امربیل — قسط نمبر ۵

”فضول باتیں مت کرو عمر! تمہیں پتا ہے یہ دو سبجیکٹس میں فیل ہے۔”
علیزہ کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
Really? I don’t believe it. (سچ! مجھے یقین نہیں آتا) عمر نے حیرانی کی بھرپور ادا کاری کرتے ہوئے علیزہ کو دیکھا۔
”اس میں یقین نہ آنے والی کون سی بات ہے۔ کارڈ دیکھ لو اس کا۔”
نانو اس کی بات کو ٹھیک طرح نہیں سمجھ سکی تھیں مگر عمر کی اگلی حرکت نے انہیں چند سیکنڈ میں سب کچھ سمجھا دیا۔ عمر نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے کچھ آگے کی طرف جھکتے ہوئے علیزہ کے دائیں ہاتھ کو تھاما اور اسی روانی کے ساتھ ساتھ ملانے کے بعد اس کی پشت تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ Congrats Cousin” (مبارک ہو کزن) تم نے تو حیران کردیا مجھے۔ وہ کام کیا ہے جو اس فیملی میں پہلے کوئی مرد بھی نہیں کرسکا۔ Keep it up ”




علیزہ نے کچھ بد حواس ہو کر اس کے چہرے کو دیکھا مگر وہاں پر سنجیدگی کے ساتھ خراج تحسین کے جذبات اور تاثرات نمایاں تھے۔ نانو یک دم مشتعل ہوگئیں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ مذاق اڑا رہے ہو تم میرا؟”
”بالکل بھی نہیں گرینی! میں تو صرف داد دے رہا ہوں۔”
”فیل ہونے والے کو داد دی جاتی ہے؟”
”نہیں خالی داد نہیں دی جاتی، حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔” اس نے بڑے اطمینان سے وضاحت کی۔
”فیل ہونے والے کو داد دیتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں؟” نانو کا پارہ ہائی ہوتا جارہا تھا۔
”داداور حوصلہ افزائی صرف ایسے کام پر دی جاتی ہے جو اس سے پہلے نہ کیا گیا ہو جیسے ہماری فیملی میں علیزہ والا کام پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا۔” اس کا اطمینان اب بھی برقرار تھا۔
”داداور حوصلہ افزائی ہر ”اچھے” کام پر دی جاتی ہے۔” نانو نے اس بار اپنی بات چبا چبا کر کہی۔
”آپ ثابت کریں گرینی! کہ فیل ہونا ایک برا کام ہے۔” وہ یک دم جیسے بحث کے موڈ میں آگیا۔
”تم فضول بکواس مت کرو عمر!”
”اس میں بکواس والی بات ہی نہیں ہے۔ آپ بتائیں آج تک کبھی کسی کو ایگزام میں فیل ہونے کی وجہ سے عمر قید یا پھانسی ہوئی یا دوزخ میں بھیجے جانے والوں میں کتنے لوگ صرف امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سے وہاں جائیں گے۔ ایک بھی نہیں تو پھر یہ برا کام تو نہیں ہے۔”
”رات کو تمہارے دادا آئیں گے۔ علیزہ کا رزلٹ دیکھیں گے اس کے بعد تم اپنی یہ تقریر ان کے سامنے بھی کرنا پھر وہ تمہیں بتائیں گے کہ فیل ہونے سے کتنی نیکیاں ملتی ہیں۔” نانو کے اشتعال میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔
”کوئی بات نہیں گرینی! گرینڈ پا سے بھی بات ہو جائے گی۔ آپ مجھے یہ بتائیں، کچھ پانی وانی پلانے کا ارادہ ہے یا میں واپس سوات چلا جاؤ؟”
عمر نے ایک بار پھر مہارت سے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ نانو کچھ دیر کچھ کہے بغیر اسے گھورتی رہیں اس کے بعد انہوں نے خانساماں کو آواز دی۔
”نانو! میں جاؤں؟” عمر نے علیزہ کی منمناہٹ سنی جسے نانو نے پوری طرح نظر انداز کردیا۔
”نانو! میں جاؤں؟”
اس نے ایک بار پھر کہا۔ اس سے پہلے کہ نانو اس بار بھی پہلے کی طرح اس کے سوال کو نظر انداز کرتیں عمر نے مداخلت کی۔
”گرینی! علیزہ کچھ پوچھ رہی ہے آپ سے؟” اس نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”میری طرف سے جہنم میں جائے۔” نانو نے خاصی رکھائی اور سرد مہری سے کہا۔ علیزہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور تقریباً بھاگتی ہوئی لاؤنج سے نکل گئی۔
”آپ بعض دفعہ بہت تلخ ہوجاتی ہیں گرینی! خاص طور پر علیزہ کے ساتھ۔” اس کے جاتے ہی عمر نے سنجیدگی سے گرینی سے کہا۔
”ہاں ہوجاتی ہوں… اس لیے کیونکہ وہ کبھی بھی میری توقعات پر پورا نہیں اترتی ہمیشہ مجھے لیٹ ڈاؤن کرتی ہے۔ ایک اسٹڈیز میں مجھے تھوڑا اطمینان تھا تو اس بار وہ ختم ہوگیا۔” نانو نے اسی سرد مہری کے ساتھ کہا۔
”وہ اسٹڈیز میں ویک ہے؟” عمر نے ان سے پوچھا۔
”نہیں۔ کبھی بھی نہیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہے۔ اس لیے تو مجھے اتنا شاک لگا ہے۔”
”آپ نے اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اتنی بری پرفارمنس کیوں تھی اس کی؟”
”اس کے پاس ہر سوال کا ایک ہی جواب ہوتا ہے، میں پریشان ہوگئی اس لیے۔ اب بندہ پوچھے کہ ایسی کون سی پریشانیاں لاحق ہوگئی ہیں اسے اس عمر میں کہ وہ ایگزام بھی اچھے مارکس سے پاس نہیں کرسکتی۔”
”گرینی! وہ ڈسٹرب تو تھی، یہ تو آپ جانتی ہیں شاید اسی وجہ سے۔۔۔” گرینی نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کم از کم اسٹڈیز کے سلسلے میں، میں اس طرح کا کوئی ایکسکیوز سننا نہیں چاہتی۔ وہ ڈسٹرب ہو یا نہ ہو، ایگزام میں اسے اچھے گریڈ لینے ہوں گے۔”
”آپ کو اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”
”میں اسے بہت اچھی طرح سمجھتی ہوں… مگر تم نہیں سمجھے… بچپن سے میرے پاس رہی ہے وہ۔ میری ذمہ داری سمجھتے ہیں سب اسے۔ کیا کہیں گے سب کہ میں اسے پڑھا نہیں سکی۔ پی ایچ ڈی تو نہیں کر رہی وہ۔ اے لیولز کر رہی ہے۔ کیا اے لیولز بھی نہیں کرسکتی؟میں کیا جواب دوں گی اس کے ماں باپ کو۔ تم جانتے نہیں ہو اپنی پھوپھو کو۔ ثمینہ تو میری جان کھا جائے گی۔ اس دن بڑی تقریریں کر رہے تھے تم کہ اس کی شادی ابھی نہ کروں اسے پڑھنے دوں۔ کیسے آگے پڑھ سکتی ہے وہ جب اس نے۔۔۔”
عمر نے سنجیدگی سے ان کی بات سنتے سنتے بات کاٹی۔
”اس بار اگر اس کی پرفارمنس خراب رہی ہے تو ضروری نہیں اگلی بار بھی ایسا ہی ہو۔ صرف ایک بار خراب رزلٹ پر اس طرح تو نہیں کرنا چاہیے۔”
”میں تو جس طرح ری ایکٹ کر رہی ہوں، کر رہی ہوں مگر تمہارے دادا کو پتا چلا تو وہ اس سے زیادہ بری طرح ری ایکٹ کریں گے۔”




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!