ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ پتا نہیں وہ سب کچھ سوچتے سوچتے رات کس وقت سوئی تھی۔ آنکھ کھلتے ہی وہ ایک بار پھر وہیں پہنچ گئی۔ ہر چیز اتنی ہی خراب اتنی ہی بدصورت تھی جتنی رات کو تھی۔ کاش سب کچھ خواب ہوتا۔ سب کچھ۔ جہاں زیب… ایمان علی… یہ زندگی… سب… اگر ایسا ہوتا تو ابھی آنکھیں کھولنے کے بعد میں کس قدر خوش اور مطمئن ہوتی۔
اس کی آنکھوں میں چبھن ہو رہی تھی۔ آنکھیں بند کر کے اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنے پپوٹے چھوئے۔ سوجی ہوئی آنکھوں نے اسے ایک بار پھر یاد دلایا کہ وہ رات کو روتی رہی تھی۔ پھر اسے یہ بھی یاد آیا کہ اسے آج کیا کرنا ہے۔
سامنے دیوار پر لگا ہوا کلاک نو بجا رہا تھا۔ کمرے میں پھیلی ہوئی روشنی اسے بری لگ رہی تھی۔ بالکل زندگی کی طرح۔ چند منٹ وہ خالی الذہنی کی کیفیت کے ساتھ کمرے کو دیکھتی رہی۔ دیواریں، کھڑکیاں، چھت، فرش، سب کچھ یہیں ہوگا، بس کچھ دیر بعد میں یہاں نہیں ہوں گی نہ ہی دوبارہ کبھی آؤں گی۔ اس نے سوچا تھا۔
باہر سے باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں، مدہم آوازیں، چھوٹے چھوٹے قہقہے، خاموشی اور ایک بار پھر آوازیں… ”اور یہ سب کچھ میں زندگی میں آخری بار سن رہی ہوں۔”
اس نے آوازوں کو پہچاننے کی کوشش کی… سفینہ کے قہقہے پہچاننے میں دیر نہیں لگی اس کی ہنسی بہت خوبصورت تھی کھلکھلاتی ہوئی بے اختیار… رواں… شفاف… معین کی بلند آواز… وہی مخصوص زیرو بم… ثاقب کا شستہ لہجہ… امی کی مدھم آواز… اس کی سماعتیں ہر آواز کو شناخت کر رہی تھیں پھر اچانک اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی، کوئی کرنٹ اس کی ساری حسیات بیدار کر گیا۔ اس کی سماعتوں نے ان آوازوں میں ایک اور آواز کو بھی شناخت کیا تھا۔ چند لمحوں کے لیے وہ ہل نہیں سکی۔
”کیا یہ الوژن ہے یا پھر…” اس نے ایک بار پھر اس آواز کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
“I Don’t Know” (مجھے نہیں پتا) آواز ایک بار پھر آئی اس نے کسی بات کے جواب میں کہا تھا۔
ننگے پاؤں وہ بیڈ سے اٹھ کر بھاگتی ہوئی دروازے تک آئی اور ایک جھٹکے سے اس نے دروازہ کھول دیا۔ کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔ وہ سامنے موجود تھا۔ سب کے ساتھ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے ثاقب کی کسی بات پر مسکراتے ہوئے۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر سب دروازے کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ وہ بھی ادھر ہی دیکھ رہا تھا۔
”لو امید کو جگانے کا سوچ رہے تھے مگر وہ خود ہی آ گئی۔”
امی نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ وہ کھلے دروازے کے درمیان کھڑی کسی بت کی طرح ایمان علی کو دیکھ رہی تھی۔
اس نے زندگی میں کبھی اپنے علاوہ کسی سے نفرت نہیں کی تھی۔ جہاں زیب سے بھی نہیں۔ اس کا خیال تھا، نفرت صرف اپنے آپ سے ہی ہو سکتی ہے مگر اس وقت پہلی بار اسے پتا چلا کہ نفرت دوسروں سے بھی ہوتی ہے اور اس نفرت کی کوئی حد ہوتی ہے نہ حساب۔ اس وقت سامنے کرسی پر بیٹھے ہوئے ایمان علی سے اس نے صرف نفرت نہیں کی تھی۔ اسے گھن بھی آئی تھی۔ وہ اس پر تھوکنا بھی چاہتی تھی اور گالیاں دینا بھی۔ اس کا دل یہ بھی چاہا تھا کہ اس وقت اس کے پاس سلگتے انگارے ہوں جنھیں وہ ایمان علی پر پھینک دے یا پھر ایک ایسا بھڑکتا ہوا الاؤ ہو جس میں وہ اسے دھکیل دے… یا… یا پھر اس کے ناخن اتنے لمبے ہو جائیں جن سے وہ ایمان علی کا پورا چہرہ، پورا جسم کھرچ دے۔ اتنا گہرا اور اتنی بری طرح کہ وہ دوبارہ کبھی اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکے۔
”السلام علیکم!” وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ پلکیں جھپکے بغیر اس پر نظریں جمائے چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔





”امید! سلام کا جواب تو دو۔” اس کی امی نے جیسے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
”ایک مکار، دھوکے باز، ذلیل اور کمینے یہودی پر میں… میں اللہ کی رحمت تو نہیں بھیجوں گی۔” اس نے زہریلے انداز میں سوچا۔
اس کے چہرے پر کوئی ایسا تاثر ضرور تھا جس نے ایمان کو یک دم سنجیدہ کر دیا۔
”ایمان بھائی ابھی آدھ گھنٹہ پہلے آئے ہیں آپ کو لینے۔ میں انھیں بتا رہا تھا کہ آج امید بھی واپس لاہور جا رہی تھی۔ لگتا ہے، تم دونوں فون وغیرہ کے بغیر ہی کوئی وائرلیس ٹائپ کا رابطہ رکھے ہوئے ہو۔”
معین یقینا مذاق کر رہا تھا۔ وہ کچھ کہے بغیر ایک جھٹکے سے پلٹ کر واپس کمرے میں آ گئی۔
”یہ ان کو کیا ہوا؟” ثاقب نے کچھ حیران ہو کر اسے اس طرح خاموشی سے واپس جاتے دیکھ کر کہا۔
ایمان حیران نہیں ہوا۔
”وہ ناراض ہے۔ میں نے آپ کو بتایا ناں میں کچھ عرصہ مصروفیات کی وجہ سے اس سے رابطہ نہیں کر سکا۔ فون نہ کرنے پر ہی وہ ناراض ہو کر یہاں آ گئی ہے۔ میں منا لیتا ہوں۔” چائے کا کپ رکھتے ہوئے ایمان نے کہا اور مسکراتے ہوئے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
امید نے اندر کمرے میں اس کی آواز سنی۔
”تم کیسی ہو؟” ایمان نے اسے مخاطب کیا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
”یہ شخص میری زندگی میں کیوں آیا؟ میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ میں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش… اپنی محبت صرف تمہارے لیے چھوڑ دی اور تم نے تم نے میرے ساتھ کیا کیا۔ میری قربانی کے بدلے میں تم نے میرے مقدر میں یہ… یہ شخص لکھ دیا۔ ایک یہودی جس کے ساتھ میں ایک سال سے رہ رہی ہوں… یہ سوچتے ہوئے کہ اس نے میرے لیے اپنا مذہب چھوڑ دیا ہے۔ کیا اس سے بہتر جہاں زیب نہیں تھا۔ وہ کم از کم مسلمان تو تھا۔ اس کے ساتھ جانے پر مجھے کوڑے لگتے، سنگسار کیا جاتا مگر میرا ایمان تو رہتا… میرے سامنے یہ شخص تو ایمان بن کر نہ آتا۔”
اس نے بے اختیار اللہ سے شکوہ کیا تھا۔
”میں جانتا ہوں امید! تم ناراض ہو لیکن کچھ حالات ہی ایسے تھے کہ میں تم سے رابطہ نہیں کر سکا۔ آج ہی پاکستان آیا ہوں اور آتے ہی تمہیں لینے آ گیا ہوں۔”
اب اس نے قریب آ کر معذرت کی۔
اس کا دل چاہا، وہ اسے دھکے دے کر اس کمرے اور اس گھر سے نکال دے اسے چلا چلا کر بتائے کہ وہ اس کے بارے میں سب کچھ جان چکی ہے مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ یہ سب کچھ کہہ سکتی ہے نہ کر سکتی ہے۔ اس کمرے سے باہر کچھ ایسے لوگ کھڑے تھے جن کے لیے اس نے ساری زندگی جدوجہد کی تھی۔ جن کے خوابوں کو تعبیر دیتے دیتے وہ اس مقام پر آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اب ان لوگوں کے سامنے وہ بھکاری بن کر کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ دس سال میں دی جانے والی خوشیوں کو وہ ایک لمحے میں چھیننا نہیں چاہتی تھی۔ وہ چاہتی بھی تو ایسا نہیں کر سکتی تھی۔
زندگی میں بہت بار اس نے صبر اور خاموشی سے کام لیا تھا۔ اس بار اسے صبر نہیں صرف خاموشی اختیار کرنی تھی چند لمحوں کے لیے چند گھنٹوں کے لیے پھر ہمیشہ کے لیے۔ یہ یہاں نہ آتا تو بھی مجھے مرنا تھا۔ یہ یہاں آ گیا ہے تو بھی مجھے مرنا ہے مگر اب اکیلے نہیں۔ ہر شخص کو اپنے ایمان کی حفاظت خود ہی کرنی پڑتی ہے۔ مجھے بھی خود ہی کرنی ہے۔ بدلہ لینا ہے مجھے بہت سی چیزوں کا اور اس شخص کی موت یہ کام کرے گی۔ ڈینیل ایڈگر سے یہ شخص ایمان کبھی نہیں بن سکا مگر اس زندگی میں اس کی موت اسے میرا ایمان بنا دے گی۔ اس نے اس کے مسکراتے چہرے اور چمکتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
”آئی ایم سوری۔” وہ اب معذرت کر رہا تھا۔ ”میں دوبارہ کبھی ایسا نہیں کروں گا کہ تم سے اس طرح رابطہ ختم کر دوں۔”
”آج تمہارے ساتھ میرا ہر رابطہ ختم ہو جائے گا اور اس بار یہ کام تم نہیں میں کروں گی۔” اس نے اس کی معذرت پر سوچا تھا۔
”کیا تم ابھی بھی ناراض ہو؟” اس نے اب امید کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے چاہے اور وہ جیسے ایک جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹی۔ ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیا ہوا؟” اس نے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں۔ تم کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو بس ٹھیک ہے۔” وہ اس سے دور ہٹ کر بولی تھی۔
”تم اب ناراض نہیں ہو؟”
”نہیں۔”
ایمان کچھ مطمئن ہو گیا۔ ”لاہور واپس جا کر میں تمہیں بتاؤں گا کہ میرے ساتھ امریکہ میں کیا ہوا۔ تم نے اپنا بیگ تو تیار کر لیا ہوگا۔ امی بتا رہی تھیں کہ تم بھی آج واپس جا رہی تھیں، مجھے بھی آج ہی واپس جانا ہے، کچھ ضروری کام ہے لاہور میں… پلین میں آج مجھے سیٹیں نہیں مل سکیں اس لیے میں نے ڈیوو کی بکنگ کرائی ہے۔ ہمیں ابھی نکلنا ہوگا۔” وہ اسے اپنا ”پروگرام” بتا رہا تھا۔ وہ اپنا ”پروگرام” طے کر رہی تھی۔
وہ ایک بار پھر اس کے قریب آ گیا تھا۔ اسے ایک بار پھر اس کے وجود سے اتنی ہی گھن آئی تھی۔ اس بار اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے کے بجائے اس نے بڑی نرمی سے اس کے دائیں گال کو اپنے ہاتھ سے چھوتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں ایک ماہ اور چار دن کے بعد دیکھ رہا ہوں۔ کیا محسوس کر رہا ہوں بتا نہیں سکتا۔ سب کچھ بتانا بہت مشکل ہوتا ہے مگر پھر بھی تمہیں دیکھ کر مجھے بہت سکون مل رہا ہے۔ اتنا سکون کہ…”
اس نے ایک جھٹکے سے اپنے گال سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا اور پھر اس کے پاس سے ہٹ گئی۔
”مجھے تیار ہونا ہے۔ دیر ہو رہی ہے۔” ایمان کا ردعمل دیکھے بغیر وہ کمرے سے نکل گئی۔
”میں بھی تمہیں ایک ماہ اور چار دن کے بعد دیکھ رہی ہوں۔ کیا محسوس کر رہی ہوں، میرے لیے بھی بتانا مشکل ہے۔ مگر پھر بھی تمہیں دیکھ کر مجھے اتنی اذیت اور بے عزتی کا احساس ہو رہا ہے کہ…” اس نے کمرے سے نکلتے ہوئے سوچا۔
”ایمان کہہ رہا ہے کہ اسے ابھی واپس جانا ہے مگر میں اس سے کہہ رہی تھی کہ اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے کل چلا جائے۔” امی نے اس کو باہر آتے دیکھا تو اس سے کہا۔
”نہیں، ہمیں آج ہی جانا ہے، اسے کوئی ضروری کام ہے لاہور میں اس لیے آج ہی جانا پڑے گا۔” اس نے کہا۔
”مگر پلین کی سیٹس بھی نہیں مل سکیں۔ سڑک کے ذریعے جانے میں بہت وقت لگے گا اور تھک بھی جاؤ گے۔” امی فکر مند تھیں۔
”کچھ نہیں ہوگا۔” وہ کچھ سرد مہری سے کہتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
نہانے کے بعد جب وہ تیار ہو کر آئی تو ایمان امی سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ اسے ایک سرسری نظر سے دیکھ کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔سورة فتح کی تلاوت کرنے کے بعد اس نے دعا کی تھی۔
”میرے پاس اب صرف ایک موقع ہے آخری موقع کہ میں نادانستہ طور پر ہونے والے اپنے اس گناہ کا کفارہ ادا کر سکوں اور میں یہ کفارہ اپنے اور اس شخص کے خون سے ادا کروں جو اس گناہ کا موجب ہے۔ مجھے استقامت اور ثابت قدمی عطا کرنا۔ اتنی استقامت کہ اس شخص کی جان لیتے ہوئے میرے ہاتھ میں کوئی لرزش ہو نہ دل میں کوئی پچھتاوا۔ میری آنکھوں میں کوئی آنسو آئے نہ میرے ذہن میں کوئی خوف۔ آج کے دن کے لیے مجھے بے رحمی کی صفت سے نواز دو۔ وہ بے رحمی جو میرے پیروں میں لرزش نہ آنے دے، جو میرے دل کو پتھر اور آنکھوں کو خشک کر دے۔ زندگی میں ایک بار پھر مجھے ایمان اور محبت میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑا۔ ایک بار پھر میں نے محبت کو ترک کرتے ہوئے ایمان کا انتخاب کیا ہے تُو میری نیت سے واقف ہے اور میرا ہر عمل تیرے ہی لیے ہے۔” اس نے اپنے اندر ایک عجیب طاقت محسوس کی۔
وہ کمرے سے اٹھ کر باہر آ گئی۔ سفینہ ناشتا لگا رہی تھی۔ ایمان نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔
”میں تیار ہوں۔ چلیں؟” وہ یک دم ایمان سے بولی۔
”لو اس طرح کیسے جا سکتی ہو، پہلے ناشتا تو کرو۔” اس کی امی نے کچھ برا مانتے ہوئے کہا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔”
”بھوک ہے یا نہیں لیکن ناشتا کیے بغیر تم نہیں جا سکتیں۔ بہت عجیب عادت ہے اس کی۔ ہمیشہ سے کھانے کی پروا نہیں کرتی۔” امی نے ایمان سے کہا جو ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی بات سن رہا تھا۔ ”کیا لاہور میں بھی اسی طرح کرتی ہے؟”
”نہیں، وہاں تو کھانا وقت پر کھا لیتی تھی۔ مجھے لگتا ہے، یہیں آ کر لاپروا ہو گئی ہے۔” اس نے امید کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ناشتا کرنے کے بعد معین ٹیکسی لے آیا اور ایمان اور امید کا سامان ٹیکسی میں رکھوانے لگا۔ سب لوگ انھیں دروازے تک چھوڑنے آئے۔ دروازے سے نکلنے سے پہلے وہ ایک بار پلٹی اور اپنی امی کا چہرہ دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی۔ ان لوگوں اور اس گھر کو وہ آخری بار دیکھ رہی تھی۔ ایمان نے کچھ حیرانی سے اس کی آنکھوں میں نمودار ہونے والی نمی کو دیکھا، اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔ ایک گہری سانس لے کر وہ دہلیز پار کر گئی۔ ایمان اس کے پیچھے تھا۔
ڈیوو میں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے بعد اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ چاہتی تھی ایمان اسے مخاطب کرے نہ ہی اس سے کوئی بات کرے۔ ساتھ والی سیٹ پر موجود اس کا وجود اس کے لیے ایک کانٹے کی طرح تھا۔
”تم راولپنڈی کیوں آ گئیں؟” وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اس سے کہے، وہ اس کا فریب جاننے کے بعد وہاں سے آئی تھی۔
”میں اکیلی تھی وہاں، اس لیے یہاں آ گئی۔” کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اس نے جواب دیا۔ ایمان کچھ دیر اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔
”میرے رابطہ نہ کرنے کی وجہ…”
امید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ میں سفر خاموشی سے کرنا چاہتی ہوں، اس لیے پلیز…”
ایمان نے گردن موڑ کر امید کو دیکھا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کے لہجے میں اتنی بے گانگی، اتنی بیزاری کیوں تھی۔
”تمہارا غصہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا؟” اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔ وہ خاموش رہی۔
”مجھے تمہاری ناراضگی دور کرنے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟” وہ سنجیدہ تھا۔




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!