امربیل — قسط نمبر ۷

”کبھی کبھار زارا سے مل لینے میں توکوئی ہرج نہیں۔”
”ان سے ملوں تاکہ پاپا مجھے اپنی جائیداد سے عاق کردیں۔”
”جہانگیر ایسا نہیں کرے گا۔”
”آپ کو اپنے بیٹے کے بارے میں بہت سی خوش فہمیاں ہیں گرینی! انہیں دورکرلیں۔”
”مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے مگر وہ اب ایسا نہیں کرسکتا… کیونکہ تم کوئی ننھے بچے ہو نہ اس پر انحصار کرتے ہو۔”
”آپ کو یہ بھی غلط فہمی ہے… میں آج بھی بڑی حد تک ان پر انحصارکرتا ہوں۔” اس نے ان کی بات کاٹ کر کہا تھا۔




نانو چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔
”کچھ عرصے کے بعد جب تمہیں جاب مل جائے گی تو تمہیں جہانگیر پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا پھر تم۔۔۔”
عمر نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹی ”کیا ہوجائے گا جاب سے… چند ہزار روپے پر مشتمل تنخواہ تو میری ضروریات پوری نہیں کرسکتی… مجھے کل بھی اپنے باپ کی دولت کی اتنی ہی ضرورت ہوگی جتنی آج ہے۔”
”صرف پیسے کیلئے تم زارا سے ملنا نہیں چاہ رہے؟”
”ہاں یہی بنیادی وجہ ہے، انہوں نے زندگی میں اپنے لیے اس چیز کا انتخاب کیا تھا جو ان کے اور ان کے مستقبل کیلئے فائدہ مند تھی… انہوں نے میرے لیے کوئی قربانی نہیں دی میں بھی یہی کروں گا۔۔۔”
”تم چاہو تو میں جہانگیر سے بات کرسکتی ہوں۔ ہوسکتا ہے وہ تمہیں اب زارا سے ملنے سے نہ روکے۔”
”آپ اپنے بیٹے کو مجھ سے زیادہ نہیں جان سکتیں۔”
”وہ ضدی ہے مگر انسان ہے اوروقت کے ساتھ انسان میں بہت سی تبدیلیاں آجاتی ہیں۔”
”مگر میں ممی سے ملنا نہیں چاہتا۔ اس لیے آپ پاپا سے کوئی بات نہ کریں، بلکہ ان سے ذکر تک نہ کریں کہ ممی یہاں آئی تھیں یا مجھے ملی تھیں۔” اس کا لہجہ بالکل حتمی تھا۔
علیزہ کچھ دیر تک کچھ اور سننے کی منتظر رہی، مگر لاؤنج میں خاموشی چھائی رہی۔ نانو نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا اور وہ خاموشی سے کافی پینے میں مصروف تھا۔
وہ دبے قدموں سے لاؤنج میں داخل ہوگئی۔
”علیزہ!آج میں نے چائے کے بجائے کافی بنوائی ہے عمر کہہ رہا تھا ،اگر تم چائے لینا چاہو تو میں خانساماں سے کہہ دوں۔” نانو نے اسے اندر آتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔
”نہیں ٹھیک ہے میں بس کافی لے لوں گی۔” وہ بڑے محتاط سے انداز میں کہتے ہوئے نانو کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی۔ وہ اب عمر کے بالمقابل تھی مگر دانستہ طور پر اس پر نظر ڈالنے سے گریز کر رہی تھی۔
نانو نے کافی تیار کر کے کپ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ پہلا سپ لیتے ہوئے اس نے بڑے محتاط انداز میں عمر کو دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ اس کی طرف متوجہ تھا۔ علیزہ کو اپنی طرف دیکھتے پاکر وہ ہلکا سا مسکرایا۔ علیزہ کو حیرانی ہوئی۔”کیا وہ اب بھی مسکرا سکتا ہے؟” اس نے سوچا۔
”بارش شروع ہوگئی ہے۔” نانو نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے جیسے اطلاع دی تھی۔
علیزہ نے چونک کر کھڑکیوں کی طرف دیکھا۔ شام کے ملگجے اندھیرے میں لان میں یک دم پڑنے والی بارش کی تیز بوچھاڑ کھڑکیوں کے شیشوں کو گیلا کرنے لگی تھی۔
ایک نظر بارش کی بوندوں پر ڈال کر علیزہ ایک بار پھر عمر کی طرف متوجہ ہوگئی۔ وہ صوفے پر نیم دراز کافی پیتے ہوئے کھڑکیوں کے باہر برستی بارش کو دیکھ رہا تھا۔
اس کے چہرے پر نظریں جمائے وہ جیسے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔
”کیا عمر واقعی صرف پیسے کیلئے اپنی ممی سے ملنا نہیں چاہ رہا؟ کیا وہ اتنا materialistic (مادہ پرست) ہوسکتا ہے؟ کیا اسے اپنی ممی سے محبت نہیں ہے؟ کیا اسے اپنے پاپا سے محبت ہے؟ اور اگر اسے ان سے بھی محبت نہیں تو پھر آخر اسے کس سے محبت ہے؟” وہ اسے دیکھتے ہوئے جیسے الجھ رہی تھی۔
عمر کو یک دم جیسے اس کی نظروں کا احساس ہوا کچھ چونک کر کھڑکی سے باہر نظر آنے والے منظر سے نظریں ہٹا کر علیزہ کی متوجہ ہوا۔ علیزہ گڑبڑا گئی۔ شرمندگی کے عالم میں اس نے اپنی نظریں جھکا لی تھیں۔
”گرینی! مجھے کچھ اور کافی ڈال دیں۔” علیزہ کو مخاطب کرنے کے بجائے اس نے اپنا جہازی سائز کا مگ نانو کی طرف بڑھا دیا تھا۔ نانو اس کیلئے کافی بنانے لگیں۔
علیزہ ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ وہ نانو کو کافی بناتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور اس وقت پہلی بار علیزہ کو احساس ہوا کہ اس کی آنکھیں سرخ بھی ہیں اور متورم بھی۔ وہ کافی پیتے پیتے جیسے ٹھٹھک گئی۔
”کیا عمر روتا رہا ہے؟” اس سوال نے اس کے وجود میں جیسے ایک کرنٹ دوڑا دیا تھا۔
”کیا عمر بھی رو سکتا ہے؟” وہ کافی پینا بھول گئی۔
عمر نے نانو سے کافی کا مگ تھاما صوفے پر سیدھا ہوتے ہوئے ایک بار پھر اس کی نظر علیزہ پر پڑی تھی۔ اس بار علیزہ نے اس پر سے نظریں ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسے دیکھتی رہی اور عمر کو یک دم جیسے احساس ہوگیا کہ وہ اس کے چہرے پر کیا ڈھونڈ چکی ہے۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا دیکھا تھا اور پھر وہ علیزہ سے نظریں چراگیا۔
”گرینی!ْ میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں۔” اگلے لمحے وہ مگ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔
اسے لاؤنج سے باہر جاتے ہوئے دیکھ کر وہ بے چین ہوگئی۔
”مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا… یا کم از کم اس طرح اسے گھورنا نہیں چاہیے تھا۔ کیا عمر کو میرا اس طرح دیکھنا برا لگا ہے ہوسکتا ہے وہ یہ سوچ رہا ہو کہ میں اسے اس صورت حال میں پاکر خوش ہو رہی ہوں۔” اس کا پچھتاوا بڑھتا جارہا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!