ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

چند دن بعد رات کو معین اس کے پاس آیا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے کہا۔
”میرا دو ست سکندر ایمان علی کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہے۔ ان کے دوست سعود ارتضیٰ کا چھوٹا بھائی اس کا دوست ہے، وہ کہہ رہا تھا کہ ایمان بہت اچھا آدمی ہے۔” کچھ ہچکچاتے ہوئے اس نے بات شروع کی۔
”مگر مجھے کسی غیر ملکی کے ساتھ شادی نہیں کرنی۔”
”آپا! اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ مسلمان ہیں۔ بہت اچھی پوسٹ پر ہیں۔ ان کی اپنی فیملی بہت اچھی ہے اور پھر بہت سالوں سے یہاں ہیں… آپ کو پتا ہے۔انھوں نے آپ کی وجہ سے مذہب تبدیل کیا ہے۔”
”مگر مجھے پھر بھی شادی نہیں کرنی ہے۔ صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے والا شخص کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتا۔”
”آپا! یہ کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے امی سے بھی بات کی ہے، وہ بھی آمادہ ہو گئی ہیں۔ سکندر کہہ رہا تھا کہ سعود کے گھر والے ہر قسم کی گارنٹی دینے کو تیار ہیں۔ میں نے ایمان علی کی تصویر دیکھی ہے۔ وہ مجھے دیکھنے میں بہت اچھے لگے ہیں۔ آپ کو اس سے اچھا پرپوزل نہیں مل سکے گا۔” وہ اب خاصی بے تکلفی سے بات کر رہا تھا۔
”تم اس بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرو۔ میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی بلکہ میں کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ تم میری جان چھوڑ دو۔” وہ یک دم غصے میں آ گئی۔ معین اٹھ کر چلا گیا۔
پھر اگلے کئی ہفتے یہی تماشا ہوتا رہا۔ سعود ارتضیٰ پتا نہیں کس کس جاننے والے کے توسط سے ان پر دباؤ ڈالتا رہا۔ اس کے بھائیوں کے دوست، ان کے کچھ محلے والے، رشتے دار، امی کے کچھ جاننے والے لوگ۔ وہ پتا نہیں کس طرح سرنگیں بنا رہا تھا۔ چند ہفتے بعد گھر میں اس کے علاوہ سب اس رشتے پر آمادہ تھے، صرف وہ تھی جو اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی۔
”مجھے کسی غیر ملکی نو مسلم سے شادی نہیں کرنا۔ اور اس شخص سے تو کسی صورت نہیں۔” وہ ہر بات کے جواب میں یہی کہتی۔
”میں شادی ہی کرنا نہیں چاہتی، آپ مجھے اس طرح پریشان نہ کریں ورنہ میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔”
وہ زچ ہو چکی تھی۔ وہ اپنے گھر آنے والی سعود ارتضیٰ کی بیوی اور ماں کے سامنے جا کر بھی ایک بار انکار کر چکی تھی۔ اس کے بعد وہ لوگ ان کے گھر نہیں آئے مگر پھر بالواسطہ طور پر مختلف لوگوں کے ذریعے وہ ان پر دباؤ ڈالنے لگے تھے۔ اسے اس دباؤ اور اصرار سے اور چڑ ہونے لگی تھی۔ شاید اس کی یہ ضد اسی طرح جاری رہتی اگر اس کی ملاقات ڈاکٹر خورشید سے نہیں ہوتی۔
*…*…*





جس دن وہ اس کے گھر آئے تھے، اس دن اس کی امی نے اسے آ کر ان سے ملنے کے لیے کہا تھا۔ امید نے سوچا تھا کہ شاید وہ اس کے بھائی کے کسی دوست کے والد ہیں کیونکہ اس کا بھائی ہی انھیں اپنے گھر لے کر آیا تھا۔ وہ حیران ہوئی کہ امی اسے ان سے کیوں ملوانا چاہتی ہیں۔ اس حیرانی میں وہ ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔ ڈاکٹر خورشید اس کے کمرے سے داخل ہوتے ہی کھڑے ہو گئے۔ اس کو اپنے لیے ان کا کھڑا ہونا کچھ عجیب لگا۔ وہ خاموشی سے کچھ کہے بغیر سلام دعا کے بعد صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کے بھائی نے ڈاکٹر خورشید کے بارے میں اسے کچھ بتایا تھا۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی۔ اسے دلچسپی نہیں تھی کہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے پاس کتنی ڈگریاں اور کتنا علم ہے۔ وہ کتنے ملکوں سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہے یا کتنی زبانیں بول لیتا ہے۔ اس کے گھر آنا اس کے لیے کتنا بڑا اعزاز تھا۔ اسے اس سے بھی کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ صرف کچھ وقت وہاں بیٹھ کر وہاں سے واپس چلی جانا چاہتی تھی۔
”آپ کے بھائی نے میری کچھ زیادہ تعریف کر دی… میں صرف ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ اس کے علاوہ میری اور کوئی قابلیت نہیں ہے۔” اس کے بھائی کے خاموش ہونے کے بعد ڈاکٹر خورشید نے کہا۔ وہ اب بھی خاموش رہی۔
”یا اب یہ سمجھ لیں کہ ایک اور اعزاز ہمیں یہ حاصل ہو گیا ہے کہ ایک ایسی لڑکی کو دیکھ رہا ہوں جس کے لیے کوئی ایمان حاصل کر لے۔”
وہ ان کے اگلے جملے پر ساکت ہو گئی۔
”ڈینیل ایڈگر کا ایک اور سپورٹر۔” اس نے تلخی سے سوچا۔ خفگی اور غصے کی ایک لہر اس کے اندر دوڑ گئی۔ ”اب مجھے باہر کے لوگ آ کر میری زندگی کے سب سے اہم فیصلے کے بارے میں مشورے دیں گے اور میرے گھر والے ان کی مدد کریں گے۔”
وہ سرد نظروں سے ڈاکٹر خورشید کو دیکھتی رہی۔
”امید عالم! آپ کا نام بہت خوبصورت ہے۔ آپ اپنے نام سے بڑھ کر خوبصورت ہیں اور آپ کی قسمت ان دونوں چیزوں سے بھی زیادہ روشن ہے۔” وہ اب اس سے نرم آواز میں کہہ رہے تھے۔
”میری قسمت کتنی روشن ہے۔ کیا میرے علاوہ کوئی یہ بات جان سکتا ہے۔” ایک بار پھر اس نے تلخی سے سوچا۔ اس کا بھائی یک دم چائے لانے کے لیے اٹھ کر چلا گیا۔
”مجھے ایک بات بتائیں۔ آپ اتنے بڑے اسکالر ہیں۔ آپ تو بہت علم رکھتے ہیں۔ دنیا کا بھی دین کا بھی۔ آپ بتائیں صرف شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے والا شخص کتنا قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے اور کوئی مسلمان لڑکی ایسے شخص سے شادی کرنے کا جوا کیوں کھیلے، جس کے عقیدے کے باطل ہو جانے کا اسے شک ہو اور مجھے یہ بھی بتائیں کہ جب آپ جیسے اسکالرز مسلمان لڑکیوں کو جا کر اس کام پر مجبور کرنے لگیں تو ہدایت اور رہنمائی کے لیے کتنے دروازے کھلے رہ جائیں گے؟”
جتنے تلخ لہجے میں ان سے بات کر سکتی تھی اس نے کی۔ ان کی مسکراہٹ میں کمی نہیں آئی۔ وہ بڑی خندہ پیشانی سے اس کی بات سنتے رہے۔
”میں یہاں کسی اسکالر کے طور پر نہیں آیا۔ میں یہاں ایک مسلمان کے طور پر آیا ہوں۔”
”ایک دوسرے مسلمان کو مجبور کرنے کے لیے کہ وہ کسی نام نہاد مسلمان سے شادی کر لے۔”
”نام نہاد مسلمان سے آپ کی کیا مراد ہے امید بی بی؟ اگر ایمان علی نام نہاد مسلمان ہے تو کیا ہم سب نام نہاد مسلمان نہیں ہیں۔ جن کے اعمال اور افعال اسلام کے بتائے ہوئے کسی اصول سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جن کے ایمان کمزور ہوتے ہیں، جو صرف ساری زندگی اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ انھیں پیدائشی طور پر مسلمان گھرانے میں پیدا کیا گیا ورنہ اگر دین کے لیے کوئی قربانی دینی پڑے تو مسلمانوں کی ان فہرستوں میں خاصی تعداد کم ہو جاتی ہے، مگر صرف دعوا کرنا پڑے تو ہر مسلمان اپنے علاوہ کسی دوسرے کو مسلمان تسلیم ہی نہیں کرتا۔” وہ اب سنجیدہ ہو چکے تھے۔
”میں ان مسلمانوں میں سے نہیں ہوں، میں نے اپنے دین اور ایمان کے لیے کیا چھوڑا ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ میں نے اپنی خواہشوں اور خوابوں کو مار دیا ہے۔ اس لیے میرے افعال اور اعمال کے بارے میں بات نہ کریں۔ میرا ایمان کمزور ہوتا تو آج میرے پاس کیا کیا ہو سکتا تھا۔ آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ دین کے لیے میں نے سر پر تانی ہوئی چھتری چھوڑ کر ننگے پاؤں دھوپ میں چلنا قبول کیا ہے۔ مجھے حق ہے کہ میں اپنا موازنہ دوسرے مسلمانوں سے کروں۔ مجھے حق ہے کہ میں خود کو ان لوگوں سے بہتر سمجھوں جو دھوپ میں چلنے کے بجائے سائے کے لیے ہر چیز کا سودا کر لیتے ہیں۔”
وہ ان کی بات پر اس طرح بھڑکے گی، اس کا اندازہ نہ ڈاکٹر خورشید کو تھا، نہ ہی خود امید کو۔
”اللہ خود پر کوئی احسان نہیں رکھتا، امید بی بی! اگر آپ نے اس کے لیے کوئی چیز چھوڑی ہے تو وہ آپ کو اس سے بہتر شے سے نواز دے گا۔”
”نہیں، بعض چیزوں کے بعد ان سے بڑھ کر اور ان سے بہتر کوئی چیز نہیں ملتی کیونکہ دل کو کوئی چیز بہتر نہیں لگتی۔”
ڈاکٹر خورشید نے اس کی آنکھوں میں امڈتی نمی اور اسے چھپانے کے لیے جھکے سر کو دیکھا۔
”دین کے لیے کوئی سودا خسارے کا سودا نہیں ہوتا اور دنیا میں ہر چیز کا متبادل ہوتا ہے، مگر اس بات پر آپ کو تب تک یقین نہیں آئے گا جب تک متبادل آپ کو مل نہیں جائے گا۔”
”اور اگر انسان کو کسی متبادل کی خواہش ہی نہ ہو تو؟” وہ سر اٹھا کر نم آنکھوں کے ساتھ اکھڑ لہجے میں ان سے پوچھ رہی تھی۔
”انسان کی خواہشات سے اللہ کو دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اس کی تقدیر اپنی مرضی سے بناتا ہے۔ اسے کیا ملنا ہے اور کیا نہیں ملنا اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے۔ جو چیز آپ کو ملنا ہے آپ اس کی خواہش کریں یا نہ کریں وہ آپ ہی کی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں جائے گی مگر جو چیز آپ کو نہیں ملنا ہے، وہ کسی کے پاس بھی چلی جائے گی مگر آپ کے پاس نہیں آئے گی۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جانے والی چیز کے ملال میں مبتلا رہتا ہے آنے والی چیز کی خوشی اسے مسرور نہیں کرتی۔”
”میں آپ سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ نے دین کے لیے کیا چھوڑا۔ میں صرف یہ پوچھوں گا کہ آپ نے کیوں چھوڑا اور یہ سوال اس لیے کروں گا کہ خدا کے لیے کیے جانے والے عمل پر فخر کے بجائے آپ کو پچھتاوا ہے اور یہ پچھتاوا شر سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ یہ انسان کا ہر اچھا عمل بھی تباہ کر دیتا ہے۔ خدا کے لیے کیے جانے والے عمل پر شکر اور پھر فخر کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو آزمایا اور آپ نے ثابت قدمی اور استقامت دکھائی لیکن اگر آپ کو پچھتانا تھا تو پھر آپ یہ قربانی نہ دیتیں۔ آپ بھی سائے کا انتخاب کر لیتیں۔ راستے تو دونوں ہی تھے آپ کے پاس اور کسی نے آپ کو یقینا مجبور بھی نہیں کیا ہوگا۔ کم از کم اللہ نے نہیں۔ اس نے تو اختیار دیا آپ کو کہ انتخاب کا حق استعمال کریں پھر آپ نے اپنے اختیار کو استعمال کیا۔ اب یہ پچھتاوا کیوں؟”
”میں آپ کے اسلام پر گواہی دینے آیا ہوں نہ آپ کے ایمان کی مضبوطی کا جائزہ لینے۔ یہ دونوں کام میں ایمان علی کے لیے کرنے آیا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ مسلمان ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ہمیشہ مسلمان ہی رہے گا۔ بہت کم عورتیں ہوتی ہیں جن کی کوئی اتنی خواہش کرتا ہے۔ جس قدر ایمان علی آپ کی کر رہا ہے۔ آپ کی خوش بختی یہ ہے امید بی بی کہ آپ کے لیے ایک ایسا شخص دامن پھیلائے ہوئے ہے جو کیچڑ کا کنول ہے اور کنول کو کوئی صرف کیچڑ میں کھلنے کی وجہ سے پھول کہنا نہیں چھوڑ دیتا۔ لوگ اس کی خوشبو سے بھی متاثر ہوتے ہیں اور حسن کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔”
وہ خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں نے آپ سے کہا نا کہ اللہ انسان کو ہر چیز کا متبادل دے دیتا ہے اور ہر انسان کو دیتا ہے۔ آج ایمان علی آپ کی خواہش کر رہا ہے۔ آپ اسے نہیں ملتیں تو کیا ہوگا۔ اللہ اس کے لیے آپ سے بہتر اور بڑھ کر کوئی متبادل پیدا کر دے گا۔ اللہ کو نوازنا آتا ہے مگر جب کوئی اتنی چاہ کرے تو اس کی محبت کو اس طرح رد نہیں کرنا چاہیے۔ آپ ایک ایسے شخص کو رد کر رہی ہیں جس کی زندگی میں صرف ایک عورت آئی ہے اور وہ عورت آپ ہیں۔ وہ آپ کا نام اتنی محبت اور عزت سے لیتا ہے کہ مجھے آپ پر رشک آتا ہے۔ عورت سے محبت بہت سے مرد کرتے ہیں مگر محبت کے ساتھ ساتھ عزت بہت کم مرد کرتے ہیں۔”
وہ تھرا گئی۔ اسے کچھ یاد آیا۔ اسے لگا، وہ زمین کے اندر اتر رہی ہو۔
”مجھے لگتا ہے۔ آپ کا کوئی عمل خدا کو بہت پسند آیا ہے جس کی وجہ سے اس نے آپ کو اتنا خوش بخت بنا دیا کہ کوئی شخص آپ کے لیے آپ کا دین اختیار کرنے پر تیار ہو گیا۔ اب آپ سوچیے آپ کا ساتھ اس شخص کو اور کتنی ثابت قدمی اور استقامت دے گا۔”
اس کی آنکھوں میں دھندلاہٹ آنے لگی۔
”ہمارے دین کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس میں کوئی چھوت چھات نہیں ہے۔ نئے اور پرانے مسلم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہمیں انصار کی طرح ہونا چاہیے۔ آنے والوں کو گلے لگانا چاہیے۔ ان کے عقیدوں اور حسب و نسب کو چھاننے پھٹکنے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جو منہ سے خود کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے۔ ہمارے ماننے یا نہ ماننے سے اس کے ایمان میں فرق نہیں پڑے گا۔ ہمارے اپنے ایمان میں فرق پڑ جائے گا۔”
اس نے اپنی آستینوں سے چہرا صاف کیا۔
”آپ مقدر پر یقین رکھتی ہیں تو یہ جان لیں کہ آپ ایمان علی کے مقدر میں لکھی گئی ہیں۔ آپ کو کوئی اور نہ پہلے ملنا تھا نہ بعد میں ملے گا۔ آپ کو دیکھ کر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ میرے لفظوں سے موم ہوں یا نہ ہوں مگر ایمان علی نے آپ کے لیے کوئی ایسی دعا ضرور کی ہے کہ وہ آپ کو پا لے گا۔ اب اس میں کتنا وقت لگے گا۔ یہ خدا جانتا ہے۔”
اس نے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔ وہ ڈاکٹر خورشید کو نہیں جانتی تھی مگر اس شخص کی زبان میں کچھ ایسا ضرور تھا جو دوسروں کو چونکا دیتا تھا۔ انھیں بے بس کرتا تھا پھر انھیں قائل کر دیتا تھا۔ وہ قائل نہیں ہوئی تھی مگر بے بس ضرور ہو گئی تھی۔
*…*…*
اس رات اس نے اپنی پوری زندگی کو ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے سے گزرتے دیکھا۔ ہر یاد، ہر تصور جہاں زیب پر آ کر ختم ہو گیا تھا۔
کیا میرے لیے کسی دوسرے شخص سے شادی کرنا ممکن ہے جب میں اپنا ہر خواب کسی دوسرے مرد کے حوالے سے دیکھ چکی ہوں۔ میں نے اپنی پوری زندگی کو ایک دوسرے شخص کے حوالے سے دیکھا ہے۔ ایمان علی کو میں کیا دے پاؤں گی۔ میرے سارے لفظ، سارے حرف، سارے جذبے، سارے احساسات صرف جہاں زیب کے لیے ہیں۔ کسی دوسرے شخص کے لیے تو میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔”
اس کا دم گھٹنے لگا۔ ”ڈاکٹر خورشید کہتے ہیں، اس نے مجھ سے اتنی محبت کی میرے لیے اتنی دعائیں کیں کہ خدا نے مجھے اس کے مقدر میں لکھ دیا۔ میں نے بھی تو جہاں زیب سے بہت محبت کی تھی۔ بہت دعائیں مانگی تھیں پھر اللہ نے اسے میرے مقدر میں کیوں نہیں لکھا؟ ایمان علی تو مجھے ہر ایک سے مانگتا پھر رہا ہے۔ میں نے تو جہاں زیب کو صرف اللہ سے مانگا تھا۔”
اس کا دم گھٹنے لگا۔ ”جس شخص کو میں نے چاہا، وہ مجھے نہیں ملا تو پھر میں اس شخص کو کیوں ملوں جو مجھے چاہتا ہے مگر مجھے اس شخص سے ایک بار بات کرنی چاہیے۔ مجھے دیکھنا چاہیے کتنی صداقت ہے اس کے لہجے میں۔”
*…*…*
وہ ڈاکٹر خورشید کے گھر اس سے ملنے گئی۔ وہ جتنی تلخی سے اس سے بات کر سکتی تھی، اس نے کی مگر وہ متزلزل نہیں ہوا۔ اس نے ایمان کو اپنی منگنی کے بارے میں بتایا۔ اس کا خیال تھا کہ شاید وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ وہ اب بھی اسی طرح تھا۔ امید کو اس پر غصہ آیا۔ پھر اسے ایمان پر ترس آیا۔ اس کا دل چاہا وہ اس سے کہے اپنی زندگی میں مجھے شامل مت کرو۔ اپنی زندگی برباد مت کرو، کسی ایسی لڑکی سے شادی کرو، جس کی زندگی میں کوئی جہاں زیب نہ آیا ہو جو تمہاری محبت کا یقین کرے۔ تمہارے جذبوں کی قدر کرے۔ مگر میں وہ لڑکی نہیں ہوں۔
اس نے شرط رکھی تھی کہ وہ ایک سال تک اس سے ملے نہ کوئی رابطہ رکھے اور اسلامی تعلیمات پر کاربند رہے۔ اگر اس نے یہ شرط پوری کر دی تو وہ ایک سال بعد اس سے شادی کر لے گی۔
اس نے سوچا تھا، ایک سال تک ایمان علی کی محبت میں کمی ہو جائے گی۔ وہ اس کی نظروں سے ہٹ جائے گی تو شاید اس کے اس جنون میں بھی کمی ہو جائے۔ شاید وہ ان چیزوں پر غور کرنے لگے، جن پر وہ غور کر رہی تھی۔
ایمان علی نے اس کی شرط قبول کر لی تھی۔
”ایک سال میں 365 دن ہوتے ہیں۔ 365 دن اگر کسی شخص کو دیکھا جائے نہ اس سے بات کی جائے نہ اس سے کوئی رابطہ رکھا جائے تو محبت کم ہو جاتی ہے۔ میں بھی یہی دعا کروں گی کہ ایمان علی کے ساتھ ایسا ہی ہو۔”
اس نے اپنے گھر والوں کو اپنے فیصلے کی اطلاع دیتے ہوئے سوچا تھا۔ وہ بہت مطمئن ہو گئی تھی۔ اسے جہاں زیب کے الوژن کے ساتھ رہنے کے لیے ایک اور سال مل گیا تھا۔ ایک سال اور گزر جاتا۔ امی اس کے لیے کوئی رشتہ تلاش نہ کرتیں۔ ایک سال بعد وہ اٹھائیس سال کی ہو جاتی۔ تب ایمان کے انکار کی صورت میں امی کو ایک بار پھر سے اس کے لیے رشتے کی تلاش کرنی پڑتی۔ بڑھتی عمر کے ساتھ یہ خاصا دشوار ہوتا۔ شاید اس کی شادی نہ ہو سکے اور وہ اس عذاب سے بچ جائے۔
اس کی ہر توقع، توقع ہی رہی تھی۔ ایک سال کے دوران ہر بار گھر میں ایمان علی کا ذکر آنے پر وہ موضوع بدل دیتی۔ وہ وہاں سے اٹھ کر چلی جاتی اور کسی اور کام میں مصروف ہو جاتی۔ ایک سال کے دوران اسے کبھی اس کا خیال نہیں آیا تھا۔ اگر کبھی اس کا خیال آتا بھی تو ایک خوف کی طرح۔ ایک سال کے دوران بھی اس کے ذہن پر وہی ایک چہرہ چھایا رہا تھا جو پچھلے بہت سے سالوں سے اس کے دل و دماغ پر قابض تھا۔ ایک سال کے دوران بھی اس نے اپنے اردگرد لہراتی پرچھائیوں میں جہاں زیب کو ہی تلاش کیا تھا۔ اپنے اردگرد گونجتی آوازوں میں اسی کی آواز ڈھونڈی تھی۔
*…*…*
ایک سال پورا ہونے کا سب سے زیادہ انتظار امی کو تھا۔ وہ سال ختم ہونے سے چند ہفتے پہلے ہی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی تھیں۔ امید کو یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی دھاگے کے ساتھ معلق تھی۔ وہ چاہتی تھی، ایمان علی مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی ان سے دوبارہ کوئی رابطہ نہ کرے۔ اس کا خیال تھا۔ وہ رابطہ نہیں کرے گا کیونکہ پورے ایک سال اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔ سال ختم ہونے کے اگلے دن اسے کوریئر سروس کے ذریعے ایک کارڈ ملا تھا۔ کارڈ ہاتھ میں لیتے ہی اس کا سانس رک گیا تھا۔ لفافے کی پشت پر لکھا ہوا، ایمان علی کا نام اسے کسی سانپ کے ڈنک کی طرح لگا۔ دم سادھے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے کارڈ کھول لیا۔
The year is over.
Iman Ali remains Iman Ali
What about your promise?
(سال ختم ہو چکا ہے اور ایمان علی اب بھی ایمان علی ہے۔ آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے؟)
اس کے ہاتھ سے کارڈ چھوٹ گیا۔ اس کا وعدہ اس کے گلے میں پھندہ بن کر اٹکنے لگا۔ ”کیا واقعی میں اس شخص کے مقدر میں ہوں تو پھر جہاں زیب عادل…” اس نے آنکھیں بند کر لیں۔

*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!