ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

”مجھے اپنے کام کے اوقات میں کچھ تبدیلی کرنی پڑے گی۔ گھر کو کچھ زیادہ وقت دینا پڑے گا۔” وہ اس سے باتیں کرتے کرتے اچانک کہتا۔ وہ فون پر اپنی ممی سے بھی اپنے بچے کے بارے میں باتیں کرتا اور پھر اسے اپنی ممی کی ہدایات پہنچاتا رہتا۔
”بہت سالوں سے ایک جیسی زندگی گزار رہا تھا۔ چند سال سے مذہب کی تبدیلی، تم سے شادی اور اب اس بچے کی آمد جیسی تبدیلیاں مجھے ایک نئی زندگی سے روشناس کروا رہی ہیں۔ میری زندگی یکدم بدل گئی ہے۔ فیملی کے بغیر رہنے اور پھر اپنی فیملی کے ساتھ رہنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ماں باپ کے بعد اب بیوی اور بچہ… رشتوں کی تعداد میں جتنا زیادہ اضافہ ہو… زندگی اتنی پرُسکون اور محفوظ ہوتی جاتی ہے۔ میرا باپ بہت اچھا آدمی تھا اور میں بھی اتنا ہی اچھا ثابت ہونا چاہتا ہوں۔ اپنی اولاد کے لیے۔”
کھلونے ہاتھ میں لیے اسے اس کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ اور اگر یہ شخص میرے ساتھ اپنی زندگی کی بنیاد اتنے بڑے جھوٹ اور فریب پر نہ رکھتا تو آج یہ کھلونے مجھے کسی دوسری کیفیت اور احساس سے دوچار کرتے۔ اس بچے کے حوالے سے خواب دیکھنے میں وہ اکیلا نہیں تھا۔ میں نے اس سے زیادہ خوابوں کا جال بنا تھا۔
اس نے اپنے گالوں پر آنسوؤں کو بہتے محسوس کیا۔
اس نے بہت بار اسی گھر میں اپنے بچے کو کھیلتے دیکھا تھا۔ خود کو اس کے چھوٹے چھوٹے کام کرتے پایا تھا۔ اس کی ہنسی، اس کی مسکراہٹوں اور اس کی کھلکھلاہٹوں کو تصور میں دیکھا تھا اور اب وہ اس کی موت کا تصور کر رہی تھی۔ ”کیا اولاد ماں باپ کے پیروں کی اسی طرح زنجیر بن جاتی ہے جس طرح یہ بچہ میرے پیروں کی زنجیر بن رہا ہے جو ابھی اس دنیا میں آیا تک نہیں۔” اسے اپنے پورے وجود میں ٹیسیں اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔
”کاش میں تمہیں زندگی دے پاتی… زندگی پانے سے پہلے ہی میں موت کو تمہارا مقدر بنا رہی ہوں۔” اس کی نظروں کے سامنے ایک بار وہ کھلکھلانے لگا تھا۔ وہ کھلونوں کو دونوں ہاتھوں میں لیے بلکنے لگی۔ ”میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے… کچھ بھی نہیں… میری طرح تمہارے لیے بھی تمہاری زندگی موت سے زیادہ تکلیف دہ ہو گی اور میں تمہیں اسی تکلیف سے بچانا چاہتی ہوں۔”
روتے ہوئے اس نے گاڑی کا ہارن سنا۔ وہ یکدم جیسے اپنے حواس میں آ گئی تھی۔ ایمان واپس آ چکا تھا اور اب… اب اسے…
وہ سب کچھ پھینک کر بھاگتی ہوئی واش روم میں گئی۔ دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر اس نے چھپا کے مارے اور پھر دوپٹے سے چہرے اور آنکھیں رگڑتی ہوئی باہر آ گئی۔ کار کا ہارن ایک بار پھر سنائی دیا۔ اس بار دو تین دفعہ ہارن دیا گیا۔ اس نے تیزی سے لاؤنج کا دروازہ کھولا اور تیز قدموں کے ساتھ گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
ایمان نے حیرت اور الجھن کے ساتھ اسے گیٹ کھولتے دیکھا۔ گاڑی سیدھا پورچ میں لے جانے کے بجائے وہ گیٹ کے اندر کچھ فاصلے پر رک گیا۔
”چوکیدار کہاں ہے؟” وہ کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔
”اس کے گھر میں کوئی ایمرجنسی تھی وہ وہاں چلا گیا ہے۔” اس نے گیٹ کو دوبارہ بند کرنا چاہا۔





”تم رہنے دو، میں خود کر لیتا ہوں۔” ایمان نے اسے روک دیا۔ وہ خود گیٹ کی طرف بڑھ آیا۔ وہ اندر چلی آئی۔ اس کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ کچن میں جا کر فرج کھول کر اس نے پانی پی کر خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ایمان اب اندر لاؤنج میں آ چکا تھا۔ وہ بھی سیدھا کچن کی طرف آیا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ شاپرز تھے جنھیں اس نے ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”صابر کہاں ہے؟”
”میں نے اسے کوارٹر میں بھیج دیا۔” اس نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
”کیوں؟”
”بس ویسے ہی۔” وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر کچن سے نکل گیا۔
جس وقت وہ بیڈ روم میں داخل ہوئی۔ اس نے ایمان کو کارپٹ پر پھینکی ہوئی چیزوں کو بیگ میں ڈالتے دیکھا۔ کارپٹ پر پنجوں کے بل بیٹھے ہوئے چیزیں اکٹھے کرتے ہوئے اس نے صرف ایک لمحے کے لیے سر اٹھا کر امید کو دیکھا تھا اور اس نظر میں سب کچھ تھا۔ بے یقینی، افسردگی، غصہ، ملامت۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس سے کچھ کہے گا مگر اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ بیگ میں چیزیں بھرنے کے بعد وہ باقی دونوں بیگ بھی اٹھا کر ڈریسنگ روم میں لے گیا۔
چند منٹوں کے بعد جب وہ ڈریسنگ روم سے نکلا تو نائٹ سوٹ میں ملبوس تھا۔ امید ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی۔ وہ سیدھا اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا اور باری باری تینوں دراز کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگا۔
”ریوالور کہاں ہے؟” امید کا سانس رک گیا۔ وہ اس کی روٹین بھول گئی تھی۔ وہ ہر رات ریوالور چیک کر کے سیفٹی کیچ ہٹا کر سونے کے لیے جاتا تھا اور یہ بات اس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔ اب وہ اپنے معمول کے مطابق دراز میں ریوالور دیکھنے لگا تھا مگر وہ اسے وہاں نظر نہیں آیا۔ فوری طور پر امید کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ وہ اب دونوں ہاتھ کمر پر رکھے سیدھا کھڑا الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”میں نے پوچھا ہے، ریوالور کہاں ہے؟” اس نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
”مجھے نہیں پتا۔” دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے بظاہر لاپروائی جتاتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟ تمہیں نہیں پتا کہ ریوالور کہاں گیا؟” وہ اس کے جواب پر ششدر رہ گیا۔
”اس گھر کی ہر چیز کا پتا رکھنا میری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے تم نے کہیں اور رکھ دیا ہو۔” اس بار اس نے جان بوجھ کر تلخ انداز میں کہا۔
”تم جانتی ہو، میں ہمیشہ اسے اسی دراز میں رکھتا ہوں مگر اب وہ یہاں نہیں ہے۔” وہ پریشان نظر آنے لگا۔” ”تم نے اسے اٹھا کر کہیں اور تو نہیں رکھا؟”
”مجھے کیا ضرورت تھی ایسا کرنے کی… مگر مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ شاید میں نے ہی کہیں اور رکھ دیا ہو۔” اس نے صاف انکار کرتے کرتے بات بدل دی۔ اسے اچانک خیال آیا تھا کہ ایمان کہیں ملازم کو نہ بلوا لے اور اس سے پوچھ گچھ کرنے پر معاملہ زیادہ طول پکڑ سکتا تھا۔
”تم ذرا اپنی دراز میں دیکھو۔” اس نے کھڑے کھڑے امید سے کہا۔ اس نے بے دلی سے تینوں دراز چیک کیں مگر وہ جانتی تھی کہ ریوالور وہاں نہیں ہے۔
”یہاں نہیں ہے؟” وہ اس کے جواب پر ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔ امید کو اندر سے وارڈ روب کھولنے کی آواز آئی۔ پھر اس نے الماری کے دراز کھولنے شروع کر دیے۔ وہ ہونٹ بھینچے بیٹھی رہی۔ اس کی ایک چھوٹی سی بھول نے سارا کام بگاڑ دیا تھا۔ آخر کیا ضرورت تھی مجھے ریوالور یہاں سے ہٹانے کی۔ میں یہیں سے ریوالور لے کر اسٹڈی میں جا سکتی تھی اور اگر وہ سو جاتا تو بھی دراز کھول کر ریوالور نکال سکتی تھی۔ اگر اسٹڈی میں وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تو میں اپنی پشت پر ریوالور چھپا سکتی تھی… کچھ اور کر سکتی تھی۔ مگر ریوالور ہٹانا نہیں چاہیے تھا۔
وہ اب خود کو کوس رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی ریوالور نہ ملنے پر ایمان کا ردِعمل کیا ہوگا۔ وہ بہت محتاط طبیعت کا انسان تھا۔ اس نے اپنی زیادہ تر زندگی غیر ملکوں میں گزاری تھی اور غیر ملکی کی حیثیت سے کسی دوسرے ملک میں رہنا خاص طور پر تیسری دنیا کے ملک میں ایک خاصا مشکل کام تھا۔ امید کو یاد تھا کہ کسی بھی لمبے سفر پر نکلنے سے پہلے وہ ریوالور ساتھ رکھا کرتا تھا۔ یہ جیسے اس کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔
اپنے ہی گھر کے بیڈ روم کے اندر سے ریوالور کا غائب ہو جانا بہت پریشانی کی بات تھی۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے دراز چیک کرنے کے بعد جیسے کچھ تھک کر اسٹول پر بیٹھ گیا۔ امید بظاہر ٹی وی کی طرف متوجہ تھی مگر اس کا سارا دھیان اسی کی طرف تھا۔ چند منٹ وہ جیسے کسی سوچ میں گم رہا پھر ایک گہری سانس لے کر اس نے امید کو مخاطب کیا۔
”تمہارا کیا خیال ہے اگر تم نے ریوالور اٹھایا ہے تو تم کہاں رکھ سکتی ہو؟”
”میں نے کہا نا مجھے یاد نہیں… ویسے بھی میری طبیعت پچھلے چند ہفتوں میں ٹھیک نہیں تھی۔ بار بار مجھے بھول جاتا ہے کہ میں نے کسی چیز کو کہاں رکھا۔” اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بظاہر پرُسکون انداز میں کہا۔
”میری عدم موجودگی میں تم ہر رات ریوالور چیک کرتی تھیں؟” اب وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
”نہیں۔”
”تمہیں میں تاکید کر کے گیا تھا کہ ا یسا کرنا۔ پھر بھی تم نے… اگر کچھ ہو جاتا تو ریوالور کے بغیر تم کیا کرتیں۔ تم جانتی ہو تم اکیلی تھیں… تم… تم اتنی لاپروا کیوں ہو… میری بات تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟” اس کی آواز میں پریشانی تھی یا غصہ اسے اندازہ نہیں ہوا۔
امید نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”مگر کچھ ہوا تو نہیں۔” اس نے بڑی بے خوفی سے کہا۔ وہ اس کے جواب پر گنگ رہ گیا۔ وہ ایک بار پھر ٹی وی کی جانب متوجہ تھی۔
”کچھ ہو جاتا تو؟” اس نے تندی سے کہا۔
”تو ہو جاتا۔” امید کی آواز میں تلخی تھی۔ وہ بہت دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”راولپنڈی جانے سے پہلے تم نے ریوالور دیکھا تھا؟ کیا تب وہ یہیں تھا؟” اس بار امید کو اس کی آواز بہت سرد محسوس ہوئی تھی۔
”مجھے یاد نہیں۔”
”تو یاد کرو۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم کیا سوچ رہے ہو کہ وہ ریوالور میں نے چھپایا ہے؟” وہ یک دم بھڑک اٹھی۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔”
”جو کچھ تم کہہ رہے ہو، اس سے یہی مطلب نکلتا ہے۔”
”تم اتنی باریک بین نہیں ہو کہ میرے لفظوں کے مطلب جان سکو۔”
”میں جان سکتی ہوں اور جان چکی ہوں اور کیا کیا جانتی ہوں، یہ تمہارے علم میں نہیں ہے۔” اس کے جملے پر مشتعل ہو کر اس نے کہا تھا۔
وہ بے حس و حرکت اسے دیکھتا رہا اور پھر اتنی ہی سرد آواز میں اس نے امید سے کہا۔ ”مثلاً کیا جان چکی ہو تم اور کیا کیا جانتی ہو تم جو میرے علم میں نہیں ہے۔” اس نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیا تھا۔ وہ یکدم سنبھل گئی۔
”وقت آنے پر بتا دوں گی۔”
”میرا خیال ہے، وہ وقت آ چکا ہے۔” اس کا لب و لہجہ یکسر بدل چکا تھا۔
”تم کیا چاہتے ہو؟ ایک چھوٹی سی بات کا بہانا بنا کر مجھ سے لڑنا چاہتے ہو؟”
وہ اسے ایک ٹک دیکھتا رہا۔ ”میں لڑنا چاہتا ہوں؟”
”ہاں اسی لیے تو تم بات کو بڑھا رہے ہو… مجھ سے جان چھڑانا چاہتے ہو تم، تم چاہتے ہو، میں اس گھر سے چلی جاؤں۔” وہ خود پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔
”میں کیوں جان چھڑانا چاہوں گا تم سے؟” اسے جیسے امید کی بات پر کرنٹ لگا۔
”تاکہ میں تمہارے جھوٹ سے بے خبر رہوں۔ تمہارے فراڈ اور تمہارے گناہ کو جان نہ سکوں۔” اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ جو بات راز میں رکھنا چاہ رہی تھی وہ بات خود بخود اس کی زبان پر آ رہی تھی۔
اس نے ایمان کے چہرے کا رنگ اڑتے ہوئے دیکھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر وہ بے حس و حرکت اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ بہت دیر اسی خاموشی کے ساتھ اسے دیکھتا رہا پھر اسے اس کی آواز سنائی دی تھی۔
”میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم میرے کس جھوٹ اور کس فراڈ اور کس گناہ کو جان گئی ہو؟” وہ خود پر قابو پا چکی تھی اور وہ اسے کچھ بھی بتانا نہیں چاہتی تھی۔
”میں تم سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتی۔”
”مگر میں کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ اسے دیکھنے لگی۔ ”بات کو ختم کرو۔ ایک ریوالور کے لیے اتنا تماشا کھڑا مت کرو۔ تم سوچ رہے ہو، ریوالور میری وجہ سے گم ہوا ہے۔ ٹھیک ہے میں تمہیں اس کی قیمت دے دوں گی۔”
وہ اس کی بات پر یکدم بھڑک کر کھڑا ہو گیا۔ ”کیا مطلب ہے تمہارا۔ قیمت دے دوں گی… کون قیمت مانگ رہا ہے تم سے؟”
”تو پھر اس ہنگامے کا اور کیا مقصد ہے؟” وہ جیسے دم بخود ہو گیا تھا۔
”پہلے کتنی چیزوں کی قیمت لے چکا ہوں میں تم سے؟”
”میرے ایمان… میری زندگی کی۔” وہ کہنا چاہتی تھی مگر خاموش رہی۔
”تمہیں پتا ہے کہ یہاں سے اس طرح ریوالور غائب ہونے کا کیا مطلب ہے؟ وہ لائسنس یافتہ ریوالور تھا۔ اگر کسی نے اسے یہاں سے غائب کر دیا ہے تو کسی جرم میں استعمال ہونے کی صورت میں پولیس سیدھی میرے پاس آ جائے گی۔ میں پکڑا جاؤں گا، میرا کیریر داؤ پر لگ جائے گا اور جب تک وہ ریوالور غائب ہے، ہمیں خطرہ ہے۔ آخر کون ہے جو بیڈ روم کی دراز سے ریوالور نکال کر لے گیا۔ اگر کوئی یہ کر سکتا ہے تو وہ کچھ اور بھی کر سکتا ہے اور اگر یہ کام ملازم نے کیا ہے تو ہم اور بھی زیادہ خطرے میں ہیں۔ چوکیدار کو بھی تم نے جانے دیا کہ کوئی ایمرجنسی ہے اسے۔ یہ سب کچھ کوئی سازش بھی تو ہو سکتی ہے۔ مجھے کسی سیکیورٹی ایجنسی سے آج گارڈ منگوانا پڑے گا۔ صبح تم ریوالور ڈھونڈنا ورنہ پھر مجھے پولیس کو ایف آئی آر لکھوانی پڑے گی۔” وہ بات کرتے کرتے فون کی طرف بڑھ گیا۔ فون پر اس نے کسی سیکیورٹی ایجنسی سے گارڈ کی بات کی تھی۔ وہ بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس کی ایک چھوٹی سی لاپروائی نے ایمان کو محتاط کر دیا تھا۔
وہ بیڈ روم سے نکل گیا تھا۔ وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ اگلے چند منٹوں میں وہ پورے گھر کو چیک کر رہا ہوگا اور شاید ملازم کو بھی بلوا لے اور ایسا ہی ہوا تھا۔ چند منٹوں کے بعد بیڈ روم میں آ کر اس نے انٹر کام پر ملازم کو بلوا لیا۔ وہ ہونٹ بھینچے اس کی مصروفیات دیکھتی رہی۔ وہ ایک بار پھر بیڈ روم سے نکل گیا۔
چند منٹوں کے بعد وہ دوبارہ اندر آ گیا۔ ”صابر کو ریوالور کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔” اس نے امید کو جیسے مطلع کیا۔ وہ کوئی جواب دیے بغیر ٹی وی دیکھتی رہی۔ وہ ایک بار پھر باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد امید نے بیل کی آواز سنی۔ اس نے اندازہ لگا لیا کہ گارڈ باہر پہنچ چکا ہوگا۔
”کوئی بات نہیں گارڈ تو باہر ہی ہوگا۔ وہ اندر آ کر تو کچھ نہیں کر سکے گا۔ مگر پھر مجھے چوکیدار کو بھی بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔” اس نے ملازم اور چوکیدار کو صرف اس لیے وہاں سے بھیج دیا تھا تاکہ کسی بھی طرح کوئی مداخلت نہ ہو سکے اور وہ دونوں اس کے منصوبے میں رکاوٹ نہ بن سکیں لیکن اب صورت حال بالکل الٹ ہو گئی تھی۔ ان دونوں کی عدم موجودگی ہی ایک رکاوٹ بن گئی تھی۔




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!