امربیل — قسط نمبر ۵

”یہ جو تم لوگوں کا ڈیپارٹمنٹ وہاں اسٹڈی ٹور کیلئے جارہا ہے، یہ خود سے جارہا ہے یا کسی کے invitation پر؟” علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”میرا مطلب ہے، کوئی اسپانسر کر رہا ہے اس ٹور کو؟” اس نے وضاحت کی۔
”ہاں وہاں کام کرنے والی ایک این جی او۔” علیزہ نے مختصراً جواب دیا۔
اور عمر نے اس کا جواب سن کر بڑی روانی اور اطمینان کے ساتھ اس این جی او کا نام دہرا دیا۔ علیزہ حیران رہ گئی۔
”آپ کیسے جانتے ہیں کہ ہمیں اس این جی او نے اسپانسر کیا ہے۔”




”بس ہمارے بھی کچھ سورسز ہیں۔” وہ اب اطمینان سے چاول کھانے میں مصروف ہوگیا۔
”آپ ہنسے کیوں تھے؟” اس بار علیزہ نے اس سے کچھ کڑے تیوروں سے پوچھا۔
عمر ایک بار پھر مسکرایا۔ ”بس ایسے ہی… وہ تم کہہ رہی تھیں این جی او کی کامیابیاں اور طریقہ… وہ سوشل ڈویلپمنٹ… ہاں اور وہ دیہی اصلاحات تو بس مجھے ہنسی آگئی۔”
”اس میں ہنسنے والی تو کوئی بات نہیں ہے۔” علیزہ کچھ برہم ہوگئی۔
”اگر بندہ ایک ایسی چیز پر ریسرچ کرنے جارہا ہو جس کا کوئی وجود ہی نہیں تو پھر میرے جیسے بندے کو تو ہنسی آئے گی۔”
”کیا مطلب؟”
”علیزہ بی بی! وہاں جا کر اپنا وقت ضائع مت کریں ہم سے پوچھیں ساری انفارمیشن آپ کو گھر بیٹھے دے دیں گے۔ آپ بس حکم کریں۔”
اس کی مسکراہٹ بے حد معنی خیز تھی۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔”وہ الجھ گئی۔ ”این جی او وہاں اس قسم کا کوئی کام نہیں کر رہی ہیں جس کے بارے میں آپ ابھی اعلان فرما رہی تھیں۔ یہ ساری این جی اوز ڈونر ایجنسیز کے روپے کے بل بوتے پر چلتی ہیں اور یہ ڈونر ایجنسیز یورپین ہوتی ہیں یا امریکن اور انہیں ان کی گورنمنٹ پیسے دیتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ یا یورپ یہاں دیہی اصلاحات پر اپنا روپیہ ضائع کریں گے۔ علیزہ بی بی! جس ملک کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہو وہاں دیہی اصلاحات کا مطلب ہے کہ آپ نے اس ملک کی اکانومی کو صحیح ڈائریکشن دی اور ترقی کیلئے ایک سنگ بنیاد رکھ دیا۔ کون سا ملک اتنا احمق ہوگا کہ وہ اپنا روپیہ دوسرے ملک کی ترقی یا بقول آپ کے دیہی اصلاحات پر لگائے۔ وہاں این جی اوز ایسا کچھ بھی نہیں کر رہی۔ وہ کچھ اورکر رہی ہیں۔”
وہ اپنی پلیٹ میں کچھ اور چاول نکالتے ہوئے کہتا جارہا تھا۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ پچھلے کئی سال سے ہمارے ہیڈ آف دا ڈیپارٹمنٹ وہاں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو بھجواتے رہے ہیں اور وہ سب لوگ وہی سب کچھ لکھتے رہے ہیں جو میں بتا رہی ہوں اور پھر انٹرنیشنل میڈیا بھی تو کافی عرصے سے وہاں این جی اوز کی کارکردگی پر لکھتا رہا ہے۔ میڈیا کو دھوکا کیسے دیا جاسکتاہے؟”
عمر نے کھانا کھاتے ہوئے اچانک سر اٹھا کر علیزہ کے سامنے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اٹھا دیں۔
”یہ کتنی انگلیاں ہیں علیزہ؟” بڑی ملائمت سے اس سے پوچھا گیا۔ وہ اس سوال پر گڑ بڑا گئی اس کے چہرے سے اندازہ نہیں کر پائی کہ وہ سنجیدہ تھا یا مذاق کر رہا تھا۔
”دو” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
”گڈ… یہ دو انگلیاں جو آپ کو دو نظر آتی ہیں، یہ اس لیے دو ہیں کیونکہ میں نے آپ کو دو ہی انگلیاں دکھائی ہیں۔ تین یا چار نہیں… لیکن دو انگلیاں نظر آنے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میرے ہاتھ میں باقی تین انگلیاں نہیں ہیں مگر ان تین انگلیوں کو میں ضرورت کے وقت دکھاؤں گا۔”
علیزہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”آپ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ایک بہت بڑے الو ہیں… نہیں شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ ہم لوگوں کے نزدیک الو ہوسکتے ہیں، ہو سکتا ہے وہ ان معاملات میں خاصی سمجھداری کا مظاہرہ کر رہے ہوں۔” وہ پرسوچ انداز میں کہہ رہا تھا۔
”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ ہے علیزہ بی بی کہ یورپ میں الو کو ایک خاصا عقلمند جانور سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ایسے ہی الو ہوسکتے ہیں۔”
علیزہ کچھ کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی وہ اب خاصی لاپروائی سے پانی پینے میں مصروف تھا۔ ” این جی او بہت عرصے سے اگر آپ کے ڈیپارٹمنٹ کو یہاں کے دورے کروا رہی ہے تو یقیناً ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو بھی کچھ نہ کچھ پیش کرتی رہی ہوگی۔ ڈالرز کی کمی تو نہیں ہوتی ان این جی اوز کے پاس۔”
پانی کا گلاس نیچے رکھ کر وہ ایک بار پھر بولنا شروع ہوچکا تھا۔
”مگر وہ کیوں دیں گے انہیں ڈالرز؟” اسے شاک لگا۔
”تاکہ آپ کا ڈیپارٹمنٹ وہاں کے اسٹڈی ٹورز کر کے رپورٹس بناتا رہے اور یہ این جی او ہمیشہ گورنمنٹ کی گڈ بکس میں رہے۔ نام بنتا رہے۔ ریپوٹیشن بہتر سے بہتر ہوتی جائے۔ آپ کا ڈیپارٹمنٹ کوئی واحد ڈیپارٹمنٹ نہیں ہوگا جسے وہاں کے وزٹ کروائے جاتے ہیں۔ دوسری بہت سی یونیورسٹیز کے ڈیپارٹمنٹس کو بھی اس طرح بلایا جاتا ہوگا۔ خود سوچو ملک کی دس بارہ اچھی یونیورسٹیز کے کچھ اچھے ڈیپارٹمنٹس کو این جی اوز بار بار انوائٹ کریں اس کے بعد وہ لوگ اپنی ریسرچ میں یا رپورٹس میں اس خاص این جی او کا ذکر اچھے لفظوں میں کریں تو کتنا بڑا ہتھیار ہے یہ اس این جی او کے ہاتھ میں جسے وہ کبھی بھی استعمال کرسکتی ہے۔” وہ اب قدرے سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”کیا این جی اوز اس علاقے میں کچھ نہیں کررہیں؟” علیزہ نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
”نہیں وہ کر رہی ہیں… اپنا کام وہ بڑی مستعدی سے کر رہی ہیں مگر وہ کام بہرحال ان کاموں میں شامل نہیں ہے جن کا ذکر تھوڑی دیر پہلے آپ کر رہی تھیں۔ یہ لوگ وہاں پچھلے کئی سالوں سے کچھ ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مصروف تھے بلکہ کرچکے ہیں۔”
”کیسا ڈیٹا؟”
‘ یہ جو علاقہ ہے ڈسکہ، سیالکوٹ، نارووال اور اس کے اردگرد کے سارے دیہات یہ پچھلے بہت سے سالوں سے بین الاقوامی طور پر بہت مشہور ہو رہے ہیں اور ان پر خاصی نظر رکھی جارہی ہے۔ کیوں نظر رکھی جارہی ہے؟ اس کی بہت سے وجوہات ہیں۔ یہ علاقے مشہور اسپورٹس گڈز کی وجہ سے ہیں۔ سرجیکل انسسٹرومنٹس کا کام بھی ہوتا ہے مگر اصل وجہ شہرت اسپورٹس گڈز ہی ہیں اور اسپورٹس گڈز میں بھی فٹ بال۔ اس وقت یورپ امریکہ میں استعمال ہونے والا اسی فیصد فٹ بال اسی علاقے سے آتا ہے۔”
وہ اب بڑی سنجیدگی سے اسے تفصیلات بتا رہا تھا۔ چند لمحے پہلے والی مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہوچکی تھی۔
”لیکن یہ فٹ بال adidas کی اسٹیمپ کے ساتھ پوری دنیا میں سپلائی کردیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں جو فٹ بال سینٹس میں تیار ہوتا ہے وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں ڈالرز میں بکتا ہے۔”




Loading

Read Previous

برسات

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!