ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

اس رات لاہور پہنچ کر اس نے عقیلہ کو بتایا تھا کہ اب وہ بہت جلد واپس راولپنڈی چلی جائے گی۔
”کیوں؟” اس نے حیران ہو کر پوچھا۔
”میری امی چاہتی ہیں۔ میں واپس آ جاؤں۔ دونوں بھائی سیٹل ہو چکے ہیں اب میری جاب کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ میری شادی کرنا چاہتی ہیں۔” اس نے دھیمے لہجے میں اپنے کپڑے استری کرتے ہوئے بتایا تھا۔
”اوہ… تو تم شادی کے لیے جانا چاہتی ہو، جہاںزیب کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی… خیر اچھا ہے مگر کیا تم خوش رہ سکو گی؟” عقیلہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”پتا نہیں، شاید ہاں یا پھر نہیں۔” وہ الجھ گئی۔
”تمہاری خوبی یہ ہے کہ تم کمپرومائز کر لیتی ہو… حالات سے… لوگوں سے، زندگی سے اور اپنے آپ سے، مجھے لگتا ہے خوش رہو یا نہ رہو مگر زندگی تم گزار ہی لو گی۔” عقیلہ نے اس کا تجزیہ کیا۔ وہ خاموشی سے کپڑے استری کرتی رہی۔
”کمپرومائز؟ نہیں، کمپرومائز کرنا ہی تو نہیں آیا… ورنہ میں نے اپنے ساتھ اور اپنی زندگی کے ساتھ یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا، چار سال سے جہاں زیب کے الوژن کے ساتھ زندگی نہ گزار رہی ہوتی۔” اس نے رنجیدگی سے سوچا۔
*…*…*
اگلے دن وہ ریسٹورنٹ گئی تھی۔ صبح ہاسٹل سے نکلتے ہوئے چوکیدار نے اسے بتایا کہ اس کی عدم موجودگی میں کوئی غیر ملکی اس کے بارے میں پوچھنے آیا تھا۔ وہ یہ جان کر حیران ہوئی کہ وہ اس کے ریسٹورنٹ سے آیا تھا۔ ریسٹورنٹ پہنچ کر اس نے اپنے ساتھ کام کرنے والے سے اس بارے میں پوچھا مگر کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ کوئی اس کے پیچھے اس کے نہ آنے کی وجہ معلوم کرنے گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
شام کو ڈینیل ایڈگر نامی وہ غیر ملکی ایک بار پھر وہاں آیا تھا اور ہمیشہ کی طرح سیدھا اس کے پاس آیا، اس نے رسمی مسکراہٹ کے ساتھ کاؤنٹر پر اس کا استقبال کیا۔ مگر وہ مسکراہٹ اس وقت اس کے چہرے سے غائب ہو گئی جب اس نے ڈینیل کا اگلا جملہ سنا۔ وہ اس سے اس ایک ہفتے کی عدم موجودگی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
اس نے حیرانی سے اس کے سوال پر اسے اور اس کے ساتھ موجود ایک دوسرے شخص کو دیکھا تھا جس نے برق رفتاری سے اس کے تاثرات سے چھلکنے والی ناگواری کو دیکھ کر آرڈر نوٹ کروانا شروع کر دیا۔ آرڈر نوٹ کرنے کے کچھ دیر بعد اس نے اسی خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ آرڈر سرو کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی اس خاموشی سے اس آدمی کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ سوال و جواب کے کسی سلسلے کو پسند نہیں کرتی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس شام جانے سے پہلے وہ آدمی اس سے کیا سوال کرنے والا تھا۔
وہ اس کے مستقل وہاں بیٹھنے سے الجھن کا شکار تھی اس دن پہلی بار اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ یہ شخص جو ہر روز یہاں آ کر بیٹھا رہتا ہے، اس کی وجہ کیا ہو سکتی تھی ”کیا میں؟” اس نے سوچا اور اس کی وحشت میں اضافہ ہو گیا ”یہ دفع کیوں نہیں ہوتا؟” پہلی بار کاؤنٹر پر کھڑے ہو کر اسے ڈینیل کی نظریں چبھ رہی تھیں۔
اس کی شفٹ ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے وہ اس کے پاس آیا اور امید نے اسے کہتے سنا۔
”کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟”
”کیا اس شخص کا دماغ خراب ہے؟” اس کے ذہن میں سب سے پہلے آنے والی بات یہی تھی۔
”کیا میری اوقات اب یہی رہ گئی ہے کہ اس کاؤنٹر پر کھڑے کوئی بھی شخص آ کر مجھے شادی کی آفر کرنے لگے؟” اس نے دل گرفتگی سے سوچا اور اسے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے وہ کاؤنٹر سے ہٹ گئی۔
اس رات ہاسٹل واپس جاتے ہوئے ایک جھماکے کے ساتھ اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اس کے پیچھے ہاسٹل آنے والا ڈینیل ایڈگر ہی ہو سکتا ہے اور اس خیال نے اسے کچھ اور خوفزدہ کر دیا۔ ”اسے یہ کیسے پتا چل گیا کہ میں یہاں رہتی ہوں اور وہ پیچھے کیوں آیا۔ مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟”
*…*…*





وہ ساری رات جاگتی رہی اور اگلی صبح وہ فیصلہ کر چکی تھی۔ گیٹ پر موجود چوکیدار کو اس نے ہدایت دی کہ اب اگر کوئی غیر ملکی اس کے بارے میں پوچھنے آئے تو وہ اس سے کہہ دے کہ امید ہاسٹل چھوڑ چکی ہے۔
اس نے اسی دن فون کر کے اپنی جاب چھوڑنے کے بارے میں بھی فاسٹ فوڈ چین کی انتظامیہ کو مطلع کر دیا۔ اتنے سالوں سے میں اس ہاسٹل میں رہ رہی ہوں کبھی بھی مجھے اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اور اب… اس طرح صرف ایک شخص کی وجہ سے مجھے بھاگنا اور چھپنا پڑ رہا ہے… آخر میں کیوں خوفزدہ ہوں اور کس چیز سے خوفزدہ ہوں؟… وہ میری مرضی کے بغیر تو مجھ سے شادی نہیں کر سکتا… مجھے اس کے سامنے انکار کرنا چاہیے تھا… جھڑکنا چاہیے تھا۔” وہ سوچتی اور حیران ہوتی۔
وہ اگلے کچھ دن وہیں رہی تھی… یہ سوچتی کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ کیا ایک بار پھر سے جاب کی تلاش کرنی چاہیے۔ ٹیوشنز کرنی چاہئیں یا پھر واپس راولپنڈی چلے جانا چاہیے۔ وہ بہت دن سوچ بچار میں رہی اور پھر جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گئی تھی۔
”ہاں، مجھے اب واپس اپنے شہر اپنے گھر چلے جانا چاہیے… آخر اب میں یہاں رہ کر کیا کرنا چاہتی ہوں… یہاں کیا ہے جس کے لیے رکنا چاہتی ہوں؟ کیا جہاں زیب…” وہ آگے کچھ سوچ نہیں پائی تھی۔
اسے ٹھیک سے یاد نہیں تھا۔ اس نے کتنے سال ہاسٹل میں گزارے تھے۔ اس نے یہاں اپنی زندگی کا سب سے اچھا وقت گزار دیا تھا۔
یہاں اس نے خواب دیکھے تھے…
یہاں اس نے چار سال پہلے ہمیشہ کے لیے خواب دیکھنے بند کر دیے تھے۔ یہاں اس نے اپنی زندگی کے چار بدترین سال گزارے تھے چار سال پہلے جو کچھ ہوا تھا اسے اس کا ایک ایک لمحہ یاد تھا پھر اس کے بعد چار سال کس طرح اس نے گزارے تھے وہ کوشش کرتی بھی تو اسے کچھ یاد نہیں آتا۔ اسے بس یونہی لگتا، جیسے پچھلے چار سال سے وہ کسی ایسے براعظم پر پہنچ گئی ہے جہاں تاریکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ جانے سے پہلے ایک دن ہاسٹل میں پھرتی رہی تھی۔ وہاں کی ہر چیز کے ساتھ اس کی یادیں وابستہ تھیں۔ ایسی یادیں جنھیں وہ بھلا دینا چاہتی تھی۔
سردیوں کی وہ راتیں جب اس نے اپنی زندگی کو برزخ بنتے دیکھا تھا… گرمیوں کی وہ راتیں جب اس کا جسم برف کا تودہ بن جاتا تھا…
اس کے آنسو اس کے خواب اس کی خواہشیں سب کی قبریں یہیں تھیں اور اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ ان قبروں کی مجاور بن چکی ہو…
اس قبرستان نے اس کے وجود کو کھا لیا تھا…
اب جب وہ باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی تو اس کا پورا وجود کٹ رہا تھا۔
*…*…*
راولپنڈی آنے کے بعد اگلے کئی دن وہ گم صم رہی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ایک نئی دنیا میں آ گئی ہو ایسی دنیا جو نہ اس کی تھی نہ اس کے لیے، نو سال گھر سے باہر رہنے کے بعد اب دوبارہ وہاں رہنا۔
”ہاں، میرے لیے تو بس یہی کافی تھا… تین وقت کا کھانا، سر چھپانے کے لیے ایسی جگہ جس کا کرایہ مجھے نہ دینا پڑتا ہو اور جسم ڈھانپنے کے لیے چند جوڑے کپڑے، میرا اثاثہ تو بس یہی چیزیں تھیں… پانچ سال ایک شخص کا انتظار کرنے اور چار سال اسے کھونے کے بعد حواس برقرار کرنے میں لگانے کے بعد میرے حصے میں آنے والی زندگی کچھ اتنی بری نہیں… بس صرف یہ ہوا ہے کہ زندگی کچھ زیادہ خاموش ہو گئی ہے۔ آنکھیں اب خواب نہیں دیکھتیں اور دل یقین کھو چکا ہے۔ مگر باقی سب کچھ تو ہے۔”
وہ سارا دن گھر کے صحن میں لگے ہوئے پودوں کے پاس بیٹھی سوچتی رہتی۔ ”گھر سے نکلتے ہوئے میں اٹھارہ سال کی تھی، واپس آتے ہوئے ستائیس سال کی ہو چکی ہوں اور نو سال میں میں نے اپنے لیے کیا کھویا۔ کیا پایا… شاید صرف کھویا… ”پانے” کی تو مجھ میں ہمت ہی نہیں تھی۔” وہ سوچتی اور اذیت ایک بار پھر اس کا گھیراؤ کرنے لگتی۔
امی اس کے گھر آ جانے سے بہت خوش اور مطمئن تھیں اور یہی حال اس کے بھائیوں کا تھا۔ شام کو ان کے ساتھ اکٹھے کھانا کھاتے ان کے پرُسکون اور مطمئن چہرے دیکھ کر حیرانی سے سوچتی رہتی۔
”کیا زندگی اتنی اچھی ہے کہ اس کے لیے مسکرایا جائے؟”

*…*…*
اس کے آنے کے کچھ دن بعد اس نے اپنے گھر دو عورتوں اور ایک مرد کو آتے دیکھا تھا۔ ان سے ملنے کے بعد امی کسی سوچ میں گم رہی تھیں۔ امید کو یوں محسوس ہوتا رہا جیسے وہ اسے بہت غور سے دیکھ رہی ہوں۔ رات کو اس نے انھیں اپنے بھائیوں کے ساتھ مصروفِ گفتگو پایا تھا۔ ان کا انداز بھی بہت پرُاسرار تھا۔
”تم ڈینیل ایڈگر کو جانتی ہو؟” فریج سے پانی نکالتے ہوئے وہ بالکل ساکت ہو گئی۔ پھر اس نے اپنے ہاتھوں میں کپکپاہٹ دیکھی۔
”میرے خدا… کیا اب مجھے اپنے گھر والوں کے سامنے اپنی صفائی دینی پڑے گی… وہ بھی ڈینیل ایڈگر کے حوالے سے؟” وہ بمشکل پلٹی تھی۔ امی ڈائننگ ٹیبل پر سبزی بناتے ہوئے اس کے جواب کے منظر تھیں۔
”میں جس ریسٹورنٹ میں کام کرتی تھی۔ وہاں کھانا کھانے کے لیے آیا کرتا تھا۔” اس نے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے حتی المقدور نارمل لہجے میں کہا۔
”اچھا… کیسا آدمی ہے؟” وہ ان کے سوال پر ایک بار پھر سن رہ گئی۔
”مجھے کیا پتا؟… مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟” امی نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”اس نے تمہارے لیے رشتہ بھجوایا ہے۔” اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس گر پڑا۔
”یہاں تک کیسے پہنچ گیا یہ شخص… اور کیوں؟… جب میں۔”
وہ بے اختیار خوفزدہ ہوئی۔ امی نے اس کے ہاتھ سے گرتے گلاس کو دیکھا پھر اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔
”ہم لوگ سوچ رہے تھے کہ شاید تم اسے جانتی ہو اور تمہاری پسند کی وجہ سے ہی اس نے یہاں اپنا رشتہ بھجوایا ہے۔”
”نہیں، میں اسے بس اتنا ہی جانتی ہوں اور پسند کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کیسے کر سکتی ہوں؟” اس نے تیزی سے وضاحت کی۔
”وہ اسلام قبول کر چکا ہے۔ اب ایمان علی نام ہے اس کا۔” امی نے دھیمے لہجے میں کہا، وہ کچھ دیر ساکت انھیں دیکھتی رہی۔
”پھر بھی میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ اس طرح مذہب تبدیل کرنے والوں کا کچھ اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ انکار کر دیں۔”
امی نے اس کی بات پر ایک مطمئن اور گہری سانس لی۔
وہ اگلے کئی دن پریشان رہی۔ ”میرے گھر والے کیا سوچتے ہوں گے کہ میں لاہور میں کیا کرتی رہی ہوں۔”
وہ اپنے بھائیوں کے چہرے پر ملامت اور خفگی تلاش کرتی رہی۔ مگر ان کے چہرے پہلے ہی کی طرح تھے۔ چند دن بعد اس نے ایک بار پھر ان ہی لوگوں کو آتے دیکھا تھا۔
پھر جیسے یہ ایک روٹین بن گئی، وہ ہفتے میں ایک دو بارضرور آتے تھے۔ امی کے انکار کے باوجود ان کا اصرار نہیں ختم ہو رہا تھا۔ اس کی بے چینی اور اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔
”آپ ان سے کہیں، وہ ہمارے گھر نہ آئیں۔ ہمیں یہ رشتہ پسند نہیں ہے تو پھر اس طرح بحث کی کیا تُک ہے۔”
اس دن ان کے جانے کے بعد اس نے اپنی امی سے کہا۔
”میں بہت بار ان سے کہہ چکی ہوں مگر وہ لوگ بضد ہیں۔”
اس کی امی نے اپنی مجبوری ظاہر کی۔ وہ ان کا منہ دیکھتی رہی۔
*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!