ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

پندرہ بیس منٹ کے بعد گھر میں خاموشی چھا گئی تھی۔ ملازم واپس کوارٹر میں جا چکا تھا اور ایمان واپس بیڈ روم میں نہیں آیا۔ اس کا مطلب تھا، وہ اسٹڈی میں جا چکا تھا۔ پندرہ بیس منٹ انتظار کے بعد وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ٹی وی آف کرنے کے بعد محتاط انداز میں بیڈ روم سے باہر آ گئی۔ لاؤنج کی لائٹ بند تھی۔ وہ کچھ مطمئن ہو کر اسٹڈی کی طرف بڑھ گئی۔ دروازے کے نیچے اسٹڈی روم میں جلنے والی روشنی باہر کوریڈور کو بھی روشن کر رہی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ جھک کر کی ہول سے اس نے اسٹڈی کے اندر کا منظر دیکھنے کی کوشش کی۔ اسٹڈی ٹیبل کا ایک کونہ نظر آ رہا تھا مگر کمپیوٹر اور سامنے پڑی ہوئی کرسی نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس نے اسٹڈی روم میں کوئی آواز سننے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اسٹڈی روم میں مکمل خاموشی تھی۔ وہ سیدھی ہو گئی۔
چند لمحے اس نے اپنی ناہموار سانس اور تیز دھڑکن پر قابو پانے کی کوشش کی پھر دروازے کی ناب پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ حتی المقدور احتیاط سے اس نے دروازے کی ناب گھما کر دروازہ کھول دیا۔ ایمان نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ کرسی خالی تھی وہ اسٹڈی کے ایک کونے میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ وہ چند لمحے ہل نہیں سکی۔ ”یہ نماز کیوں پڑھ رہا ہے؟ جب یہ…” اس کی وحشت میں اضافہ ہو گیا تھا۔
اسے ابھی بھی یاد تھا کہ اس کے آفس سے اسے یہی کہا گیا تھا کہ یہاں کوئی ایمان علی نہیں ہے اور ڈینیل ایڈگر کے بارے میں پوچھنے پر فوراً اسے معلومات فراہم کر دی گئیں اور ایمان علی نے اس سے کہا تھا کہ وہ آفس میں اپنا نام تبدیل کر چکا ہے۔ وہاں سب اسے ایمان علی کے نام سے ہی جانتے ہیں۔ پھر امریکہ کا وہ ویزا جو اس نے مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے حاصل کیا تھا۔ کون سے مذہب کی رسومات؟ اور ایمان کے انکل کا وہ بیان کہ ڈینیل نے مذہب تبدیل نہیں کیا بلکہ اس نے انھیں یہ بتایا تھا کہ اس نے امید کے ساتھ اس کی رضامندی سے یہ طے کیا تھا کہ دونوں اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں گے۔ اس کا ریزائن کرنا تب جب وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ بینک کا خالی اکاؤنٹ، رقم کا ٹرانسفر… اس کے ڈاکومنٹس کی عدم موجودگی، اس کے پیرنٹس کا جرمنی سے یکدم غائب ہو جانا۔ وہ کس کس ثبوت کو جھٹلا سکتی تھی۔ ایک ماہ سے اس کا رابطہ نہ کرنا۔ ہر چیز نے اسے مجبور کیا تھا کہ وہ یقین کر لے کہ ایمان اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
واحد چیز جو اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی وہ اس کی واپسی تھی۔ جب وہ اپنے سب کام نپٹا کر چلا گیا تھا تو واپس کیوں آیا تھا۔ اسے کون سی چیز پیچھے کھینچ لائی تھی اور وہ اتنا انتظار نہیں کر سکتی تھی کہ اس چیز کا کھوج لگاتی۔ وہ جلد از جلد اس سے چھٹکارا حاصل کر لینا چاہتی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ پھر غائب ہو جاتا اور اب… اب وہ یہاں اسٹڈی روم میں نماز پڑھ رہا تھا اور تب ہی ایک خیال نے اس کے وجود میں برقی رو دوڑا دی تھی۔
”کیا وہ جانتا تھا کہ میں یہاں آنے والی ہوں اور صرف مجھ پر ظاہر کرنے کے لیے اس نے ڈھونگ رچایا ہے؟” وہ ساکت ہو گئی۔ ”مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے آخر اسے کیسے پتا چل سکتا ہے کہ میں یہاں آنے والی تھی؟ کیا اس نے میری آہٹ سن لی تھی؟ مگر اسے آخر نماز پڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کہیں وہ… یہ تو نہیں جان گیا کہ میں اس کے بارے میں سب کچھ جان چکی ہوں؟ جب کچھ دیر پہلے میں نے اسے اس کے فریب، جھوٹ اور گناہ کا طعنہ دیا تھا تو کیا یہ سب کچھ سمجھ گیا تھا اور کیا اسی لیے ریوالور غائب ہونے پر اتنا محتاط ہو گیا تھا۔ کیا اسے خدشہ تھا کہ میں اس ریوالور سے اس پر حملہ کر سکتی ہوں اور پھر اس نے سوچا کہ اگر یہ سوئے گا تو… اور پھر اس نے اسٹڈی میں رہنے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ میں اسٹڈی میں آ سکتی ہوں اور پھر اس نے ایک بار پھر مجھے فریب دینے کی کوشش کی۔”
وہ ساکت کھڑی اسے نماز پڑھتے دیکھ کر کڑیوں سے کڑیاں ملا رہی تھی اور سب کچھ جیسے صاف ہوتا جا رہا تھا۔ ”تو اس کے علم میں سب کچھ آ چکا ہے اور اب ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بلائنڈ کھیل رہے ہیں۔ میں صبح سے اسے دھوکا دے رہی تھی اور اب یہ مجھے دھوکا دے رہا ہے۔”





اس کے چہرے پر ایک زہریلی مسکراہٹ ابھری۔ دروازہ بند کر کے وہ اسی طرح دبے قدموں شیلف کی طرف چلی گئی۔ شیلف کے پاس پہنچ کر کتابیں ہٹانے سے پہلے اس نے ایک بار محتاط نظروں سے پیچھے دیکھا تھا۔ وہ رکوع کی حالت میں تھا۔ اس نے مطمئن ہو کر چہرہ موڑ لیا۔ جن دو کتابوں کے پیچھے اس نے ریوالور رکھا تھا انھیں بڑی احتیاط سے اس نے نکال لیا۔ پھر وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت رہ گئی۔ ریوالور وہاں نہیں تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں کپکپاہٹ دیکھی۔ کیا اسے جال میں پھانستے پھانستے وہ خود اس کے جال میں پھنس گئی تھی اور اب جب میں پلٹ کر اسے دیکھوں گی تو وہ نماز چھوڑ کر اطمینان سے کھڑا مجھے دیکھ رہا ہوگا اور اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ہو گی۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے دونوں کتابیں اسی جگہ پر رکھ دیں۔ واپس پلٹنا شکست تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ مگر اسے پلٹنا تھا۔ بوجھل قدموں کے ساتھ وہ واپس پلٹی تھی اور ایک بار پھر ساکت رہ گئی۔ وہ اب سجدہ کر رہا تھا۔
”کس حد تک فریب دینا چاہتا ہے یہ مجھے… اب یہ جاننے کے باوجود بھی کہ میں سب کچھ جان چکی ہوں اور اسے قتل کر دینا چاہتی ہوں یہ پھر بھی مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے۔ میری آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔” وہ مشتعل ہو گئی تھی۔ وہ ایک بار پھر رکوع کی حالت میں تھا۔
تب ہی اس کی نظر اسٹڈی ٹیبل پر جم گئی۔ ریوالور اسٹڈی ٹیبل پر پڑا ہوا تھا۔ مزید کچھ سوچنے کے بجائے وہ اسٹڈی ٹیبل کی طرف آئی اور اس نے ریوالور اٹھا لیا۔ اپنے اندر اسے یک دم جیسے عجیب سی طاقت محسوس ہوئی تھی۔ ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹا ہوا تھا۔ وہ ریوالور اٹھا کر ایمان کی پشت پر آ گئی تھی۔ ایمان نماز پڑھنے کے دوران کمرے میں اس کی آمد اور سرگرمیوں سے بے خبر نہیں رہا ہوگا۔ یہ وہ جانتی تھی۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھا کر ایمان کی پشت کا نشانہ لیا تھا وہ سجدہ میں تھا۔ آنکھیں بند کر کے اس نے ٹریگر پر انگلی کا دباؤ بڑھا دیا مگر کوشش کے باوجود وہ گولی نہیں چلا سکی۔ اس نے کچھ بے بسی سے آنکھیں کھول دیں۔
”یہ شخص فریب کر رہا ہے… مجھے دھوکا دے رہا ہے مگر نماز پڑھ رہا ہے، جائے نماز پر ہے، میں اسے اس طرح گولی کیسے مار سکتی ہوں جب میں صبح سے مناسب وقت کا انتظار کر رہی ہوں تو چند منٹ انتظار کر سکتی ہوں… صرف چند منٹ ہی کی تو بات ہے۔”
وہ پیچھے ہٹ آئی۔ کتابوں کے شیلف سے ٹیک لگائے وہ ایمان کی پشت پر نظریں جمائے کھڑی رہی۔ وہ اب سلام پھیر رہا تھا۔ امید نے برق رفتاری سے ریوالور اپنی پشت پر چھپا لیا۔ سلام پھیرنے کے بعد اس نے بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا۔
”امید! تمہیں کوئی کام ہے؟” اس نے امید کو مخاطب کیا۔
”ہاں، مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔”
وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر گردن واپس موڑ لی۔ ”میں نماز ختم کر لوں پھر بات کرتا ہوں۔”
”نہیں، مجھے پہلے بات کرنی ہے۔ تم نماز چھوڑ دو اور اٹھ کر میری بات سنو۔”
”صرف آخری دو نفل رہ گئے ہیں، وہ مجھے پڑھ لینے دو۔ تم جانتی ہو، ہماری بات بہت لمبی ہو جائے گی اور میں نماز کو درمیان میں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا۔” اس نے نیت کر لی۔
اس نے زندگی میں کبھی کسی کو اتنی گالیاں نہیں دی تھیں جتنی اس نے اس وقت ایمان کو دل میں دیں۔ ”کیا ثابت کرنا چاہتا ہے یہ اپنی نماز سے مجھ پر… ابھی کیا باقی رہ گیا ہے؟ کون سی جنت کی تلاش میں ہے یہ…” اس کا خون کھول رہا تھا۔
اس نے دو نفل ادا کیے پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ وہ منتظر تھی کہ وہ دعا کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہو اور وہ اسے شوٹ کرے۔ دعا کرنے کے بعد اس نے کھڑے ہو کر جھک کر جائے نماز اٹھائی تھی اور اسے تہہ کرتے ہوئے امید کی طرف پلٹا تھا اور ساکت رہ گیا تھا۔ وہ اس پر ریوالور تانے ہوئے تھی۔ اس نے ایمان کی آنکھوں میں بے یقینی دیکھی تھی اور اگلے ہی لمحے وہ ٹریگر دبا چکی تھی۔
پھر اس نے ایک بار نہیں کئی بار ٹریگر دبایا تھا۔ کمرے میں کسی دھماکے کی آواز گونجی تھی نہ ایمان کے سینے پر گولیوں کا کوئی نشان نمودار ہوا تھا۔ ریوالور خالی تھا۔ اسے یقین نہیں آیا تھا۔ اسٹڈی میں ریوالور رکھتے ہوئے اس نے خود گولیاں چیک کی تھیں۔ ریوالور پوری طرح لوڈڈ تھا اور اب… تو یہ شخص گولیاں نکال چکا تھا اس لیے کہ میں…
”تم مجھے شوٹ کرنا چاہتی ہو؟” اس نے ایمان کے منہ سے سنا تھا وہ شاکڈ تھا۔
”ہاں میں مارنا چاہتی ہوں تمہیں اور مار دوں گی کیونکہ تم اسی قابل ہو۔” وہ بلند آواز میں چلائی۔ ایمان نے اسے کبھی چلاتے نہیں دیکھا تھا آج وہ دیکھ رہا تھا۔
”میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان چکی ہوں… ہر بات۔”
”میں نے تم سے ایسا کچھ نہیں چھپایا جس کے جاننے پر تم مجھے اس طرح قتل کر دینے کی کوشش کرتیں۔”
”جھوٹ مت بولو… مت بولو اتنا جھوٹ… کم از کم اب تو نہیں جب میں سب کچھ جان چکی ہوں۔” وہ حلق کے بل چلائی۔
”کیا جان چکی ہو تم؟” وہ ابھی تک شاک میں تھا۔
”تم اس قوم سے تعلق رکھتے ہو ڈینیل ایڈگر جو منافق ہے، دھوکہ باز ہے، جھوٹی ہے، کمینی ہے اور سازشوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔” اس کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔
”ڈینیل ایڈگر؟” ایمان نے بے یقینی سے زیر لب اپنا پرانا نام دہرایا۔
وہ کہہ رہی تھی۔ ”تم نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، وہ تمہارے خون میں رچا ہوا تھا۔ تم کو وہی کرنا تھا… آخر کو یہودی ہونا؟” وہ بدلتی رنگت کے ساتھ اسے دیکھتا رہا۔
”کیا سوچا تھا تم نے کہ میں تمہارے ساتھ گناہ کی زندگی گزارتی رہوں گی اور مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا اور پتا چلے گا تو بھی میں کچھ نہیں کروں گی۔ سمجھوتا کر لوں گی۔ ڈینیل ایڈگر تمہارا وجود مجھے کتنا گندا اور مکروہ لگ رہا ہے، اس کا اندازہ نہیں کر سکتے تم۔”
”میں ایمان علی ہوں، ڈینیل ایڈگر نہیں ہوں اور دوبارہ مجھے اس نام سے مخاطب مت کرنا۔” اس بار وہ مشتعل ہو گیا تھا۔
”نام بدلنے سے تمہارا کردار بدل جائے گا؟ نام بدل کر کس کو دھوکا دینا چاہتے ہو؟”
”میں یہودی ہوں… نہ ڈینیل ایڈگر ہوں اور اب تم مجھے اس نام سے پکارو گی تو میں تمہارے منہ پر تھپڑ ماروں گا۔” اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
امید نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ریوالور کھینچ کر اس کے ماتھے پر دے مارا۔ ایمان نے بچنے کی کوشش کی تھی مگر بچتے بچتے بھی ریوالور اس کی کنپٹی سے کچھ اوپر لگا۔ درد کی ایک لہر اس کے سر میں دوڑ گئی۔
”تم ڈینیل ہو۔ ایمان علی کبھی نہیں ہو سکتے۔”
وہ ہونٹ بھینچے یک دم آگے آیا۔ ”اب مجھے ڈینیل کہو۔” اس نے امید کو چیلنج کرتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں اسی نام سے پکاروں گی جو تم ہو، ڈینیل۔” اس کے منہ پر اتنے زور کا تھپڑ پڑا کہ وہ فرش پر گر پڑی۔
”کیا ثابت کرنا چاہتے ہو تم… یہ کہ تم بہت بڑے مسلمان ہو؟ میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان گئی ہوں۔ میرے منہ پر تھپڑ مارنے سے پہلے اپنے آفس کے لوگوں کے منہ پر تمہیں تھپڑ مارنا چاہیے جہاں سب تم کو ڈینیل کہتے ہیں۔ جہاں کوئی ایمان علی کو جانتا ہی نہیں ہے۔ ایمبیسی کے لوگوں کے منہ پر تھپڑ مارنا چاہیے جو تمہیں ڈینیل کہتے ہیں۔”
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ ایمان یک دم پیچھے ہٹ گیا۔
”اپنے سارے ڈاکومنٹس میں تم ڈینیل ایڈگر ہو تو صرف میرے لیے ایمان علی بننے کا ڈرامہ کیوں کیا۔ کیوں مجھے گندگی کی دلدل میں کھینچ لائے۔ مسلمان ہونے کا دھوکا کیا۔ فریب دیا اور اب مجھ سے جان چھڑا کر تم یہاں سے چلے جانا چاہتے ہو۔”
وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
”مجھے یقین نہیں آتا، کوئی شخص اتنا جھوٹا، اتنا ذلیل، اتنا بے ضمیر ہو سکتا ہے جتنا تم ہو۔ محبت کا فریب دے کر مجھ کو دوزخ میں پھینک دیا۔ اتنی جرأت ہونی چاہیے تھی تم میں کہ میرے سامنے کھڑے ہو کر مجھے بتاتے کہ تم مجھے چھوڑنا چاہتے ہو۔ اس طرح چوروں کی طرح فرار نہ ہوتے اور میرے ساتھ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی تم یہ توقع رکھتے ہو کہ میں تمہیں ایمان علی کہوں اور تمہاری اس سچائی پر یقین کروں جو تمہارے پاس ہے ہی نہیں۔”
”میں نے تم کو کوئی دھوکا دیا ہے نہ تمہیں چھوڑ کر بھاگا تھا۔ میں یہیں کھڑا ہوں تمہارے سامنے۔”
”تم کہاں گئے جرمنی یا امریکہ؟” اس کا خیال تھا ایمان کے چہرے کا رنگ اڑ جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا وہ خاموش رہا۔
”امریکہ کا ویزا لیا تم نے مذہبی رسومات میں شرکت کے لیے… کون سی مذہبی رسومات، یہودیوں کا سالانہ اجتماع… تم آفس کے کام سے گئے تھے مگر وہاں تو تم ریزائن کر چکے ہو… تم نے بینک میں اپنا اکاؤنٹ بند کر دیا… اس گھر سے تمہارے سارے ڈاکومنٹس غائب ہیں۔ جرمنی میں تمہارے پیرنٹس اپنا گھر بیچ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ کہاں گئے ہیں یہ صرف تم جانتے ہو۔ یہ گھر تم خالی کر رہے ہو مالک مکان کو انفارم کر چکے ہو۔ باہر پورچ میں کھڑی گاڑی کمپنی کی ہے جو اس ماہ کے ختم ہونے پر کمپنی واپس منگوا لے گی۔ اپنے ساتھ اپنی گرل فرینڈ کو بھی جرمنی لے کر گئے تھے۔ تم نے کہا تھا تمہارے سارے پیپرز میں تمہارا نام ایمان علی ہے… جھوٹ تھا یہ… تمہارے سارے پیپرز میں تمہارا نام اب بھی ڈینیل ایڈگر ہی ہے۔ اپنے انکل سے تم نے یہ کہا کہ تم نے میرے ساتھ کوئی ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور مذہب نہیں بدلا۔ ابھی بھی یہودی ہو اور یہ بات میں بھی جانتی ہوں لیکن مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں… تم مجھے ایک ہفتے کا کہہ کر جرمنی گئے تھے اور اس کے بعد یک دم رابطہ ختم کر دیا اور اب تم ایک ماہ بعد کس لیے آئے ہو۔ یہ میں نہیں جانتی مگر جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس کی حقیقت میں ضرور جانتی ہوں۔”
اس کا خیال تھا ایمان کے چہرے پر خوف ہوگا۔ شرمندگی ہوگی۔ وہ کوئی بہانا بنائے گا یا پھر معذرت کر لے گا۔ وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ سرد اور بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس سے یہی سب کچھ سننے کی توقع رکھتا ہو۔
”تمہیں چھوڑ کر چلا گیا، اس لیے تم نے مجھے شوٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔” اس کی آواز بھی اس کے چہرے کی طرح بے تاثر تھی۔
”مجھے تمہارے چھوڑ کر جانے کی پروا نہیں ہے نہ ہی میں نے تمہیں اس وجہ سے… تم نے مذہب بدلنے کا فریب دے کر مجھ سے شادی کی۔ میں تمہیں تمہارے اس گناہ کے لیے مارنا چاہتی ہوں اور صرف تمہیں ہی نہیں، خود کو بھی۔”
ایمان ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی کنپٹی سے بہنے والا خون اب اس کی شرٹ کو بھگو رہا تھا مگر وہ اس زخم کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
”کچھ اور کہنا چاہتی ہو تو وہ بھی کہو۔ میرا کوئی اور جھوٹ، اور فریب اور گناہ بھی میرے سامنے لاؤ… یا پھر کوئی اور الزام ہو تو وہ بھی لگا دو… آج سننا چاہتا ہوں کہ تمہارے دل میں میرے لیے کتنا زہر ہے۔ کتنی نفرت ہے۔ کتنی بداعتمادی ہے۔”
وہ تیز اور بے ترتیب سانس کے ساتھ مشتعل نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔
”امید! تمہیں مجھ سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں تھا، نہ ہی اب ہے۔”
”ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔ مجھے تم جیسے گھٹیا اور ذلیل آدمی کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہیے تھی۔”
ایمان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”تم نہیں جانتے، اس ایک ماہ میں تم سے شادی کے فیصلے پر میں کتنا پچھتائی ہوں۔ تم نے میری پوری زندگی تباہ کر کے رکھ دی۔ میرے سارے خوابوں، ساری خواہشوں کو کوڑے کا ڈھیر بنا دیا اور میرے وجود کو ایک گٹر…”
”میں نے یا جہاں زیب نے؟” وہ اس کے الفاظ پر ساکت رہ گئی تھی۔ وہ بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا۔
”اس کا نام مت لو۔” وہ غرائی۔
”کیوں نہ لوں؟ میں نے تمہارا سچ سنا ہے ،اب تم میرا سچ سنو۔ تمہاری زندگی میں نے تباہ نہیں کی جہاں زیب نے کی۔ اس دن جس دن وہ تمہیں چھوڑ کر چلا گیا۔”
”اس کا نام مت لو۔” وہ یک دم چلائی۔
”کیوں تکلیف ہوتی ہے؟ یا وہ یاد آنے لگتا ہے؟ اور کیا فریب دیا ہے میں نے؟ کس گناہ کی دلدل کی بات کر رہی ہو؟ تم وہ عورت ہو جس سے محبت کی ہے میں نے اور پھر شادی کی ہے… تمہارا بچہ میرا بھی بچہ ہے، میں اپنی بیوی اور بچہ چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتا۔ تمہاری جگہ کوئی ایسی عورت بھی ہوتی جس سے مجھے محبت نہ ہوتی وہ صرف میری گرل فرینڈ ہوتی۔ تب بھی میں اس گرل فرینڈ اور اپنے بچے کو چھوڑ کر بھاگتا نہیں۔ میں بے ضمیر نہیں ہوں… میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے تم سے جھوٹ نہیں بولا۔ میں نے تم سے جھوٹ بولے ہیں۔ کچھ مصلحت کی خاطر اور کچھ تمہیں پریشانی سے بچانے کے لیے۔ مگر تم کو سچ سننا ہے تو سنو۔ ہاں میں امریکہ گیا تھا۔ پہلے جرمنی پھر امریکہ۔ میں نے ویزا کی درخواست مذہبی رسومات میں شرکت کی وجہ بتا کر دی۔ مگر مذہبی رسومات میں جنازے میں شرکت بھی شامل ہے۔ میں یہودیوں کے کسی اجتماع میں شرکت کرنے نہیں گیا تھا۔ میں اپنے ایک فیملی فرینڈ کی آخری رسومات میں شریک ہونے کے لیے گیا تھا۔ میرے ماں باپ گھر بیچ کر غائب نہیں ہو گئے۔ میں نے اپنے ماں باپ کو ایک دوسری جگہ گھر خرید دیا ہے۔ پرانا گھر بیچ دیا۔ میں نے تم سے یہ کہا کہ آفس کے کام سے جا رہا ہوں جبکہ میں ریزائن کر چکا تھا؟ ہاں میں نے ریزائن کر دیا کیونکہ میرے کچھ اختلافات تھے جس کمپنی میں، میں کام کرتا ہوں، وہ بنیادی طور پر یہودیوں کی ہے اور میں یہاں اس کمپنی کی برانچ میں بہت اہم عہدے پر کام کر رہا تھا۔ میرا مسلمان ہونا اور میرے نام کی تبدیلی ان کے لیے ایک بہت بڑا شاک ہوتی اس لیے میں نے اس بات کو چھپائے رکھا مگر ابھی کچھ عرصے سے میرے بارے میں کچھ افواہیں ان تک پہنچی تھیں۔ شاید میں اب بھی ان کو یہ یقین دلا دیتا کہ یہ صرف افواہیں ہی ہیں مگر اب کچھ چیزیں بدل گئی ہیں۔
میں چاہتا تھا میرا بچہ جب اس دنیا میں آئے تو اسے کسی Identity Crisis (تشخص کا بحران) کا شکار ہونا نہ پڑے۔ میں مسلم ہوں تو مجھے ایک مسلم کے طور پر پہچانا جانا چاہیے۔ میں تمہارے اور اپنے بچے کے لیے کوئی مسائل کھڑے کرنا نہیں چاہتا تھا کوشش کر رہا تھا ہر چیز صحیح جگہ پر آ جائے اس لیے میں نے ریزائن کر دیا۔”
وہ دم بخود اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ تم پریشان ہوگی۔ چند ہفتوں تک میرے پاسپورٹ اور دوسری ڈاکومنٹس میں بھی تم میرا تبدیل شدہ نام اور مذہب دیکھ لو گی کیونکہ میں اس کے لیے اپلائی کر چکا ہوں۔ اپنے سارے ڈاکومنٹس لے کر فرار نہیں ہوا۔ اس لیے ساتھ لے کر گیا تھا کیونکہ مجھے جاب کے لیے کچھ جگہوں پر اپلائی کرنا تھا۔ یہاں کچھ ملٹی نیشنل کمپنیز سے میری بات ہوئی مگر مجھے انٹرویو کے لیے ان کے ہیڈ آفس ہی جانا پڑا۔ بنیادی طور پر میں اسی لیے جرمنی اور امریکہ گیا تھا… بینک اکاؤنٹ اس لیے بند کروا دیا کیونکہ وہ کمپنی کی طرف سے کھلوایا گیا تھا۔ اس میں جو روپیہ تھا اس سے میں نے اپنے پیرنٹس کو جرمنی میں ایک نسبتاً بہتر جگہ پر گھر خرید دیا۔ وہ لوگ کہیں غائب نہیں ہوئے۔ یہ سچ ہے کہ میں گھر چھوڑ رہا ہوں۔ گاڑی بھی کمپنی واپس لے لے گی… تو؟ باہر جانے سے پہلے تمہیں فٹ پاتھ پر تو نہیں چھوڑ کر گیا۔”
اس کی آواز میں تلخی تھی۔
”یا تمہیں کسی نے گھر سے نکالا؟ اور میں گھر خالی کرنے کی ڈیٹ سے پہلے واپس آ چکا ہوں۔ تمہیں اگر نہیں بتایا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تمہیں اب بھی جہاں لے کر جاؤں گا، وہ اتنا ہی اچھا گھر ہوگا۔ اس لیے تمہیں اس کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں تھی اور کس گرل فرینڈ کی بات کر رہی تھیں تم… سمانتھا کی؟”
اس کے چہرے پر اب ایک تلخ مسکراہٹ تھی۔
”ہاں، وہ میرے ساتھ جرمنی ضرور گئی تھی مگر میں اس کو لے کر بھاگا نہیں تھا، یہ ایک اتفاق تھا کہ اسے بھی ان ہی دنوں واپس جانا تھا۔”
امید کو لگ رہا تھا کہ اس کا وجود آہستہ آہستہ سرد ہوتا جا رہا تھا۔
”تم سے رابطہ ٹوٹنے کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ امریکہ میں… سڑک پر جاتے ہوئے دو آدمیوں نے مجھ پر حملہ کیا۔ میرا والٹ لے گئے اور میرے سر کی پشت پر کوئی چیز ماری۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ مجھے یاد نہیں۔ ہاسپٹل میں کئی دن کے بعد مجھے ہوش آیا اور اس دوران وہ لوگ میرے بارے میں کچھ بھی نہیں جان سکے۔ کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ہوش میں آنے کے بعد بھی مجھے ٹھیک سے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔ میری یادداشت ٹھیک تھی مگر میں سب کچھ بھول جاتا تھا۔ یاد کرتے کرتے، نارمل ہوتے ہوتے کچھ اور دن لگ گئے۔ اس کے بعد جب میں نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو تم یہاں نہیں تھیں۔ راولپنڈی کا نمبر میرے والٹ میں تھا، اس لیے میں وہ بھی کھو بیٹھا۔ وہاں بھی تم سے رابطہ نہیں کر سکا۔ مگر میں نے سوچا کہ تم یہی سمجھی ہوگی کہ میں کچھ مصروفیات کی وجہ سے تم سے رابطہ نہیں کر پایا۔ اس لیے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔”
”ہاں یاد آیا۔ تم انکل کی بات کر رہی تھیں۔ میں نے ان سے جھوٹ بولا تھا۔ امید! میں اپنے ماں باپ سے بہت محبت کرتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ اس خبر سے انھیں تکلیف پہنچے۔ میرے مذہب تبدیل کرنے کا اعلان انھیں رشتہ داروں کی نظروں میں بہت بے عزت کر دیتا۔ وہ لوگ ان کا بائیکاٹ کر دیتے۔ وہ میرے ساتھ صرف اس لیے کبھی نہیں رہے کیونکہ وہ بڑھاپے میں اس علاقے میں رہنا چاہتے تھے جو ہمارا آبائی علاقہ ہے، جہاں ہمارے سارے رشتہ دار ہیں اور وہ لوگ میرے مذہب تبدیل کرنے پر ان سے بھی ناراض ہوتے اس لیے میں نے انکل سے جھوٹ بولا بلکہ سب سے ہی۔ مگر یہ جھوٹ میں اب نہیں بولنا چاہتا تھا کیونکہ اب مجھے اپنی اولاد کے بارے میں بھی سوچنا تھا۔”
وہ بات کرتے کرتے جیسے کچھ تھک کر رک گیا۔ امید بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!