امربیل — قسط نمبر ۷

”یہ نہیں پتا میں کب واپس آؤں گا؟” وہ اگلے دن ناشتے کی میز پر بیٹھا نانو اور نانا کو بتا رہا تھا۔
”مگر لئیق کے پاس اتنی دیر رہنے کی کیا تک ہے… تم بس سا ئیکالوجسٹ سے ملو پھر واپس آجاؤ۔”
نانا نے عمر سے کہا، علیزہ نے انڈا چھیلتے ہوئے عمر کو دیکھا۔ وہ بہت الجھا ہوا نظر آرہا تھا۔
”میں کچھ نہیں کرسکتا، پاپا نے کہا ہے۔ مجھے وہیں رہنا پڑے گا۔” ناشتہ کرتے ہوئے اس نے کندھے اچکائے تھے۔




”لیکن پھر بھی ایک ماہ تو وہاں نہیں رہنا چاہیے… میں تو اداس ہوجاؤں گی۔” نانو نے عمر کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرانے لگا۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے نانا کے پاس ٹیبل پر پڑے ہوئے نیوز پیپر کا شوبز والا صفحہ اٹھالیا۔
نانا پولیٹیکل اور ایڈیٹوریل صفحات دیکھ رہے تھے چائے کے کپ میں چمچ ہلاتے ہوئے اس نے صفحہ کھول لیا۔ علیزہ انڈہ چھیلنے کے بعد اپنی پلیٹ میں کانٹے کے ساتھ اس کے ٹکڑے کرنے میں مصروف ہوگئی۔ انڈے کے ٹکڑے کرنے کے بعد وہ نمک اورکالی مرچ shakers کی تلاش میں ٹیبل پر نظر دوڑانے لگی۔ وہ دونوں اسے عمر کے سامنے پڑے نظر آئے۔ وہ اس سے کافی فاصلے پر تھے۔ وہ ہاتھ بڑھا کر انہیں نہیں پکڑ سکتی تھی، وہ عمر سے انہیں پکڑانے کیلئے کہنا چاہتی تھی، مگر عمر کے چہرے پر نظر دوڑاتے وہ چونک گئی تھی۔ وہ شوبز کا صفحہ کھولے اس پر نظریں جمائے بالکل بے حس و حرکت تھا۔ ہونٹ بھینچے ہوئے اس کے چہرے کی رنگت سرخ ہو رہی تھی وہ حیران ہوئی وہ ایسی کون سی چیز پڑھ رہا تھا جس نے اسے یوں مشتعل کردیا تھا۔ وہ سب کچھ بھول کر اسے دیکھنے لگی۔
تب ہی نانو بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئی تھیں۔
”عمر! کیا ہوا؟” انہوں نے یکدم تشویش بھری نظروں سے عمر کو دیکھا۔ نانا بھی اخبار سے نظریں ہٹا کراس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
عمر نے نانو کی طرف دیکھا۔ علیزہ نے اس کی آنکھوں میں یک دم نمی امڈتے دیکھی پھر کچھ کہے بغیر وہ اخبار ٹیبل پر پٹخ کر ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گیا۔
”عمر…! عمر…! کیا ہوا؟ مجھے بتاؤ تو۔”
نانو اسے آوازیں دیتی رہ گئی تھیں مگر وہ رکا نہیں۔ تیز قدموں کے ساتھ وہ ڈائننگ روم سے نکل گیا۔
نانا نے ہاتھ بڑھا کر شوبز کا وہ صفحہ اٹھالیا۔ ”آخر ایسی کیا چیزدیکھ لی ہے کہ اس طرح اٹھ کر چلا گیا۔” علیزہ نے نانا کو پریشانی کے عالم میں کہتے سنا۔ وہ اب اس صفحہ کا جائزہ لے رہے تھے۔ علیزہ اور نانو منتظر نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ دیر جائزہ لیتے رہے۔
”مجھے تو یہاں کچھ بھی ایسا نظر نہیں آیا جو اسے اس طرح مشتعل کردے۔” وہ بالآخر بڑبڑائے۔
”پلیزمعاذ! آپ دھیان سے دیکھیں۔ آخرکوئی تو چیز ہے نا جس نے اسے پریشان کیا ہے۔” نانو بہت پریشان تھیں۔
نانا ایک بار پھر اس صفحہ کا تفصیلی جائزہ لینے لگے تھے۔ علیزہ کی بھوک اڑگئی تھی۔
”آخر عمر اب کیوں پریشان ہوا ہے؟” وہ سوچ رہی تھی۔
”نانا پلیز مجھے دکھائیں، شاید مجھے پتا چل جائے۔” اس نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اضطراب کے عالم میں اپنے نانا سے کہا مگر معاذ حیدر نے اخبار اس کی طرف نہیں بڑھایا۔ ان کے چہرے کا رنگ یک دم بدل گیا تھا۔ عمر کو کیا ہوا تھا وہ جان چکے تھے۔ کچھ کہے بغیر انہوں نے اخبار نانو کے سامنے رکھتے ہوئے ایک خبر کی طرف اشارہ کیا۔ علیزہ نے نانو کے چہرے کا رنگ بھی اسی طرح اڑتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے سر کو پکڑ لیا تھا۔
”جہانگیر… جہانگیر کو کیا ہوگیا ہے؟”
علیزہ گھبرا گئی ” کیا ہوا نانو؟ انکل جہانگیر کو کیا ہوا؟” نانو کوئی جواب دینے کے بجائے یک دم ٹیبل سے اٹھ گئیں۔ علیزہ نے نانا کو بھی ان کے پیچھے جاتے دیکھا۔ اس نے بے اختیار کھڑے ہو کر ٹیبل کے دوسرے سرے پر پڑا ہوا اخبار اٹھالیا۔ کچھ دیر تک وہ متلاشی نظروں سے اخبار کو دیکھتی رہی پھر اس کی نظریں ایک خبر پر جم گئیں۔ ایک مشہور اور کم عمر ماڈل کی ایک بہت ہی خوبصورت تصویر کے ساتھ ایک کیپشن لگا ہوا تھا۔
Sultry Rushna tied the
وہ تفصیل پڑھنے لگی تھی۔ خبر میں بیس سالہ رشنا کی عمر میں اپنے سے پینتیس سال بڑے واشنگٹن میں پوسٹڈ پاکستانی سفارت کار جہانگیر معاذ کے ساتھ شادی کو مرچ مسالہ لگا کر پیش کیا گیا تھا جہانگیر معاذ کی پہلی دونوں شادیوں کے ساتھ ساتھ ان کی رنگین مزاجی کا بھی ذکر کیا گیا تھا اور رپورٹر نے رشنا کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ خیال رکھے کہ جہانگیر چوتھی شادی نہ کرپائے کیونکہ عادتیں مشکل سے چھوٹتی ہیں۔ علیزہ نے اخبار بند کردیا۔
٭٭٭
وہ غصے میں بھرا ہوا اپنے کمرے میں گیا تھا۔ موبائل نکال کر اس نے جہانگیر کو کال کرنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد جہانگیر لائن پر آگئے تھے۔
”اوہ عمر… تم نے کیسے فون کیا؟ کیا لئیق کے پاس پہنچ گئے ہو؟”
”نہیں، میں ان کے پاس نہیں گیا اور نہ ہی جاؤں گا۔”
”کیوں؟ کیا ہوا؟” جہانگیر جیسے کچھ محتاط ہوگئے۔
”میں امریکہ آنا چاہتا ہوں۔” اس نے اسی اکھڑ انداز میں کہا۔
”تم سے میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ میں نہیں چاہتا ابھی تم یہاں آؤ۔”
”کیوں نہیں چاہتے آپ؟”
”مجھے کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔” ان کا لہجہ یک دم خشک ہوگیا۔
”’ہاں، آپ کو کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں۔ آپ مجھے امریکہ آنے سے کیوں روک رہے ہیں۔” اس کے لہجے کی تلخی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
”کیوں روک رہا ہوں؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!