ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

وہ بہت آہستہ آہستہ آنکھیں کھول رہا تھا اور ہوش میں آنے کے ساتھ ہی سب سے پہلا احساس سر کے پچھلے حصے میں ہونے والی شدید تکلیف کا تھا۔ ایک کراہ کے ساتھ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ پھر اس نے اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا، کوئی اس کے بہت قریب جھکا ہلکی آواز میں کہہ رہا تھا۔
”تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟” اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی، وہ دوبارہ آنکھیں کھولنے میں کامیاب رہا، بیڈ کے کنارے اسے چند ہیولے سے نظر آئے۔ اس نے انھیں دیکھنے ان پر نظر جمانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ درد بہت شدید تھا۔ اس نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں اور کراہنے لگا۔
”تمہارا نام کیا ہے؟” اب اس سے کچھ اور پوچھا گیا، وہ چند لمحے اسی طرح آنکھیں بند کیے کراہتے ہوئے اپنا نام سوچتا رہا پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک اسپارک ہوا اور اسے اپنا نام یاد آ گیا۔ بے اختیار اس نے مدہم آواز میں اپنا نام بتایا۔
”تمہارے گھر کا فون نمبر کیا ہے؟”
اب اس سے ایک اور سوال کیا گیا۔ اس نے ایک بار پھر فون نمبر یاد کرنے کی کوشش کی، مگر وہ یاد نہیں کر سکا۔ اس کا ذہن منتشر تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر کراہتا رہا۔
”تمہارے گھر کا فون نمبر کیا ہے؟” اس سے ایک بار پھر پوچھا گیا۔
”یاد نہیں۔” اس نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا۔
”آفس کا فون نمبر بتا سکتے ہو؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس سے دوبارہ پوچھا گیا۔
اس نے ایک بار پھر اپنے منتشر ذہن کو ایک جگہ مرکوز کرنے کی کوشش کی، ایک بار پھر وہ ناکام رہا۔ اسے آفس کا فون نمبر بھی یاد نہیں آیا۔
”آفس کا فون نمبر بتا سکتے ہو؟”
”نہیں” اس بار اس نے کہا۔
”سوچنے کی کوشش کرو، یاد کرو۔” اس بار اس کا کندھا تھپتھپا کر اس سے کہا گیا۔
”مجھے یاد نہیں۔” اس کے درد کی شدت میں یک دم اضافہ ہو گیا۔
”کیا تم جانتے ہو، تم کہاں ہو؟”
اس نے آنکھیں کھول کر سوال کرنے والے کے چہرے کو شناخت کرنے کی کوشش کی وہ اسے پہچان نہیں سکا، چہرہ شناسا نہیں تھا۔ صرف ایک لمحے کے لیے وہ آنکھیں کھلی رکھ سکا پھر اسے دوبارہ آنکھیں بند کرنی پڑیں۔
”ہاسپٹل۔” ذہن پر چھانے والی تاریکی سے پہلے اس نے بہت ہلکی آواز میں اٹکتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد وہ کچھ بول نہیں سکا۔
”یہ دوبارہ بے ہوش ہو گیا ہے۔” اس کے پاس کھڑے ڈاکٹر نے اس کی نبض دیکھتے ہوئے کہا۔
”کہیں یہ پہلے کی طرح پھر کوما میں تو نہیں چلا جائے گا؟” ساتھ کھڑی نرس نے خدشہ ظاہر کیا۔
”نہیں، اب یہ کوما میں تو نہیں جائے گا۔ میرا خیال ہے آدھے گھنٹہ تک یہ دوبارہ ہوش میں آ جائے گا۔” ڈاکٹر نے نرس سے کہا۔
”اپنے بارے میں یہ اب بھی نام کے علاوہ کچھ نہیں بتا سکا۔ تو پولیس اس کے گھر کیسے اطلاع دے گی؟” نرس نے ڈاکٹر سے پوچھا۔
”مجھے نہیں پتا… یہ ان کا معاملہ ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ کر ہی لیں گے۔ ہمارا کام صرف اس کی جان بچانا تھا۔ وہ ہم کر چکے ہیں۔” اس بار ڈاکٹر نے قدرے لاپروائی سے کہا۔ نرس نے جواب میں کچھ کہے بغیر ایک نظر مریض کو دیکھا اور پھر ڈاکٹر کے پیچھے کمرے سے نکل گئی، کمرے میں اب اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔
*…*…*





”محبت تاریک جنگل کی طرح ہوتی ہے، ایک بار اس کے اندر چلے جاؤ پھر یہ باہر آنے نہیں دیتی۔ باہر آ بھی جاؤ تو آنکھیں جنگل کی تاریکی کی اتنی عادی ہو جاتی ہیں کہ روشنی میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتیں… وہ بھی نہیں جو بالکل صاف، واضح اور روشن ہوتا ہے۔”
اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اب وہ یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس نے یہ سب کس سے کب کہا۔ اسے یاد تھا اس نے یہ سب کس سے کب کہا تھا۔
”ہاں جنگل ہی تو ہے جس کے اندر میں آ گئی ہوں نہ باہر نکل سکتی ہوں نہ اندر رہ سکتی ہوں۔ اندر رہنے پر میرے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ باہر جانے پر میں آنکھیں رکھتے ہوئے بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہوں گی، بالکل ویسے ہی جیسے ان پانچ سالوں میں ہوا تھا جب میں…”
”امید! امید!” اس کی سوچوں کا تسلسل امی کی آواز سے ٹوٹ گیا۔
”یہاں اندھیرے میں کیوں بیٹھی ہو؟”
”میرا دل چاہ رہا ہے امی! یہاں بیٹھنے کو… اندر تو بہت گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔” اندھیرے میں اس کے چہرے پر پھسلتی ہوئی نمی امی کو نظر نہیں آ سکی اور اس کی آواز سے کوئی کبھی یہ نہیں جان سکتا تھا کہ وہ رو رہی تھی۔
”گھٹن حبس کی وجہ سے ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں آندھی آ جائے گی اور پھر بارش ہوگی تو موسم ٹھیک ہو جائے گا۔” وہ اندازہ نہیں کر سکی کہ وہ کسے تسلی دے رہی تھیں۔
”میں صحن کی لائٹ جلا دوں؟” اب وہ ایک بار پھر اس سے پوچھ رہی تھیں۔
”نہیں، اندھیرے میں بہت سکون مل رہا ہے۔ روشنی پریشان کرے گی۔” اس نے گردن موڑے بغیر انھیں جواب دیا تھا۔
”اور اگر انھیں پتا چل جائے کہ میں کیا کر بیٹھی ہوں یا میرے ساتھ کیا ہو چکا ہے تو شاید یہ ساری عمر مجھے تاریکی میں ہی رہنے دیں۔” اس نے ان کے اگلے جملے پر سوچا تھا۔
”ایک تو تمہاری عادتیں بھی بہت عجیب ہیں۔ بھلا روشنی کیسے پریشان کرے گی؟” وہ اب بھی اس کی پشت پر کھڑی تھیں۔ ”اس طرح اندھیرے میں بیٹھنا کوئی اچھی بات تو نہیں ہے۔” وہ ایک بار پھر کہہ رہی تھیں۔
”بس تھوڑی دیر بیٹھنے دیں، پھر میں اٹھ جاؤں گی۔” اس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ انھیں یقین دلایا۔
”اچھا اور کھانا؟ کھانا کب کھاؤ گی؟” وہ اب دوسری بات پر پریشان ہو رہی تھیں۔
”کچھ دیر بعد۔” اس نے کہا۔
”میں اندر جا رہی ہوں۔ تم بھی جلدی اندر آ جاؤ۔ ٹھیک ہے؟” وہ کسی بچے کی طرح اس سے یقین دہانی چاہ رہی تھیں۔
وہ خاموش رہی۔ اس کی پشت پر قدموں کی چاپ ابھری۔ وہ اب واپس اندر جا رہی تھیں۔
”کاش اس وقت وہ میری پشت پر کھڑی نہ ہوتیں، میرے سامنے آ جاتیں، میرے آنسوؤں کو دیکھ لیتیں پھر مجھ سے وجہ پوچھتیں یا پھر میری آواز سے ہی کچھ اندازہ کر لیتیں پھر میں ان کو سب کچھ بتا دیتی سب کچھ ایک ایک بات ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف، وہ سب جو میں آج تک کسی سے کہہ نہیں سکی، جسے چھپانے کے لیے مجھے اپنے وجود کو ایک قبر بنانا پڑا ہے۔”
وہ اسی طرح صحن میں پڑی کرسی پر بیٹھی سوچتی رہی۔
”مگر اس نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟ میں نے تو… میں نے تو۔” وہ کچھ سوچتے سوچتے ایک بار پھر رک گئی۔
”ہاں مخلص تو میں بھی نہیں رہی، میں نے بھی اسے ہمیشہ For granted لیا۔مگر میں نے اس سب کی خواہش تو نہیں کی تھی اور پھر اب، اب جب میں۔”
اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ آنسو اب اس کی گردن پر پھسلتے ہوئے قمیص کے گریبان میں جذب ہو رہے تھے۔
ہوا ایک دم تیز ہو گئی، اس نے فضا میں گرد محسوس کی، صحن میں لگے ہوئے درخت بہت تیزی سے ہل رہے تھے۔ ہوا میں اڑنے والے پتے اب اس سے ٹکرانے لگے تھے۔ وہ بے جان قدموں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اندر کمرے میں آ کر اس نے دروازہ بند کر لیا، بیڈ پر لیٹ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
اسے وہاں آئے کتنے دن ہو گئے تھے۔ اسے یاد نہیں تھا۔ وہ کوشش کے باوجود بھی وہاں سے واپس جانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
”تمہاری عادتیں بہت خراب ہو گئی ہیں۔ اس بار اسے آنے دو، میں بات کروں گی اس سے کہ تمہیں کچھ کہتا کیوں نہیں اپنی مرضی کرتی رہتی ہو۔”
وہ امی کی باتوں کو خالی ذہن کے ساتھ سنتی رہی۔
”تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہیے، اس طرح کی لاپروائی تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔” وہ چپ چاپ ان کا چہرہ دیکھتی رہتی۔
آنکھیں بند کیے اس نے اپنی پوری زندگی کو دیکھنے کی کوشش کی، کون سی چیز کہاں غلط تھی اس سے کب کون سی غلطی ہوئی تھی… غلطی؟ کیا واقعی مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ زندگی میں جس Code of ethics (اخلاقی قدروں) کو لے کر میں چلتی رہی، کیا وہ غلط تھا؟ اور اب… اب میں کس سے کون سی اخلاقیات کی بات کرنے کے قابل رہی ہوں۔ اس نے تکلیف سے سوچا۔
*…*…*
اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ تلاوت کی جا رہی تھی اور کرنے والے سے وہ اچھی طرح واقف تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ابھی چند منٹوں کے بعد یہ آواز اسے جگا رہی ہوگی، وہ موندی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے جماہی کو روکا۔
”پتا نہیں ڈیڈی کس طرح اتنی صبح اٹھ جاتے ہیں یا شاید یہ رات کو سوتے ہی نہیں۔”
اس نے بیڈ سے اترتے ہوئے تجزیہ کیا ساتھ والے بیڈ سے اس نے عدیلہ کو جھنجھوڑ کر اٹھایا پھر وہ اٹھ کر اپنے کمرے سے باہر آ گئی۔
”ویری گڈ! آج تو بغیر جگائے ہی بیداری ہو گئی۔” میجر عالم جاوید نے اپنی بیٹی کو جماہیاں لیتے ہوئے کمرے سے باہر آتے دیکھ کر کہا۔
”ہاں تو میں نے سوچا، اس سے پہلے کہ آپ اندر آئیں۔ میں خود ہی آ جاؤں۔” وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
”اب اتنی ہمت کر لی ہے تو اٹھو اور وضو کر کے نماز بھی پڑھ لو۔” انھوں نے قرآن پاک بند کرتے ہوئے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ کہے بغیر اٹھ گئی۔
وہ میجر عالم جاوید کی سب سے بڑی بیٹی تھی اس سے چھوٹی عدیلہ تھی اور پھر دو جڑواں بھائی۔ وہ صرف ان کی بڑی بیٹی ہی نہیں تھی، بلکہ ان کی بہت زیادہ لاڈلی بھی تھی۔ اس کے مزاج میں میٹرک میں آنے کے باوجود بہت زیادہ بچپنا تھا اور اس کی بنیادی وجہ میجر عالم جاوید کا لاڈ پیار تھا۔ بچپن میں میجر عالم جاوید جب بھی گھر پر ہوتے وہ ان کی گود میں چڑھی رہتی۔ اس کا اب بھی یہی حال تھا جب تک وہ گھر پر رہتے۔ وہ سائے کی طرح ان کے ساتھ لگی رہتی۔ وہ ماں کے بجائے اپنا ہر کام باپ سے کروانے کی عادی تھی۔ کتابوں پر کور چڑھانے کا کام ہو۔ لنچ باکس تیار کروانا ہو یا پھر بال سنوارنے کا خالص زنانہ کام امید اپنے سارے کام باپ سے ہی کرواتی تھی اور شاید اس عادت کو ڈالنے میں بھی بڑا ہاتھ میجر عالم جاوید کا ہی تھا۔ انھوں نے بچپن سے ہی اس کا ہر کام خود کیا تھا اور اب یہ حالت ہو گئی تھی کہ اپنی ماں کی ناراضی کے باوجود وہ سارے کام باپ سے ہی کرواتی۔ جب عالم جاوید ایکسر سائز پر گئے ہوتے تو امید کے سوا کسی کو مشکل پیش نہیں آتی تھی صرف وہ تھی جو اپنا ہر کام رو رو کر کیا کرتی تھی کیونکہ اسے عادت ہی نہیں تھی کوئی دوسرا بھی اس کا کوئی کام کرتا تو وہ مطمئن نہ ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اس کی امی خفا ہو کر اس کا کوئی کام نہ کرتیں اور بیٹ مین کو بھی منع کر دیتیں۔
باپ کے واپس آنے پر وہ یہ سب کچھ باپ کو بتاتی اور وہ اگلے کئی دن جیسے تلافی کے طور پر اس کا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی خود ہی کرتے۔
امید نے اپنے باپ کو بہت مذہبی دیکھا تھا۔ وہ باقاعدہ پانچ وقت کی نماز پڑھا کرتے تھے اور بہت چھوٹی سی عمر میں انھوں نے اسے بھی نماز کی عادت ڈال دی تھی۔ وہ ساتھ رکھتے ہوئے اسے مذہب کے بارے میں بہت کچھ بتایا کرتے تھے۔ وہ کچھ باتوں کو سمجھ جاتی کچھ کو سمجھ نہ پاتی مگر خاموشی سے سنتی رہتی۔
*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!