ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”پھر تم نے کیا طے کیا ہے؟” اس رات ڈنر پر سبل نے پیٹرک سے پوچھا۔
”کیا طے کرنا ہے… میرا خیال ہے، جو تم کہہ رہی ہو وہی ٹھیک ہے۔ اس کا فیصلہ ڈینی کو ہی کرنا چاہیے۔” پیٹرک نے بڑے مطمئن انداز میں کہا۔
اس کی بات پر سبل مسکرائی۔ ”ڈینی جب بڑا ہوگا تو وہ ہم دونوں کے مذہب کا مطالعہ کرے گا جس مذہب میں اسے زیادہ دلچسپی محسوس ہوگی اسے وہی اختیار کرنا چاہیے کم از کم اس طرح اس کے ذہن میں کوئی الجھن نہیں ہوگی۔ میں نے اسی لیے تمہیں یہ مشورہ دیا تھا۔”
”ہاں ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”
”میرا خیال تھا، شاید تمہیں کوئی اعتراض ہوگا۔ کیونکہ مجھ سے زیادہ مذہبی ہو۔”
”نہیں خیر، اتنا مذہبی نہیں جتنا تم سمجھ رہی ہو۔ مذہب اصل میں بہت وقت مانگتا ہے اور میرے پاس وقت کی کمی ہے۔”
”پھر بھی ہر ہفتے تم عبادت کے لیے تو باقاعدگی سے جاتے ہو۔” سبل نے اسے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”ہاں جاتا ہوں۔ میرے لیے وہاں جانے کی اہمیت عبادت سے زیادہ ایک روایت کی حیثیت سے ہے۔ ماں باپ نے ایک عادت بنا دی ہے۔ مگر مجھے اس روٹین سے الجھن نہیں ہوتی۔ جہاں دوسرے بہت سے کام ہوتے ہیں، چلو یہ بھی سہی۔” وہ کھانا کھاتے ہوئے اسے بتا رہا تھا۔
”اتنی مصروف زندگی میں مذہب کے لیے وقت نکالنا واقعی بہت مشکل کام ہے۔ مجھے تمہاری اس روٹین پر بہت حیرت ہوتی ہے۔ خود مجھے تو ہفتے بلکہ مہینے میں ایک بار بھی چرچ جانا بہت مشکل لگتا ہے۔” سبل نے کندھے اچکا کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے کہا نا، مجھے عادت ہو چکی ہے ورنہ اور کوئی بات نہیں۔” پیٹرک کھانے سے تقریباً فارغ ہو چکا تھا۔
پیٹرک ایڈگر جرمنی کے ایک اچھے یہودی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا خاندان بہت کٹر قسم کے یہودیوں پر مشتمل تھا۔ پیٹرک کے ماں باپ بھی بہت زیادہ مذہبی تھے۔ اپنی ساری اولاد کو انھوں نے ا سی راستے پر چلانے کی کوشش کی۔ ہٹلر کے زمانے میں جرمنی میں یہودیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے کے بعد باقی یہودیوں کو جِلا وطن کر دیا گیا۔
پیٹرک کی فیملی بھی اس زمانے میں امریکہ آ گئی تھی مگر جرمنی کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد جب یہودیوں نے آہستہ آہستہ واپس جرمنی جانا شروع کیا تو پیٹرک کی فیملی بھی واپس چلی گئی۔ مگر پیٹرک نے اپنے ماں باپ کے ساتھ واپس جانے کے بجائے امریکہ میں ہی سیٹل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ماں باپ کی مخالفت اور ناراضگی کے باوجود وہ اپنے اس فیصلے پر قائم رہا۔ امریکہ میں اس کو اپنے لیے سب کچھ خود ہی کرنا پڑا کیونکہ اس کی فیملی واپس جا چکی تھی اور واپس جانے کے بعد وہ نئے سرے سے وہاں سیٹل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ پیٹرک کی کسی بھی طرح سے مالی مدد کرتے۔
پیٹرک نے مکینیکل انجینئرنگ کرنے کے کچھ عرصے بعد ایک بہت اچھی امریکن کمپنی میں ملازمت کر لی۔ اس ملازمت کے کچھ عرصے کے بعد جب وہ اپنے والدین کے پاس دو ہفتے کی چھٹیاں گزارنے جرمنی آیا ہوا تھا تو اس کی ملاقات سبل سے ہوئی۔
سبل ایک ٹرکش عیسائی تھی۔ پیٹرک کی طرح وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ جرمنی میں آ کر سیٹل ہو گئی تھی۔ دونوں کے درمیان فرق صرف یہ تھا کہ پیٹرک کا آبائی وطن جرمنی ہی تھا اور سبل کا آبائی وطن ترکی تھا۔ دونوں کے درمیان بڑی تیزی سے روابط بڑھے اور پھر یہ روابط شادی کے پرپوزل تک آ گئے۔
شادی کے اس پرپوزل پر دونوں کے خاندانوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ پیٹرک کے والدین چونکہ کٹر یہودی تھے، اس لیے وہ پیٹرک کی شادی بھی اپنی کمیونٹی کی کسی لڑکی سے کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف سبل ایک کیتھولک گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور یہودیوں کے بارے میں اس کے ماں باپ کو بہت زیادہ اعتراضات تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ کسی عیسائی فیملی میں ہی شادی کرے مگر دونوں نے اپنے خاندان کے اختلافات کے باوجود شادی کر لی۔
*…*…*





شادی کے بعد سبل پیٹرک کے ساتھ امریکہ آ گئی اور وہاں اس نے ایک معروف ادارے میں جرمن ٹرانسلیٹر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ کافی عرصے تک دونوں کے خاندان اس شادی پر ناراض ہی رہے مگر پھر آہستہ آہستہ دونوں کے خاندانوں نے اس شادی کو قبول کر لیا۔
پیٹرک اور سبل میں بہت سی باتیں مشترکہ تھیں۔ دونوں کے خاندان مذہبی اور کٹر تھے۔ ان کی تربیت ایک مخصوص ماحول میں ہوئی تھی جہاں اخلاقیات کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ دونوں ہی بہت سوشل نہیں تھے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے خاندان میں ہر کسی سے میل جول بڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ بہت سے معاملات کے بارے میں ان کا نقطہ نظر خاصا قدامت پرست تھا۔ سبل کی پیدائش اور پرورش ترکی میں ہوئی تھی اور اس پر اس معاشرے کا خاصا اثر تھا جس میں اس نے پرورش پائی تھی۔
لباس کے معاملے میں وہ لاشعوری طور پر بہت محتاط ہو گئی تھی۔ مغربی معاشرے میں رہنے کے باوجود وہ ایسے لباس کو پسند نہیں کرتی تھی جو اس کے جسم کو پوری طرح سے ڈھانپ نہ سکتا ہو اور ایسا لباس پہننے سے وہ ہمیشہ گریزاں رہتی تھی۔ پیٹرک بھی اس معاملے میں خاصا قدامت پرست تھا۔ وہ خود بھی سبل کو اس طرح کے کپڑوں میں دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ دونوں شراب پیتے تھے مگر اس کا استعمال صرف کسی فنکشن میں ہی کرتے تھے۔ سبل کے ذہن پر اس معاملے میں اپنے والدین کے بچپن سے دیے جانے والے وعظ کا خاصا اثر تھا اور یہی وجہ تھی کہ جب پیٹرک بعض دفعہ گھر میں بھی شراب پینے کی کوشش کرتا تو وہ اسے روک دیا کرتی تھی۔ دونوں کا حلقہ احباب محدود تھا اور وہ بھی ان ہی لوگوں پر مشتمل تھا جو ان ہی کی طرح کچھ اخلاقی قدریں رکھتے تھے۔ دونوں کی زندگی میں کسی نہ کسی حد تک مذہب کا عمل دخل رہا تھا اور امریکہ میں رہنے کے باوجود یہ عمل دخل کم نہیں ہوا تھا۔
شاید اگر وہ امریکہ میں کچھ زیادہ عرصہ گزارتے تو ان کے طرزِ زندگی میں اور خیالات میں نمایاں تبدیلیاں آ جاتیں مگر امریکہ میں آنے کے ایک ڈیڑھ سال بعد ہی پیٹرک کی کمپنی نے اسے اردن میں بھجوا دیا جہاں وہ کچھ بہت بڑے تعمیراتی پروجیکٹس کے لیے تین سال رہا۔ تین سال کے بعد اسے مڈل ایسٹ کے ہی ایک اور ملک مراکش میں بھیج دیا گیا۔ وہاں اس کا قیام دو سال رہا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ ان دونوں کو مڈل ایسٹ اور ایشیا کے بہت سے ملکوں میں رہنے کا اتفاق ہوا اور ان میں سے زیادہ تر ممالک مسلم تھے۔ یورپ یا امریکہ میں لمبے قیام کا انھیں موقع نہیں ملا۔ اس لیے ان کی قدامت پرستی نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس میں کسی حد تک اضافہ بھی ہوا۔
سبل مختلف ممالک میں قیام کے دوران مختلف سفارت خانوں کے تحت چلنے والے اسکولز میں پڑھاتی رہی۔ وہ ایک بہت مہربان اور فیاض قسم کی لڑکی تھی۔ پیٹرک کے ساتھ اس کی بہت اچھی انڈر اسٹینڈنگ تھی اور مذہب کے فرق کے باوجود وہ اس کے ساتھ ایک بہت اچھی زندگی گزار رہی تھی۔ مذہب کے بارے میں دونوں بہت زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ مذہبی روایات کی پیروی کرنے کے باوجود مذہبی رسومات پر عمل کرنا ان کے لیے خاصا مشکل ہو گیا تھا اور آہستہ آہستہ مذہب ان کی زندگی میں ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔
*…*…*
ڈینیل کی پیدائش مراکش میں ہوئی اور اس کی پیدائش پر پہلی بار پیٹرک اور سبل اس الجھن کا شکار ہوئے کہ ڈینیل کو کس مذہب کو ا ختیار کرنا چاہیے۔ دونوں کی خواہش تھی کہ وہ ان کے مذہب کو اختیار کرے مگر دونوں ہی ایک دوسرے کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرنے سے جھجکتے تھے اور اس کشمکش میں ڈینیل کسی مذہب کو اختیار کیے بغیر ہی پرورش پانے لگا۔
پہلی بار دونوں کے درمیان ڈینیل کے مذہب کے بارے میں تب بات ہوئی جب پیٹرک سبل کے ساتھ چھٹیوں میں جرمنی گیا تھا۔ پیٹرک اور سبل کے ماں باپ نے ڈینیل کو پہلی بار دیکھا تھا۔ ڈینیل اس وقت دو سال کا تھا۔
پیٹرک کے والدین کو اتفاقاً یہ پتا چل گیا پیٹرک نے ڈینیل کے مذہب کے حوالے سے ابھی کچھ طے نہیں کیا۔ اس بات نے انھیں بھڑکا دیا تھا۔
”وہ تمہارا بیٹا ہے، اسے یہودی ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں کسی دوسری سوچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” اس کے باپ نے سختی سے پیٹرک سے کہا۔
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر آپ جانتے ہیں کہ سبل کیتھولک ہے اور اس طرح میں ڈینیل کے مذہب کے بارے میں اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کروں گا تو اسے اعتراض ہوگا۔” پیٹرک نے وضاحت پیش کی۔
”میں اسی لیے چاہتا تھا کہ تم سبل سے شادی نہ کرو۔” اس کے باپ کے اشتعال میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔
”بہرحال سبل کو اس معاملے میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اولاد ہمیشہ وہی مذہب اختیار کرتی ہے جو باپ کا مذہب ہوتا ہے۔”
”یہ ضروری نہیں ہے ڈیڈی! اولاد کو وہی مذہب اختیار کرنا چاہیے جو اس کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ جس میں اسے دلچسپی محسوس ہو۔”
پیٹرک نے ان کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش نے الٹا اثر کیا تھا۔ ایڈگر کچھ اور بھڑک گیا۔
”مجھے عقل سکھانے کی کوشش مت کرو۔ تمہارے دماغ میں یہ خناس بٹھانے والی تمہاری بیوی ہے۔ تم اپنے بیٹے کو یہودی نہیں بناؤ گے تو کیا کیتھولک بناؤ گے؟”
”اس بارے میں ابھی ہم دونوں نے کچھ طے نہیں کیا۔”
”تم دونوں کو کچھ طے کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ ایک پیدائشی یہودی ہے اور یہودی ہی رہے گا۔” ایڈگر نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔
پیٹرک نے ان سے مزید بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہو گیا۔ مگر جرمنی سے واپس آنے کے فوراً بعد اس نے سبل سے اس سلسلے میں بات کی۔
”ہمیں ڈینیل کے بارے میں کچھ طے نہیں کرنا چاہیے۔ وہ کون سا مذہب اختیار کرتا ہے یہ اس کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے۔ بہت ممکن ہے کہ ابھی ہم اس کے لیے جس مذہب کا انتخاب کریں۔ بڑا ہو کر وہ اس کے بجائے دوسرے مذہب کی طرف راغب ہو جائے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم دونوں اس کو اپنے اپنے مذہب کے بارے میں ساری معلومات دیتے رہیں۔ اسے اپنے ساتھ عبادت اور دوسری رسوم میں بھی شریک کرتے رہیں مگر باقاعدہ طور پر اسے یہودی یا عیسائی بنانے کی کوشش نہ کریں۔” سبل نے جیسے ایک تجویز اس کے سامنے رکھ دی تھی۔
”مگر سبل! میری فیملی کو اس پر اعتراضات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بچہ ہمیشہ وہی مذہب اختیار کرتا ہے جو اس کے باپ کا ہو اس لیے ڈینیل کو بھی یہودی مذہب کو اختیار کرنا چاہیے۔”
سبل نے ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی بات سنی۔ ”میرے خاندان والوں کو بھی اس پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بچے کی ماں میں ہوں اور میں اس کے لیے اچھے اور برے راستے کا تعین بہتر طور پر کر سکتی ہوں، کیونکہ بچہ باپ کی نسبت ماں سے زیادہ قریب ہوتا ہے اس لیے اسے میرا مذہب اختیار کرنا چاہیے لیکن میں نے ان کے اس اعتراض کو رد کر دیا۔ میں نے اپنے والدین سے یہی کہا کہ ڈینیل اپنی مرضی سے اپنے لیے مذہب کا انتخاب کرے گا اور اپنی مرضی سے کیا جانے والا یہ انتخاب ہمارے باہمی رشتے پر اثر انداز نہیں ہوگا مگر اس طرح صرف خاندان کے دباؤ پر کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ ہمارے باہمی تعلق اور اعتماد کو بری طرح متاثر کرے گا۔”
پیٹرک خاموش ہو گیا۔ وہ واقعی اتنا مذہبی نہیں تھا کہ صرف مذہب کی خاطر اپنے اور سبل کے رشتے کی قربانی دے دیتا۔ یا باہمی تعلقات میں آنے والی کوئی دراڑ قبول کر لیتا۔ مذہب ویسے بھی ان کے لیے ایک اضافی چیز تھی، روٹین میں شامل، کوئی ایسی ضرورت نہیں تھی جسے پورا کرنے کے لیے وہ باہمی اختلافات کو بھی برداشت کر لیتے۔ یہی وجہ تھی کہ جب سبل نے دوبارہ اس کا فیصلہ پوچھا تو اس نے بھی اس کی تجویز سے اتفاق کر لیا کہ ڈینیل کے لیے اپنی مرضی سے مذہب کا انتخاب ہی بہتر رہے گا۔
ڈینیل اسی ماحول میں پرورش پاتا رہا۔ ماں اسے اپنے مذہب کے بارے میں بنیادی باتوں سے آگاہ کرتی رہتی۔ باپ اسے اپنے مذہب کے بارے میں بتاتا رہتا۔ جب بھی سبل اور پیٹرک عبادت کے لیے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جاتے وہ ڈینیل کو بھی ساتھ لے جاتے۔ وہ بڑی دلچسپی سے یہودیوں اور کیتھولکس کی مذہبی رسومات دیکھتا۔ اس کے لیے یہ سب ایسا ہی تھا جیسے مہینے میں کبھی تھیٹر چلے جانا یا پارک میں تفریح کے لیے جانا۔ وہ دونوں جگہ جا کر انجوائے کرتا تھا۔
شروع میں پیٹرک ہر ہفتے اپنی عبادت گاہ باقاعدگی سے جایا کرتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی یہ روٹین تبدیل ہوتی گئی۔ ویسے بھی دوسرے ممالک میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کی تعداد کم تھی اور اس کا زیادہ تر قیام ایسے علاقوں میں ہوتا تھا جہاں پر اکثر ان کی عبادت گاہ نہیں ہوتی تھی۔ اس کے برعکس سبل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے چرچ جانے لگی۔ پیٹرک کے برعکس اسے ہمیشہ ہی عبادت کے لیے ہر جگہ کوئی نہ کوئی چرچ مل ہی جایا کرتا تھا۔ امریکہ میں قیام کے دوران اس کی سرگرمیوں کی نوعیت دوسرے ممالک میں قیام سے مختلف ہوتی تھی۔ ان ممالک میں اس کی سرگرمیاں زیادہ محدود ہوتی تھیں۔ ایمبیسی کے اسکول میں پڑھانے کے بعد اس کا زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزرتا تھا اور ڈینیل پر ماں کے خیالات و نظریات کا اثر گہرا ہوتا گیا۔
اس نے ماں سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ کچھ لاشعوری طور پر اور کچھ شعوری طور پر۔ سبل عیسائی ہونے کے باوجود مشرقی روایات کو نہ صرف پسند کرتی تھی بلکہ بہت سی مشرقی روایات اس نے اپنائی بھی تھیں۔ مشرق کے لیے یہ پسندیدگی ڈینیل میں بھی منتقل ہوئی تھی اس نے اپنی ابتدائی زندگی ایسے ماحول میں گزاری تھی جہاں مغرب کی آزادی کا نہ صرف کوئی تصور نہیں تھا بلکہ اس آزادی کو ناپسند بھی کیا جاتا تھا۔ اسکولز میں بھی وہ زیادہ تر مسلمان اسٹوڈنٹس کے ساتھ ہی پڑھتا رہا اور وہاں بھی آزادی کے کسی نئے تصور سے وہ آشنا نہیں ہو سکا۔ گھر آنے کے بعد وہ سارا وقت سبل کے ساتھ ہی گزارا کرتا تھا کیونکہ غیر ملکی ہونے کی حیثیت سے سبل اور پیٹرک باہر آمد و رفت میں خاصے محتاط تھے۔ ان کا آنا جانا مخصوص فیملیز میں تھا۔ ڈینیل اگر کبھی سیر و تفریح کے لیے کہیں جاتا بھی تو سبل اور پیٹرک کے ساتھ ہی۔
*…*…*
پندرہ سال کی عمر میں وہ واپس امریکہ آیا تھا اور امریکہ آ کر وہ ایڈجسٹمنٹ کے پرابلمز سے دوچار ہونے لگا تھا۔ امریکہ میں آ کر ملنے والی آزادی کو پسند کرنے کے بجائے وہ ناپسند کرنے لگا تھا۔ اس کے لیے یہ ایک ایسی دنیا تھی جو اس کے نظریات سے میچ نہیں کرتی تھی۔ ماں باپ کی طرح وہ بھی خاصا ریزرو تھا اور اس کی یہ عادت خوبی کے بجائے ایک خامی کی طرح اسے ہر جگہ بہت زیادہ نمایاں کرنے لگی۔
”پاپا! میں واپس انڈیا جانا چاہتا ہوں۔” اس نے امریکہ آنے کے بعد ایک دن پیٹرک سے کہا تھا۔ پیٹرک کی آخری پوسٹنگ انڈیا میں ہوئی جہاں دو سال قیام کے دوران وہ دارجلنگ کے ایک بورڈنگ میں پڑھتا رہا تھا۔ پیٹرک نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیوں ڈینیل؟”
”میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ یہاں سب کچھ بہت عجیب ہے۔ اسکول میں میرے کلاس فیلوز ڈرگز استعمال کرتے ہیں اور…” وہ کہتے کہتے رک گیا۔ ”مجھے ان کی عادتیں اور حرکتیں پسند نہیں ہیں۔”
پیٹرک نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ بہت بے چین اور مایوس نظر آ رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں ڈینیل! یہاں کا ماحول کچھ اور طرح کا ہے مگر تمہیں خود کو اس کا عادی بنانا چاہیے کیونکہ اب تمہیں اعلیٰ تعلیم یہیں حاصل کرنی ہے۔”
”پاپا! مجھے اسکول کا ماحول پسند نہیں ہے۔”
”میں تمہیں کسی دوسرے بہتر اسکول میں داخل کروا دیتا ہوں۔”
”پاپا! مجھے یہاں کی زندگی پسند نہیں ہے۔ میں یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔ مجھے لگتا ہے میں کسی ایلین کی طرح غلط جگہ پر آ گیا ہوں۔ میرے کلاس فیلوز میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ بے ہودہ باتیں کرتے ہیں۔”
”تم انھیں نظر انداز کر دیا کرو… ہر جگہ کا اپنا ایک مخصوص کلچر ہوتا ہے۔ یہاں کا طرز زندگی یہی ہے۔” سبل نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Read Next

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!