ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

”جہاں زیب بالکل صحیح ناراض ہوا ہے۔ تمہارے جیسی لڑکی کے ساتھ یہی کرنا چاہیے۔ وہ تم سے محبت کرتا ہے اور تم… تمہیں کبھی ہاسٹل کی فکر ہوتی ہے اور کبھی گھر والوں کی اپنی کیوں نہیں سوچتیں تم؟”
”کیا مطلب ہے تمہارا؟”
”مطلب بالکل واضح ہے۔ وہ تمہارا منگیتر ہے۔ تمہیں اس کی خواہشات کو اولیت دینی چاہیے۔ وہ تمہیں اگر اپنے ساتھ باہر لے جانا چاہ رہا تھا تو اس میں کوئی ایسی بری بات نہیں ہے۔”
”بری بات ہے… میرے ڈیڈی نے جہاں زیب کے ساتھ منگنی ہونے کے بعد ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ وہ فون کرتا ہے۔ ٹھیک ہے، اس سے بات کر لیا کرو مگر اس کے ساتھ شادی سے پہلے کبھی باہر مت جانا۔”
عقیلہ اس کی بات پر عجیب سے انداز میں ہنسی۔
”تمہارے ڈیڈی بہت عرصہ پہلے مر چکے ہیں جو لوگ مر جاتے ہیں۔ ان کے اقوال زریں دہرانے اور ان پر عمل کرنے کے بجائے زندہ لوگوں کی خواہشات کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔” امید کو اس کی بات پر دھچکا لگا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس کے باپ کے بارے میں اتنی بے رحمی سے بات کرے گی۔
”مجھے دیکھو، میں بھی شفیق کے ساتھ باہر جاتی ہوں، حالانکہ ہم دونوں کی تو کوئی منگنی نہیں ہوئی، تمہارے نظریات کے لحاظ سے تو میں بھی ایک بری لڑکی ہوں، ہے نا؟” وہ سمجھ نہیں پائی وہ طنز کر رہی تھی یا…
”وہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے، میں دوسروں کے کردار کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتی، مگر اپنے لیے مجھے یہ کرنا اچھا نہیں لگتا۔”
”کیوں اچھا نہیں لگتا؟ نو سال سے وہ تمہارا منگیتر ہے۔ تمہاری اپنی مرضی سے وہاں منگنی ہوئی ہے۔ اپنے ڈیڈی کے فرمان اگر بھول جاؤ تو بتاؤ کہ اس کے ساتھ باہر جانے میں کیا حرج ہے۔ وہ تمہیں کھا تو نہیں جائے گا۔ اگر تم اسے فون کر سکتی ہو… خط لکھ سکتی ہو۔ ہاسٹل میں مل سکتی ہو تو پھر اس کے ساتھ باہر جانے میں کیا حرج ہے؟ انسان میں منافقت نہیں ہونی چاہیے۔”
وہ اسے پتا نہیں کیا جتا رہی تھی کچھ کہنے کی بجائے وہ خاموشی سے اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔ لان میں بہت دیر تک وہ اضطراب اور بے چینی کے عالم میں ٹہلتی رہی تھی۔ پھر اچانک اس نے عقیلہ کو اپنی طرف آتے دیکھا۔
”تمہیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں، بتا تو جاتیں کہ لان میں بیٹھو گی۔ جہاں زیب کی کال آئی ہے میرے موبائل پر، وہ کچھ دیر بعد دوبارہ کال کرے گا۔”
اس نے اطلاع دی۔ وہ بے اختیار خوش ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا غصہ کم ہو گیا ہے۔ وہ جہاں زیب کی عادت جانتی تھی۔ عقیلہ کے ساتھ وہ کمرے میں آ گئی تھی۔ پندرہ منٹ بعد جہاں زیب کی کال آئی تھی۔ اس کا غصہ واقعی ختم ہو چکا تھا۔ اس نے امید سے اپنے تلخ رویے کے لیے معذرت کی۔ امید نے کھلے دل سے اسے معاف کر دیا تھا۔
”اس ویک اینڈ پر تم راولپنڈی آ سکتی ہو؟” وہ پوچھ رہا تھا۔
”کیوں؟”





”میرے گھر والے تمہارے گھر آنا چاہ رہے ہیں۔ میں بھی ان کے ساتھ آؤں گا۔ یہاں نہیں تو چلو وہاں تو ملاقات ہو ہی سکتی ہے۔”
”ٹھیک ہے۔ میں راولپنڈی آ جاؤں گی۔” اس نے بڑی خوشی سے ہامی بھر لی۔
فون بند کرتے ہی عقیلہ نے اس سے کہا۔ ”تم بہت لکی ہو امید کہ تمہیں جہاں زیب جیسا شخص ملا ہے، ورنہ کوئی دوسرا شخص تو… مجھے لگتا ہے، وہ واقعی تم سے بہت محبت کرتا ہے۔”
امید، عقیلہ کی بات پر فخریہ انداز میں مسکرائی۔
”ہاں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ میری بات سمجھ لیتا ہے۔” وہ کہتے ہوئے کھانا لینے کے لیے میس میں چلی گئی۔
*…*…*
ویک اینڈ پر وہ راولپنڈی آ گئی۔ رات کو جہاں زیب اپنے گھر والوں کے ساتھ آیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس کی خوش مزاجی اپنے عروج پر تھی۔
”میری امی آج تاریخ طے کرنے آئی ہیں۔” وہ اس کے کمرے میں آ کر اسے بتانے لگا۔
”کیا؟” وہ تقریباً چلا اٹھی۔
”اتنی جلدی؟”
”یہ اتنی جلدی ہے؟ تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری منگنی ہوئے آٹھ نو سال ہو گئے ہیں۔ اب ویسے بھی میں آیا ہی سیٹل ہونے کے لیے ہوں جاب کر رہا ہوں۔ ظاہر ہے مجھے گھر تو بسانا ہی ہے۔”
”مگر جہاں زیب! مجھ پر ابھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں، میری بہن اور بھائی ابھی۔” اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”یار! تم اپنی فیملی کے بارے میں فکر مند مت ہو۔ میں سپورٹ کر سکتا ہوں انھیں، میری پے بہت اچھی ہے جتنی رقم کے لیے تم دوسرے شہر میں رہ کر سارا دن کام کرتی ہو۔ اتنی رقم میں بہت آسانی سے دے سکتا ہوں… اس لیے تمہیں اس معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ بہت مطمئن تھا۔
”میں یہ نہیں چاہتی جہاں زیب کہ تم میری فیملی کو سپورٹ کرو۔ یہ کام مجھے خود کرنا ہے کیونکہ وہ میری ذمہ داری ہیں تمہاری نہیں۔ میں انھیں تم پر یا کسی دوسرے پر بوجھ بنانا نہیں چاہتی۔” وہ اس کی بات پر سنجیدہ ہو گئی۔
”وہ مجھ پر بوجھ نہیں ہوں گے۔ تمہاری فیملی کے ساتھ ہمارے کیسے تعلقات ہیں، یہ تم اچھی طرح جانتی ہو اور ویسے بھی جب تمہارے بھائی اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے تو پھر انھیں ہم سے کچھ لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی صرف چند سال ہی کی تو بات ہے۔”
”نہیں چند سال کے لیے بھی نہیں… میں انھیں تمہارا احسان مند نہیں بنانا چاہتی۔ تم پہلے ہی میرے لیے بہت کچھ کر چکے ہو۔” امید نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”امید! میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔ یہ بات اپنے ذہن سے نکال دو۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور جو بھی میں نے کیا وہ فرض سمجھ کر کیا ہے۔”
”پھر بھی میں اپنی فیملی کو کسی دوسرے کی ذمہ داری بنانا نہیں چاہتی۔”
”اچھا یہ تو ہو سکتا ہے ناکہ تم شادی کے بعد بھی جاب کرتی رہو اور اپنی فیملی کو اپنی پے سے سپورٹ کرو۔” جہاں زیب نے بحث ختم کرنے کے لیے ایک تجویز پیش کی۔
”کیا تم جاب کی اجازت دے دو گے؟” وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی۔
”ہاں، جب تک تمہاری فیملی کو ضرورت ہے تب تک تو تم جاب کر سکتی ہو۔” جہاں زیب نے فوراً کہا وہ خاموش ہو گئی۔
ڈیڑھ ماہ بعد اس کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی تھی۔ وہ ویک اینڈ کے بعد واپس لاہور آ گئی۔ قدرتی طور پر وہ بہت پرُسکون اور خوش تھی۔ اس کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہونے والا تھا۔ اس نے ہاسٹل کی انتظامیہ کو آگاہ کر دیا تھا کہ وہ اگلے ماہ سے ہاسٹل چھوڑ رہی ہے ہاسٹل میں اس کی جن لڑکیوں سے واقفیت تھی وہ سب بھی جان گئی تھیں کہ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ جہاں زیب اکثر اسے فون کیا کرتا تھا۔ فون پر ہمیشہ کی طرح وہ اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتا شادی کے حوالے سے اپنے منصوبے بتاتا، کچھ دن پہلے کی ہونے والی تلخی کو وہ جیسے یکسر فراموش کر چکا تھا۔ امید کا خیال تھا کہ شاید دوبارہ وہ اسے کبھی باہر ملنے کے لیے نہیں کہے گا مگر اس کا خیال غلط تھا۔
*…*…*
وہ ایک دن پھر ہاسٹل چلا آیا اور اس نے ایک بار پھر اسے اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔ وہ دونوں ہاسٹل کے اندر گیٹ کے قریب لان میں موجود بینچ پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ ”جہاں زیب! میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے میں اس طرح تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی۔”
”کیوں اب تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ اب تو تمہیں اس ہاسٹل میں بھی نہیں رہنا میرے ساتھ شادی ہونے والی ہے۔”
”اسی لیے میں تمہارے ساتھ اس طرح پھرنا نہیں چاہتی۔”
”کیا تم مجھ پر اعتماد نہیں کرتیں؟”
”میں تم پر اعتماد کرتی ہوں، لیکن اس طرح باہر جانا مجھے ٹھیک نہیں لگتا۔”
جہاں زیب کچھ دیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے امید کا ہاتھ پکڑ لیا۔ امید کو جیسے ایک کرنٹ لگا اس نے آج تک کبھی ایسی حرکت نہیں کی تھی۔ امید نے بے اختیار اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
”جہاں زیب! تم کیا کر رہے ہو؟”
”کیا کر رہا ہوں؟ تمہارا ہاتھ پکڑا ہے۔ اب تم کہہ دو کہ یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔” اس نے تلخ لہجے میں کہا تھا۔
”میں ایسی لڑکی نہیں ہوں جہاں زیب۔”
”اب اپنی پارسائی کے بارے میں وعظ شروع مت کرنا، چار پانچ سال سے تم اس ہاسٹل میں ہو۔ سارا دن مردوں کے ساتھ کام کرتی ہو۔ میرے ہاتھ پکڑنے پر تم نے اس طرح ہاتھ کھینچا ہے۔ جہاں کام کرتی ہو وہاں پتا نہیں کتنے مردوں نے تمہارا ہاتھ پکڑا ہوگا۔” وہ بے یقینی سے جہاں زیب کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”کیا یہ الفاظ اس شخص نے کہے ہیں جس سے میں محبت کرتی ہوں؟” وہ فق چہرے کے ساتھ سوچ رہی تھی۔
”میرا ہاتھ کبھی کسی نے نہیں پکڑا۔ میں مردوں کے ساتھ صرف کام کرتی ہوں اور وہ بھی اس لیے کہ کام کرنا میری مجبوری ہے مگر میں آوارہ لڑکی نہیں ہوں۔”
”میں نے تم سے کہا ہے کہ مجھے اپنی پارسائی کے بارے میں کوئی وعظ مت دینا۔ میں یہ کبھی مان ہی نہیں سکتا کہ مردوں کے ساتھ کام کرنے والی کوئی لڑکی مکمل طور پر شریف ہو اور میں تم سے تمہاری شرافت یا پارسائی کا کوئی ثبوت مانگنے نہیں آیا۔ تم کیا کرتی رہی ہو۔ مجھے دلچسپی نہیں ہے میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں تمہارا ہاتھ پکڑوں تو تم ہاتھ نہ چھڑاؤ اور اگر میں یہ چاہوں کہ میرے ساتھ باہر چلو تو تم بغیر کچھ سوچے سمجھے میرے ساتھ چل پڑو۔ تمہارا منگیتر اور ہونے والے شوہر کی حیثیت سے میں اتنا حق تو رکھتا ہی ہوں کہ تم میری بات مانو اگر کوئی لڑکی ان لوگوں پر نوازشات کر سکتی ہے جن کے ساتھ وہ کام کرتی ہے تو پھر اپنے منگیتر پر کیوں نہیں؟”
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بڑی بے خوفی سے کہہ رہا تھا وہ اتنی ہی بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”تم جانتے ہو جہاں زیب! میں کس خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرے باپ نے مجھے کیسی تربیت دی ہے پھر تمہارے ذہن میں یہ شک کیوں ہے کہ یہاں آنے کے بعد میں یہاں یہ سب کچھ کرتی رہی ہوں؟” اس نے دل گرفتہ ہو کر اس سے پوچھا۔
”خاندان سے کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہی ماں باپ کی تربیت سے… آزادی انسان سے بہت کچھ کروا دیتی ہے۔ میں بھی پارسا نہیں ہوں۔ اتنا عرصہ باہر رہتے ہوئے میں بھی زندگی اپنی مرضی سے گزارتا رہا ہوں ہر چیز اپنی مرضی سے کرتا رہا ہوں۔”
”تم یہ سب کرتے رہے ہو گے مگر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ میں مسلمان ہوں میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس پر مجھے تمہارے، اپنے گھر والوں یا اللہ کے سامنے ندامت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ میرے مذہب میں جو چیز گناہ ہے اسے میں گناہ ہی سمجھتی ہوں اور اس سے بچتی رہی ہوں۔”
”مذہب بہت آؤٹ ڈیٹڈ چیز ہے۔ اس کا سہارا منافق لیتے ہیں۔”
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔
”تمہارا ذہن اتنا قدامت پرست ہے کہ تم آج کی دنیا میں چل نہیں سکتیں، مذہب کا سہارا لے کر جو اخلاقی اقدار تم اپنائے ہوئے ہو، وہ بہت پہلے ختم ہو چکی ہیں۔ زندگی میں سب سے ضروری چیز خوشی ہوتی ہے اور انسان کو چاہیے کہ خوشی حاصل کرنے کے لیے جو چاہے کرے۔ مذہب کی دیواریں اپنے گرد حائل مت کرے میں اپنی بیوی میں وہ ساری خوبیاں دیکھنا چاہتا ہوں جو کسی بھی لبرل، براڈمائنڈڈ عورت میں ہوں کیونکہ مجھے جس سوسائٹی میں موو کرنا ہے وہاں مجھے ایک ایسی ہی عورت چاہیے۔ تمہاری شرافت میرے کام آئے گی نہ تمہیں میرے ساتھ چلنے دے گی۔ آج بیٹھ کر میری باتوں پر سوچو، کل میں اسی وقت تمہیں لینے آؤں گا۔” وہ تلخی سے کہتا ہوا اٹھ کر چلا گیا۔
*…*…*
”تم احمق ہو، وہ ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ چلی جاؤ۔ ہو سکتا ہے اس طرح اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور تمہارا مسئلہ ختم ہو جائے۔” اس رات عقیلہ نے اس کی ساری باتیں سننے کے بعد کہا۔
”تم جتنا اس سے بچ رہی ہو۔ اس کی خفگی اتنی ہی بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے ایک بندہ اگر کسی سے محبت کرے، خاص طور پر اس کے لیے دوسرے شہر سے آئے اور اگلا بندہ ساتھ چلنے پر بھی تیار نہ ہو تو غصہ تو آئے گا۔”
امید نے بے بسی سے اپنے سر پر ہاتھ رکھ لیے۔
”امید! جہاں محبت ہو وہاں اس طرح کی فضول ضدیں نہیں ہونی چاہئیں۔ تمہاری تو ویسے بھی اگلے ماہ اس سے شادی ہونے والی ہے۔ اگر اس کی خواہش ہے کہ تم اس کے ساتھ کہیں گھومنے کے لیے چلو تو کیا برائی ہے؟ ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی منگیتر کے ساتھ کہیں تفریح کے لیے جائے۔ مگر تمہاری ضد تمہارے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہے اگر غصہ میں آ کر اس نے تم سے شادی سے انکار کر دیا تو تم کیا کرو گی؟”
”پلیز عقیلہ! اس طرح مت کہو۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ نو سال ہونے والے ہیں ہماری منگنی کو۔ اتنی چھوٹی سی بات پر تووہ اسے نہیںچھوڑ سکتا۔”
”بعض دفعہ رشتے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی ٹوٹتے ہیں۔”
”میں اس سے بہت محبت کرتی ہوں۔”
”اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ اس کی بات مان لو۔ وہ کھانے پر لے جانا چاہتا ہے۔ چلی جاؤ۔ وہ بھی خوش ہو جائے گا اور تم لوگوں کا جھگڑا بھی ختم ہو جائے گا۔”
عقیلہ اب سونے کے لیے لیٹ چکی تھی۔ لیکن امید سو نہیں پا رہی تھی۔ جہاں زیب کے بدلے ہوئے لہجے نے آج اسے بہت تکلیف دی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ کبھی وہ اس سے اس طرح کی باتیں کہہ سکتا تھا۔ کیا اسے یاد نہیں ہے کہ ہم دونوں کا تعلق کتنا پرانا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے تھے۔ اب ایک معمولی سی بات کو وہ اتنی اہمیت دے کر اس طرح کی باتیں کیوں کر رہا ہے۔ کیا ہمارا رشتہ اتنا کمزور ہے کہ اس کی ایک بات نہ ماننے کی وجہ سے ٹوٹ جائے گا اور میں… میں اب کیا کروں؟ کیا اس کے ساتھ چلی جاؤں یا پھر… اور اگر میں اس کے ساتھ نہیں جاتی تو کیا وہ واقعی منگنی توڑ دے گا؟
اسے جہاں زیب کا سرد لہجہ یاد آیا۔
”کیا عقیلہ کی بات مان لینی چاہیے۔ ایک بار اس کے ساتھ چلے جانا چاہیے پھر میں اس سے کہہ دوں گی کہ وہ مجھے دوبارہ اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرے۔ اس طرح اس کی ناراضی ختم ہو جائے گی۔” وہ کسی فیصلہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!