امربیل — قسط نمبر ۵

”تم نے رزلٹ دیکھا ہے اپنا؟” عمر نے نانو کو بلند آواز میں کہتے سنا۔ ان کی آواز میں بے تحاشا غصہ تھا۔ وہ لاؤنج کے دروازے میں ہی رک گیا۔ اندر جانے سے پہلے اس نے صورتحال سمجھنے کی کوشش کی۔ اپنا بیگ اس نے اتار کر رکھ دیا۔
”اس طرح اے لیولز کس طرح کلیئر کرو گی، دو سبجیکٹس… میں فیل ہو چھٹیوں میں کیا کرتی رہی ہو تم؟”
نانو واقعی بہت غصے میں تھیں جبکہ علیزہ صوفے کے ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں آئندہ زیادہ محنت کروں گی۔”




”کون سی محنت! یہ والی محنت جو تم نے اس بار کی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پیپرز کرتے ہوئے تمہارا دھیان کہاں ہوتا ہے۔ تمہارے نانا یہ کارڈ دیکھیں گے تو جانتی ہو، کتنے ناراض ہوں گے۔”
‘نانو! میں نے بہت محنت کی تھی مگر پتا نہیں پھر بھی۔۔۔” اس نے کچھ دل برداشتہ ہو کر کہا۔
”مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش مت کرو۔ تم نے محنت کی ہوتی تو اس کارڈ میں نظر آرہی ہوتی۔ مگر تمہیں اسٹڈیز میں دلچسپی ہی کہاں ہے۔ سارا دن تم کرسٹی کو اٹھائے پھرتی رہتی ہو۔ اس سے فارغ ہوتی ہو تو ڈرائنگ اور پینٹنگ میں وقت برباد کرنے لگتی ہو۔”
”نانو! میں نے ہمیشہ اچھے مارکس لیے ہیں، صرف اس بار۔۔۔” وہ اب روہانسی ہوگئی۔
”اس بار کیا ہوا ہے؟ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ تمہارا کارڈ اس قابل ہے کہ کسی کو دکھایا جائے۔ جو بھی دیکھے گا کہے گا شاید میں تم پر توجہ نہیں دیتی ورنہ تم اس طرح کا رزلٹ تو کبھی نہ دکھاتیں۔” انہوں نے غصے میں ہاتھ میں پکڑا ہوا کارڈ علیزہ کی طرف اچھال دیا۔ کارڈ اس سے ٹکراتا ہوا قالین پر جاگرا۔
عمر نے اس سے زیادہ دیر وہاں کھڑا رہنا بے کار سمجھا تھا۔
”ہیلو گرینی!” وہ بڑے خوشگوار انداز میں کہتا ہوا لاؤنج میں داخل ہوا۔
”عمر! تم اتنا اچانک آگئے ہو؟” نانو نے کچھ حیران ہوتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”بہت اچانک تو نہیں مگر بہرحال آگیا ہوں۔”
عمر نے جواب دیتے ہوئے علیزہ کو دیکھا جو آستین سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کارڈ اٹھا رہی تھی۔
”مگر تمہیں تو ابھی کچھ دن اور رہنا تھا سوات میں؟” نانو اب بھی مطمئن نہیں تھیں۔
”ہاں رہنا تو تھا مگر بس اچانک ہی موڈ بدل گیا۔”
”آپ علیزہ کو کیوں ڈانٹ رہی تھیں؟” وہ اپنا سامان رکھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
”آنے سے پہلے اطلاع دے دیتے تو میں ڈرائیور کو ایئرپورٹ بھجوا دیتی۔” نانو نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے مزید شکوہ کیا تھا۔
”مگر میں تو بائی روڈ آیا ہوں کوسٹر پر۔”
”کیا! کوسٹر پر؟ خواہ مخواہ کی بے وقوفی۔۔۔” نانو بڑبڑائی تھیں۔
”گرینی اسے بے وقوفی نہیں ایڈونچر کہتے ہیں۔” اس کا اطمینان برقرار تھا۔
”یہاں تک صحیح سلامت پہنچ گئے ہونا اس لیے اسے ایڈونچر کہہ رہے ہو۔”
”گرینی! پلین کے ذریعے بھی صحیح سلامت پہنچنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ میں تو اسے بھی ایڈونچر ہی کہتا ہوں مگر آپ مجھے یہ بتائیں کہ علیزہ کو کیوں ڈانٹ رہی تھیں؟” اس نے کن اکھیوں سے سرجھکائے بیٹھی علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”فرسٹ ٹرم کا رزلٹ آگیا ہے اس کا اور بری طرح فیل ہے۔”
نانو کے چہرے پر ایک بار پھر خفگی جھلکنے لگی۔ عمر نے علیزہ کی گردن کو مزید جھکتے ہوئے دیکھا۔ پھر اسی اطمینان کے ساتھ وہ دوبارہ گرینی کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”بس اتنی سی بات ہے۔ میں سمجھا پتا نہیں کیا قیامت آگئی ہے… ویسے گرینی! فیل تو بس فیل ہوتا ہے اگر وہ بری طرح سے فیل ہے تو کیا کوئی اچھی طرح سے فیل بھی ہوتا ہے؟”




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!