے گا؟ لوگ میرے بارے میں کیا کیا کہیں گے؟ کیا مجھے ڈاکٹر خورشید سے رابطہ قائم کرنا چاہیے یا پھر سعود ارتضیٰ سے جنھوں نے ایمان علی کے مسلمان ہونے کی شہادت اور اس کے ساتھ شادی کے بعد ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت دی تھی۔ مگر وہ لوگ… وہ لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایمان کو میرے سامنے لا سکتے ہیں مگر اب… اب کیا میں اسے قبول کر سکتی ہوں۔ کیا ایک مرتد کے ساتھ رہ سکتی ہوں اور بالفرض وہ لوگ ایمان کو واپس لانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو… تو میں کیا کروں گی۔ کیا ان کے سامنے گڑگڑاؤں گی۔ اپنی بے بسی پر انھیں کوسوں گی۔ نہیں مجھے ان کے پاس بھی نہیں جانا چاہیے۔ مجھے کسی کے پاس بھی نہیں جانا چاہیے۔” سوالوں کا ایک انبار اسے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے تھا۔
صبح ہونے تک اس کے ذہنی انتشار میں اور اضافہ ہو چکا تھا۔ جرمنی دوبارہ فون کرنے پر اسے یہ ا طلاع بھی مل چکی تھی کہ ایمان کے والدین وہ گھر بیچ چکے ہیں۔ وہ اندازہ نہیں کر سکی کہ کیا یہ بھی دانستہ طور پر کیا گیا تھا۔ کیا ایمان کے والدین بھی یہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا امید کو دھوکا دے رہا تھا۔
”اور جب میں ان پر یہ ظاہر کرتی تھی کہ ایمان نے مذہب تبدیل نہیں کیا اور ہم دونوں نے اس کے بغیر ہی شادی کی ہے تو کیا وہ مجھ پر ہنستے نہیں ہوں گے کہ میں انھیں دھوکے میں رکھنے کے لیے جو جھوٹ بول رہی تھی وہی دراصل سچ تھا۔ اگر اس گندگی میں گرنا تھا تو پھر جہاں زیب کا انتخاب کیوں نہیں کیا میں نے۔ انسان واقعی اپنے مقدر کو نہیں بدل سکتا۔ جہاں زیب کو چھوڑ کر میں نے سوچا تھا کہ میں نے پاتال کی طرف جانے والا راستہ اختیار نہیں کیا مگر پاتال ہی میرا مقدر تھا۔”
وہ خشک آنکھوں اور سرد وجود کے ساتھ سوچتی رہی۔
”میرے سامنے اب کوئی رستہ نہیں ہے۔ کم از کم عزت کی زندگی کا۔ ہاں عزت کی موت کا رستہ ہے اور مجھے اب اس رستہ پر چلنا چاہیے۔”
”یہی سب سے بہتر راستہ ہے۔”
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتی، دروازے پر دستک سنائی دی۔ دروازے پر صابر تھا۔ وہ اسے اس کے بھائی کے آنے کی اطلاع دے رہا تھا۔ اس وقت جس چیز کو وہ دنیا میں سب سے آخر میں دیکھنا چاہتی تھی وہ اس کی فیملی تھی۔ صابر جا چکا تھا۔ اس نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی مگر اس کی یہ کوشش ناکام رہی۔ معین نے اسے دیکھا تھا اور وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”امید آپا! کیا ہوا ہے؟”
امید نے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کی۔ ”کچھ نہیں۔” وہ اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی۔
”نہیں، کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہے۔ آپ بتائیں، کیا ہوا ہے؟”
”کچھ نہیں، میری طبیعت خراب ہے۔ اسی وجہ سے ٹھیک نہیں لگ رہی۔” امید نے بہانا گھڑا۔
”ایمان بھائی اس وقت آفس میں ہوں گے نا؟” وہ مطمئن ہوا تھا یا نہیں مگر اس کے قریب بیٹھ ضرور گیا۔ اس کا دل چاہا، وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ بعض اوقات کسی کے ساتھ اپنی تکلیف شیئر نہ کرنا آگ میں جلنے سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔
”وہ… وہ کچھ دنوں کے لیے جرمنی گیا ہے۔”
”ارے تو پھر آپ یہاں اکیلی کیوں ہیں؟ آپ کو چاہیے تھا آپ راولپنڈی آ جاتیں۔”
”نہیں، میں یہیں ٹھیک ہوں۔”
”یہ کیا بات ہوئی۔ پہلے آپ کہہ رہی تھیں، آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور پھر آپ یہاں اکیلی بھی ہیں۔ آپ کتنی لاپروا ہیں امید آپا۔ میں نہ آتا تو آپ اسی طرح رہتیں۔ یہ تو اتفاقاً مجھے کمپنی کے کسی کام سے لاہور آنا پڑا تو میں یہاں آ گیا۔ اب آپ اپنا سامان پیک کریں اور میرے ساتھ چلیں۔” معین ناراض ہو رہا تھا۔
”نہیں۔ ایمان نے کہا تھا کہ میں یہیں رہوں اور اس طرح گھر چھوڑ کر جانا ٹھیک نہیں ہے۔”
”گھر کو کچھ نہیں ہوگا۔ ملازم یہاں ہے اور آپ ایمان بھائی کو فون پر بتا دیں کہ میں آپ کو راولپنڈی لے گیا ہوں۔ وہ ناراض نہیں ہوں گے۔ آپ بس میرے ساتھ چلیں۔”
”تم سمجھتے نہیں ہو۔ مجھے یہاں بہت سے کام ہیں۔”
”وہ کام آپ ایمان بھائی کے آنے پر کر لیں۔ ابھی تو آپ میرے ساتھ چلیں۔”
”اچھا فی الحال تم چلے جاؤ۔ میں دو تین دن بعد خود آ جاؤں گی۔”
”یہ تو ناممکن ہے میں اس طرح اب آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ ساتھ لے کر ہی جاؤں گا۔”
اس کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا۔ امید اس کی ضد کے سامنے بے بس ہو گئی۔
”ٹھیک ہے، میں اس کے ساتھ چلی جاتی ہوں۔ چند دن بعد میں کسی بھی بہانے سے واپس آ جاؤں گی۔” اس نے سوچا تھا۔
*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!