امربیل — قسط نمبر ۷

”کن لوگوں کی بات کر رہی ہو تم؟” اس کا لہجہ یک دم سرد ہوگیا تھا۔ ” ان لوگوں کی جن کے پاس تعلیم اور شعور نام کی کوئی چیز نہیں ہے، سہولیات اور ذہنیت کے اعتبار سے اس ملک کی سب سے پسماندہ کلاس جو دیہات میں بستی ہے جس کی سوچ غلامانہ تھی، ہے اور رہے گی۔ جن پر پہلے نواب اور مہاراجہ حکومت کرتے تھے پھر جاگیردار اور رئیس اور اب این جی اوز… اور تمہارا خیال ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ کل تک گالیاں اور دھکوں کو مہربانی سمجھ کر مسکرانے والے لوگ اتنے باشعور ہوگئے کہ ان میں اچھے اور برے کی پہچان آگئی ہے؟”
”ان لوگوں میں شعور آرہا ہے۔ وہاں تعلیم کا ریشو بھی زیادہ ہو رہا ہے۔” علیزہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔




”تعلیم اور شعور کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا علیزہ بی بی… اگر ایسا ہوتا تو آج تک کسی تعلیم یافتہ شخص نے کوئی جرم نہ کیا ہوتا۔” اس کا لہجہ اب بھی کھردرا تھا۔
”مگر وہاں کے لوگ واقعی بدل رہے ہیں اگر این جی اوز یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے وہاں اصلاحات کی ہیں تو وہ غلط نہیں کہتیں وہاں لوگ واقعی ایک بدلے ہوئے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں کے لوگ این جی اوز کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
عمر استہزائیہ انداز میں ہنسا ”وہاں کے لوگ تو غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے بارے میں بھی بہت اچھی رائے رکھتے ہیں پھر کیا تم یہ سوچنا شروع کردو گی کہ یہ بھی ٹھیک ہوتا ہے؟”
علیزہ کچھ دیر بات نہیں کرسکی۔
”بہتر ہوتا تم این جی اوز سے کہہ کر وہاں کے تھانوں کا ریکارڈ بھی چیک کرلیتیں، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ڈسکہ اور اردگرد کا علاقہ خاندانی دشمنیوں کیلئے بھی خاصا مشہور ہے اور یہ نسل درنسل چلی آتی ہیں، تب تک جب تک مخالف کا پورا خاندان نہ ختم ہوجائے اور یہ لوگ ایک دو قتل نہیں کرتے، یہ چھ چھ، سات سات لوگوں کو اکٹھا مروا دیتے ہیں اور کوئی مہینہ ایسا نہیں ہوتا جب اس علاقے میں ایسا کوئی واقعہ نہ ہو۔ اب بقول آپ کے اگر این جی اوز نے واقعی ان لوگوں کی سوچ میں تبدیلی کردی ہے تو سب سے پہلے تو ان لوگوں کے رویوں میں تبدیلی ہونی چاہیے۔”
وہ اب سلاد کھا رہا تھا۔ علیزہ اس کی باتوں پر خفت محسوس کر رہی تھی۔
”جو لوگ ایک گائے بھینس چرائے جانے پر مخالف کے گھر کی عورت اٹھالیتے ہیں۔ رات کو کھیتوں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے مارے جانے پر مخالف کی تیار فصلوں کو آگ لگا دیتے ہیں، کھیت کا پانی روکے جانے پر کسی کو بھی قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی این جی اوز کے بارے میں اچھی رائے کس حد تک قابل اعتبار ہوسکتی ہے یا اسے کتنی اہمیت دینی چاہیے یہ کافی قابل غور ہے۔”
”ہر تبدیلی لانے میں وقت لگتا ہے، این جی اوز کو بھی وقت لگے گا مگر یہ سب چیزیں ختم ہوجائیں گی۔” علیزہ کی رائے ابھی بھی تبدیل نہیں ہوئی تھی۔
اور ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ کم از کم این جی اوز یہ کام نہیں کرپائیں گی کیونکہ وہ یہ کام کرنے نہیں آئی ہیں۔” عمر کا لہجہ بہت مستحکم تھا۔
”ہوسکتا ہے این جی اوز میں کچھ لوگ خراب ہوں یا کہہ لیں کہ چند این جی اوز خراب ہوں مگر سب این جی اوز تو اس طرح کی نہیں ہیں۔ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا این جی اوز بھی نہیں ہوسکتیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم انہیں پرفیکٹ دیکھنا کیوں چاہتے ہیں؟” وہ اس بار کچھ زچ ہو کر بولی۔
”اس لیے کہ وہ تبدیلی لانے کے دعوے کر رہی ہیں۔” عمر کا اطمینان برقرار تھا۔
”آپ این جی اوز کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟” اس بار علیزہ نے کچھ ناراضی سے اس سے پوچھا۔
”تم سے کس نے کہا کہ میں این جی اوز کے خلاف ہوں؟” عمر نے اتنی ہی بے ساختگی اور سکون سے کہا۔ علیزہ حیران ہوئی۔
”کیا مطلب…؟ یہ سب کچھ جو آپ کہہ رہے ہیں، یہ کیا ہے؟”
”حقائق۔” وہ اب بھی اسی طرح مسکرا رہا تھا۔
”اچھا فرض کریں اگر یہی حقائق ہیں تو یہ سب کچھ جاننے کے بعد آپ این جی اوز کے خلاف نہیں ہیں؟”
”نہیں بالکل نہیں۔” علیزہ منہ کھولے بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی، میز کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے شخص کو سمجھنا اس وقت دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟ اس کا مطلب ہے آپ این جی اوز کو پسند کرتے ہیں؟” وہ الجھ گئی تھی۔
”میں نے یہ بھی نہیں کہا۔”
”نہ آپ این جی اوز کو پسند کرتے ہیں نہ آپ انہیں ناپسند کرتے ہیں، مگر آپ ان کے بارے میں اچھی رائے بھی نہیں رکھتے۔یہ کیا تضاد ہے۔”
عمر نے اس کے لہجے میں جھلکنے والی خفگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پلیٹ میں ایک کباب نکال لیا۔ ”ہے تو؟” اس نے کمال بے نیازی سے کباب کھاتے ہوئے کہا۔
علیزہ ایک بار پھر اسے دیکھنے لگی۔ ”آپ پولیس سروس جوائن کر رہے ہیں، فرض کریں آپ کے علاقے میں کوئی این جی او کام کر رہی ہوگی، تو آپ کیا کریں گے؟”
”کچھ بھی نہیں۔”
”اور اگر اس این جی او نے اس علاقے میں پولیس کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف کام کرنا شروع کردیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟”
”میں اس علاقے سے اسے اٹھا کر باہر پھینک دوں گا۔”
اس نے بے تاثر چہرے اور آواز کے ساتھ کہا، اور پانی کا گلاس اٹھالیا۔ علیزہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”اس کے باوجود کہ وہ ایک صحیح کام کر رہے ہوں گے؟”
”علیزہ! اس کیکٹس کو دیکھو۔” عمر نے پانی کا گلاس رکھتے ہی ڈائننگ ٹیبل سے کچھ فاصلے پر ایک کونے میں پڑے ہوئے کیکٹس کی طرف اشارہ کیا ”فرض کرو میں بازار میں ایک پودا خریدنے جاتا ہوں اور وہاں صرف یہی ایک پودا ہے اور کوئی پودا نہیں ہے۔ میں نہ اس کے نام کو جانتا ہوں نہ مجھے یہ پتا ہے کہ یہ پھول دار ہے یا نہیں یا کتنا عرصہ چل سکتا ہے مگر مجھے ایک پودے کی ضرورت ہے تو میں اسے خرید لاؤں گا۔ پھر اسے یہاں ڈائننگ روم میں رکھ دوں گا یہ جاننے کے باوجود کہ اس پر کانٹے ہیں یہ یہاں پر اس وقت تک پڑا رہے گا جب تک اس کے کانٹے میرے لیے کسی تکلیف کا باعث نہیں بنتے جس دن اس کے کانٹوں سے کسی کو زخم لگایا کسی کے کپڑے پھٹے اس دن اس کیکٹس کو یہاں سے ہٹا دیا جائے گا میں ہوں یا تم ہر ایک یہی کرے گا۔ کوئی بھی دوبارہ زخم لگنے یا کپڑے پھٹنے کا انتظار نہیں کرے گا۔”
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا۔
”مگر میں کبھی کیکٹس نہیں ہٹاؤں گی، میں اس کے کانٹے ختم کردوں گی۔”
وہ بے اختیار اس کی بات پر مسکرایا but i always play safe. میں کانٹوں کے دوبارہ اگنے کا رسک نہیں لے سکتا۔”
”صرف اس لیے کہ آپ کے اپنے ہاتھ زخمی ہوں گے کپڑے پھٹیں گے، ہے نا؟ آپ جو این جی اوز کے بارے میں اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں وہ صرف اسی لیے ہیں کیونکہ شاید اس کلاس کو ان این جی اوز سے خطرہ ہے جس سے آپ تعلق رکھتے ہیں۔”
عمر اس کی بات پر چونکا ”تمہار اشارہ کس کلاس کی طرف ہے، بیورو کریسی کی طرف یا ایلیٹ کلاس کی طرف؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!