ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

”اس لیے میں نے انھیں سب کچھ بتا دیا۔ گھر خرید کر گفٹ کرنے کے بعد… اور… اس کے بعد جو ایک ہفتہ میں نے جرمنی میں گزارا وہ میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ ہفتہ تھا۔ مجھے پہلے سمجھایا گیا، پھر ڈرایا گیا اور آخر میں مجھ سے سارے تعلقات ختم کر لیے گئے۔ میں نے اپنے ماں باپ کو مذہب کے بارے میں کبھی اتنا کٹر نہیں دیکھا جتنا اس بار دیکھا۔ انھوں نے مجھے دوبارہ کبھی اپنی شکل نہ دکھانے کے لیے کہا ہے۔اس بار واپس آتے ہوئے میں اپنی کشتیاں جلا کر آیا ہوں اور یہ آسان کام نہیں تھا مگر میں نے ایسا کر لیا۔ اب اگر تم میرے انکل کو فون کر کے ان سے میرے بارے میں کچھ پوچھو گی تو وہ میرا نام گالیوں کے ساتھ لیں گے۔
مذہب تبدیل کرتے ہوئے مجھے لگا تھا، یہ بہت آسان کام ہے مگر یہ آسان کام نہیں تھا، خاص طور پر مجھ جیسے شخص کے لیے جو رشتوں کو بہت اہمیت دیتا ہو۔ اپنے ماں باپ کو یہ حقیقت بتانے کے بعد میں نے ان کا جو رویہ دیکھا اس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میں سوچتا تھا خون کے رشتے گنوانے کے بعد میرے پاس کیا رہا ہے مگر پھر مجھے خیال آیا کہ میں حساب کیوں کر رہا ہوں۔ مذہب میں نے سودے بازی کی خاطر تو نہیں بدلا۔ جب ایک رستے پر چل پڑا ہوں تو پھر یہ کیوں سوچوں کہ میں کیا چھوڑ کر جا رہا ہوں یا منزل پر پہنچ کر حاصل ہونے والی چیزیں ان چھوڑنے والی چیزوں سے زیادہ اور بہتر ہوں گی یا نہیں۔ کوئی بھی انسان ایک وقت میں دو کشتیوں پر سوار نہیں ہو سکتا اور میں یہی حماقت کر رہا تھا۔ میں نے اپنی مرضی کی ایک کشتی کا انتخاب کر لیا۔ اب اس کے بعد میں ڈوبوں یا بچ جاؤں مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔”
امید کو لگ رہا تھا وہ جس کھائی میں اب گری تھی اس سے کبھی باہر نہیں آ سکتی۔
”پھر جرمنی میں مجھے تمہارا اور اپنے بچے کا خیال آیا اور میں سوچتا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ کچھ خونی رشتے جو مجھے چھوڑنے پڑے ہیں، ان کے بدلے میرے پاس دوسرے رشتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی تو ان کے سارے رشتہ داروں نے چھوڑ دیا تھا مگر پھر انھیں سب کچھ مل گیا تھا۔”
وہ ایک بار پھر وہی ریفرنس دے رہا تھا جسے وہ اس کی مکاری اور فریب سمجھتی تھی۔ امید کا دل چاہا، وہ ڈوب کر مر جائے۔
”میری زندگی میں مذہب اتنا اچانک داخل ہوا کہ میں کچھ سمجھ نہیں سکا۔ میرا ہمیشہ یہ خیال رہا کہ میری زندگی میں کوئی کمی نہیں ہے مگر باقاعدہ طور پر مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی بڑی کمی کا شکار تھا۔ یہ دو سال میری زندگی کے سب سے اچھے سال تھے مگر آج… آج تمہارے منہ سے یہ سب کچھ سن کر میں سوچ رہا ہوں، میں کہاں کھڑا ہوں… اور میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ ابھی آگے مجھے کس کس آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ ہر آسمانی مذہب انسان کو آزماتا ضرور ہے مگر اسلام تو انسان کو کچھ اور ہی طرح سے آزماتا ہے۔ یہ ایسی آزمائشیں سامنے لے آتا ہے جو بندے کو کندن بنا دیتی ہیں یا پھر راکھ کا ڈھیر۔ اور پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے میں بھی ایسی ہی آزمائشوں سے گزر رہا ہوں۔ کندن بننے میں مجھے بڑا وقت لگے گا مگر مجھے فخر ہے کہ میں راکھ کا ڈھیر نہیں بنا۔”
امید نے اس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ دیکھی۔
”جب میں بالکل مطمئن ہو چکا تھا کہ میرا کیریر بن چکا ہے، چند ماہ تک میری پروموشن ہونے والی تھی اور پھر اپنی کمپنی کا ریجنل ہیڈ بن جاتا مگر میرے سامنے دو راستے آ گئے۔ مجھے انتخاب کرنا تھا اور میں نے انتخاب کر لیا۔ ریزائن کر دیا۔ عجیب بات ہے مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور اب اتنے سالوں کے بعد ایک بار پھر سے مجھے اپنا کیریئر بنانا ہے۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میرے ماں باپ مجھے اس طرح چھوڑ دیں گے۔ مجھے لگتا تھا میرا ان کے ساتھ تعلق بہت گہرا ہے اور میں ان کی ناراضی برداشت نہیں کر سکتا مگر میں نے ان کی ناراضی کی پروا نہیں کی۔ ایک بار پھر مجھے انتخاب کرنا پڑا اور میں نے اپنے مذہب کو ان پر ترجیح دی اور اب تم میرے سامنے ایک آزمائش بن کر آ کھڑی ہوئی ہو۔ بے یقینی اور بے اعتمادی کی انتہا کے ساتھ۔ ڈینیل ایڈگر میرے وجود کا سایہ بن چکا ہے۔ یہ ساری عمر میرے ساتھ رہے گا۔ کوئی بھی شخص اپنا حال اور مستقبل تو بدل سکتا ہے مگر ماضی نہیں بدل سکتا۔ میں بھی نہیں بدل سکتا۔ یہ حقیقت ہمیشہ حقیقت ہی رہے گی کہ میں ایک یہودی کا بیٹا ہوں اور میری ماں کرسچین ہے مگر میں اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ کیا اس حوالے سے ساری عمر مجھے گالیاں دو گی اور شک کرو گی؟ تم تو شادی سے پہلے ہی جانتی تھیں کہ میں یہودی ہوں، میری نسل کی خصوصیات کے بارے میں تم نے تب کیوں نہیں سوچا؟”
اس کے پاس ایمان کے سوال کا جواب نہیں تھا۔ اس کے پاس شاید اب کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔





”میری چند ہفتے کی غیر موجودگی میں تم نے میرے خلاف اس طرح ثبوت اکٹھے کیے جیسے میں کوئی بہت خطرناک مجرم تھا جس سے جتنی جلدی چھٹکارا پا لیا جاتا، اتنا ہی بہتر ہوتا۔ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے چور کو بھی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔ تم نے تو مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھا۔ مجھے قتل کرنے کی پلاننگ کر لی۔”
اس نے سر جھکا لیا۔
”یہ سب کچھ کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ سکتی تھیں، مجھ پر شک تھا تو مجھ سے بات کر سکتی تھیں۔ میں ہمیشہ سے جانتا تھا کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے لیکن میں نے سوچا کہ محبت نہ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ محبت ہو نہیں سکتی۔”
امید نے اپنے پیروں کی انگلیوں پر پانی کے چند قطرے گرتے دیکھے تھے۔
”میرا خیال تھا، کچھ وقت گزرے گا پھر تم مجھ سے محبت کرنے لگو گی۔ میری محبت، میری توجہ، میرا ایثار، میری قربانیاں تمہارا دل جیت لیں گی۔ تم میری پروا کرنے پر مجبور ہو جاؤ گی، کوئی فلم ہو، ناول ہو ڈرامہ ہو یا پھر حقیقی زندگی ان سب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ جہاں زیب تمہاری زندگی کا ایک ایسا باب تھا جسے تم بند کر چکی ہو۔ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ تم نے اسے ہمیشہ اپنے اور میرے درمیان رکھا۔ تم نے اس شخص کو کبھی اپنی زندگی سے جانے ہی نہیں دیا۔”
اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ ہاتھوں کی لرزش کو چھپانے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں تھا۔ ایمان کے لہجے میں جھلکتا ملال اس کے پورے وجود کو لرزا رہا تھا۔
”تمہیں پتا ہے امید! اس شخص نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ اس نے تمہارے اندر بے یقینی کا ایک بیج بو دیا اور تم نے اس بیج کو سینچ کر درخت بنا دیا، اب بے یقینی اور بے اعتمادی کا یہ درخت اتنا تناور ہو چکا ہے کہ تم چاہو بھی تو اسے کاٹ نہیں سکتیں۔”
اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ نہیں جانتی تھی۔ ایمان بھی کبھی اس سے یہ سب کہہ سکتا ہے۔
”کوئی شخص اپنی بند مٹھیوں میں دھول لے کر آتا ہے اور آپ کی آنکھوں میں دھول پھینک کر چلا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کی بند مٹھی میں دھول ہی ہو جس سے بچنے کے لیے آپ کو اپنی آنکھیں بند کرنا پڑیں۔ کم از کم میری مٹھیوں میں تمہارے لیے کوئی دھول نہیں ہے۔” وہ اسے اپنے ہاتھ دکھا رہا تھا۔ ”میں نے کبھی محبت کے وجود پر یقین نہیں کیا۔ شاید… شاید اسی لیے مجھے محبت ہو گئی اور میری محبت نے مجھے یقین اور ایمان دیا۔ تم نے ہمیشہ محبت کے وجود پر یقین کیا۔ محبت تمہیں بھی ہوئی مگر تمہاری محبت نے تمہیں یہ دونوں چیزیں نہیں دیں۔”
وہ بالکل بے حس و حرکت اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”ہم دونو ں کی محبت کے معیار میں فرق تھا نہ انتہا میں… جس شخص سے محبت کر رہے تھے۔ اس شخص میں فرق تھا۔ تم میں کھوٹ نہیں تھا جہاں زیب میں تھا۔ آگ کا کام پکانا ہوتا ہے اس پر سونا رکھیں گے تو وہ اسے کندن بنا دے گی مگر پانی رکھیں گے تو بھاپ بن کر اڑ جائے گا۔”
اسے لگ رہا تھا، سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔
”ہم دونوں کے رشتے میں دراڑ آ گئی ہے مگر رشتہ ٹوٹا نہیں ہے۔ امید! ہمیں یہ ابھی طے کر لینا چاہیے کہ اس دراڑ کو پرُ کر دینا چاہیے یا رشتہ مکمل طور پر توڑ دینا چاہیے۔ کوئی مجھے جان بوجھ کر ڈینیل ایڈگر کہے گا تو میں برداشت نہیں کروں گا۔ ڈینیل ایڈگر سے ایمان علی بننے تک میں نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ بہت کچھ چھوڑا ہے اور جس شخص کو میری اس شناخت پر یقین نہیں ہے مجھے اس کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا۔”
اس کے لہجے میں قطعیت تھی۔
”تمہیں چھوڑتے ہوئے مجھے بہت تکلیف ہوگی۔ اس سے کہیں زیادہ تکلیف جتنی مجھے اپنے ماں باپ کو چھوڑتے ہوئے ہوئی مگر میں اب کسی کسوٹی پر پرکھا جانا نہیں چاہتا۔ میں بار بار لوگوں کو وضاحتیں پیش کر سکتا ہوں نہ یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ میں واقعی مسلم ہوں۔ میں کسی کو یہ یقین دلانا بھی نہیں چاہتا۔ میں نے لوگوں کے لیے اسلام قبول نہیں کیا۔ یہ کام میں نے اللہ کے لیے کیا ہے اور میری نیت کو جانچنے کا اختیار صرف اسے ہے۔ کسی دوسرے کو نہیں، تمہیں بھی نہیں۔”
وہ اس کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”اگر تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے یا یہ شبہ ہے کہ میں ابھی بھی مسلم نہیں ہوں تو پھر تمہیں مجھ کو چھوڑ دینا چاہیے۔ مجھ سے الگ ہو جانا چاہیے۔” اس کی آواز میں شکستگی تھی۔ میرے ساتھ رہ کر اگر تم خوش نہیں ہو تو تمہیں حق ہے کہ تم میرے ساتھ نہ رہو۔ مگر اپنے ذہن سے یہ نکال دو کہ میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ گیا یا آئندہ کہیں بھاگ جاؤں گا۔ میں تمہیں اور اپنے بچے کو مکمل طور پر اپناتا ہوں۔ تم میرے بچے کو اپنے پاس رکھ سکتی ہو میں تم دونوں کی ذمہ داری لیتا ہوں جب تک بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہو رکھ سکتی ہو۔ اگر دوسری شادی کرنا چاہو اور بچے کو پاس نہ رکھنا چاہو تو میں اسے اپنے پاس لے جاؤں گا۔ ابھی میں پاکستان میں ہی ہوں، جتنا عرصہ یہاں رہوں گا تم دونوں سے رابطے میں رہوں گا۔ اگر واپس کہیں اور جانا پڑا تب بھی تم لوگوں کے اخراجات پورے کرتا رہوں گا۔ اس کے بدلے میں یہ ضرور چاہوں گا کہ تم مجھے اپنے بچے سے ملتے رہنے دو۔”
اسے شاید پہلی بار اپنی کنپٹی سے بہنے والے خون کا احساس ہوا تھا اپنے زخم کو اس نے ہاتھ سے چھوا اور پھر انگلیوں پر لگے ہوئے خون کو دیکھا۔ سر اٹھا کر اس نے امید کو دیکھا۔ شاید وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا مگر پھر وہ کچھ کہنے کے بجائے اسٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔ دراز کھول کر اس نے کچھ نکالا تھا اور پھر امید کی طرف اچھال دیا۔ امید نے اپنے پیروں میں گرنے والی اس چیز کو دیکھا اور ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ ریوالور کی گولیاں تھیں۔
”مجھے اگر ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال آ جاتا کہ یہ ریوالور یہاں تم نے مجھے مارنے کے لیے رکھا ہے تو میں کبھی اس میں سے گولیاں نہ نکالتا۔ موت تمہارے منہ سے نکلنے والے لفظوں سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہو سکتی تھی۔”
وہ زمین میں دھنستی جا رہی تھی۔
”مجھے تم سے اس قدر محبت ہے امید! کہ تمہیں اتنی لمبی چوڑی پلاننگ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ چوکیدار کو بھیجنا، ریوالور کو چھپانا، ملازم کو غائب کرنا…” وہ عجیب سے انداز میں ہنسا۔ ”تم جب چاہتیں میرے سامنے کھڑے ہو کر مجھے مار سکتی تھیں، میں کبھی تمہارا ہاتھ نہیں پکڑتا نہ تمہیں کوئی نقصان پہنچاتا۔ چاہو تو ابھی آزما کر دیکھ لو۔”
وہ کچھ دیر اس کے سامنے جیسے منتظر سا کھڑا رہا۔ یوں جیسے اسے یہی کرنے کی دعوت دے رہا ہو۔ وہ ہل نہیں سکی۔ وہ تھکے تھکے انداز میں اسٹڈی کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ امید نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی مگر وہ اسٹڈی سے نکلنے کے بجائے وہیں رک گیا۔
”تم اگر پچھتا رہی ہو تو… مت پچھتاؤ… میں تمہیں اس سب کے لیے معاف کرتا ہوں۔ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔” اسٹڈی کا دروازہ بند ہو گیا۔
*…*…*
وہ اسٹڈی سے نکل کر کچن میں آ گیا۔ فریج کھول کر اس نے پانی کی بوتل نکالی اور ڈائننگ ٹیبل پر آ کر بیٹھ گیا۔ گلاس میں پانی ڈال کر اس نے پانی کے چند گھونٹ پیے۔ سر میں کچھ دیر پہلے لگنے والے زخم کی تکلیف کا احساس اسے اب ہو رہا تھا مگر اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ اٹھ کر اپنے زخم کو صاف کر کے بینڈیج کرنے کی کوشش کرتا۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسائے کہنیاں ٹیبل پر رکھے وہ سامنے پڑے ہوئے گلاس کو دیکھتا جا رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعات اسے ایک خواب کی طرح لگ رہے تھے۔ مگر وہ جانتا تھا کہ وہ سب خواب نہیں تھا۔
وہ جیسے دنیا کے آخری سرے پر آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ واپس جانے کا راستہ وہ بھول چکا تھا۔ آگے قدم بڑھانے پر پیر کے نیچے زمین آئے گی، خلا آئے گا یا پھر پانی، وہ نہیں جانتا تھا۔
”کیا میں اب اس طرح اکیلا رہ سکتا ہوں جس طرح امید کے آنے سے پہلے رہتا تھا۔” اسے اپنی آنکھوں میں پہلی بار نمی امڈتی محسوس ہوئی۔ ہونٹ بھینچ کر اس نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ تھکن کا احساس کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ اس نے پیچھے ہٹ کر اپنی پشت کرسی سے ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔
ڈائننگ ٹیبل کے اوپر لٹکنے والے لیمپ کی روشنی میں ڈائننگ ٹیبل کی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ایمان کے علاوہ ہر چیز دُھندلی نظر آ رہی تھی۔ اس کا وجود اس روشنی میں بے حس و حرکت نظر آ رہا تھا اور اس کے چہرے پر پڑنے والی روشنی چہرے پر موجود ہر تاثر کو واضح کر رہی تھی۔ تھکن… مایوسی… افسردگی… بے یقینی… بے چینی… اضطراب اور… ”امید”… وہاں کیا تھا؟… وہاں کیا نہیں تھا؟

*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!