امربیل — قسط نمبر ۷

پھر اگلے دن شہلا کالج سے اس کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی اور اس نے نانو سے علیزہ کو اس فنکشن پر بھیجنے کیلئے اجازت مانگی تھی۔ نانو نے حسب توقع فوراً انکار کردیا مگر شہلا نے اپنی بات پر اصرار اور ان کی اتنی منت کی کہ وہ بالآخر تیار ہوگئیں۔
اور اب وہ دونوں وہاں کنسرٹ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ کنسرٹ میں دو مشہور سنگر تھے اور ان کے علاوہ باقی سارے اسٹوڈنٹ سنگرز تھے۔
”کنسرٹ ختم ہونے کے بعد سنگرز سے بھی ملیں گے۔” شہلا نے شور و غل کے درمیان اس سے کہا۔ علیزہ بے اختیار خوش ہوئی۔
”مگر کنسرٹ ختم ہوتے ہوتے تو بہت دیر ہوجائے گی پھر۔۔۔” علیزہ کو اچانک خیال آیا۔




”ایسا کریں گے جب فاروق پرفارم کرلے گا تو ہم اسٹیج کے پیچھے جا کر ان لوگوں سے مل لیں گے اور پھر چلے جائیں گے۔” شہلا کو بھی احساس ہوا کہ اس وقت تک دیر ہوجائے گی۔
پھر انہوں نے یہی کیا۔ شہلا کے بھائی نے اسٹیج پر دو گانے گائے اور اس کے دوسرے گانے کے ختم ہوتے ہی وہ دونوں اسٹیج کے پیچھے چلی آئی تھیں۔ شہلا نے جاتے ہی فاروق کومبارکباد دی اور پھر کہا۔
”میرا اور علیزہ کا تعارف کرواؤ ان لوگوں سے۔ کوئی فائدہ تو ہو تمہارے کنسرٹ کا۔” شہلا نے دور کھڑے ہوئے سنگرز کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھ کر اس سے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے میرے ساتھ آؤ۔”
وہ انہیں لے کر ان لوگوں کی طرف بڑھ گیا تھا۔ علیزہ یک دم ایکسائیٹڈ ہوگئی۔ فاروق نے ان دونوں کا تعارف کروایا تھا۔ شہلا اب بڑی بے تکلفی سے ان لوگوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھی جبکہ علیزہ کچھ نروس سی ان لوگوں کودیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر ان لوگوں کے ساتھ گپ شپ کرنے کے بعد وہ لوگ فاروق کے ساتھ واپس جارہے تھے جب ایک لڑکے کو دیکھ کر فاروق ایک بار پھر رک گیا۔
”یہ ذوالقرنین آج اس نے بھی پرفارم کیا ہے۔ تم لوگوں نے دیکھا ہی ہوگا۔ بہت اچھا دوست ہے میرا۔” اس نے علیزہ اور شہلا سے کہا۔
علیزہ نے اسٹیج پر سب سے پہلے اسی لڑکے کو پرفارم کرتے دیکھا تھا اور وہ اس کے گانے سے زیادہ اس کی اسمارٹنیس سے متاثر ہوئی تھی۔
”ویری گڈ لکنگ، یار” اس نے اس کے اسٹیج پر آتے ہی شہلا سے کہا تھا اور اب وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
”آپ لوگوں کو میرا گانا کیسا لگا؟” وہ مسکراتے ہوئے ان سے پوچھ رہا تھا۔
”خاصا اچھا گا لیتے ہیں آپ۔” شہلا نے تعریف کی۔
”اور آپ کی کیا رائے ہے؟” وہ علیزہ کی طرف متوجہ ہوا۔
اس سے پہلے کہ علیزہ کچھ کہتی، شہلا نے شوخ انداز میں کہا۔ ”علیزہ آپ کی آواز سے زیادہ آپ کی لکس سے متاثر ہوئی ہے۔”
علیزہ کا دل چاہا وہ دھواں بن کر وہاں سے غائب ہوجائے۔ بے تکلفی اور مذاق میں کہا گیا وہ تبصرہ شہلا اس طرح ذوالقرنین کو بتا دے گی، یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
ذوالقرنین اور فاروق نے بے اختیار شہلا کی بات پر قہقہہ لگایا۔ ”ہاں یہ ہمیشہ اپنی لکس کی وجہ سے فائدے میں رہتا ہے۔ سنگر گڈلکنگ ہو تو سننے والوں کی توجہ خودبخود بڑھ جاتی ہے۔ پھر بونگی آواز کو بھی وہ برداشت کرلیتے ہیں۔” اب فاروق نے تبصرہ کیا۔
”تمہارا اشارہ میری طرف ہے۔” ذوالقرنین نے فاروق کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”نہیں یار! یہ جرأت میں کیسے کرسکتا ہوں۔” فاروق نے پہلو بچایا۔
”چلیں میں تو آپ کو پسند آیا لیکن میری آواز آپ کو کیسی لگی۔ یہ آپ نے نہیں بتایا؟”
ذوالقرنین ایک بار پھر علیزہ سے مخاطب تھا۔ علیزہ میں سر اٹھانے کی بھی ہمت نہیں رہی۔ کچھ دیر پہلے کا سارا جوش و خروش غائب ہوچکا تھا۔
”بتاؤ علیزہ! ان کاگانا کیسا لگا تمہیں؟” اس بار شہلا نے جیسے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے کچھ کہے بغیر غصے سے ایک نظر اس کو دیکھا۔
”اب علیزہ ناراض ہوگئی ہے۔ یار! میں مذاق کر رہی تھی۔” شہلا اس کے تیور فوراً بھانپ گئی۔
”نہیں بہرحال! میں تو اس بات کو مذاق سمجھنے پر تیار نہیں۔ میں واقعی اچھا خاصا گڈلکنگ بندہ ہوں۔” ذوالقرنین نے شہلا کی بات پر فوراً کہا۔
”مگر اتنے گڈلکنگ نہیں کہ علیزہ آپ سے متاثر ہوجائے۔” شہلا نے جیسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔
”کیوں علیزہ کو متاثر کرنے کیلئے کتنا گڈلکنگ ہونا ضروری ہے؟” اس بار پھر اس نے بڑی بے ساختگی سے کہا۔
”یہ تو آپ علیزہ سے پوچھیں۔” شہلا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ان ہی سے پوچھ لیتا ہوں۔”
”شہلا! گھر چلو دیر ہو رہی ہے۔” وہ جواب دینے کے بجائے شہلا کو بازو سے کھینچنے لگی۔
”بھئی، یہ اتنا مشکل سوال تو نہیں ہے کہ آپ اس طرح یہاں سے بھاگنے کا سوچیں۔” ذوالقرنین نے ایک بار پھر قہقہہ لگا کر کہا۔ علیزہ مزید نروس ہوگئی۔
”جی نہیں، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم بالکل یہاں سے بھاگنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہمیں واقعی دیر ہورہی ہے۔” شہلا نے بلند آواز میں کہا۔
”ٹھیک ہے، میں مان لیتا ہوں لیکن کیا آپ لوگ میرے اگلے کنسرٹ میں آئیں گے۔ خاص طور پر علیزہ؟” اس نے انہیں انوائیٹ کیا۔
”آپ کا کنسرٹ کب ہے؟” شہلا نے پوچھا۔
”اگلے مہینے۔”
”ٹھیک ہے، ہم سوچیں گے اور فاروق کو بتادیں گے۔” شہلا نے چلنا شروع کردیا۔
”میں کم از کم علیزہ سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ میرے کنسرٹ میں آنے کیلئے پہلے سوچیں اور پھر فیصلہ کریں انہیں آنا ہے۔”
علیزہ نے شہلا کے ساتھ تیز قدموں سے چلتے ہوئے اپنی پشت پر اس کی آواز سنی۔
فاروق اور ذوالقرنین کی نظروں سے اوجھل ہوئے ہی علیزہ شہلا پر برس پڑی۔
”تمہیں شرم آنی چاہیے اس طرح اس سے میرے بارے میں بات کرتے ہوئے… وہ کیا سوچتا ہوگا کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۶

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!