امربیل — قسط نمبر ۷

انہوں نے عمر کو جہانگیر کے ایک اور دوست کے بارے میں بتایا عمر نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا۔
”پھر جہانگیر کی اس اچانک شادی کی وجہ سے بھی مسئلہ ہوا۔ ایمبیسی میں موجود کسی ایجنسی کے آدمی نے جہانگیر کی شادی سے پہلے رشنا کے حوالے سے کوئی خفیہ رپورٹ بھیج دی۔ فارن منسٹر تو پہلے ہی تاک میں بیٹھے تھے، انہوں نے فوراً شور شرابا کردیا۔ پریس تک یہ خبر لانے والے بھی وہی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ معاملہ پریس تک آئے گا تو خوب اچھلے گا اور پھر وزیراعظم اسے ہٹانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ مگر جبار بہت کام آیا۔ اس نے منسٹر کی ایک نہیں چلنے دی… لیکن آخر کب تک… اب منسٹر مسلسل تاک میں ہے۔ چوٹ کھایا ہوا سانپ بنا بیٹھا ہے۔”




”فارن سروس میں اس طرح کی سچویشن ہے تو پولیس سروس میں تو اور بھی زیادہ پرابلمز ہوں گے، کیونکہ وہاں سیاسی مداخلت اور بھی زیادہ ہے۔” لئیق انکل کے ساتھ بھاگتے ہوئے اس نے تبصرہ کیا۔
”اچھی پوسٹنگ تو وہاں بھی مشکل سے ہی ملے گی۔”
”ہاں یہ پرابلمز تو وہاں بھی ہیں، مگر وہاں بندہ جس بھی شہر میں پوسٹڈ ہو، وہاں کی انڈسٹریلسٹ کلاس سے کانٹیکٹس بنا سکتا ہے۔ اچھا خاصا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بندے کے پاس پاور اور اتھارٹی ہو تو سمجھو، ساری دنیا اپنی ہے۔” وہ اسے گر سکھا رہے تھے۔
”تم نے انتخاب میں دوسرے نمبر پر کون سا ڈیپارٹمنٹ دیا ہے؟”
”ڈی ایم جی۔”
”اور پولیس سروس کو کس نمبر پر لیا ہے؟”
”تیسرے پر۔”
”بہتر ہوتا تم اسے ہی پہلے نمبر پر رکھتے بہر حال ابھی بھی وقت ہے، تم سوچ لو، میں جہانگیر سے دوبارہ بات کروں گا۔ سب کچھ بدلا جاسکتا ہے۔” انہوں نے اس کے سامنے جیسے نیا راستہ کھولا تھا۔
”نہیں انکل! میں فارن سروس ہی جوائن کرنا چاہتا ہوں… مجھے کسی دوسرے گروپ میں دلچسپی نہیں ہے۔” عمر نے انکار کردیا۔
”پھر بھی ایک بار دوبارہ سوچ لو۔”
”نہیں، جو بھی پاپا نے طے کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہے۔” لئیق انکل جاگنگ کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔
لئیق انکل جہانگیر معاذ سے اپنی دوستی پر بڑا فخر کرتے تھے اور وہ اس بات پر بھی خاصے نازاں تھے کہ جہانگیر معاذ ان پر مکمل طور پر اعتماد کرتا تھا۔
عمر سے ملاقات کے دوران بھی انہوں نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا تھا اور وہ صرف مسکرا کر رہ گیا تھا وہ ان کی خوش فہمی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ ورنہ وہ جانتا تھا کہ جہانگیر معاذ جیسا شخص جو اپنے سائے پر بھی اعتماد نہیں کرتا۔ وہ ایک کزن پر کیسے اعتماد کرسکتا ہے، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح لئیق انکل بھی ان کے ہاتھ ایک کٹھ پتلی کی طرح تھے جنہیں وہ بڑی ہوشیاری سے استعمال کر رہے تھے۔ عمر صرف اس بات کا اندازہ نہیں کر پارہا تھا کہ لئیق انکل اس بات کو جانتے تھے یا نہیں۔ عمر نے لئیق انکل کے بارے میں اپنے باپ کے منہ سے بہت بار تمسخرانہ جملے سنے تھے اور لئیق انکل واحد نہیں تھے۔ وہ اپنے ہر دوست اور ملنے والے کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے۔ عمر کو حیرانی ہوتی کہ اس کے باوجود ان کے دوستوں کی لمبی چوڑی تعداد میں کوئی کمی آئی نہ ہی انہیں کبھی اپنے دوست سے نقصان پہنچا تھا۔
اس نے جہانگیر معاذ کو صرف اپنے فرینڈ اور کزنز کا ہی نہیں بلکہ اپنے بھائیوں کے نام اور پوزیشن کا بھی بری طرح استعمال کرتے دیکھا تھا، اور اب جب وہ اپنے باپ کے کسی بھی دوست سے ملتا تو اسے ہمیشہ ان پر ترس آتا… لئیق انکل بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔
٭٭٭
”وہ عمر! ثمرین آنٹی نے دوبارہ کال کی ہے۔ میں نے انہیں بتا دیا کہ تم گھر پر نہیں ہو۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ جب تم واپس آؤ تو میں تم سے کہوں کہ تم انہیں کال کرو۔”
وہ اس وقت کلب سے واپس آیا تھا جب لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اسے دیکھ کر شانزہ نے اطلاع دی۔ عمر یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
”انہوں نے بس یہی پیغام چھوڑا ہے؟”
”ہاں بس یہی کہا تھا انہوں نے تمہارے موبائل پر بھی کال کی تھی مگر تم نے اپنا موبائل آف کیا ہوا تھا۔”
شانزہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ عمر مزید کچھ پوچھنے کے بجائے سیدھا اپنے کمرے میں آگیا۔
موبائل آن کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ نہانے کیلئے باتھ روم میں چلا گیا۔ آدھ گھنٹہ کے بعد جب وہ نہانے کے بعد باہر نکلا تھا تو اس کے موبائل کی بیپ سنائی دے رہی تھی۔ اس نے کچھ ٹھٹک کر تذبذب کے عالم میں موبائل اٹھایا تھا کال کرنے والے کا نمبر دیکھ کر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ایک گہرا سانس لے کر اس نے کال ریسیو کیا۔
”ہیلو عمر! میں ثمرین بات کر رہی ہوں۔” دوسری طرف سے اسے اپنے باپ کی دوسری بیوی کی آواز سنائی دی۔
”ہاں، میں بول رہا ہوں… کیسی ہیں آپ؟”
”میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟”
”فائن۔”
”میں آج سارا دن بار بار تم سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر تمہارا موبائل آف تھا۔”
”ہاں، میں کچھ مصروف تھا، آپ کو کوئی ضروری کام تھا؟” دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی پھر ثمرین کی آواز سنائی دی۔
”تمہیں جہانگیر کی شادی کا تو پتا چل ہی گیا ہوگا؟”
”ہاں میں جانتا ہوں۔” اس نے مختصراً کہا۔
”تم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہو گے کہ وہ لڑکی جہانگیر کی آدھی عمر سے بھی کم عمر ہے۔ پھر جس طرح کی شہرت وہ رکھتی ہے میں نہیں جانتی، جہانگیر کو کیا ہوگیا ہے وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہا ہے۔” ثمرین کے لہجے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
عمر خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا۔” میں اور بچے جہانگیر کی اس حرکت سے کتنے ڈسٹرب ہیں اس کا تم اندازہ نہیں کرسکتے۔”
”لیکن میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟” اس نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”تم جہانگیر سے بات کرو” ثمرین کا لہجہ اس بار کچھ دھیما تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!