امربیل — قسط نمبر ۵

اور ویسے بھی یہ این جی اوز ان علاقوں سے صرف فیلڈ فورس کیلئے لوگ لیتی ہیں۔ آفیسرز یا ایڈمنسٹریشن کے سارے لوگ لاہور، کراچی یا دوسرے بڑے شہروں سے آتے ہیں اور وہ وہی ہوتے ہیں جو کئی کئی سالوں سے ان این جی اوز کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کا کچا چٹھا چھپائے رکھنے کی قیمت وہ ڈالرز اور پاؤنڈز میں وصول کرتے ہیں۔”
”مگر میڈیا… میڈیا کیوں خاموش ہے۔ یہ ساری باتیں ان لوگوں سے کیوں پوشیدہ ہیں؟” وہ اب کچھ فکرمند نظر آنے لگی تھی۔
”کس میڈیا کی بات کر رہی ہیں آپ۔ نیوز پیپر کی یا ٹی وی کی؟”
”دونوں کی۔”




”ٹی وی تو کبھی این جی اوز کے بارے میں سچ دکھا نہیں سکتا کیونکہ یہ گورنمنٹ کی پالیسی نہیں ہے۔ میں نے تمہیں بتایا ہے نا کہ این جی اوز کو جن ایجنسیز کے ذریعے روپیہ ملتا ہے وہ غیرملکی حکومتوں کی آلہ کار ہوتی ہیں اور یہ لوگ ہماری حکومت پر پریشر ڈالتے رہتے ہیں۔ حکومت کو این جی او پر تنقید ٹی وی پر دکھانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اس این جی اوز کو بین کردے مگر صرف طاقت ہونے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ کس کس سے لڑے گی۔ وہ کیا کہتے ہیں Beggars Can’t be choosers گداگر کے پاس انتخاب کی گنجائش نہیں ہوتی تو ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اپنے اپنے مفاد کیلئے ہم ہر چیز کا سودا کرلیتے ہیں اس لیے گورنمنٹ بھی یہی کرتی ہے جہاں تک نیوز پیپرز کا تعلق ہے تو وہ کہاں کے پارسا ہیں۔ تم کیا سوچتی ہو کہ وہ واقعی پیپرز سے۔ وہ تو اپنے آپ کو اس ملک کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسی این جی اوز سے اس ملک میں وہ انقلاب آجائے گا جس کی انہیں خواہش ہے۔” اس کے لہجے میں علیزہ کو کچھ تلخی محسوس ہوئی۔
”تو کیا وہ تعلیم کے حوالے سے وہاں سرے سے کوئی کام نہیں کر رہے؟” علیزہ نے پوچھا۔
”کر رہے ہیں… کر کیوں نہیں رہے! دیہی علاقوں میں انہوں نے کچھ اسکولز کھولے ہیں اور شور مچا دیا ہے کہ وہ اس علاقے میں انقلاب لے آئے ہیں۔ انہوں نے قسمت بدل دی ہے علاقے کی۔ حالانکہ ایسی کوئی خاص چیز نہیں کی ہے انہوں نے وہاں ابھی بھی اتنی ہی غربت ہے جتنی پہلے تھی۔ کسی حد تک بچوں کی اسکول جانے والی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور کچھ نہیں بدلا۔”
وہ ایک بار پھر کھانا کھانے لگا۔
”مگر آپ یہ سب کچھ کیسے اتنے وثوق سے کہہ رہے ہیں؟ ہوسکتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو؟” علیزہ نے قدرے محتاط انداز میں کہا۔
”علیزہ بی بی! آپ نے اپنی ساری زندگی گھر کی چاردیواروں کے اندر گزاری ہے۔ protected life آپ کو کیا پتا کہ اس گھر کے باہر کیا کیا ہوتا ہے اور کیسے کیسے ہو رہا ہے۔ مخصوص کلاس میں رہتی ہو۔ مخصوص سوشل سرکل ہے اور میرا تو خیال ہے کہ اب تک دوست بھی بدلے نہیں ہونگے۔ شہلا سے ہی دوستی ہے نا اب تک؟”
علیزہ کو کچھ ہتک کا احساس ہوا۔ وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا۔
”تم سمجھو، تم جنت میں زندگی گزار رہی ہو ابھی تک، اور جنت میں رہ کر دوزخ ایک الیوژن ہی لگتا ہے جیسے تمہیں لگ رہا ہے۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مجھے باہر کی دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے مجھے چیزوں کے بارے میں اتنی Authentic Information (مصدقہ معلومات) نہیں ہوں جتنی آپ کو ہے مگر میں بے خبر نہیں ہوں۔”
اس نے جیسے کچھ برامان کر کہا مگر عمر نے اس کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔
”تم جیسی لڑکیاں جن کی زندگی ایک گھر کے اندر گھومتی ہے۔ ان تک پہنچنے والی انفارمیشن اتنے ذرائع سے گزرتی ہے کہ اس میں سے سچائی کا عنصر، تلخ سچائی سمجھتی ہو نا، وہ غائب ہوجاتا ہے۔ اتنا شفاف ورژن آتا ہے تم لوگوں کے پاس چیزوں کا کہ تم لوگوں کو کوئی پریشانی ہوتی ہے نہ خوف آتا ہے۔ اسی لیے تو تم اطمینان سے زندگی گزارتے رہتے ہو۔”
وہ سلاد کھاتے ہوئے سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔




”یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ جب ہم لوگ کوئی بات جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں بتائی نہیں جاتی جیسے اس وقت!” عمر نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
”او ہو… ایسا کیا پوچھ لیا آپ نے جو ہم نہیں بتارہے۔ ہاں یاد آیا، تم پوچھ رہی تھیں کہ میں اتنے وثوق سے کیسے یہ سب کہہ سکتا ہوں؟ ہے نا!”
”ہاں!”
”اصل میں جب میں امریکہ میں پوسٹڈ تھا تو ایک ٹریڈ قونصلر تھے ہمارے۔ اسی علاقے سے تعلق تھا ان کا۔ میں تو نہیں مگر وہ خاصی محب وطن قسم کی چیز تھے۔ کچھ دوستی ہوگئی میری ان کے ساتھ۔”
وہ یوں بات کر رہا تھا جیسے اپنی کسی غلطی کا اعتراف کر رہا تھا۔
”ہمیں کچھ رپورٹس ملیں کچھ این جی اوز کے حوالے سے۔ ہم نے سوچا کہ چلو کچھ ریسرچ کریں کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔ دو ماہ ہم لوگوں نے اس علاقے میں ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں بھی اچھی خاصی چھان بین کی۔ حاصل ہونے والے حقائق اور اعداد و شمار خاصے ڈرا دینے والے تھے مگر غلط نہیں تھے۔”
”یہ کیسے ہوسکتا ہے؟” وہ گنگ تھی۔
”کیسے ہو سکتا ہے یہ تو مجھے نہیں پتا مگر یہی ہو رہا ہے۔ تمہارا ڈیپارٹمنٹ اتنے سالوں سے اس علاقے میں آجارہا ہے مگر میرے جتنی انفارمیشن نہیں ہوگی۔ اس علاقے کے بارے میں ہر چیز میری فنگر ٹپس پر ہے۔ کچھ پوچھ لو۔ پاپولیشن کے بارے میں، کسی لوکیشن کے بارے میں، کسی فیکٹری کے بارے میں، کسی این جی او کے بارے میں یا اور کسی چیز کے بارے میں۔ پھر 95 کا اکنامک سروے آف پاکستان کھولنا اور تصدیق کرلینا۔” عمر کے لہجے میں اسے عجیب سا فخر محسوس ہوا۔
”پھر آپ نے کیا کیا؟” اس نے کچھ بے تاب ہو کر پوچھا۔
”کیا کیا؟ مطلب؟” عمر پانی پیتے پیتے رک گیا۔
”آپ نے جب یہ ریسرچ کی تو آپ نے اس سب سے گورنمنٹ کو مطلع کیا؟”
عمر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔”ہاں گورنمنٹ کو مطلع کیا۔ باقاعدہ رپورٹ سب مٹ کی۔”
اس نے پانی پی کر کہا۔
”پھر گورنمنٹ نے ایکشن لیا؟”
”بالکل لیا۔ بلکہ فوری طور پر لیا۔”
”گورنمنٹ نے کیا کیا؟” اس کا تجسس اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔
”وجاہت حسین کو امریکہ سے زمبابوے ٹرانسفر کردیا گیا اور مجھے پاپا نے بلوا کر کہا کہ میں فارن سروس میں ہوں انٹیلی جنس میں نہیں اس لیے اپنے کام سے کام رکھوں اور فضول معاملات میں اپنی ٹانگ نہ اڑاؤں۔”




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!