امربیل — قسط نمبر ۷

معاذ حیدر نے جیسے کچھ بے بس ہوکر اسے دیکھا۔ ”جو بھی ہے، بہر حال تم جہانگیر کی وجہ سے اپنا کیریئر داؤ پر مت لگاؤ۔ تھوڑے سکون اور سمجھ داری سے کام لو۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس طرح بھاگم بھاگ امریکہ جاکر تمہیں کیا مل جائے گا۔ جہانگیر سے سامنا ہوگا، وہ اور مشتعل ہوگا۔ یہاں سے چلے جانے سے بھی تمہارا ہی نقصان ہوگا۔ اس لیے تم ٹھنڈے دماغ سے اس مسئلے پر غور کرو اور پھر کوئی فیصلہ کرو۔”




معاذ حیدر نے ایک بار پھر اسے سمجھانا شروع کردیا وہ پوری خاموشی کے ساتھ سرجھکائے ان کی بات سنتا رہا۔ پہلے کی نسبت وہ اب مضمحل لگ رہا تھا۔ معاذ حیدر کو اس کے تاثرات سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کشمکش کا شکار ہوچکا ہے۔
بہت دیر تک وہ دونوں اس کے پاس بیٹھے اسے سمجھاتے رہے۔ وہ اسی خاموشی کے ساتھ کچھ جواب دیئے بغیر ان کی باتیں سنتا رہا۔
جب وہ دونوں اس کے پاس سے اٹھ کر آئے تھے تب بھی وہ خاموش تھا۔ اب اس کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پائے، اس نے کیا فیصلہ کیا تھا۔
ان دونوں کے جانے کے بعد عمر نے کمرہ لاک کر لیاتھا۔ بیڈ پر سیدھا لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے وہ بہت دیر تک اپنا ذہن کسی بھی چیز پر مرکوز نہیں کرپارہا تھا۔
”گرینڈ پا ٹھیک کہتے ہیں۔ میں واقعی ایک ایسی کٹھ پتلی ہوں جس کی ڈوریاں پوری طرح سے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ میں چاہوں بھی تو خود کو آپ سے نہیں چھڑا سکتا۔ آپ میرے لئے آکٹوپس سے بھی زیادہ خوفناک ثابت ہورہے ہیں۔ مگر پاپا! ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب میں خود کو آپ کے شکنجے سے چھڑا لوں گا۔ مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ وہ وقت کتنی جلدی آتا ہے۔”
وہ لیٹے لیٹے بڑبڑایا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ چند منٹ وہ اس طرح پڑا رہا پھر یکدم جیسے ایک خیال آنے پر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا والٹ ہاتھ بڑھا کر اٹھالیا۔ آہستگی سے والٹ کھول کر اس نے اس میں لگی ہوئی ایک تصویر کو دیکھنا شروع کردیا۔ پھر کھلے ہوئے والٹ کو اپنی آنکھوں پر الٹ کر اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
٭٭٭
وہ صبح کی فلائٹ سے اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔ ایئرپورٹ پر اسے لئیق انکل کی بڑی بیٹی شانزہ نے ریسیو کیا۔ وہ شانزہ سے پہلے بھی دو تین بارمل چکا تھا اس لیے اسے کوئی اجنبیت نہیں ہوئی تھی، مگر جس موڈ میں وہ ان دنوں تھا بہت کوشش کے بعد بھی وہ اس طرح شانزہ سے بات نہیں کرسکا جیسے پہلے کرتا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ کھنچا کھنچا تھا اور شانزہ نے یہ بات فوراً محسوس کرلی تھی۔
ایئرپورٹ سے گھر جاتے ہوئے گاڑی میں اس نے عمر سے خاصی بے تکلفی سے کہا۔
”تم خاصے سیریس ہوگئے ہو عمر! چھ ماہ پہلے جب تم سے ملاقات ہوئی تھی تو تم خاصے جولی ہوا کرتے تھے۔ اب کیا ہوا ہے؟”
‘نہیں، میں ویسا ہی ہوں، کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پتا نہیں تمہیں کیوں ایسا لگا ہے۔” عمر نے مسکرا کر کہا۔
”چلو ٹھیک ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔”
”لئیق انکل تو اس وقت آفس میں ہوں گے؟” عمر نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں! پاپا تو آفس میں ہی ہیں۔ اسی لیے تو میں لینے آئی ہوں تمہیں۔ اگر تمہاری فلائٹ رات کو ہوتی تو وہ خود تمہیں لینے آتے۔ تم اب گھر جانے کے بعد انہیں رنگ کرلینا۔ انہوں نے خاص طور پر کہا ہے۔”
”میں سوچ رہا ہوں کہ انکل کے آفس ہی چلا جاتا ہوں۔ وہاں۔۔۔”
شانزہ نے عمر کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔ ”وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہ آج تھوڑی دیر ہی وہاں رہیں گے… پھر انہیں دو تین جگہوں پر جانا ہے… آج کل آفس میں ان کا زیادہ وقت نہیں گزرتا بلکہ کچھ دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔” شانزہ نے لاپروائی سے کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ آج کا دن تو ایسے ہی نکل جائے گا۔” عمر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”تمہیں جلدی کس بات کی ہے۔ آج کا دن گزر جائے گا تو پھر کیا ہے۔ تم آرام سے یہاں رہ کراپنا کام کرو۔ دن گننے کی کوشش نہ کرو، ویسے بھی پاپا بتا رہے تھے کہ انکل جہانگیر نے تمہیں ابھی اسلام آباد رہنے کیلئے ہی کہا ہے۔”
عمر نے اس بات پر ایک گہرا سانس لے کر کھڑکی سے باہر جھانکا۔
”ویسے عمر! انکل جہانگیر کا ٹیسٹ بہت اچھا ہے۔” عمر نے چونک کر شانزہ کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ تھی۔
”رشنا کسی کو گھاس تک نہیں ڈالتی تھی… شادی تو دور کی بات تھی مگر دیکھ لو۔۔۔”
عمر نے بے اختیار اپنا نچلا ہونٹ بھینچ لیا۔
”میں نے ایک دو شوز میں ماڈلنگ کی ہے اس کے ساتھ، وہ واقعی بہت اٹریکٹو اور گلیمرس ہے۔” شانزہ اب اس کی تعریف کر رہی تھی۔
”تم ماڈلنگ کرنے لگی ہو؟” عمر نے دانستہ طور پر بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”پروفیشنلی تو نہیں بس ایڈونچر کے طور پر… ممی کی ایک فرینڈ کے کہنے پر لیڈیز کلب کے ایک فنکشن میں کی تھی… رسپانس بہت اچھا ملا اور وہیں ایک میگزین کی ایڈیٹر نے ایک فیشن شوٹ کے لئے کہا۔ بس پھر آہستہ آہستہ کچھ اور فیشن شوز بھی ملنے لگے۔ بلکہ اب تو ایک ٹی وی سیریل کا کانٹریکٹ بھی سائن کیا ہے۔ لیڈنگ رول نہیں ہے مگر اچھا رول ہے۔ مجھے تو بس یہ خوشی ہے کہ بہت اچھی کاسٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا۔”
شانزہ نے بہت جوش سے اپنے بارے میں تفصیل سے بتانا شروع کردیا تھا۔
”اچھی ایکٹیویٹی ہے۔” عمر نے سرسری سا تبصرہ کیا۔
”اس ویک اینڈ پر ایک فیشن شو میں حصہ لے رہی ہوں، تم چلنا ساتھ۔” شانزہ نے فوراً اسے آفر کی۔
”نہیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے فیشن شوز میں۔” عمر نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
”کیا؟ تمہیں کوئی انٹرسٹ ہی نہیں ہے حالانکہ تمہاری ممی خود اتنی مشہور ماڈل رہ چکی ہیں۔ پھر بھی تمہیں انٹرسٹ نہیں ہے۔”
عمر نے اس کی بات کا جواب ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے دیا۔ گاڑی میں کچھ دیر کیلئے خاموشی چھاگئی۔
”ویسے انکل جہانگیر نے تمہیں رشنا سے شادی کے بارے میں بتایا تھا۔ میرا مطلب ہے شادی سے پہلے؟”
ایک بار پھر شانزہ نے ہی خاموشی توڑی۔ گفتگو کا موضوع ایک بار پھر وہی ہوگیا تھا جس سے عمر بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”ہاں۔” اس نے جھوٹ بولا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!