امربیل — قسط نمبر ۵

”نہیں! پہلے تم پرامس کرو۔” اس نے اصرار کیا۔
”ٹھیک ہے میں پرامس کرتی ہوں میں ناراض نہیں ہوں گی۔”
”ویری گڈ!” عمر نے کلائی پر باندھی ہوئی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”وہ دراصل بات یہ ہے کہ میں تمہیں گرینی کو بتائے بغیر لے کر آیا ہوں۔”
خاصے اطمینان سے کہے گئے جملے نے اس کے قدموں تلے سے زمین نکال دی۔ علیزہ کا منہ کھلا رہ گیا۔




”مگر آپ نے تو کہا تھا کہ۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میں نے جھوٹ بولا تھا اگر یہ کہتا کہ میں تمہیں ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں تو تم کبھی نہ آتیں۔” اس کا اطمینان ابھی بھی برقرار تھا مگر اب علیزہ کی جان پر بنی ہوئی تھی۔
”آپ کو اندازہ ہے، کتنی دیر ہوگئی ہے۔ نانو بہت ہی ناراض ہوں گی۔” وہ روہانسی ہوگئی۔
”نہیں ہوتیں یار! اور اگر ہونگی بھی تو میں کہہ دوں گا کہ میں زبردستی تمہیں ساتھ لے کر گیا تھا۔” عمر نے ساتھ چلتے ہوئے اسے تسلی دی۔
”آپ نانو کو نہیں جانتے۔ اس لیے کہہ رہے ہیں۔ میں کبھی بھی ان کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتی اور نہ ہی وہ یہ بات پسند کرتی ہیں۔”
”تم فکر مت کرو۔ میں بات کرلوں گا ان سے۔” اس نے ایک بار پھر اسے تسلی دی۔
وہ گھر کے گیٹ پر پہنچ چکے تھے بیل بجانے کے بجائے عمر نے گیٹ پر ہاتھ مار کر چوکیدار سے گیٹ کھلوایا۔ علیزہ کا تھوڑی دیر پہلے والا جوش و خروش ختم ہوچکا تھا۔ اب اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے تھے جبکہ عمر اب بھی پہلے کی طرح مطمئن اور بے فکر نظر آرہا تھا۔
پورچ کراس کرنے کے بعد لاؤنج کا دروازہ عمر نے ہی آگے بڑھ کر کھولا۔ علیزہ اس سے چند قدم پیچھے تھی۔ بہت محتاط انداز میں دھڑکتے دل کے ساتھ جب وہ عمر کے پیچھے لاؤنج میں داخل ہوئی تو لاؤنج میں ایک عجیب سی خاموشی نے اس کا استقبال کیا۔
عمر اس سے کچھ آگے بالکل ساکت کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے والی شگفتگی اور مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی۔ علیزہ نے کچھ حیرانی کے ساتھ لاؤنج میں اس چیز کو تلاش کرنے کی کوشش کی جسے دیکھ کر عمر کی یہ حالت ہوئی تھی اور وہ چیز اس کے سامنے ہی تھی۔
لاؤنج کے ایک صوفے پر نانو کے ساتھ ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ رائل بلوسلک کی ساڑھی اپنے وجود کے گرد لپیٹے۔ کندھوں تک تراشیدہ بالوں اور تیکھے نقوش والی اس عورت کو علیزہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دونوں اتنی خاموشی کے ساتھ اندر آئے تھے کہ نانو اور اس عورت کو پتا نہیں چلاوہ دونوں چائے پینے کے ساتھ بہت مدھم آواز میں کوئی بات کر رہی تھیں اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ تھیں۔
نانو بہت سوشل نہیں تھیں مگر پھر بھی ان کا ایک خاص حلقہ احباب تھا جن سے ان کا میل ملاپ تھا اور وہ لوگ گھر آتے رہتے تھے۔ اس وقت علیزہ بھی اس عورت کو نانو کی ایسی ہی کوئی واقف سمجھی تھی۔ مگر آخر عمر اس عورت کو دیکھ کر اس طرح ری ایکٹ کیوں کر رہا ہے؟ کیا وہ اسے جانتا ہے؟ علیزہ نے کچھ حیران ہو کر سوچا تھا مگر عمر کی واقفیت تو بہت محدود سی ہے پھر یہ عورت… اس نے کچھ الجھتے ہوئے سوچا۔
تب ہی عمر نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ علیزہ چہرے پڑھنے میں ماہر نہیں تھی نہ ہی وہ ٹیلی پیتھی جانتی تھی پھر بھی اس وقت عمر کے چہرے کو دیکھ کر اسے یوں لگا تھا جیسے وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ وہ کچھ اور بھی الجھی تھی۔ عمر کی آنکھوں میں اسے ایک عجیب سی وحشت نظر آئی تھی۔
اور اسی وقت علیزہ نے اس عورت کو عمر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک دم نانو سے باتیں کرتے کرتے رک گئی پھر علیزہ نے اسے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے دیکھا۔ اس نے عمر کو دیکھا وہ بھی اب اسی عورت کودیکھ رہا تھا۔ پھر علیزہ نے اسے کہتے سنا۔
”ہیلو، ہاؤ آر یو؟”
جواب میں اس عورت نے جو حرکت کی، اس نے علیزہ کو ششدر کردیا تھا۔
***




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!