امربیل — قسط نمبر ۷

”دونوں کی طرف۔” اس کی آواز مدھم تھی عمر مسکرایا۔
”تم بھی اس کلاس کا حصہ ہو، بیورو کریٹ نہ سہی ایلیٹ تو ہو۔”
”ہاں حصہ ہوں مگر اچھی چیز کو اچھا کہوں گی۔ برا نہیں کہوں گی۔ چاہے وہ میرے لیے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو۔”
”تمہارا خیال ہے کہ این جی اوز بیورو کریسی یا ایلیٹ کلاس کو کوئی نقصان پہنچا رہی ہیں یا آئندہ کبھی پہنچا سکتی ہیں؟”
”ہاں ایسا ہی ہے یہ اس طبقے کے مفادات کیلئے کام کر رہی ہیں جنہیں ہماری وجہ سے بہت پرابلمز کا سامنا ہے۔”
”آپ اگر ایسا سوچ رہی ہیں تو ایک بار پھر غلط سوچ رہی ہیں۔ کوئی این جی او بیورو کریسی کو نقصان پہنچا سکی ہے نہ ایلیٹ کلاس کو… کیونکہ ہر این جی او ایلیٹ کلاس ہی بناتی ہے۔ بڑے بڑے بیورو کریٹس کی بیگمات… سیاستدانوں کی بیویاں، صنعت کاروں کی بیویاں کیا تم نے کبھی کوئی ایسی این جی او دیکھی ہے جسے لوئر مڈل کا کوئی مرد یا عورت چلا رہا ہو، یا کسی اسکول کا ٹیچر کسی کسان کی بیوی کوئی مزدور اس کی بیوی… نہیں تم ایسا کبھی نہیں دیکھو گی اور تمہارا خیال ہے کہ بیورو کریٹس کی بیویاں بیورو کریسی کے خلاف کام کریں گی۔ صنعت کاروں کی بیویاں انڈسٹریلسٹ کلاس کے مفادات کے خلاف کام کریں گی اور سیاستدانوں کی بیویاں اپنے شوہروں کی دھاندلیوں کے خلاف لوئر مڈل کلاس کو اکسا کر انقلاب لے آئیں گی۔ بہت بچگانہ سوچ ہے تمہاری تمہیں بہت کچھ سیکھنا ہے ابھی۔” وہ جیسے اپنی باتوں سے خود ہی محظوظ ہو رہا تھا۔
”میں تو بالکل خوفزدہ نہیں ہوں کسی این جی او سے بلکہ اگر کبھی میں نے شادی کی… تو میں بھی اپنی بیوی سے کہوں گا کہ وہ ایک این جی او بنائے ہم بھی کچھ گرانٹس وغیرہ لے کر کہیں پلازے وغیرہ بنائیں گے۔ فری میں باہر سیمینار میں جاکر پیپرز پڑھے جائیں گے شہرت ملے گی دولت ہوگی اثر و رسوخ بڑھے گا۔ سیرو تفریح کے مواقع ملتے رہیں گے پھر کل کو بچوں کی بیرون ملک تعلیم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ وہ بھی عیش کریں گے۔”
عمر کی سنجیدگی یک دم ختم ہوگئی تھی اب وہ جیسے علیزہ کو چڑا رہا تھا۔
”اور تم… علیزہ تم بھی ٹھیک ہوجاؤ گی۔ اگر تمہاری شادی بھی کسی بیورو کریٹ سے ہوئی، پھر تم بھی ایسی ہی کسی فراڈ این جی او کی روح رواں ہوگی۔ ہر تیسرے دن پریس کانفرنس کر رہی ہوگی۔ سڑک پر جاکر جلوس بھی نکالا کرو گی۔ مختلف کاز کیلئے واکس ارینج کروایا کرو گی بیرون ملک کے چکر پر چکر لگیں گے اور پھر اگر کہیں دس سال بعد یہیں اسی ٹیبل پر میری تم سے اور تمہارے شوہر سے ملاقات ہوگی تو تم اسٹائلش سی ساڑھی پہنے… ڈائمنڈز سے لدی ہوئی میری طرح مینرل واٹر کی بوتل سے پانی پیتے ہوئے مجھے بتا رہی ہوں گی کہ تمہاری این جی او صاف پانی کی سپلائی کیلئے کس قدر محنت کر رہی ہے اور تمہارا شوہر تمہاری باتوں پر مسکرا مسکرا کر مجھے بتا رہا ہوگا کہ اسے تم جیسی ٹیلنٹڈ بیوی ملی ہے۔ کیوں گرینی؟”




نانو عمر کی بات پر مسکرائی تھیں، علیزہ کا چہرہ یکدم سرخ ہوا پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے… وہ یکدم اپنی کرسی سے کھڑی ہوگئی۔
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔” اس نے بلند آواز میں کہا۔
اور پھر ایک چھپاکے کے ساتھ ڈائننگ روم سے نکل گئی، عمر اور نانو کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی۔
”علیزہ ناراض ہوگئی ہے، میں دیکھتا ہوں۔” عمر نے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں نانو سے کہا اور ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گیا۔
اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے وہ کچھ شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی چھوٹی سی بات پر اس طرح رونا شروع کردے گی۔
دروازے پر ایک بار دستک دینے کے بعد وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ دروازہ کھلنے پر اس نے ہاتھ ہٹا کر دیکھا تھا اور عمر کو دیکھتے ہی وہ آگ بگولہ ہوگئی۔
”اب آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟” گالوں پر بہتے آنسوؤں اور سرخ چہرے کے ساتھ اس نے عمر سے پوچھا۔
”کم آن علیزہ! میں مذاق کر رہا تھا۔” عمر نے دروازہ بند کرتے ہوئے جیسے اسے بہلاتے ہوئے کہا۔
”آپ کیلئے ہر چیز مذاق کیوں ہے؟” عمر نے اسے پہلی بار اس موڈ میں دیکھا تھا۔ ”اور میری ہر بات ہی مذاق کیوں ہے… آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں؟”
”یار! اتنا غصہ۔۔۔” عمر نے مسکراتے ہوئے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”آپ کو میرا مذاق اڑانے کا کیا حق پہنچتاہے؟” وہ اس کی کوشش سے متاثر نہیں ہوئی۔ ”آپ کو اپنے علاوہ دوسروں کی ہر بات مذاق لگتی ہے۔ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ میں بھی مذاق میں آپ کے بارے میں ایسی باتیں کروں جیسی آپ کرتے ہیں۔” وہ تیز آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”میں ایکسکیوز کرتا ہوں۔ میں نے جو بھی کہا غلط کہا۔ میں ایکسکیوز کرنے ہی یہاں آیاہوں۔” عمر نے ایک دم دونوں ہاتھ اٹھا کر اس سے کہا۔
وہ اب بھی بولتی رہی ”آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنی sense of judgement استعمال کر کے اپنی رائے بناؤں اور جب میں ایسا کرتی ہوں تو آپ مجھ پر ہنستے ہیں۔ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ آپ کے نزدیک دنیا میں آپ کے علاوہ کوئی دوسرا صحیح رائے رکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔”
”علیزہ! میں نے ایسا نہیں کہا۔ میں تمہیں ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ہی ایک بات کہی۔” عمر بالکل مدافعانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھا مگر علیزہ اس کی بات سنے بغیر بول رہی تھی۔
”میں نے این جی اوز کے بارے میں جو کچھ کہا ٹھیک کہا۔ میں نے جو دیکھا، جو محسوس کیا وہی بتایا۔ میں نے آپ کی رائے کا مذاق نہیں اڑایا۔ میں نے آپ کی ہر بات سنی مگر آپ… آپ میری باتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں… ایڈیٹ؟”
عمر کے چہرے سے اب مسکراہٹ بالکل غائب ہوچکی تھی۔
”آپ کو لگتا ہے، دنیا میں آپ کے علاوہ اور کوئی جینئس نہیں ہے۔”
”میں نے ایسا نہیں کہا۔”
”آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے علاوہ کسی کے پاس sense of judgement (پرکھنے کی صلاحیت) ہی نہیں ہے۔”
”تم اس وقت غصے میں ہو، تمہیں پتا نہیں، تم کیا کہہ رہی ہو۔ میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔”
عمر یکدم پلٹ گیا مگر علیزہ بجلی کی رفتار سے اس کے راستے میں آگئی۔
”نہیں! آپ میری بات سنیں، اس کے بعد جائیں۔”
”میری ایک چھوٹی سی بات پر اتنا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”مجھے آپ کی کسی بات پر مشتعل نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپ کو ہر بات کہنے کا حق ہے لیکن مجھے کچھ بھی کہنے کا حق نہیں ہے۔”
”تم بہت کچھ کہہ رہی ہو علیزہ! اور میں سن بھی رہا ہوں۔ اس کے باوجود کہ تمہارا رویہ بہت انسلٹنگ ہے۔”
”میں نے آپ سے کیا کہا ہے؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ جو کچھ آپ مجھ سے کہہ چکے ہیں، اس کے سامنے تو یہ کچھ بھی نہیں ہے۔” وہ اب بھی اسی طرح برہم تھی۔
”میں اپنی بات کیلئے ایکسکیوز کر چکا ہوں۔”
”آپ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ انسلٹ کرتے ہیں۔ پھر انسلٹ کرتے ہیں اور ایسا بار بار کرتے رہتے ہیں۔”
علیزہ! تم غلط کہہ رہی ہو۔” عمر حتی الامکان اپنے لہجے کو نارمل رکھ رہا تھا۔
”میں غلط نہیں کہہ رہی ہوں۔ آپ نے اس دن بھی میری انسلٹ کی تھی جب انکل جہانگیر کے ساتھ آپ کا جھگڑا ہوا۔”
عمر کے چہرے کے تاثرات یکدم تبدیل ہوگئے۔ ”وہ تمہاری غلطی تھی، تم میرے کمرے میں اس طرح کیوں آئی تھی۔” اس نے سرد آواز میں علیزہ سے کہا۔
”نہیں آپ کو اس بات پر غصہ نہیں آیا کہ میں آپ کے کمرے میں اس طرح کیوں آئی تھی۔ آپ کو غصہ اس بات پر آیا تھا کہ میں یہ بات جان گئی ہوں کہ آپ ڈرنک کرتے ہیں۔”
”تمہیں پتہ چل گیا تو کیا فرق پڑتا ہے اور تم ہو کون جس کو یہ پتا چلنے سے مجھے کوئی فکر ہوگی۔” اس کی آواز میں اب تلخی تھی۔
”میں نے نانو کو نہیں بتایا کہ آپ ڈرنک کرتے ہیں۔ اگر میں نانو کو بتا دیتی تو۔۔۔”
عمر اس کی بات پر یکدم بھڑک اٹھا۔ ” تو پھر… پھر کیا ہوتا؟ وہ مجھے شوٹ کردیتیں یا اس گھر سے نکال دیتیں۔ تم جس کو چاہو بتاؤ مجھے کوئی پروا نہیں، اس گھر کا کون سا مرد شراب نہیں پیتا۔ وہ خود گرینڈ پا کو ڈرنک کرتے دیکھتی رہی ہیں۔ وہ کس منہ سے مجھ سے اس بارے میں بات کرسکتی ہیں۔”
علیزہ جیسے رونا بھول گئی۔ ”آپ کو شرم آنی چاہیے۔ اس طرح کی بات کرتے ہوئے۔”
”مائینڈ یور لینگویج علیزہ ! تم کافی بکواس کرچکی ہو اور میں سن چکا ہوں۔ اب اپنا منہ بند کرلو تو بہتر ہے۔”
‘مجھے آپ سے نفرت ہے۔ آپ دنیا کے سب سے گندے اور بدتمیز آدمی ہیں۔”
وہ بلند آواز میں چلائی۔ جواباً عمر نے اس کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ مارا تھا۔ علیزہ گال پر ہاتھ رکھے بالکل ساکت رہ گئی تھی۔ دنیا میں آخری چیز جو وہ کسی سے توقع کرسکتی تھی، وہ عمر کا خود پر ہاتھ اٹھانا تھا۔ وہ پلکیں جھپکے بغیر بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”مجھے اپنے بارے میں کسی شخص کے تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے انگلی اٹھا کر کہا اور پھر وہ تیزقدموں کے ساتھ رکے بغیر کمرے سے نکل گیا۔
****




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!