امربیل — قسط نمبر ۷

علیزہ گروپ کے باقی لوگوں کے ساتھ اس شخص کی باتیں بہت غور سے سن رہی تھی۔
”یار! میں تو متاثر ہو رہی ہوں، ان لوگوں نے واقعی خاصا کام کیا ہے یہاں پر۔” شہلا نے ساتھ چلتے ہوئے مدھم آواز میں کہا وہ صرف سر ہلا کر رہ گئی۔
”نہیں، ان لوگوں کی وجہ سے ہماری بہت سی پریشانیاں اور مسئلے ختم ہوگئے ہیں۔ آپ لوگ کچھ سال پہلے آتے تو حیران رہ جاتے کہ ہم یہاں کس طرح زندگی گزار رہے تھے، جانووں سے بھی بدتر زندگی تھی جی… زمین دار غلام سمجھتا تھا… یہاں کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ زمین دار کی مرضی کے بغیر کوئی کام کرسکتا۔”
گاؤں میں قائم ایک سنیٹر میں فٹ بال سینے والے شخص سے گفتگو کا آغاز کرنے پر انہوں نے اس سے سنا تھا۔
”یہاں زمین دار سکول بننے نہیں دیتا تھا۔ جتنی دفعہ بھی حکومت نے یہاں اسکول بنوانے کی کوشش کی۔
زمیندار نے یہاں کسی ماسٹر کو آنے نہیں دیا اسکول ماسٹر کے بغیر تو نہیں چل سکتا تھا جی… ہم سب کو مجبور کیا جاتا تھا کہ ہم اس کے کھیتوں کے علاوہ کہیں اور کام نہ کریں… کام کے بدلے ہمیں سال کا اناج دیا جاتا تھا ساتھ چند جوڑے کپڑے اگر یہاں کا کوئی آدمی گاؤں سے باہر کہیں کام کرنے کی کوشش کرتا تو زمین دار اسے مجبور کرتا کہ وہ آدمی اپنے پورے خاندان کے ساتھ علاقہ چھوڑ کر چلا جائے۔”
وہ لوگ خاموشی سے اس شخص کی باتیں سن رہے تھے۔ علیزہ ہر چیز کو judge کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ”پھر آہستہ آہستہ یہ لوگ یہاں آنے شروع ہوئے… یہ ساری ترقی ان لوگوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے یہاں پہلے گورنمنٹ کا قائم شدہ اسکول چلوانا شروع کیا پھر ہمارے گاؤں میں ہی دو تین گھروں میں اور اسکول قائم کیے یہ سنیٹرز بھی ان ہی لوگوں کی کوششوں سے بنے، آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ ان ہی سنیٹرز کی وجہ سے ہمارے علاقے میں کتنی خوشحالی آگئی ہے۔ ہمارے علاقے کی آدھی سے زیادہ عورتیں اس سنیٹر میں کام کر رہی ہیں۔ اب یہاں باقاعدہ فیکٹریز کی کوچز آتی ہیں یہاں سے آدمیوں کو فیکٹریز لے کر جاتی ہیں۔ پہلے ہمارے بچے ہمارے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے تھے اور دوسری جگہوں پر مزدوری کرنے جاتے تھے۔ اب ہمارے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں اس علاقے میں ایسا کوئی بچہ آپ کو نہیں ملے گا جو تعلیم حاصل نہیں کر رہا ہوگا۔” علیزہ مرعوب ہو رہی تھی۔
”این جی اوز جب بھی دیہاتی علاقے میں کام کرنا شروع کرتی ہیں وہ ہمیشہ ایسے علاقے کا انتخاب کرتی ہیں جہاں جاگیرداری نظام بہت سختی سے رائج ہو۔ اس علاقے کا انتخاب کرتے ہوئے بھی انہیں اس چیز کا بہت فائدہ ہوا کہ یہاں فیوڈل سسٹم بہت پختہ تھا۔”
اس کے کانوں میں یک دم عمر کی آواز گونجنے لگی تھی۔




”فیوڈل سسٹم میں لوگوں کے اندر یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے علاقے میں رائج طور طریقوں پر احتجاج کرسکیں یا انہیں بدل سکیں، فیوڈل لارڈز لوگوں کی زندگیوں کو اتنی مضبوطی اور سختی کے ساتھ کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہزار کوشش یا خواہش کے باوجود بھی ان سے جان چھڑا نہیں پاتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں اگر ایک شخص بھی ان فیوڈل لارڈز کے خلاف آواز بلند کرے یا تبدیلی لانے کی کوشش کرے تو لوگ بغیر سوچے سمجھے اس کی حمایت کرتے ہیں… پہلے وہ دل ہی دل میں اس شخص سے ہمدردی کرتے ہیں اور پھر جب یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شخص واقعی کچھ تبدیلیاں لا رہا ہے اور اب صرف باتیں ہی نہیں کررہا تو وہ عملی طور پر بھی اس کے ساتھ شامل ہوجانا چاہتے ہیں… اب ظاہر ہے ایسی صورتحال میں فیوڈل سسٹم میں دراڑیں آنا شروع ہوجاتی ہیں… اس کی وجہ یہ این جی اوز ہوتی ہیں ان کے پاس روپیہ ہوتا ہے اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ حکومتی ایجنسیوں کی طاقت ہوتی ہے۔ غیر ملکی مشنز کی پشت پناہی ہوتی ہے۔ کسی بھی فیوڈل میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ ان لوگوں سے ٹکرلے سکے یا انہیں نقصان پہنچائے… نتیجہ کے طور پر وہ اپنے علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں کو روک نہیں پاتا… اسکول بھی بننے دیتا ہے… تعلیم کیلئے لوگوں کو باہر بھی جانے دیتا ہے… اپنے کھیتوں پر کام کرنے کیلئے بھی لوگوں کو مجبور نہیں کرپاتا اپنے علاقے میں ہونے والی ترقی کو روکنے کیلئے بھی کچھ نہیں کرسکتا… اور میڈیا اس سب کو ریفارمز کا نام دینا شروع ہوجاتا ہے… دیہی اصلاحات حالانکہ یہ اصلاحات نہیں ہوتیں، صرف لارڈز بدل جاتے ہیں اور حکومت کرنے کا طریقہ… کچھ آزادی بھی دی جاتی ہے اور گھر میں بھی کچھ زیادہ خوشحالی آجاتی ہے۔”
”جہاں لوگ نسلوں سے بھوک اور بے عزتی کا شکار ہوں، تو بس یہی کافی ہے کہ آپ انہیں تین وقت کی روٹی اور سراٹھا کر بات کرنے کا حق دے دیں… پھر ان سے جو چاہے کروا لیں وہ آپ سے کتے سے بھی زیادہ دفاداری کریں گے۔”
وہ بے چین ہونے لگی تھی۔
”کیا یہاں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے؟”
اس نے سوچا اور یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے، کیا یہ بھی صرف وفاداری… وہ شدید کشمکش کا شکار ہوگئی تھی۔
وہ لوگ واپس حویلی میں آگئے تھے۔ رات کو اپنے گروپ کے دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر، وہ سارے دن کے لئے ہوئے نوٹس دیکھ رہی تھی۔ جب اس کی کلاس فیلو سائرہ نے کہا۔
”جس طرح اس علاقے میں این جی اوز نے کام کیا ہے، اگر سارے دیہی علاقے میں اسی طرح کام کیا جائے تو اس ملک کی ستر فیصد آبادی کو زندگی نئے سرے سے گزارنے کا طریقہ آجائے گا، جس فیوڈل سسٹم کو بار بار کی کوششوں کے باوجود ہم بدل نہیں پائے… وہ خودبخود ختم ہو جائے گا۔”
”مجھے افسوس صرف اس بات پر ہے کہ یہ کام ہمارے بجائے این جی اوز کر رہی ہیں حالانکہ یہ ہماری ذمہ داری تھی۔”
”اہمیت اس بات کی نہیں ہے کہ کام کون کررہا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ کام ہو رہا ہے یا نہیں اور کام تو یقیناً ہو رہا ہے۔” شہلا اور مبینہ بھی سائرہ کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوگئی تھیں۔
”جس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہو، وہاں دیہی اصلاحات کا مطلب ہے کہ آپ نے اس ملک کی اکانومی کو صحیح ڈائریکشن دے دی اور ترقی کیلئے ایک سنگ بنیاد رکھ دیا، کون سا ملک اتنا احمق ہوگا کہ وہ اپنا روپیہ دوسرے ملک کی ترقی یا بقول آپ کے دیہی اصلاحات پر لگا دے۔” وہ آواز پھر اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
”جب اپنے لیے خود کچھ کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر گھر میں رات کو آنے والا چور بھی اندھیرے میں رحمت کا فرشتہ ہی لگتا ہے۔ بیسویں صدی کی اس آخری دہائی میں کون سا ایسا شخص ہوگا، جو کسی مطلب کے بغیر کسی کے لیے کچھ کرے اور ہم بات کر رہے ہیں برسات میں مشرومز کی طرح اگنے والی درجنوں فارن این جی اوز کی جو ڈالرز اور پاؤنڈز کے تھیلے بھر کر تھرڈ ورلڈ میں سوشل اور رورل ریفارمز کرنے نکلی ہیں کیا لطیفہ ہے۔” اسے عمر کا قہقہہ یاد آیا تھا۔
”تم کیا سوچ رہی ہو علیزہ؟” شہلا نے اسے مخاطب کیا۔
وہ یکدم چونک گئی ”کیا؟”
”میں پوچھ رہی ہوں، تم کیا سوچ رہی ہو؟”
”میں۔” وہ ایک بار پھرسوچ میں پڑ گئی۔
”کہاں گم ہوگئی ہو؟” اس بار شہلا نے ایک بار پھر علیزہ کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔ وہ ایک گہری سانس لے کر جیسے کسی ٹرانس سے باہر آگئی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!